الاعراف آية ۱۰۰
اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَاۤءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ
طاہر القادری:
کیا (یہ بات بھی) ان لوگوں کو (شعور و) ہدایت نہیں دیتی جو (ایک زمانے میں) زمین پر رہنے والوں (کی ہلاکت) کے بعد (خود) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں (بھی) سزا دیں، اور ہم ان کے دلوں پر (ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے) مُہر لگا دیں گے سو وہ (حق کو) سن (سمجھ) بھی نہیں سکیں گے،
English Sahih:
Has it not become clear to those who inherited the earth after its [previous] people that if We willed, We could afflict them for their sins? But We seal over their hearts so they do not hear.
1 Abul A'ala Maududi
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے
2 Ahmed Raza Khan
اور کیا وہ جو زمین کے ما لکوں کے بعد اس کے وارث ہوئے انہیں اتنی ہدایت نہ ملی کہ ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں پر آ فت پہنچائیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر کرتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سنتے
3 Ahmed Ali
کیا ان لوگو ں پر جو زمین کے وارث ہوئے ہیں وہاں کے لوگوں کے ہلاک ہونے کے بعد یہ ظاہر نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لیں اور ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے پس وہ نہیں سنتے
4 Ahsanul Bayan
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکور میں ہیں) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگادیں، پس وہ نہ سن سکیں (١)۔
١٠٠۔١ یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، پر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے، دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالٰی نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی حق کی آواز کے لئے ان کے کان بھی بند ہوجاتے ہیں پھر واعظ و نصیحت ان کے لئے بیکار ہو جاتے ہیں۔ آیت میں ہدایت تبیین (وضاحت) کے معنی میں ہے اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا ان لوگوں کو جو اہلِ زمین کے (مرجانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں، یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔ اور ان کے دلوں پر مہر لگادیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں
6 Muhammad Junagarhi
اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکوره نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیں، پس وه نہ سن سکیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا ان لوگوں پر جو پہلے اہل زمین کی تباہی کے بعد زمین کے وارث بنے ہیں یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کو گناہوں کی وجہ سے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگا دیتے کہ وہ سن (سمجھ) نہ سکیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا ایک قوم کے بعد دوسرے زمین کے وارث ہونے والوں کو یہ ہدایت نہیں ملتی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی بنا پر انہیں بھی مبتلائے مصیبت کردیتے اور ان کے دلوں پر مہرلگادیتے اور پھر انہیں کچھ سنائی نہ دیتا
9 Tafsir Jalalayn
کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے مرجانے کے بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں ؟ اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں۔
آیت نمبر ١٠٠ تا ١٠٨
ترجمہ : اور کیا ان لوگوں پر کہ جو زمین کے سابق مالکان کی ہلاکت کے بعد سکونت کے اعتبار سے زمین کے وارث بنے یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کو ان کے گناہوں کے سبب عذاب میں پکڑ لیں أن مع اپنے مابعد (لونشاءُ ) کے یَھْدِ کا فاعل ہے اور أن مخففہ عن الثقیلہ ہے اور (أن) کا اسم محذوف ہے تقدیر عبارت أنَّہٗ ہے، جیسا کہ ہم نے ان سے پہلے والوں کو پکڑ لیا، ہمزہ چاروں جگہ توبیخ کیلئے ہے اور جو فاء اور واؤ اس پر داخل ہیں عطف کیلئے ہیں ایک قرأت میں واؤ کے سکون کے ساتھ ہے، پہلی جگہ اَوْ کے ذریعہ عطف کرتے ہوئے، اور ان کے دلوں پر مہر (بند) لگا دیں کہ وہ نصیحت کو غور و فکر کے خیال سے نہ سن سکیں اے محمد مذکورہ بستیوں کے باشندوں کے کچھ واقعات ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان کے رسول ان کے پاس کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے مگر جس چیز کا پہلے انہوں نے انکار کردیا پھر وہ اس چیز کے پیش آنے کے بعد اس چیز کو ماننے والے نہیں تھے بلکہ وہ اس کا انکار ہی کرتے رہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور اکثر لوگوں میں ہم نے عہد کا (پاس) نہ پایا یعنی یوم میثاق کے عہد کی وفانہ پائی، اور ہم نے اکثر لوگوں کو حد سے تجاوز کرنے والا ہی پایا اِنْ مخففہ عن الثقیلہ ہے، مذکورہ رسول کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہماری نو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا تو ان لوگوں نے ان کا انکار کیا تو دیکھئے، کفر کی وجہ سے ان مفسدوں کا کیسا انجام ہوا (یعنی) ان کی ہلاکت، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے فرعون میں رب العلمین کی طرف سے تیری طرف بھیجا ہوا ہوں مگر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، میرے لئے یہی مناسب ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں اور ایک قراءت میں عَلیٰ کے بجائے عَلَیَّ تشدید کے ساتھ ہے، اس صورت میں حقیق مبتداء ہوگا اور أن اور اس کا مابعد اس کی خبر، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل لے کر آیا ہوں سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ شام بھیج دے اور (فرعون) نے ان کو غلام بنا رکھا تھا، فرعون نے کہا اگر تم اپنے دعوے پر کوئی دلیل لے کر آئے ہو تو پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصاء ڈالا دیا تو وہ دفعۃً ایک بڑا اژدھا بن گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (گریبان میں اپنا ہاتھ داخل کرکے) نکالا تو وہ اچانک دیکھنے والوں کی نظر میں اپنے گندم گونی رنگ کے برخلاف روشن چمکدار تھا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یَتَبَیَّنْ ۔ سوال : یَھْدِ کا صلہ لام نہیں آتا یہاں، للذیْنَ ، میں یھد کا صلہ لام استعمال ہوا ہے۔ جواب : مفسر علام نے یَھْدِ کی تفسیر یَتَبیَّنْ ، سے کرکے اسی شبہ کا جواب دیا ہے، یعنی یَھْدِ یتبیَّنْ کے معنی میں ہے اور یتبیَّنْ کا صلہ لام آتا ہے۔
قولہ : بالسکنیٰ ۔ سوال : لفظ سکنیٰ کا اضافہ کس مقصد سے کیا ہے ؟
جواب : چونکہ ملک کا تحقق محض سابق قوم کی ہلاکت سے نہیں ہوتا اس کیلئے سکونت اور قبضہ ضروری ہے، اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مفسر علام نے لفظ سکنی کا اضافہ کیا ہے۔
قولہ : أن فَاعِلٌ، أن اپنے مابعد سے ملکر یَھْدِ کا فاعل ہے، نَھْدِ نون کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، نون کی قراءت کی صورت میں اللہ فاعل ہوگا، اور نھد کا مفعول أن لو نشاء اَصَبْنَاھم بذنوبِھِمْ ہوگا، ای أنَّ الشان ھو ھذا، اور یَھْدِ ، یاء کی قراءت کی صورت میں فاعل، أن لونشاءُ اَصَبْناھم بذنوھم ہے، (تسہیل) أنْ مخففہ عن الثقیلہ ہے اس کا اسم ہٗ ضمیر شان محذوف ہے ای أنّہٗ ، اور جملہ لَوْ نشاءُ اس کی خبر، أنَّ اور اس کا مابعد یَھْدِ کا فاعل ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یَھْدِ کا فاعل اس میں ضمیر مستتر ہو اور اس ضمیر کا مرجع وہ ہوگا جو سیاق کلام سے مفہوم ہے، ای اَوَلم یَھْدِ ما جری للامم السابقۃ، اس صورت میں أن اور اس کا مابعد بتاویل مصدر ہو کر محل میں مفعول کے ہوگا، پہلی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَوَلم یَھدِ اللہ ویبین للوارثین مآلھم وعاقبۃ امرھم اصابتنا اِیّاھم بذنوبھم ویکون المفعول بہ محذوفًا کما قدرناہ، اور ثانی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَوَلم یُبین فی وضح اللہ ما جریٰ للامم اصَابتنا اِیّاھم لو نشاء ذلک۔
قولہ : فی مَوَاضِعِ الاَرْبَعۃِ ان میں پہلا اَفَاَمِنَ اھل القریٰ ہے اور آخری اَوَلم یَھْدِ ہے، دو فاء کے ساتھ ہیں اور دو واؤ کے ساتھ۔
قولہ : الوَ اوُ الدَاخِلَۃُ عَلَیھا للِعَطْفِ ۔ سوال : ہمزوہ استفہام کا حرف عطف پر داخل ہونا منع ہے۔
جواب : ممانعت عطف مفرد علی المفرد میں ہے نہ کہ عطف جملہ علی الجملہ میں اسلئے کہ جملہ بعد الجملہ کلام مستانف ہوتا ہے۔
تفسیر و تشریح
اولم یھد۔۔۔ الارض (الآیۃ) یہاں ایک بات تو یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہاری بد اعمالیوں کے صلہ میں ہلاک کردیں، دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز سننے کیلئے ان کے کان بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نصیحت اور انذار ان کیلئے سب بیکار و بےاثر ہوتے ہیں۔
قوموں کی تاریخ سے سبق : ہلاک و برباد ہونے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم آتی ہے اس کیلئے اپنی پیش روقوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے اور اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدت پہلے جو لوگ اس جگہ داد عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا ریا تھا انھیں فکر و عمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا ؟ اور یہ بھی محسوس کرسکتا ہے کہ جس بالا اقتدار نے کل انھیں ان کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور ان سے یہ جگہ خالی کرائی تھی وہ آج کہیں چلا نہیں گیا، اور نہ اس سے کسی نے یہ مقدر چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجود ساکنین اگر وہی غلطی کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ ان سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کرا سکے گا جس طرح ان سے خالی کرائی تھی۔
ونطبع۔۔۔۔ لایسمعون، جب کوئی قوم تاریخ اور عبرتناک سبق آموز آثار و مشاہدات سے سبق نہیں لیتی اور اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا رکھتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے بھی انھیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی نصیحت سننے کی توفیق نہیں ملتی خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو اس کی بینائی تک آفتاب کی روشن کرنیں نہیں پہنچ سکتیں اور جو خود سننا نہ چاہے بھلا اسے کوئی سنا سکتا ہے ؟
