الانعام آية ۱۵۱
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَ لَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْـًٔـــا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍۗ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ ۚ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَـقِّ ۗ ذٰ لِكُمْ وَصّٰٮكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
طاہر القادری:
فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو،
English Sahih:
Say, "Come, I will recite what your Lord has prohibited to you. [He commands] that you not associate anything with Him, and to parents, good treatment, and do not kill your children out of poverty; We will provide for you and them. And do not approach immoralities – what is apparent of them and what is concealed. And do not kill the soul which Allah has forbidden [to be killed] except by [legal] right. This has He instructed you that you may use reason."
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو یہ تمہیں حکم فرمایا ہے کہ تمہیں عقل ہو
3 Ahmed Ali
کہہ دو آؤ میں تمہیں سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور تنگدستی کے سبب اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ہم تمہیں اور انہیں رزق دیں گے اور بے حیائی کے ظاہر اور پوشیدہ کاموں کے قریب نہ جاؤ اور نا حق کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل الله نے حرام کیا ہے تمہیں یہ حکم دیتا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ
4 Ahsanul Bayan
آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے (١) وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ (٢) اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو (٣) اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں (٤) اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالٰی نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ (٥) ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔
١٥١۔١ یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم بلا دلیل، محض اپنے اوبام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے ہرچیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تم کو ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔
١٥١۔٢ ان لا تشرکوا سے پہلے اوصاکم محذوف ہے یعنی اللہ تعالٰی نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم نے بھی حدیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت بیان فرمایا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقع ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر شرک کا عام ارتکاب کر تے ہیں۔
١٥١۔٣ اللہ تعالٰی کی توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑے اہمیت ہے، اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن وَ لَوْ اَ نَّنَا ٨ الا نعام ٦(سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کیئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔
١٥١۔٤ زمانہء جاہلیت کا یہ فعل قبیح آجکل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زورو شور سے جاری ہے۔ اللہ تعالٰی اس سے محفوظ رکھے۔
١٥١۔٥ یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے ولکم (وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ) 2۔ البقرۃ;179) ' قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وه چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (یعنی جن کی مخالفت) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے، وه یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اوﻻد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواه علانیہ ہوں خواه پوشیده، اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) ان سے کہو۔ آؤ میں تمہیں سناؤں وہ چیزیں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں: (۱) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (۲) اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (۳) اور اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔ (۴) اور بے شرمی و بے حیائی کے کاموں (جیسے جنسی غلط کاری) کے قریب بھی نہ جاؤ۔ خواہ وہ علانیہ ہوں اور خواہ پوشیدہ۔ (۵) اور نہ قتل کرو کسی ایسی جان کو جس کے قتل کو خدا نے حرام قرار دیا ہے مگر (شرعی) حق (جیسے قصاص وغیرہ) کے ساتھ۔ یہ وہ ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے۔ تاکہ تم عقل سے کام لو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے .... خبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا .اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی ... اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو .یہ وہ باتیں ہیں جن کی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے
