الاعراف آية ۴۸
وَنَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰٮهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
طاہر القادری:
اور اہلِ اعراف (ان دوزخی) مردوں کو پکاریں گے جنہیں وہ ان کی نشانیوں سے پہچان رہے ہوں گے (ان سے) کہیں گے: تمہاری جماعتیں تمہارے کام نہ آسکیں اور نہ (وہ) تکبّر (تمہیں بچا سکا) جو تم کیا کرتے تھے،
English Sahih:
And the companions of the Elevations will call to men [within Hell] whom they recognize by their mark, saying, "Of no avail to you was your gathering and [the fact] that you were arrogant."
1 Abul A'ala Maududi
پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ "دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور اعراف والے کچھ مردوں کو پکاریں گے جنہیں ان کی پیشانی سے پہچانتے ہیں کہیں گے تمہیں کیا کام آیا تمہارا جتھا اور وہ جو تم غرور کرتے تھے
3 Ahmed Ali
اور اعراف والے پکاریں گے جنہیں وہ ان کی نشانی سے پہچانتے ہوں گے کہیں گے تمہاری جماعت تمہارے کسی کام نہ آئی اور نہ وہ جو تم تکبر کیا کرتے تھے
4 Ahsanul Bayan
اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے پکاریں گے کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا (١)۔
٤٨۔١ یہ اہل دوزخ ہونگے جن کو اصحاب الاعراف ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے اور وہ اپنے جتھے اور دوسری چیزوں پر جو گھمنڈ کرتے تھے اس کے حال سے انہیں یاد دلائیں گے کہ یہ چیزیں تمہارے کچھ کام نہ آئیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صورتوں سے شناخت کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا)
6 Muhammad Junagarhi
اور اہل اعراف بہت سے آدمیوں کو جن کو کہ ان کے قیافہ سے پہچانیں گے پکاریں گے کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور پھر اعراف والے لوگ (دوزخ والے چند آدمیوں کو) آواز دیں گے جنہیں وہ علامتوں سے پہچانتے ہوں گے۔ کہ آج تمہاری جمعیت اور تمہارا غرور و پندار کچھ کام نہ آیا اور تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اعراف والے ان لوگوں کو جنہیں وہ نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے آواز دیں گے کہ آج نہ تمہاری جماعت کام آئی اور نہ تمہارا غرور کام آیا
9 Tafsir Jalalayn
اور اہل اعراف اہل جھنم میں سے جن کی صورت سے پہچانیں گے پکاریں گیں اور کہیں گے کہ آج کے دن نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کوئی کام آئی اور نہ تمہارا تکبر ہی سودمند ہوا
آیت نمبر ٤٨ تا ٥٣
ترجمہ : اور اہل اعراف جہنمیوں میں سے بڑے بڑے لوگوں سے جن کو وہ ان کی علامتوں سے پہچانتے ہوں گے پکار کر کہیں گے (سوال کریں گے) کہ تمہارا مال کو جمع کرنا یا تمہاری اکثریت اور تمہارا ایمان سے تکبر کرنا آگ سے بچانے میں کیا کام آیا ؟ اور (اہل اعراف) ضعفاء مسلمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوزخیوں سے کہیں گے، کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم نے قسم کھا کر کہا تھا کہ ان کو خدا کی رحمت کا کچھ بھی حصہ نہ ملے گا ؟ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ اس حال میں کہ تمہارے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم اُدْخِلُوا، مجہول کے صیغہ کے ساتھ اور دَخَلوا (ماضی معروف) کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور (دونوں) منفیہ جملہ مقولاً کی تقدیر کے ساتھ حال ہیں، حال یہ ہے کہ یہ بات ان سے کہہ دی گئی، اور دوزخی جنتیوں سے پکار کر کہیں گے کچھ تھوڑے پانی سے ہمارے اوپر بھی کرم کردو یا جو رزق کھانے کیلئے اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہماری طرف بھی ڈال دو تو