ولقد جاءتھم رسلھم بالبینت (الآیۃ) اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جب پیغمبر خدا کا پیغام لے کر اس کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر یمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کرچکے تھے، یہی جرم ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا، اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کرلی گئی، اسی کو آئندہ جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وما وجدنا۔۔۔۔۔ لفسقین، اس عہد سے بغض نے عہد الست مراد لیا ہے، جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، اور بغض نے ہر قسم کا عہد مراد لیا ہے، یعنی ان لوگوں نے کسی قسم کے عہد کا پاس لحاظ نہیں کیا، نہ اس فطری عہد کا جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ پروردہ ہونے کی حیثیت سے بندھا ہوا ہے، نہ اس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد و بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے بندھا ہوا ہے، اور نہ اس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے ان ہی تینوں عہدوں کو توڑنے کو یہاں فسق کہا گیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد الست ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا عہد سے مراد عہد ایمان وطاعت ہے۔
یہاں تک پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے پانچ واقعات بیان کرکے موجودہ لوگوں کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کیلئے تنبیہات فرمائی گئی ہیں، اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جس میں واقعات کے ضمن میں سینکڑوں احکام و مسائل اور عبرت و نصیحت کے بیشمار مواقع ہیں اور اسی لئے قرآن کریم میں اس واقعہ کے اجزاء بار بار دھرائے گئے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ قوموں کی ہلاکت کے بعد باقی رہ جانے والی قوموں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے (مر جانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔‘‘ کیا ان امتوں پر واضح نہیں ہوا جو ان قوموں کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہلاکت کے بعد، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، زمین میں وارث بنی ہیں؟ پھر انہوں نے بھی ان ہلاک ہونے والے لوگوں جیسے اعمال کا ارتکاب شروع کردیا۔ کیا انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں بھی ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لے؟ کیونکہ اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے۔ ﴿وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ﴾ ” اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں، پس وہ نہ سنیں۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ کرے تو وہ متنبہ نہ ہوں، انہیں نصیحت کرے، مگر وہ نصیحت نہ پکڑیں اور اللہ تعالیٰ آیات اور عبرتوں کے ذریعے سے ان کی راہ نمائی کرے، مگر وہ راہنمائی حاصل نہ کریں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے پس ان کے دلوں پر میل کچیل جم جاتا ہے اور وہ زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔۔۔ ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے حق ان میں داخل نہیں ہوسکتا، بھلائی ان تک پہنچ نہیں سکتی۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں سن سکتے جو انہیں فائدہ دے۔ وہ تو صرف وہی بات سن سکتے ہیں جو ان کے خلاف حجت بنے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log kissi zameen ( kay bashindon ki halakat ) kay baad uss kay waris ban jatay hain , bhala kiya unn ko yeh sabaq nahi mila kay agar hum chahen to unn ko ( bhi ) unn kay gunahon ki wajeh say kissi museebat mein mubtala kerden-? aur ( jo log apni zidd ki wajeh say yeh sabaq nahi letay ) hum unn kay dilon per mohar laga detay hain , jiss kay nateejay mein woh koi baat nahi suntay .
12 Tafsir Ibn Kathir
گناہوں میں ڈوبے لوگ ؟
ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِهِمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى\012\08 ) 20 ۔ طه :128) یعنی کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لئے بہت سی عبرتیں تھیں اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کیا یہ سن نہیں رہے ؟ ایک آیت میں فرمایا تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آنے کا ہی نہیں حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کردیئے گئے تھے۔ خالی گھر رہ گئے۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْيًا 74) 19 ۔ مریم :74) ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کردیں نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے نہ کسی کی آواز سنائی دے اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے، مال دار تھے، عیش و عشرت میں تھے، راحت و آرام میں تھے، اوپر سے ابر برستا تھا نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہوگئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے۔ عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آگئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے۔ حالانکہ دنیوی وجاہت بھی ان کے پاس تھی آنکھ، کان، ھاتھ سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے، نہ عقل آئی نہ اسباب بچے۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے ؟ تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے انہیں غور سے سنو۔ ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے۔ زمین میں چل پھر کر، آنکھیں کھول کر، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بیکار ہوں۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا۔ ایسے گھیرے آگئے کہ ایک بھی نہ بچا۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں، اس کے وعدے اٹل ہیں وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے۔