9 Tafsir Jalalayn
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں ( ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے (بد سلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا (کیونکہ) تم کو اور ان کو ہمیں رزق دیتے ہیں۔ اور بےحیائی کا کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اور کسی جان (والے کو) جس کے قتل کو خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا۔ مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں تاکید فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
آیت نمبر ١٥١ تا ١٥٤
ترجمہ : (اے محمد) ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں (١) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ (أن) مفسرہ ہے (٢) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو (٣) اور اپنی اولاد کو فقر (فاقہ) کے خوف سے زندہ درگور کرکے قتل نہ کرو ہم تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی (دیں گے) (٤) بےشرمی (یعنی) بڑے گناہوں مثلاً زنا کے پاس بھی مت جاؤ خواہ کھلم کھلا ہوں یا مخفی یعنی علی الاعلان ہوں یا چھپ کر، (٥) اور کسی جان کو جس کو اللہ نے محترم بنایا ہے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ مثلاً قصاص اور مرتد کی سزا کے طور پر اور شادی شدہ کو رجم کے طور پر یہ مذکورہ (وہ باتیں ہیں) جن کی تمہیں تاکید کی ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو غور و فکر سے کام لو، (٦) اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو مستحسن ہے اور وہ طریقہ وہ ہے کہ جس میں (مال یتیم کی) اصلاح ہو یہاں تک کہ وہ سن رشد کو پہنچ جائے بایں طور کہ بالغ ہوجائے (٧) اور ناپ تول میں پورا تول کر انصاف سے کام لو ڈنڈی مارنا چھوڑ دو ، ہم کسی پر اس معاملہ میں اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور اگر ناپ تول میں غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ صحت نیت کو خوب جانتے ہیں لہٰذا اس پر مؤاخذہ نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے (٨) اور جب تم کسی فیصلے وغیرہ میں بات کرو تو انصاف کی کرو اگرچہ وہ شخص جس کی موافقت یا مخالفت میں یہ بات ہے قرابتدار ہی کیوں نہ ہو، (٩) اور اللہ سے جو عہد کرو اس کو پورا کرو، ان باتوں کا اللہ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو (تذکرون) ذال کی تشدید کے ساتھ اور سکون کے ساتھ، (تاکہ تم یود رکھو) اور یہ باتیں جن کا میں نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے میرا سیدھا راستہ ہے مستقیمًا حال ہے، (اَنَّ ) فتحہ کے ساتھ ہے لام کی تقدیر کی صورت میں اور کسرہ کے ساتھ ہے استیناف کی صورت میں، لہٰذا اسی راستہ پر چلو اور اس کے خلاف راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو اللہ کے دین کے راستہ سے بھٹکا دیں گے (فتفرق) میں ایک تاء کے حذف کے ساتھ ہے (یعنی راہ حق سے) پھیر دیں گے، یہ ہے وہ راہ مستقیم جس کی تم کو اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تم کجروی سے بچو، اور پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات دی تھی ثم ترتیب اخبار کیلئے ہے اس شخص پر نعمت کی تکمیل کیلئے ہو جس نے اس پر بہتر طریقہ پر عمل کیا، اور احکام کی تفصیل ہو جن کی دین میں ضرورت ہوتی ہے، اور ہدایت و رحمت ہو، تاکہ بنی اسرائیل بعث کے ذریعہ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد
قولہ : مُفَسَّرۃٌ، اَلاَّ ، میں اَنْ فعل تلاوت کیلئے مفسرہ ہے اردو کے لفظ (یعنی) کے مترادف ہے، نہ کہ ناصبہ، اسلئے کہ ناصبہ ہونے کی صورت میں عطف طلب علی الخبر لازم آنے کی وجہ سے عطف درست نہ ہوگا، مذکورہ ’ اَنْ ‘ میں متعدد وجوہ ہیں ان میں دو وجہ مختار ہیں، (١) اَن مفسرہ ہو اسلئے کہ ماقبل میں اَتلُ ، قول کے معنی میں ہے اسلئے کہ اَن مفسرہ کیلئے قول یا قول کے ہم معنی ہونا ضروری ہے، لا، ناہیہ ہے اور تشرکوا فعل مضارع مجزوم ہے، (٢) اَن مصدریہ ہو اس صورت میں اَن اور جو اس کے تحت ہے ما حَرَّمَ ، سے بدل ہوگا
