الاعراف آية ۱۳۰
وَلَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِيْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ
طاہر القادری:
پھر ہم نے اہلِ فرعون کو (قحط کے) چند سالوں اور میووں کے نقصان سے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں،
English Sahih:
And We certainly seized the people of Pharaoh with years of famine and a deficiency in fruits that perhaps they would be reminded.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط اور پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا کہ کہیں وہ نصیحت مانیں
3 Ahmed Ali
اور ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور میوں کی کمی میں پکڑ لیا تاکہ وہ نصیحت مانیں
4 Ahsanul Bayan
ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں (١)۔
١٣٠۔١ آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ اور سنین سے قحط سالی۔ یعنی بارش کے فقدان اور درختوں میں کیڑے وغیرہ لگ جانے سے پیداوار میں کمی۔ مقصد آزمائش سے یہ تھا کہ اس ظلم اور استکبار سے باز آجائیں جس میں وہ مبتلا تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وه نصیحت قبول کریں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے فرعونیوں کو قحط اور پھلوں کی پیداوار کی کمی میں گرفتار کیا کہ شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے آل فرعون کو قحط اور ثمرات کی کمی کی گرفت میں لے لیا کہ شاید وہ اسی طرح نصیحت حاصل کرسکیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
آیت نمبر ١٣٠ تا ١٤١
ترجمہ : ہم نے فرعون کے لوگوں کو قحط اور پیداوار کی کمی میں (کئی سال تک) مبتلا رکھا، تاکہ وہ نصیحت قبول کرکے ایمان لے آئیں، (مگر ان کا حال یہ تھا) جب خوشحالی شادابی اور مالداری کا زمانہ آجاتا تو کہتے ہم اسی کے مستحق ہیں، اور اس پر اللہ کا شکرنہ کرتے، اور جب ان پر بدحالی خشک سالی اور مصیبت کا زمانہ آتا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں پر نحوست کا الزام دھرتے (حالانکہ) حقیقت یہ ہے کہ ان کی نحوست اللہ کے پاس ہے اسی کی طرف سے آتی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ جو کچھ آتا ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے آتا ہے، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تم ہم کو مسحور کرنے کے لئے کیسی بھی نشانی لاؤ ہم آپ کی بات کا یقین کرنے والے نہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کیلئے بددعاء کردی، تو ہم نے ان پر طوفان بھیجا، اور وہ اس قدر پانی تھا کہ ان کے گھروں میں داخل ہوگیا اور بیٹھے ہوئے لوگوں کے گلے تک پہنچ گیا، اور یہ صورت حال سات دنوں تک رہی، اور ٹڈیاں بھیجیں جو ان کی کھیتیوں اور پھلوں کو کھا گئیں، اور سر سریاں بھیجیں یا مراد چچڑی کی کوئی قسم ہے، مطلب یہ کہ ٹڈیوں سے جو کچھ بچا وہ سُرسُریوں نے صاف کردیا، اور مینڈک بھیجے جو ان کے گھروں اور کھانوں میں بھرگئے، اور ان کے پانیوں میں خون کی آمیزش کردی (یہ سب) کھلے کھلے معجزے تھے، ان معجزوں پر ایمان لانے سے اعراض کیا اور یہ تھے ہی مجرم لوگ، اور جب ان پر بلا نازل ہوتی تو کہتے اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ ہمارے لئے اپنے رب سے اس عہد کے ذریعہ کہ جس کا اس نے آپ سے عہد کیا ہے کہ اگر ہم ایمان لے آئیں تو ہم سے بلاء کو ہٹا دے گا دعاء کیجئے لئن میں لام قسم کیلئے ہے، اگر آپ ہم سے اس بلا کو ٹال دیں گے تو ہم آپ پر ضروری ایمان لے آئیں گے اور ضرور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے اور جب ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء سے ایک محدود وقت جس تک ان کو بہرحال وہ عذاب پہنچنا تھا پہنچنے کے بعد ہٹا دیتے تو فوراً ہی اپنے عہد کو توڑ دیتے اور اپنے کفر پر مصر رہتے، پھر ہم نے ان سے انتقام لیا تو ہم نے ان کو دریائے شور میں غرق