Skip to main content

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِىَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ ۙ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِىْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْۚ

But as for
وَأَمَّا
اور رہا
(him) who
مَنْ
وہ جو کوئی
is given
أُوتِىَ
دیا گیا
his record
كِتَٰبَهُۥ
کتاب اپنی
in his left hand
بِشِمَالِهِۦ
اپنے بائیں ہاتھ میں
will say
فَيَقُولُ
تو وہ کہے گا
"O! I wish
يَٰلَيْتَنِى
اے کاش کہ میں
not
لَمْ
نہ
I had been given
أُوتَ
دیا جاتا
my record
كِتَٰبِيَهْ
اپنا نامہ اعمال۔ اپنی کتاب

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور جس کا نامہ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا "کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا

English Sahih:

But as for he who is given his record in his left hand, he will say, "Oh, I wish I had not been given my record

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور جس کا نامہ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا "کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور وہ جو اپنا نامہٴ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا کہے گا ہائے کسی طرح مجھے اپنا نوشتہ نہ دیا جاتا،

احمد علی Ahmed Ali

اور جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو کہے گا اے کاش میرا اعمال نامہ نہ ملتا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وہ تو کہے گا کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی (١)

٢٥۔١ کیونکہ نامہ اعمال کا بائیں ہاتھ میں ملنا بدبختی کی علامت ہوگا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

لیکن جسے اس (کے اعمال) کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی، وه تو کہے گا کہ کاش کہ مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کہ کاش میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

لیکن جس کو نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: ہائے کاش! مجھے میرا نامۂ اَعمال نہ دیا گیا ہوتا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

بائیں ہاتھ اور نامہ اعمال
یہاں گنہگاروں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جب میدان قیامت میں انہیں ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یہ نہایت ہی پریشان اور پشیمان ہوں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے کاش کہ ہمیں عمل نامہ ملتا ہی نہ اور کاش کہ ہم اپنے حساب کی اس کیفیت سے آگاہ ہی نہ ہوتے کاش کہ موت نے ہمارا کام ختم کردیا ہوتا اور یہ دوسری زندگی سرے سے ہمیں ملتی ہی نہ، جس موت سے دنیا میں بہت ہی گھبراتے تھے آج اس کی آرزوئیں کریں گے، یہ کہیں گے کہ ہمارے مال و جاہ نے بھی آج ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور ہماری ان چیزوں نے بھی عذاب ہم سے نہ ہٹائے، تنہا حکم دے گا کہ اسے پکڑ لو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو اور اسے جہنم میں لے جاؤ اور اس میں پھینک دو ، حضرت منہال بن عمرو فرماتے ہیں کہ اللہ کے اس فرمان کو سنتے ہی کہ اسے پکڑو، ستر ہزار فرشتے اس کی طرف لپکیں گے جن میں سے اگر فرشتہ بھی اس طرح اشارہ کرے تو ایک چھوڑ ستر ہزار لوگوں کو پکڑ کر جہنم میں پھینک دے، ابن ابی الدنیا میں ہے کہ چار لاکھ فرشتے اس کی طرف دوڑیں گے اور کوئی چیز باقی نہ رہے گی مگر اسے توڑ پھوڑ دیں گے یہ کہے گا تمہیں مجھ سے تعلق ؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ تجھ پر غضبناک ہے اور اس وجہ سے ہر چیز تجھ پر غصے میں ہے، حضرت فضیل بن عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے اس فرمان کے سرزد ہوتے ہی ستر ہزار فرشتے اس کی طرف غصے سے دوڑیں گے جن میں سے ہر ایک دوسرے پر سبقت کر کے چاہے گا کہ اسے میں طوق پہناؤں، پھر اسے جہنم کی آگ میں غوطہ دینے کا حکم ہوگا، پھر ان زنجیروں میں جکڑا جائے گا جن کا ایک ایک حلقہ بقول حضرت کعب احبار کے دنیا بھر کے لوہے کے برابر ہوگا، حضرت ابن عباس اور ابن جریج فرماتے ہیں یہ ناپ فرشتوں کے ہاتھ کا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس کا فرمان ہے کہ یہ زنجیریں اس کے جسم میں پرو دی جائیں گی پاخانے کے راستے سے ڈال دی جائیں گی اور منہ سے نکالی جائیں گی اور اس طرح آگ میں بھونا جائے گا جیسے سیخ میں کباب اور تیل میں ٹڈی، یہ بھی مروی ہے کہ پیچھے سے یہ زنجیریں ڈالی جائیں گی اور ناک کے دونوں نتھنوں سے نکالی جائیں گی۔ جس سے کہ وہ پیروں کے بل کھڑا ہی نہ ہو سکے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بڑا سا پتھر آسمان سے پھینکا جائے تو زمین پر وہ ایک رات میں آجائے لیکن اگر اس کو جہنمیوں کے باندھنے کی زنجیر کے سرے پر سے چھوڑا جائے تو دوسرے سرے تک پہنچے میں چالیس سال لگ جائیں، یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ عظیم پر ایمان نہ رکھتا تھا نہ مسکین کو کھلا دینے کی کسی کو رغبت دیتا تھا، یعنی نہ تو اللہ کی عبادت و اطاعت کرتا تھا نہ اللہ کی مخلوق کے حق ادا کر کے اسے نفع پہنچاتا تھا، اللہ کا حق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے احسان و سلوک کریں اور بھلے کاموں میں آپس میں امداد پہنچاتے رہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حقوق کو عموماً ایک ساتھ بیان فرمایا ہے جیسے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال کے وقت میں ان دونوں کو ایک ساتھ بیان فرمایا کہ نماز کی حفاظت کرو اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ پھر فرمان ہوتا ہے کہ یہاں پر آج کے دن اس کا کوئی خالص دوست ایسا نہیں نہ کوئی قریبی رشتہ دار یا سفارشی ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے بچا سکے، اور نہ اس کے لئے کوئی غذا ہے سوائے بدترین سڑی بسی بیکار چیز کے جس کا نام (غسلین) ہے، یہ جہنم کا ایک درخت ہے اور ممکن ہے کہ اسی کا دوسرا نام (زقوم) ہو، اور (غسلین) کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جہنمیوں کے بدن سے جو خون اور پانی بہتا ہے وہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی پیپ وغیرہ۔