قولہ : اِملاق، کے معنی، فقر و فاقہ، تنگدستی کے ہیں۔ قولہ : بالخَصْلَۃِ ، اس سے التی کی وجہ تانیث کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : ثم لِتَرْتِیْبِ الاَخْبَارِ ، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : ثم آتینا، کا عطف وَصّٰکم پر ہے جو اعطاء کتاب لموسیٰ کے مؤخر ہونے پر دلالت کرتا ہے حالانکہ ایتاءِ کتاب وصیت پر مقدم ہے
جواب : یہاں ثُمَّ ترتیب اخباری کیلئے ہے نہ کہ ترتیب وجودی کے لئے۔
قولہ : لِلنِّعْمَۃِ ، اس میں اشارہ ہے کہ تماماً مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے تماماً سے لام اسلئے حذف کردیا کہ تمامًا معنی میں اتماماً کے ہے۔ قولہ : بلِقَاءِ رَبِّھِمْ یہ یؤمنون کے متعلق ہے، فواصل کی رعایت کے لئے مقدم کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
قل تعالوْا (الآیۃ) اس آیت میں خطاب یہود و مشرکین بلکہ پوری نوع انسانی کے لئے ہے مطلب یہ ہے کہ حرام وہ نہیں ہے کہ جن کو تم نے بلادلیل محض اپنے اوھام باطلہ کی بنیاد پر حرام کرلیا ہے، بلکہ حرام وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، اَلاَّ تشرکوا، سے پہلے اوصاکم محذوف ہے، یعنی اللہ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں ہے، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے، قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف انداز سے بار بار بیان کیا گیا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس مضمون کو بڑی صراحت سے بیان فرمایا ہے، اس کے باوجود لوگ شیطانی بہکاوے میں آکر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔
وبالوالدین احسانا، اللہ تعالیٰ نے توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی اور دیگر مقامات پر بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے، جس نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی پرورش) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے پورا کرنے میں بھی ناکام رہے گا۔
ولا تقتلوا اولادکم من املاق، زمانہ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آجکل ضبط تولید یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور و شور سے جاری ہے اور اس کو معاشی مسئلہ سے جوڑ دیا گیا ہے جو کہ ایک غلط نظریہ ہے، معاشیات کے صحیح قوانین دوسرے ہیں جن کو اسلامی نظام اقتصادیات سے متعلق کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے، آیت میں (املاق) افلاس کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ فلاسفہ مادئیین اور مفکرین جاہلیت اپنے نظریہ کی عقلی توجیہ عموماً یہی کرتے ہیں، چناچہ آج جاہلیت فرنگ کے زیر سایہ قتل اولاد کی تحریکیں اور نئے نئے طریقے سے جاری ہیں اس کا محرک بھی یہی خوف افلاس ہے، مالتھس نامی ایک ماہر اقتصادیات و معاشیات انیسویں صدی کے شروع میں ہوا ہے اور یہ منع حمل اور قتل اولاد کی تحریک اصلاً اسی کی برپا کردہ ہے، مذکورہ آیت میں اسی ذہنی افلاس اور دیوالیہ پن کے علاج کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، عرب میں قتل اولاد کی دامادی شرم و عار کے علاوہ ایک وجہ اقتصادی بھی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ کھانا کھلانے اور رزق فراہم کرنے کے اصلی ذمہ دار ہم ہیں تم نہیں، یہ کام براہ راست اللہ کا ہے تم خود اپنے رزق میں اللہ کے محتاج ہو تم اولاد کو کیا کھلا سکتے ہو ؟ وہ تم کو رزق دیتا ہے تو تم بچوں کو کھلاتے ہو اگر وہ تمہیں نہ دے تو تمہاری کیا مجال کہ تم ایک دانہ گندم خود پیدا کرسکو۔
قتل نفس کی بڑی شدت سے ممانعت فرمائی گئی ہے، البتہ عالم میں امن وامان قائم رکھنے کیلئے حق شرع کے طور پر قتل نفس نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ ضروری ہے اِلاَّ یہ کہ مقتول کے وارث معاف کردیں، اسلئے کہ قصاص میں سب کی زندگی ہے، بحق شرع قتل کے رف پانچ مواقع ہیں۔ (١) قتل عمد کے مجرم (٢) قیام دین کے مزاحم کو جبکہ کوئی چار انہ رہا ہو، (٣) دار الاسلام میں بدامنی پھیلانے والا اور نظام اسلامی کو الٹنے کی سعی کرنے والے کو، (٤) شادی شدہ ہونیکے باوجودزنا کا مرتکب ہونا، (٥) ارتداد کا مرتکب ہونا، مذکورہ پانچ صورتوں کے علاوہ اسلام میں کسی انسان کا قتل جائز نہیں خواہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ﴿قُلْ ﴾” کہہ دیجیے“ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے ان چیزوں کو حرام قرار دے ڈالا جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا ﴿تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ﴾ ” آؤ، میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے عام طور پر کیا چیز حرام کی ہے۔ یہ تحریم سب کے لئے ہے اور ماکولات و مشروبات اور اقوال و افعال وغیرہ تمام محرمات پر مشتمل ہے۔ ﴿أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ ﴾” یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھوڑا یا زیادہ ہرگز شرک نہ کرو۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی حقیت یہ ہے کہ مخلوق کی اسی طرح عبادت کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے، یا مخلوق کی تعظیم اسی طرح کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی جاتی ہے، یاربوبیت اور الوہیت کی صفات مخلوق میں ثابت کی جائیں۔ جب بندہ ہر قسم کا شرک چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے تمام احوال میں موحد اور اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص بندہ بن جاتا ہے۔ پس بندوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حق کا تذکرہ کرنے کے بعد سب سے زیادہ موکد حق سے ابتدا کی اور فرمایا ﴿ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾” اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا“ یعنی اقوال حسنہ اور افعال جمیلہ کے ذریعے سے اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ہر وہ قول و فعل جس سے والدین کو کوئی منفعت حاصل ہو یا اس سے مسرت حاصل ہو تو یہ ان کے ساتھ حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا وجود نافرمانی کی نفی کرتا ہے۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم﴾” اور نہ قتل کرو تم اپنی اولاد کو“ یعنی اپنے بچوں اور بچیوں کو﴿مِّنْ إِمْلَاقٍ ﴾ ” ناداری کے اندیشے سے۔“ یعنی فقر اور رزق کی تنگی کے سبب سے۔ جیسا کہ جاہلیت کے ظالمانہ دور میں ہوتا تھا۔ جب اس حال میں ان کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے جب کہ وہ ان کی اپنی اولاد ہو، تو پھر ان کو بغیر کسی موجب کے قتل کرنا یا دوسروں کی اولاد کو قتل کرنا تو بطریق اولیٰ ممنوع ہوگا۔
﴿نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ﴾ ” ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو“ یعنی ہم نے تمام مخلوق کے رزق کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ یہ تم نہیں ہو جو اپنی اولاد کو رزق عطا کرتے ہو، بلکہ تم خود اپنے آپ کو بھی رزق عطا نہیں کرسکتے۔ پھر تم ان کے بارے میں تنگی کیوں محسوس کرو۔ ﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ ﴾” اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ“ یہاں فواحش سے مراد بڑے بڑے اور فحش گناہ ہیں ﴿مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ﴾ ” جو ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔“ یعنی کھلے گناہوں کے قریب جاؤ نہ چھپے ہوئے گناہوں کے۔ نہ کھلے گناہوں کےمتعلقات کے قریب پھٹکو اور نہ قلب و باطن کے گناہوں کے متعلقات کے قریب جاؤ۔ فواحش کے قریب جانے کی ممانعت فواحش کے مجرد ارتکاب کی ممانعت سے زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ یہ فواحش کے مقدمات اور ان کے ذرائع اور وسائل سب کو شامل ہے۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ ﴾ ” اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ نے حرام کیا ہے“ اس سے مراد مسلمان جان ہے خواہ مرد ہو خواہ عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، نیک ہو یا بد۔ اسی طرح اس کا فرجان کو قتل کرنا بھی قتل ناحق ہے جو عہد و میثاق کی وجہ سے معصوم ہو﴿إِلَّا بِالْحَقِّ ﴾” مگر حق کے ساتھ“ مثلاً شادی شدہ زانی، قاتل، مرتد ہو کر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔
﴿ذَٰلِكُمْ ﴾ ” یہ“ مذکورہ بالا تمام امور ﴿وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴾ ” اس کے ساتھ تم کو حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو“ یعنی شاید تم اللہ تعالیٰ کی وصیت کو سمجھو، پھر تم اس کی حفاظت کرو، اس کی رعایت کرو اور اس کو قائم کرو۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بندہ اپنی عقل کے مطابق ان امور کو قائم کرتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( unn say ) kaho kay : aao , mein tumhen parh ker sunaon kay tumharay perwerdigar ney ( dar-haqeeqat ) tum per konsi baaten haram ki hain . woh yeh hain kay uss kay sath kissi ko shareek naa thehrao , aur maa baap kay sath acha sulook kero , aur ghurbat ki wajeh say apney bacchon ko qatal naa kero . hum tumhen bhi rizq den gay , aur unn ko bhi . aur bey hayai kay kamon kay paas bhi naa phatko , chahye woh bey hayai khuli hoi ho ya chupi hoi , aur jiss jaan ko Allah ney hurmat ata ki hai ussay kissi bar-haq wajeh kay baghair qatal naa kero . logo ! yeh hain woh baaten jinn ki Allah ney takeed ki hai takay tumhen kuch samajh aaye .
