اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو، اللہ اُن کے ایمان (کی حقیقت) سے خوب آگاہ ہے، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ یہ (مومنات) اُن (کافروں) کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ (کفّار) اِن (مومن عورتوں) کے لئے حلال ہیں، اور اُن (کافروں) نے جو (مال بصورتِ مَہر اِن پر) خرچ کیا ہو وہ اُن کو ادا کر دو، اور تم پر اس (بات) میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اِن سے نکاح کر لو جبکہ تم اُن (عورتوں) کا مَہر انہیں ادا کر دو، اور (اے مسلمانو!) تم بھی کافر عورتوں کو (اپنے) عقدِ نکاح میں نہ روکے رکھو اور تم (کفّار سے) وہ (مال) طلب کر لو جو تم نے (اُن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا اور وہ (کفّار تم سے) وہ (مال) مانگ لیں جو انہوں نے (اِن عورتوں پر بصورتِ مَہر) خرچ کیا تھا، یہی اللہ کا حکم ہے، اور وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرما رہا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, when the believing women come to you as emigrants, examine [i.e., test] them. Allah is most knowing as to their faith. And if you know them to be believers, then do not return them to the disbelievers; they are not lawful [wives] for them, nor are they lawful [husbands] for them. But give them [i.e., the disbelievers] what they have spent. And there is no blame upon you if you marry them when you have given them their due compensation [i.e., mahr]. And hold not to marriage bonds with disbelieving women, but ask for what you have spent and let them [i.e., the disbelievers] ask for what they have spent. That is the judgement of Allah; He judges between you. And Allah is Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ان کے کافر شوہروں نے جو مہر اُن کو دیے تھے وہ انہیں پھیر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں کفرستان سے اپنے گھر چھوڑ کر آئیں تو ان کا امتحان کرو اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے، پھر اگر تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کو واپس نہ دو، نہ یہ انہیں حلال نہ وہ انہیں حلال اور ان کے کافر شوہروں کو دے دو جو ان کا خرچ ہوا اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو جب ان کے مہر انہیں دو اور کافرنیوں کے نکاح پر جمے نہ رہو اور مانگ لو جو تمہارا خرچ ہوا اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئيں تو ان کی جانچ کر لو الله ہی ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے پس اگر تم انہیں مومن معلوم کر لو تو انہیں کفار کی طرف نہ لوٹاؤ نہ وہ (عورتیں) ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہیں اور ان کفار کو دے دو جو کچھ انہوں نے خرچ کیا اور تم پر گناہ نہیں کہ تم ان سے نکاح کر لو جب تم انہیں ان کے مہر دے دو اور کافر عورتوں کے ناموس کو قبضہ میں نہ رکھو اور جو تم نےان عورتوں پر خرچ کیا تھا مانگ لو اور جو انہوں نے خرچ کیا کہ وہ مانگ لیں الله کا یہی حکم ہے جو تمہارے لیے صاد رفرمایا اور الله سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو (۱) دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں (۲) تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں (۳) اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو (٤) ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں (۵) اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو ( ٦) اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو (۷) وہ بھی مانگ لیں اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو (۸) وہ بھی مانگ لیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے (۹) اللہ تعالٰی بڑے علم (اور) حکمت والا ہے۔