کردیا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے غفلت برتتے تھے، یعنی ان میں غور و فکر نہیں کرتے تھے، اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جن کو کمزور بنا کر رکھا تھا یعنی غلام بنا رکھا تھا اور وہ بنی اسرائیل تھے اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جسے ہم نے پانی اور درختوں کے ذریعہ برکتوں سے مالا مال کر رکھا تھا، (الَّتِیْ بارَکْنَا فیہھا) ارض کی صفت ہے اور وہ ملک شام ہے، اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر ان کے دشمن کی ایذاء رسانی پر صبر کی بدولت پورا ہوگیا، اور وہ وعدہ اللہ تعالیٰ کا قول، وَنُریدُ أن نمنَّ علی الذین استضعفوا الخ ہے، فرعون اور اس کی قوم جو بلند وبالا عمارتیں بناتی تھی اس کو ہم نے برباد کردیا، (یعرشون) راء کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ، اونچی عمارتیں بنایا، اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لپٹے پڑے تھے (یعکفون) کاف کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ، یعنی ان کی عبادت پر قائم تھے، کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود (یعنی) بت بنا دے جس کی ہم بندگی کریں جیسے ان لوگوں کے ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم لوگ بڑی جہالت کی بات کرتے ہو اس لئے کہ تم اپنے اوپر نعمتوں کے صلہ میں ایسی باتیں کرتے ہو، یہ لوگ جس اکم میں لگے ہوئے ہیں وہ یقیناً تباہ کیا جائے گا، اور جو کچھ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں اللہ کے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کر دوں (اَبغیکم) کی اصل ابغی لکم تھی، حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں اپنے زمانہ کی قوموں پر فضیلت دے رکھی ہے جس (فضیلت) کو اپنے قول وَاِذ نجینٰکم میں ذکر کیا ہے، اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو کہ جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات دی اور ایک قراءت میں انجٰکم ہے، جو تم کو تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے تھا اور تم کو بدترین عذاب (کا مزا) چکھا رہا تھا اور وہ یہ تھا کہ تمہارے بیٹوں کو قتل کر رہا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ رہا تھا اور اس نجات یا عذاب میں تمہارے رب کی جانب سے ابتلاء انعام عظیم ہے یا ابتلاء ہے کہ تم نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ان باتوں سے باز آجاؤ جو تم نے کہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سِنین، سَنَۃٌ کی جمع ہے سال، قحط، خشک سالی۔
قولہ : نَسْتحقُّھَا، ہم اس کے مستحق ہیں اس میں اشارہ ہے کہ لَنَا ھذہٖ میں لام استحقاق کا ہے۔
قولہ : مَھْمَا، اصل ماما، مکرر تھا پہلا ماشرطیہ دوسرا ما تاکید کیلئے ہے ثقل کو ختم کرنے کیلئے پہلے کے الف کو ھاء سے بدل دیا مَھْما ہوگیا۔
قولہ : یَتَشَائَمُوْنَ ، یَطَّیَّرُ ، کی تفسیر یتشاء مون سے کرکے اشارہ کردیا کہ یتطیرُ ، طیران سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ تطَیُّرُ ، سے ماخوذ ہے، اس کے دو معنی آتے ہیں نصیب خواہ خیر یو یا شر، یعنی خوش نصیبی اور بدنصیبی دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے دوسرے معنی تشاؤمٌ، کے ہیں اس کے معنی نحوست کے ہیں مفسر علام نے یَطَّیَّرُ کی تفسیر تشاؤم سے کرکے معنی کی تعیین کردی۔
قولہ : ھُمْ بَالِغُوْہٗ الخ ای الی نھایۃ من الزمان۔ قولہ : اِذاھم یہ لَمَّا کا جواب ہے۔
قولہ : عَبَرنا، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جَاوَزَ کا صلہ باء نہیں آتا اسلئے کہ جاوز متعدی بنفسہ ہے حالانکہ یہاں باء صلہ ہے۔
جواب : جواب یہ ہے کہ جَاوَزَ ، عَبَرَ کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا اس کا صلہ باء لانا درست ہوگیا۔
قولہ : ھو، ھُو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ نقتّلون جملہ مستانفہ ہے ماقبل پر اس کا عطف نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
