اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَاۤءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
English Sahih:
Has it not become clear to those who inherited the earth after its [previous] people that if We willed, We could afflict them for their sins? But We seal over their hearts so they do not hear.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور کیا وہ جو زمین کے ما لکوں کے بعد اس کے وارث ہوئے انہیں اتنی ہدایت نہ ملی کہ ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں پر آ فت پہنچائیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سنتے
احمد علی Ahmed Ali
کیا ان لوگو ں پر جو زمین کے وارث ہوئے ہیں وہاں کے لوگوں کے ہلاک ہونے کے بعد یہ ظاہر نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لیں اور ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے پس وہ نہیں سنتے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں (١)۔
١٠٠۔١ یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، پر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے، دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالٰی نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی حق کی آواز کے لئے ان کے کان بھی بند ہوجاتے ہیں پھر واعظ و نصیحت ان کے لئے بیکار ہو جاتے ہیں۔ آیت میں ہدایت تبیین (وضاحت) کے معنی میں ہے اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ان لوگوں کو جو اہلِ زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں، یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔ اور ان کے دلوں پر مہر لگادیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکوره نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیں، پس وه نہ سن سکیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
کیا ان لوگوں پر جو پہلے اہل زمین کی تباہی کے بعد زمین کے وارث بنے ہیں یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کو گناہوں کی وجہ سے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگا دیتے کہ وہ سن (سمجھ) نہ سکیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ایک قوم کے بعد دوسرے زمین کے وارث ہونے والوں کو یہ ہدایت نہیں ملتی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی بنا پر انہیں بھی مبتلائے مصیبت کردیتے اور ان کے دلوں پر مہرلگادیتے اور پھر انہیں کچھ سنائی نہ دیتا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
کیا (یہ بات بھی) ان لوگوں کو (شعور و) ہدایت نہیں دیتی جو (ایک زمانے میں) زمین پر رہنے والوں (کی ہلاکت) کے بعد (خود) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں (بھی) سزا دیں، اور ہم ان کے دلوں پر (ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے) مُہر لگا دیں گے سو وہ (حق کو) سن (سمجھ) بھی نہیں سکیں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
گناہوں میں ڈوبے لوگ ؟
ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى\012\08 ) 20 ۔ طه ;128) یعنی کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لئے بہت سی عبرتیں تھیں اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آنے کا ہی نہیں حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کردیئے گئے تھے۔ خالی گھر رہ گئے۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا 74) 19 ۔ مریم ;74) ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کردیں نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے، مال دار تھے، عیش و عشرت میں تھے، راحت و آرام میں تھے، اوپر سے ابر برستا تھا نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہوگئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آگئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیوی وجاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ، کان، ھاتھ سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے۔ زمین میں چل پھر کر، آنکھیں کھول کر، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بیکار ہوں۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا۔ ایسے گھیرے آگئے کہ ایک بھی نہ بچا۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے۔