وہ جواب دیں گے یہ دونوں چیزیں اللہ نے کافروں کیلئے حرام (ممنوع) کردی ہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا تو آج ہم بھی انھیں بھلا دیں گے (یعنی) ہم ان کو دوزخ میں داخل کر کے چھوڑ دیں گے، جیسا کہ انہوں نے ملاقات کیلئے عمل کو ترک کرکے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا، اور جیسا کہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے، یعنی جیسا کہ انہوں نے انکار کیا، اور ہم نے اہل مکہ کے پاس ایسی کتاب (یعنی) قرآن پہنچا دیا کہ جس میں اخبار اور وعدوں اور وعیدوں کو ہم نے کھول کھول کر بیان کیا حال یہ ہے کہ جو اس میں کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے ہم اس کے جاننے والے ہیں حال یہ کہ وہ کتاب ہدایت ہے، ھدًی فصّلنٰہٗ کی ضمیر مفعولی سے حال ہے، اور وہ اس (قرآن) پر ایمان لانیوالوں کیلئے رحمت ہے، ان لوگوں کو کسی چیز کا انتظار نہیں صرف قرآن میں بیان کردہ کے انجام کا انتظار ہے، جس دن اس کا آخری نتیجہ آجائیگا وہ قیامت کا دن ہوگا، جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یعنی اس پر ایمان کو ترک کئے ہوئے تھے اس روز یوں کہیں گے واقعی ہمارے رب کے رسول سچی باتیں لائے تھے، سو اب کیا ہمارا کوئی سفارشی ہے کہ جو ہماری سفارش کر دے، یا کیا ہم پھر دنیا میں واپس بھیجے جاسکتے ہیں تاکہ ہم ان اعمال کے برخلاف جنہیں ہم کیا کرتے تھے، دوسرے (نیک) اعمال کریں (یعنی) اللہ کی توحید کے قائل ہوجائیں اور شرک کو ترک کردیں، تو ان سے کہا جائیگا، نہیں، بیشک ان لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال لیا جبکہ وہ ہلاکت کی طرف چلے دعوائے شرک کی جو باتیں ان لوگوں نے تصنیف کر رکھی تھیں ان سے غائب ہوگئیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : رِجَالاً مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ ، ای الذین کانوا عظماء فی الدنیا فینادونھم، یا ابا جھل بن ہشام ویا ولید بن مغیرۃ ویا فلان ویافلان وھم فی النار، اصحاب عراف ان لوگوں کا نام بنام پکار کر کہیں گے کہ تم دنیا میں رؤساء قوم کہلاتے تھے تمہاری جمعیتیں اور مال و دولت اور وہ جاہ و حشمت کیا ہوئے ؟ جن پر تم کو بڑا فخر و غرور تھا، آج ان میں سے تمہارے کچھ بھی کام نہیں آیا۔
قولہ : اغنیٰ عنکم، ما استفہام توبیخی ہے ای ایُّ شئ اغنٰی، اور ما نافیہ بھی ہوسکتا ہے، یعنی ان میں سے تمہارے کچھ کام نہیں آتا۔
قولہ : استکبارًا، اس میں اشارہ ہے کہ ’ ما کنتم ‘ میں ما مصدریہ ہے لہٰذا عدم عائد کا شبہ ختم ہوگیا اور بعض حضرات نے استکباراً کا مطلب بڑا سمجھنا، لیا ہے اور بعض نے اعراض کرنا علامہ سیوطی نے دوسرے معنی مراد لئے ہیں۔
قولہ : یَقُوْلُوْنَ لھم، اس سے اشارہ کردیا کہ اٰھؤلاء الذین الخ یہ بھی اہل اعراف کا مقولہ ہے۔
قولہ : بِالْبِنَاءِ لِلْمَفْعُوْلِ ، یعنی باب افعال سے ماضی مجہول اور دخلوا (ن) سے ماضی معروف ہے یہ دونوں قراءتیں شاذ ہیں جس کی طرف قُرِئ کہہ کر اشارہ کردیا ہے، ان دونوں قراءتوں کی صحت میں قول کی تقدیر کی ضرورت نہیں ہے، اسلئے کہ بغیر تاویل کے خبر واقع ہوجائیگا۔ (فیہ مافیہ)
قولہ : مَنَعھما، حَرَّمَھُمَا، کی تفسیر مَنَعھما سے کرکے اشارہ کردیا کہ حرّم بمعنی مَنَعَ ہے اسلئے کہ حرام و حلال کا محل دنیا ہے نہ کہ آخرت
قولہ : نَتْرُکُھْم اس میں اشارہ ہے کہ نسیان سے اس کے لازم معنی یعنی ترک مراد ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے نسیان محال ہے۔
قولہ : ای وکما جَحَدوا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : وما کانوا بِایٰتِنَا یجحدون، کا عطف کما نَسُوْا لِقاء، پر درست نہیں ہے اسلئے کہ معطوف علیہ ماضی اور معطوف مضارع ہے۔
جواب : مضارع پر جب کان داخل ہوجاتا ہے تو ماضی بن جاتا ہے، لہٰذا عطف درست ہے۔