12 Tafsir Ibn Kathir
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیتیں
ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہو جو آپ کی آخری وصیت تھی تو وہ ان آیتوں کو (تتقون) تک پڑھے، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سورة انعام میں محکم آیتیں ہیں پھر یہی آیتیں آپ نے تلاوت فرمائیں۔ ایک مرتبہ حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے، پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دے دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر اللہ چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے (مسند، حاکم) بخاری مسلم میں ہے " تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی " اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سلام علیہ سے فرماتا ہے کہ " ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الٰہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کردیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہوجائے اس آیت کے آخری جملے (ذالکم وصاکم) سے (الاتشرکو) اس سے پہلے کے محذوف جملے (اوصاکم) پر دلالت ہوگئی۔ عرب میں یوں بھی کہہ دیا کرتے ہیں (امرتک ان لا تقوم) بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہوگا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر حضرت ابوذر نے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو چناچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہرا دیتے، سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاؤں کو معاف فرماتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پرواہ نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آؤں گا بشرطیکہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا، اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آسکتی ہے (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا) 48 ۔ النسآء :4) یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے جا ہے بخش دے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے اس بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات باتوں کا حکم دیا \0\01 اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دیئے جاؤ یا کاٹ دیئے جاؤ یا سولی دے دیئے جاؤ۔ اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا بعض کی قرأت (ووصی ربک الا تعبدو الا ایاہ وبالوالدین احسانا) بھی ہے۔ قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے آیت (اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 14 ۔ لقمان :31) میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے اور آیت (لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمْ رُسُلًا ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ ) 70 ۔ المآئدہ :5) ، میں بھی دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا پھر ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو حضور بتا دیتے، ابن مردویہ میں عبادہ بن صامت اور ابو درداء سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی کہ اپنے والدین کی اطاعت کر اگرچہ وہ تجھے حکم دیں کہ تو ان کیلئے ساری دنیا سے الگ ہوجائے تو بھی مان لے، اس کی سند ضعیف ہے باپ داداؤں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بات وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو وہ لوگ بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے، مار ڈالتے تھے، ابن مسعود نے ایک مرتبہ حضور سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے۔ پوچھا پھر کونسا گناہ ہے ؟ فرمایا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی۔ پوچھا پھر کونسا ہے ؟ فرمایا اپنی پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا پھر حضور نے آیت (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا) 68 ۔ الفرقان :25) کی تلاوت فرمائی اور آیت میں ہے (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا) 31 ۔ الإسراء :17) اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو، اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہے۔ یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں پھر فرمایا کسی ظاہر اور پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاؤ جیسے اور آیت میں ہے (قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) 33 ۔ الاعراف :7) ، یعنی تمام ظاہری، باطنی برائیاں، ظلم و زیادتی، شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کردیا ہے۔ اس کی پوری تفسیر آیت (وذروا ظاھر الاثم باطنہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ سے زیادہ غیرت ولا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بےحیائیاں اللہ نے حرام کردی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں۔ سعد بن عبادہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں تو ایک ہی وار میں اس کا فیصلہ کر دوں جب حضور کے پاس ان کا یہ قول بیان ہوا تو فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو ؟ واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے، اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر و پوشیدہ اس نے حرام کردیئے ہیں (بخاری و مسلم) ایک مرتبہ حضور سے کہا گیا کہ ہم غیرت مند لوگ ہیں آپ نے فرمایا واللہ میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ یہ غیرت ہی ہے جو اس نے تمام بری باتوں کو حرام قرار دے دیا ہے اس حدیث کی سند ترمذی کی فباء پر ہے ترمذی میں یہ حدیث ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ ستر کے درمیان ہیں۔ اس کے بعد کسی کے ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرما دیا۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر پھر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہوجائے۔ مسلم میں ہے اس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کسی مسلمان کا خون حلال نہیں۔ ابو داؤد اور نسائی میں تیسرا شخص وہ بیان کیا گیا ہے جو اسلام سے نکل جائے اور اللہ کے رسولوں سے جنگ کرنے لگے اسے قتل کردیا جائے گا یا صلیب پر چڑھا دیا جائے گا یا مسلمانوں کے ملک سے جلا وطن کردیا جائے گا۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان (رض) نے اس وقت جبکہ باغی آپ کو محاصرے میں لئے ہوئے تھے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کسی مسلمان کا خون بجز ان تین کے حلال نہیں ایک تو اسلام کے بعد کافر ہوجانے والا دوسرا شادی ہوجانے کے بعد زنا کرنے والا اور بغیر قصاص کے کسی کو قتل کردینے والا۔ اللہ کی قسم نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی میں نے کسی اور دین کی تمنا کی اور نہ میں نے کسی کو بلا وجہ قتل کیا۔ پھر تم میرا خون بہانے کے درپے کیوں ہو ؟ حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آجائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت و عید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے۔ بخاری میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے راستے تک پہنچ جاتی ہے اور روایت میں ہے کیونکہ اس نے اللہ کا ذمہ توڑا اس میں ہے پچاس برس کے راستے کے فاصلے سے ہی جنت کی خوشبوں پہنچی ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں اللہ کی وصیتیں اور اس کے احکام تاکہ تم دین حق کو، اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو۔