۱۰۔۱ معاہدہ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو اس کو واپس کرنا پڑے گا لیکن اس میں مرد وعورت کی صراحت نہیں تھی بظاہر کوئی احد میں دونوں ہی شامل تھے چنانچہ بعد میں بعض عورتیں مکے سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا امتحان لینے کا مطلب ہے اس امر کی تحقیق کرو کہ ہجرت کر کے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے اپنے کافر خاوند سے ناراض ہو کر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی ہے اور صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر ایمان کا دعوی کر رہی ہے۔ ١٠۔۲ یعنی تم اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچو اور تمہیں گمان غالب حاصل ہو جائے کہ یہ واقعی مومنہ ہیں۔ ۱۰۔۳ یہ انہیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں جیسا کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص ابن ربیع کے ساتھ ہوا تھا جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن اس آیت نے آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کردیا اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں اس لیے انہیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہو جائے تو پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کر کے آئے ۔ ١٠۔٤ یعنی ان کے کافر خاوندوں نے ان کو جو مہر ادا کیا ہے، وہ تم انہیں ادا کردو۔ ۱۰۔۵ یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ عورتیں جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آگئی ہیں تم ان سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کرو تاہم یہ نکاح مسنون طریقے سے ہی ہوگا یعنی ایک تو انقضائے عدت (استبراء رحم) کے بعد ہوگا دوسرے اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے البتہ عورت مدخول بہا نہیں ہے تو پھر بلا عدت فوری نکاح جائز ہے ۱۰۔ ٦ عصم عصمۃ کی جمع ہے یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند مسلمان ہو جائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسے فورا طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا جائے چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ابن کثیر۔ البتہ اگر بیوی کتابیہ ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے اس لیے اگر وہ پہلے سے ہی بیوی کی حثییت سے تمہارے پاس موجود ہے تو قبول اسلام کے بعد اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ١٠۔۷ یعنی ان عورتوں پر جو کفر پر برقرا رہنے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں ١٠۔۸ یعنی ان عورتوں پر جو مسلمان ہو کر ہجرت کرکے مدینے آگئی ہیں۔ ۱۰۔۹ یعنی یہ حکم مذکور کہ دونوں ایک دوسرے کو حق مہر ادا کریں بلکہ مانگ کرلیں اللہ کا حکم ہے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دور کے ساتھ ہی خاص تھا اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے فتح القدیر۔ اس کی وجہ وہ معاہدہ ہے جو اس وقت فریقین کے درمیان تھا اس قسم کے معاہدے کی صورت میں آئندہ بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا بصورت دیگر نہیں ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کرلو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو۔ کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔ اور جو کچھ انہوں نے (ان پر) خرچ کیا ہو وہ ان کو دے دو۔ اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کرلو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو واپس دے دو) اور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہو تم ان سے طلب کرلو اور جو کچھ انہوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو وہ تم سے طلب کرلیں۔ یہ خدا کا حکم ہے جو تم میں فیصلہ کئے دیتا ہے اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو تم ان کا امتحان لو۔ دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے واﻻ تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وه تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وه ان کے لیے حلال ہیں، اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وه انہیں ادا کردو، ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناه نہیں اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو، مانگ لو اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو وه بھی مانگ لیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم (اور) حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب مؤمن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کا امتحان لے لیا کرو اللہ ان کے ایمان کی (اصلیت) کو بہتر جانتا ہے پس اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مؤمن ہیں تو پھر انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ (مؤمن عورتیں) ان (کافروں) کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ (کافر) ان عورتوں کیلئے حلال ہیں اور ان (کافر شوہروں) نے (حق مہر وغیرہ کے سلسلہ میں) جو کچھ خرچ کیا ہے وہ انہیں ادا کر دو اور تمہارے لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان سے نکاح کرو جبکہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو اور تم (بھی) کافر عورتوں کو (اپنے نکاح میں) روکے نہ رکھو اور تم نے (ان پر جو مہر) خرچ کیا ہے وہ (ان سے) واپس مانگ لو اورکافر بھی (مسلمان بیویوں سے مہر واپس) مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا ہے یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
~ ایمان والو جب تمہارے پاس ہجرت کرنے والی مومن عورتیں آئیں تو پہلے ان کا امتحان کرو کہ اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے پھر اگر تم بھی دیکھو کہ یہ مومنہ ہیں توخبردار انہیں کفاّر کی طرف واپس نہ کرنا - نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں اور نہ یہ ان کے لئے حلال ہیں اور جو خرچہ کفاّر نے مہر کا دیا ہے وہ انہیں واپس کردو اور تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم ان کی اجرت (مہر) دینے کے بعد ان سے نکاح کرلو اور خبردار کافر عورتوں کی عصمت پکڑ کر نہ رکھو اور جو تم نے خرچ کیا ہے وہ کفار سے لے لو اور جو انہوں نے خرچ کیا ہے وہ تم سے لے لیں کہ یہی حکم خدا ہے جس کا فیصلہ خدا نے تمہارے درمیان کیا ہے اور وہ بڑا صاحب ه علم و حکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کرلو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔ اور جو کچھ انہوں نے (ان پر) خرچ کیا ہو وہ ان کو دے دو اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کرلو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو) واپس دے دو اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو ان سے طلب کرلو اور جو کچھ انہوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو وہ تم سے طلب کرلیں یہ خدا کا حکم ہے جو تم میں فیصلہ کیے دیتا ہے اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔ شان نزول : یا یھا الذین امنوا اذا جاء کم المومنت مھاجرات (الآیۃ) یہ آیتیں صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک خاص واقعہ کے متعلق نازل ہوئی ہیں اس واقعہ کا بیان سورة فتح کے آغاز میں گذر چکا ہے۔ معاہدہ صلح حدیبیہ کی بعض شرائط کی تحقیق : واقعہ حدیبیہ کی تفصیل سورة فتح میں گذر چکی ہے، جس میں قریش مکہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک معاہدہ صلح دس سال کے لئے لکھا گیا تھا اس معاہدہ کی بعض شرائط ایسی تھیں جن میں دب کر صلح کرنے اور مسلمانوں کی بظاہر مغلوبیت محسوس ہوتی تھی، اسی لئے صحابہ کرام (رض) میں اس پر غم و غصہ کا اظہار ہوا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باشارات ربانی یہ محسوس فرما رہے تھے کہ اس وقت کی چند روزہ مغلوبیت بالآخر ہمیشہ کے لئے فتح مبین کا پیش خیمہ بننے والی ہے، اس لئے قبول فرما لیا اور پھر سب صحابہ کرام (رض) بھی مطمئن ہوگئے۔ اس صلح نامہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے کوئی آدمی مدینہ جائے گا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو وپ اس کردیں گے اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اگر مدینہ طیبہ سے کوئی مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو قریش اس کو واپس نہ کریں گے، اس معاہدہ کے الفاظ عام تھے جس میں بظاہر مرد و عورت دونوں داخل تھے یعنی کوئی مسلمان مرد یا عورت، جو بھی مکہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس کریں گے۔ جس وقت یہ معاہدہ مکمل ہوچکا اور ٓپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی مقام حدییہ ہی میں تشریف فرما تھے کہ کئی ایسے واقعات پیش آئے جو مسلمانوں کے لئے بہت صبر آزما تھے، جن میں ایک واقعہ ابوجندل (رض) کا ہے جس کو قریش مکہ نے قید میں ڈال رکھا تھا وہ کسی طرح ان کی قید سیف رار ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے صحابہ کرام (رض) میں ان کو دیکھ کر بہت تشویش ہوئی کہ معاہدہ کی رو سے ان کو وپ اس کیا جانا چاہیے، لیکن ہم اپنے مظولم بھائی کو پھر ظالموں کے ہاتھ میں دیدیں یہ کیسے ہوگا ؟ مگر رسول اللہ معاہدہ تحریر فرما چکے تھے، ایک فرد کی خاطر اس معاہدہ کو ترک نہیں کیا جاسکتا تھا، جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو جندل (رض) کو سمجھا بجھا کر واپس کردیا۔ اسی کے ساتھ ایک دوسرا واقعہ یہ پیش آیا جس کو ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ سبیعہ بنت الحارث الاسلمیہ جو مسلمان تھیں، صیفی بن الراہب کے نکاح میں تھیں جو کافر تھا بعض روایات میں اس کے شوہر کا نام مسافر المخزومی بتلایا گیا ہے (اس وقت تک مسلمانوں اور کافروں کے درمیان رشتہ مناکحت طریفین سے حرم نہیں ہوا تھا) یہ مسلمان عورتیں مکہ سے بھاگ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئیں (روح المعانی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو واپس نہیں کیا البتہ اس پر جو کچھ مہر وغیرہ خرچ ہوا تھا وہ دیدیا اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے اس سے نکاح کرلیا۔ (روح المعانی) مذکروہ آیات کا پس منظر : اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کر مدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدہ کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا، پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینہ پہنچیں، کفار نے معاہدہ کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا، ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لئے آئے ا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی بہن ام کلثوم کی واپسی کا مطالبہ کیا، اس کے بارے میں مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو وپ اس نہیں کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مذکورہ آیت امیمہ بنت بشر جو کہ بنی عمرو بن عون کی عورت تھی اور ابی حسان بن الدحد احہ کے نکاح میں تھی مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاض رہوئی تھی اس کے اہل خانہ نے واپسی کا مطالبہ کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انک و رد فرما دیا اس کے بعد ہیل بن صیف نے اس سے نکاح کرلیا عبداللہ بن سہیل ان سے پیدا ہوئے۔ (روح المعانی) مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کے اسباب نزول متعدد ہیں بہرحال شان نزول کا واقعہ جو بھی ہو مگر آیت عہد نامہ صلح کی اس دفعہ کی وضاحت کے لئے نازل ہوئی جس کے الفاظ کے عموم کی رو سے ہر مسلمان کو خواہ مرد ہو یا عورت واپس کرنا ضروری تھا، چناچہ آیت نے وضاحت فرما دی کہ عہد نامہ کے الفاظ اگرچہ عام ہیں مگر اس میں عورتیں داخل نہیں ہیں، مطلب یہ کہ عورتوں کو واپس نہ کرنا نقض عہد کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ عہد نامہ کی ایک دفعہ کی تشریح کا مسئلہ تھا، کفار مکہ اس دفعہ کی تشریح اس کے برخلاف کرتے تھے جو مسلمان کرتے تھے کہ عوتریں اس عموم میں داخل نہیں چناچہ آیت شریفہ نے اس دفعہ کی یہی تشریح و وضاحت فرمائی، ہاں عورتوں کے معاملہ میں صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ جو عورت مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئے اس کے کافر شوہر نے جو کچھ اس پر مہر کی صورت میں خرچ کیا ہے وہ خرچ اس کو وپ اس کردیا جائے۔ یا یھا الذین امنوا اذا جاء کم المومنت منجرات فامتحنوھن، اللہ اعلم بایمانھن (الآیۃ) عورتوں کی معاہدہ سے مستثنیٰ ہونے کی وجہ، ان کا مسلمان ہونا ہے، مکہ سے مدینہ آنے والی عورتوں میں یہ احتمال تھا کہ وہ ایمان اور اسلام کی خاطر نہ آئی ہوں، بلکہ کوئی اور غرض ہو مثلاً اپنے شوہر سے ناراضی کے سبب یا مدینہ کے کسی شخص کی محبت کے سبب آئی ہو یا کسی اور دنیوی غرض سے ہجرت کر کے آگئی ہو، وہ عندا للہ اس شرط سے مستثنیٰ نہیں اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کا امتحان لو۔ (معارف) ” مہاجرات “ کے امحتان لینے کا طریقہ : حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مہاجرات کے امحان کا طریقہ یہ تھا کہ مہاجرات سے حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے بغض و نفرت یا مدینہ کے کسی آدمی کی محبت کی وجہ سے یا کسی اور دنیوی غرض سے نہیں آئی ہیں، بلکہ ان کا آنا خالص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور رضا جوئی کے لئے ہے، جب وہ یہ حلف اٹھا لیتیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دیدیتے، اور اس کا مہر وغیرہ جو اس نے اپنے کافر شوہر سے وصول کیا تھا وہ اس کے کافر شوہر کو واپس دے دیتے تھے۔ (قرطبی) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی ترمذی میں روایت ہے جس کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کے امحتان کی صورت وہ بیعت تھی جس کا ذکر اگلی آیت میں تفصیل سے آیا ہے ” اذا جاءک المومنات یبایعنک “ (الآیۃ) گویا آنے والے مہاجر عورتوں کے امتحان کا طریقہ ہی یہ تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر ان چیزوں کا عہد کریں جو اس بیعت کے بیان میں آگے آتی ہیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابتدائی طور پر پہلے وہ کلمات، مہاجرات سے کہلوائے جاتے ہوں جو بروایت ابن عابس (رض) اوپر ذکر کئے گئے ہیں اور اس کی تکمیل اس بیعت سے ہوتی ہو جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ابن مذر اور طبرانی نے کبیر میں اور ابن مردویہ نے سند حسن کے ساتھ اور ایک جماعت نے ابن عباس (رض) سے مہاجرات کے امحتان کی کیفیت اس طرح نقل کی ہے کہ جب کوئی مہاجر عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاض رہوتی تو حضرت عمر (رض) اس طرح حلف لیتے کہ واللہ ! نہ تو میں گھومنے پھرنے کی غرض سے آئی ہوں اور نہ میں شوہر سے ناراضگی کی وج ہ سے آئی ہوں اور نہ میں کسی دنیوی غرض سے آئی ہوں واللہ ! میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں آئی ہوں۔ (روح المعانی) فان علمتموھن مومنات فلاترجعوھن الی الکفار یعنی جب بطرزمذکور ان مہاجرات کے ایمان کا امتحان لے کر تم ان کو مومن قرار دیدو تو پھر ان کو کفار کی طرف واپس کرنا جائز نہیں اور نہ عوریں کافر مردوں کے لئے حلال ہیں اور نہ کافر شوہر ان کے لئے حلال ہیں کہ ان سے دوبارہ نکاح کرسکیں۔ مسئلہ : اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ جو عورت کسی کافر کے نکاح میں تھی اور پھر وہ مسلمان ہوگئی تو کافر سے اس کا نکاح خود بخودف سخ ہوگیا اور یہی وجہ عورتوں کو شرط صلح میں واپسی سے مستثنیٰ کرنے کی ہے۔ واتوھم ماانفقوا اس آیت میں مال کی واپسی کے سلسلے میں خطاب مہاجر عورتوں کو نہیں کیا گیا کہ تم واپس کرو، بلکہ عام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ واپس کریں کیونکہ ممکن بلکہ غالب یہ ہے کہ جو مال ان کو ان کے شوہروں نے دیا تھا وہ ختم ہوچکا ہوگا اب ان سے واپس دلانے کی صورت میں ہی نہیں ہوسکتی، اس لئے یہ فریضہ عام مسلمانوں پر ڈال دیا گیا، اگر بیت المال سے دیا جاسکتا ہو تو وہاں سے، ورنہ عام مسلمان چندہ کر کے دیں۔ (قرطبی، معارف ملخصاً ) ولا جناح علیکم ان تنکوھن اذا اتیتموھن اجورھن گزشتہ آیت سے یہ معلوم ہوچکا کہ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کا نکاح اس کے کافر شوہر سے فسخ ہوچکا ہے اور یہ اس پر حرام ہوچکی ہے، یہ آیت سابقہ آیت کا تکملہ ہے کہ اب مسلمان مرد اس سے ناکح کرسکتا ہے اگرچہ سابق کافر شوہر بھی زندہ ہے اور اس نے طلاق بھی نہیں دی مگر شرعی حکم سے نکاح فسخ ہوچکا۔ کافر مرد کی بیوی مسلمان ہوجائے تو نکاح کا فسخ ہوجانا آیت مذکورہ سے معلوم ہوچکا، لیکن دوسرے کسی مسلمان مرد سے اس کا نکاح کسی وقت جائز ہوگا، اس کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل ضابطہ تو یہ ہے کہ جس کافر مرد کی عورت مسلمان ہوجائے تو حاکم اسلام اس کے شوہر کو بلا کر کہے کہ اگر تم بھی مسلمان ہوجائو تو نکاح برقرار رہے گا ورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا اگر وہ اس پر بھی اسلام لانے سے انکار کرے تو اب ان دونوں کے درمیان رقت کی تکمیل ہوگئی، اس وقت وہ کسی مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ حاکم اسلام کا شوہر کو حاض ر کرنا وہیں ہوسکتا ہے جہاں حکومت اسلامی ہو دارالکفریا دارلاحرب میں یہ صورت ممکن نہیں ہے، البتہ اگر وہ عورت دارالکفر سے دارالسلام میں آجائے تو اس کا نکاح خود بخود فسح ہوجائے گا، دوسرا مسلمان مرد اگر چاہے تو مہر دے کر اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ اذا تیتموھن اجورھن کو بطور شرط کے فرمایا کہ تم ان سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے مہر ادا کردو یہ درحققیت نکاح کی شرط نہیں، اس لئے کہ با تفاق امت نکاح کا انعقاد ادائے مہر پر موقوف نہیں ہے، ال بتہ مہر کی ادائیگی لازم اور واجب ہے، یہاں اس کو بطور شرط کے شاید اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے اس شخص کو یہ خیال ہو کہ ابیھ ایک مہر تو اس کے کافر شوہر کو واپس کرایا جا چکا ہے اب جدید مہر کی ضرورت نہیں، اس لئے فرما دیا کہ اس مہر کا تعلق پچھلے نکاح سے تھا لہٰذا یہ دوسرا نکاح جدید مہر کے ساتھ ہوگا۔ ولاتمسکوا بعصم الکوافر وسئلو ماانفقتم (الآیۃ) عصم، عصمۃ کی جمع ہے، یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر مسلمان ہوجائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں اسے فوراً طلاق دے کر علیحدہ کردیا جائے، طالق دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قطع تعلق کرلیا جائے، چناچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر (رض) نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ بن عبدلالہ (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، روایت کیا گیا ہے کہ عمر (رض) نے اسی وجہ سے اپنی بیوی فاطمہ بنت ابوامیہ مخزومیہ کو طلطاق دیدی اور معاویہ بن ابی سفیان نے اس سے نکاح کرلیا، اور دوسری بیوی کلثوم بنت جرول الخزاعی کو بھی اسی وجہ سے طلاق دے دی۔ اسی طرح حضرت طلحہ (رض) نے اپنی مشرکہ بیوی اروی بنت ربیعہ کو طلاق دے دی۔ (روح المعانی) البتہ اگر بیوی کتابیہ ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں، کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے۔ اگر کسی کافر کی بیوی مسلمان ہو کر مسلمان کے پاس چلی گئی ہو، تو اس عورت کو تو واپس نہیں کیا جائے گا، البتہ کافر شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ مہر وغیہ صرف کیا ہوا مال مسلمانوں سے طلب کرلے، اسی طرح اگر کوئی مسلمان عورت مرتد ہو کر کافروں کے پاس چلی گئی ہو تو مسلمان شوہر بھی مہر وغیرہ میں خرچ کیا ہوا مال کافروں سے طلب کرلیں، مسلمانوں نے اس حکم پر بطیب خاطر عمل کیا مگر کافروں نے عمل نہیں کیا۔
10 Tafsir as-Saadi
صلح حدیبیہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے ساتھ اس شرط پر معاہدہ کیا کہ کفار میں سے جو کوئی مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آئے تو وہ مشرکین کو واپس کردیا جائے گا۔ یہ عام اور مطلق لفظ تھا جس کے عموم میں مرد اور عورت سب شامل ہیں۔ مردوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ایفائے شرط اور معاہدہ صلح کو پورا کرنے کے لیے کفار کی طرف واپس لوٹانے سے اپنے رسول کو منع نہیں کیا، جو سب سے بڑی مصلحت تھی۔ رہی عورتیں، تو چونکہ ان کے واپس لوٹانے میں بہت سے مفاسد تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کرکے ان کے پاس آئیں اور ان کو ان عورتوں کے ایمان کی صداقت میں شک ہو، تو سخت قسم وغیرہ کے ذریعے سے ان کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں، تاکہ ان کی صداقت ظاہر ہوجائے ،کیونکہ اس بات کا احتمال ہوسکتا ہے کہ ان کے ایمان میں صداقت نہ ہو ،بلکہ شوہر یا شہر وغیرہ دنیاوی مقاصد کے لیے ہجرت کی ہو، اگر ان میں یہ وصف پایا جائے، تو ایفائے شرط کے لیے کسی خرابی کے حصول کے بغیر ان کا واپس کیا جانا طے شدہ ہے ۔اگر اہل ایمان نے ان کو جانچ لیا اور ان کو سچا پایا ہو یا جانچ پڑتال کے بغیر ہی اہل ایمان کو ان کے مومن ہونے کا علم ہو، تو وہ ان عورتوں کو کفار کی طرف واپس نہ بھیجیں۔ ﴿لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ﴾”یہ (عورتیں)ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں نہ وہ(کافر) ان کے لیے۔“ یہ بہت بڑی خرابی ہے، جس کی شارع نے رعایت رکھی ہے ۔شارع نے ایفائے شرط کی بھی رعایت رکھی کہ ان عورتوں کے عوض میں ان کے کفار شوہروں کو وہ مہر اور اس کے توابع وغیرہ واپس لوٹا دیے جائیں جو انہوں نے ان عورتوں پر خرچ کیے ہیں۔ تب مسلمانوں کے لیے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ دارالشرک میں ان کے (مشرک) شوہر موجود ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان عورتوں کو مہر اور نان ونفقہ ادا کریں۔ جس طرح مسلمان عورت کافر کے لیے حلال نہیں اسی طرح اہل کتاب کے سوا کافر عورت، جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہے، مسلمان مرد کے لیے حلال نہیں۔ اس لیے فرمایا :﴿ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ﴾”اور تم کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو۔ “جب اللہ تعالیٰ نے کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں رکھنے سے منع کیا ہے، تب ان کے ساتھ نکاح کی ابتدا تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ﴿ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ﴾ اے مومنو! جب تمہاری مرتد بیویاں کفار کی طرف واپس لوٹیں تو ان سے اس مال کا مطالبہ کرو جو تم نے ان پر خرچ کیا ہے۔ جب کفار اپنی ان عورتوں کو عطا کیا ہوا مہر وصول کرسکتے ہیں جو مسلمان ہوگئی ہوں، تو اس کے مقابلے میں مسلمان بھی اس مہر کو وصول کرنے کے مستحق ہیں جو ان کی مرتد بیویوں کے ساتھ کفار کے پاس گیا ہے ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے نکلنا قیمت رکھتا ہے ،اگر کوئی فاسد کرنے والا عورت کے نکاح کو، رضاعت یاکسی اور سبب کی بنا پر فاسد کردے تو اس کے مہر کی ضمان ہے، یعنی مہر کی ادائیگی ضروری ہے ﴿ ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ ﴾ یعنی یہ فیصلہ ،جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو اس نے تمہارے سامنے بیان کرکے واضح کیا ہے۔ ﴿ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ لہٰذا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون سے احکام تمہارے لیے درست ہیں، لہٰذا وہ اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق اپنے احکام مشروع کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tumharay paas musalman aurten hijrat ker kay ayen to tum unn ko janch liya kero . Allah hi unn kay emaan kay baaray mein behtar janta hai . phir jab tumhen yeh maloom hojaye kay woh momin aurten hain to tum unhen kafiron kay paas wapis naa bhejna . woh unn kafiron kay liye halal nahi hain , aur woh kafir inn kay liye halal nahi hain . aur inn kafiron ney jo kuch ( inn aurton per mehar ki soorat mein ) kharch kiya ho , woh unhen ada kerdo . aur tum per inn aurton say nikah kernay mein koi gunah nahi hai , jabkay tum ney unn kay mehar unhen ada kerdiye hon . aur tum kafir aurton ki asmaten apney qabazay mein baqi naa rakho , aur jo kuch tum ney ( unn kafir biwiyon per mehar ki soorat mein ) kharch kiya tha , woh tum ( unn kay naye shohron say ) maang lo , aur unhon ney jo kuch ( apni musalman hojaney wali biwiyon per ) kharch kiya tha , woh ( unn kay naye musalman shohron say ) maang len . yeh Allah ka faisla hai , wohi tumharay darmiyan faisla kerta hai , aur Allah baray ilm wala , bari hikmat wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورة فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہوچکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کردیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کردیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط (رض) مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کردی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق (رض) کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہوجائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہوجانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کردیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ (رض) کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کردو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آزاد کردیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کرلیا اور حضرت زید بن حارثہ (رض) کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کردیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا، امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد (رح) وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہوجاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کرلینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کرلے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کردو جیسے کہ مہر۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر (رض) نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہوجائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کردو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کرلیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کرلیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آجائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو ۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہوچکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کردیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ (رح) یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری (رح) فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آجائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کردو، یعنی مہر مثل، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