قولہ : عَاقِبَۃَ مَا فِیہ، فیہ کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اب ان کو صرف قرآن میں مذکور وعدوں اور وعیدوں کے انجام کی صداقت ہی کا انتظار ہے۔
تفسیر و تشریح
نادی اصحب۔۔۔ رجالاً ، اہل اعراف اہل نار میں سے بڑے بڑے لوگوں کو جن کو وہ ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے کہیں گے، دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے کچھ کام آئے اور نہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے، اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا، آج انہی سے کہا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ، پھر اہل اعراف سے کہا جائیگا، تم بھی جنت میں داخل ہوجاؤ تم کو کچھ خوف و غم نہیں حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کافروں سے فرمائیگا کہ جن غریبوں کو تم دنیا میں محروم بتاتے تھے لو اب یہی لوگ جنت میں پہنچ گئے۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے بحوالہ مسلم، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے بڑے بڑے نافرمان مالدار لوگ قیامت کے دن جب دوزخ میں ڈالے جاویں گے تو دوزخ میں پڑتے ہی فرشتے ان سے پوچھیں گے کہ دنیا کی جس مالداری نے تم کو آخرت سے غافل رکھا دوزخ کے عذاب کے مقابلہ میں تم کو دنیا کی وہ مالداری کچھ یاد ہے تو وہ لوگ قسم کھا کر کہیں گے کہ اس عذاب کے مقابلہ میں ہمیں دنیا کی وہ مالداری ذرا بھی یاد نہیں اسی طرح اہل جنت کو جنت کی نعمتوں کے آگت دنیا کی تنگدستی کچھ یاد نہ آئے گی۔
10 Tafsir as-Saadi
عمومی ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے خصوصی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُم بِسِيمَاهُمْ﴾’’اور اعراف والے پکاریں گے ان لوگوں کو کہ ان کو پہچانتے ہوں گے ان کی نشانی سے۔“ اور وہ اہل جہنم ہوں گے، وہ دنیا میں شرف و آبرو اور مال و اولاد والے تھے۔۔۔ ان کو اکیلے عذاب میں مبتلا دیکھ کر کہ اب ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں۔۔۔ کہیں گے : ﴿ مَا أَغْنَىٰ عَنكُمْ جَمْعُكُمْ﴾ ” آج تمہاری جماعت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔“ یہاں تمہارے وہ جتھے کام نہ آئے جن کی مدد سے دنیا میں اپنی تکالیف دور کیا کرتے تھے۔ دنیاوی مطالب کے حصول کے لئے ان کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ آج ہر چیز مضمحل ہوگئی اور کچھ بھی تمہارے کام نہ آیا اور اسی طرح حق، حق لانے والے اور حق کی اتباع کرنے والوں کے مقابلے میں تمہارے تکبر نے تمہیں کیا فائدہ دیا؟ پھر وہ اہل جنت کی طرف، جو دنیا میں کمزور و ناتواں اور محتاج ہوا کرتے تھے۔۔۔ اشارہ کر کے اہل جہنم سے کہیں گے
11 Mufti Taqi Usmani
aur aeraaf walay unn logon ko aawaz den gay jinn ko woh unn ki alamaton say pehchantay hon gay . kahen gay kay : naa tumhari jama poonji tumharay kuch kaam aai , aur naa woh jinhen tum bara samjhay bethay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفر کے ستون اور ان کا حشر
کفر کے جن ستونوں کو، کافروں کے جن سرداروں کو اعراف والے ان کے چہروں سے پہچان لیں گے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر کے پوچھیں گے کہ آج تمہاری کثرت جمعیت کہاں گئی ؟ اس نے تو تمہیں مطلقاً فائدہ نہ پہنچایا۔ آج وہ تمہاری اکڑفوں کیا ہوئی تم تو بری طرح عذابوں میں جکڑ دیئے گئے۔ ان کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں فرمایا جائے گا کہ بد بختو انہی کی نسبت تم کہا کرتے تھے کہ اللہ انہیں کوئی راحت نہیں دے گا۔ اے اعراف والو میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جاؤ بہ آرام بےکھٹکے جنت میں جاؤ۔ حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ اعراف والوں کے اعمال صالحہ اس قابل نہ نکلے کہ انہیں جنت میں پہنچائیں لیکن اتنی برائیاں بھی ان کی نہ تھیں کہ دوزخ میں جائیں تو یہ اعراف پر ہی روک دیئے گئے، لوگوں کو ان کے اندازے سے پہچانتے ہوں گے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کرچکے گا شفاعت کی اجازت دے گا لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں ہماری شفاعت اللہ تعالیٰ کی جانب میں کیجئے۔ آپ جواب دیں گے کہ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہوا، اپنی روح اس میں پھونکی ہو، اپنی رحمت اس پر اپنے غضب سے پہلے پہنچائی ہو، اپنے فرشتوں سے اسے سجدہ کرایا ہو ؟ سب جواب دیں گے کہ نہیں ایسا کوئی آپ کے سوا نہیں۔ آپ فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بیخبر ہوں میں تمہاری شفاعت نہیں کرسکتا ہوں تم میرے لڑکے ابراہیم کے پاس جاؤ۔ اب سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچیں گے اور ان سے شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے۔ آپ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا اور کوئی خلیل اللہ ہوا ہو ؟ یا اللہ کے بارے میں اس کی قوم نے آگ میں پھینکا ہو ؟ سب کہیں گے نہیں آپ کے سوا اور کوئی نہیں، فرمائیں گے مجھے اس کی حقیقت معلوم نہیں میں تمہاری درخواست شفاعت نہیں لے جاسکتا تم میرے لڑکے موسیٰ کے پاس جاؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جواب دیں گے کہ بتاؤ میرے سوا اللہ نے کسی کو اپنا کلیم بنایا، اپنی سرگوشیوں کے لئے نزدیکی عطا فرمائی ؟ جواب دیں گے کہ نہیں۔ فرمائیں گے میں اس کی حقیقت سے بیخبر ہوں میں تمہاری سفارش کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ہاں تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے ان سے شفاعت طلبی کا تقاضا کریں گے یہ جواب دیں گے کہ کیا تم جانتے ہو کہ میرے سوا کسی کو اللہ نے بغیر باپ کے پیدا کیا ہو ؟ جواب ملے گا کہ نہیں۔ پوچھیں گے جانتے ہو کہ کوئی مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم الہی میرے سوا اچھا کرتا ہو یا کوئی مردہ کو بحکم الہی زندہ کردیتا ہو ؟ کہیں گے کہ کوئی نہیں۔ فرمائیں گے کہ میں تو آج اپنے نفس کے بچاؤ میں ہوں، میں اس کی حقیقت سے بیخبر ہوں۔ مجھ میں اتنی طاقت کہاں کہ تمہاری سفارش کرسکوں، ہاں تم سب کے سب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ چناچہ سب لوگ میرے پاس آئیں گے میں اپنا سینہ ٹھونک کر کہوں گا کہ ہاں ہاں میں اسی لئے موجود ہوں، پھر میں چل کر اللہ کے عرش کے سامنے ٹھہر جاؤں گا۔ اپنے رب عزوجل کے پاس پہنچ جاؤں گا اور ایسی ایسی اس کی تعریفیں بیان کروں گا کہ کسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہوں۔ پھر سجدے میں گر پڑوں گا پھر مجھ سے فرمایا جائے گا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر اٹھاؤ۔ مانگو دیا جائے گا۔ شفاعت کرو، قبول کی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر کہوں گا میرے رب میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ سب تیری ہی ہے۔ پھر تو ہر ہر پیغمبر اور ہر ایک فرشتہ رشک کرنے لگے گا۔ یہی مقام مقام محمود ہے۔ پھر میں ان سب کو لے کر جنت کی طرف آؤں گا۔ جنت کا دروازہ کھلواؤں گا اور وہ میرے لئے اور ان کیلئے کھول دیا جائے گا پھر انہیں ایک نہر کی طرف لے جائیں گے جس کا نام نہر الحیوان ہے اس کے دونوں کناروں پر سونے کے محل ہیں جو یاقوت سے جڑاؤ کئے گئے ہیں اس میں غسل کریں گے جس سے جنتی رنگ اور جنتی خوشبو ان میں پیدا ہوجائے گی اور چمکتے ہوئے ستاروں جیسے وہ نورانی ہوجائیں گے ہاں ان کے سینوں پر سفید نشان باقی رہ جائیں گے جس سے وہ پہچانے جائیں گے انہیں مساکین اہل جنت کہا جائے گا۔