ولقد اخذنا۔۔۔ بالسنین، یہ گرفت اس وقت ہوئی جب فرعون اور فرعونی حکومت کی طرف سے اسرائیلیوں کی مخالف اور سختی ان پر بڑھتی ہی چلی گئی، تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قحط سات سال تک مسلسل رہا، آیت میں دو لفظ آئے ہیں سنین اور نقص ثمرات حضرت عبد اللہ بن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ خشک سالی کے عذاب کا تعلق تو دیہات والوں کے لئے تھا اور پھلوں کی کمی شہر والوں کے لئے تھی، کیونکہ عموماً غلہ دیہات میں اور باغات شہر میں ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ کھیت باقی رہے اور نہ باغات، عذاب کے اس ابتدائی جھٹکے سے بھی ان کو کوئی تنبیہ نہیں ہوئی، بلکہ اس موجودہ مصیبت اور ہر مصیبت کے بارے میں کہنے لگے یہ نحوست موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے ہے اور جب خوشحالی اور آرام و راحت کے دن آتے تو کہنے لگتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے ہمیں ملنا ہی چاہیے تھا۔ طائر، لغت میں پرندہ کو کہتے ہیں عرب میں پرندوں کے دائیں یا بائیں جانب اترنے یا گزرنے سے اچھی یا بری فال لیتے تھے اسلئے مطلق فال کو بھی طائر کہنے لگے، مطلب یہ ہے کہ فال اچھی یا بری سب اللہ کی طرف سے ہے، اس عالم میں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ سب اللہ کی قدرت و مشیت سے ہوتا ہے، اس میں نہ کسی کی نحوست کا دخل ہے اور نہ برکت کا، یہ سب جاہلوں کی خام خیالیاں ہیں۔ بالآخر فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزوں کو سحر کہہ کر نظر انداز کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ آپ کتنی ہی علامتیں اپنی نبوت کی پیش کرکے ہم پر اپنا جادو چلانا چاہیں تو سن لیجئے ہم کبھی آپ پر ایمان لانے والے نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آخری مدت میں آل فرعون کے ساتھ جو معاملہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا حال بیان فرماتا ہے کہ قوموں کے بارے میں اس کی سنت اور عادت یہ ہے کہ وہ سختیوں اور تکلیفوں کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے شاید کہ وہ اس کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں﴿ وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ ﴾” ہم نے ان پر خشک سالی اور قحط کو مسلط کردیا۔“ ﴿ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾” اور رمیووں کے نقصان میں پکڑا تا کہ نصیحت حاصل کریں۔“ یعنی ان پر جو قحط سالی مسلط کی گئی اور جو مصیبت نازل کی گئی شاید وہ اس سے نصیحت پکڑیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے، شاید وہ اپنے کفر سے رجوع کریں۔ مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور وہ اپنے ظلم اور فساد پر بدسوتر جمے رہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney firon kay logon ko qehat saali aur pedawaar ki kami mein mubtala kiya , takay unn ko tanbeeh ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
اعمال کا خمیازہ
اب آل فرعون پر بھی سختی کے مواقع آئے تاکہ ان کی آنکھیں کھلیں اور اللہ کے دین کی طرف جھکیں، کھیتیاں کم آئیں، قحط سالیاں پڑگئیں، درختوں میں پھل کم لگے یہاں تک کہ ایک درخت میں ایک ہی کھجور لگی یہ صرف بطور آزمائش تھا کہ وہ اب بھی ٹھیک ٹھاک ہوجائیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو راستی سے دشمنی ہوگئی شادابی اور فراخی دیکھ کر تو اکڑ کر کہتے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور خشک سالی اور تنگی دیکھ کر آواز لگاتے کہ یہ موسیٰ اور مومنوں کی وجہ سے ہے۔ جب کہ مصیبتیں اور راحتیں اللہ کی جانب سے ہیں لیکن بےعملی کی باتیں بناتے رہے ان کی بد شگونی ان کے بد اعمال تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر مصیبتیں لاتے تھے۔