المعارج آية ۳۶
فَمَالِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا قِبَلَكَ مُهْطِعِيْنَۙ
طاہر القادری:
تو کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں،
English Sahih:
So what is [the matter] with those who disbelieve, hastening [from] before you, [O Muhammad],
1 Abul A'ala Maududi
پس اے نبیؐ، کیا بات ہے کہ یہ منکرین دائیں اور بائیں سے،
2 Ahmed Raza Khan
تو ان کافروں کو کیا ہوا تمہاری طرف تیز نگاہ سے دیکھتے ہیں
3 Ahmed Ali
پس کافروں کو کیا ہوگیا کہ آپ کی طرف دوڑے آ رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
پس کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
پس کافروں کو کیاہو گیا ہے کہ وه تیری طرف دوڑتے آتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے نبی(ص)) ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ٹکٹکی باندھے آپ(ص) کی طرف دو ڑے چلے آرہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
تو ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں
ترجمہ : کافروں کو کیا ہوا کہ تمہاری طرف دائیں اور بائیں طرف سے گھورتے ہوئے جماعتیں بن بن کر چلے آرہے ہیں، مھطعین، کفروا سے حال ہے عزین بھی کفروا سے حال ہے، یعنی جماعت اور حلقے بنا بنا کر مومنین سے استہزاء کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر یہ جنت میں داخل ہوں گے تو ہم یقینا ان سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، کیا ان میں کا ہر شخص اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ نعمتوں کی جنت میں داخل کرلیا جائے گا ؟ یہ ہرگز نہ ہوگا یہ ان کی دخول جنت کی تردید ہے ہم نے ان کو دوسروں کے مانند اس چیز سے پیدا کیا ہے جو ان کو معلوم ہے یعنی نطفوں سے، لہٰذا اس بنا پر جنت کی طمع نہیں کرسکتے ہاں البتہ جنت کی طمع تقوے کی بنا پر کرسکتے ہیں، پھر میں قسم کھاتا ہوں لا زائدہ شمس و قمر اور تمام ستاروں کے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی ہم اس پر قادر ہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں، اور ہم اس کام سے عاجز نہیں ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اسی شغل باطل اور دنیا کی تفریح میں رہنے دیجئے، یہاں تک کہ ان کو ان کے اس دن سے سابقہ پڑے کہ جس دن میں ان سے عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے جس دن یہ قبروں سے نکل کر محشر کی جانب دوڑیں گے جیسے کسی پرستش گاہ کی طرف دوڑے جاتے ہوں اور ایک قرأت میں دونوں حرفوں کے ضمہ کے ساتھ ہے، وہ شئی جس کو نصب کیا گیا ہو جیسا کہ علم یا پرچم ان کی آنکھیں نیچے کو جھکی ہوں گی (اور) ان پر ذلت چھائی ہوگی یہ ہے ان کا وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا (ذلک) مبتداء ہے اور اس کا مابعد خبر ہے، اور مراد اس سے قیامت کا دن ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فمال الذی کفروا لام جارہ، مصحف امام کے رسم الخط کی اتباع میں الگ لکھا گیا ہے، ما مبتداء ہے اور الذین کفروا اس کی خبر ہے ای فای شیء حملھم علی نظرھم الیک۔
قولہ : مھطعین ای مسرعین، اھطاع سے اسم فاعل جمع مذکر، سر جھکائے نظر جمائے تیزی سے دوڑنے والے۔
قولہ : عزین یہ عزۃ کی جمع ہے اور عزۃ بمعنی جماعت ہے۔
قولہ : انا لقادرون یہ مقسم علیہ ہے۔
قولہ : وما نحن بمسبوقین یہ مقسم علیہ کا جز ہے۔
قولہ : یلقوا، یلاقوا کی تفسیر یلقوا سے کر کے اشارہ کردیا کہ باب مفاعلہ اپنی اصل پر نہیں ہے۔
قولہ : یوم یخرجون یہ یومھم الذی سے بدل البعض ہے۔
قولہ : ذلک الیوم مبتداء اور الذین الخ خبر ہے۔
تفسیر و تشریح
فمال الذی کفروا قبلک مھطعین یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے کافروں کا ذکر ہے کہ وہ آپ کی مجلس میں دوڑے دوڑے آتے، لیکن آپ کی باتیں سن کر عمل کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑاتے اور ٹولیوں میں بٹ جاتے اور دعویٰ یہ کرتے کہ اگر مسلمان جنت میں گئے تو ہم ان سے پہلے جنت میں جائیں گے اللہ نے اگلی آیت میں ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی ہے، یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ مومن اور کافر دونوں جنت میں جائیں، رسول کو ماننے والے اور نہ ماننے والے تصدیق کرنے والے، اور تصدیق نہ کرنے والے دونوں برابر ہوجائیں، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا، مطلب یہ ہے کہ خدا کی جنت تو ان لوگوں کے لئے ہے جن کی صفات ابھی بیان کی گئی ہیں، اب کیا یہ لوگ جو حق بات سننا تک گوارا نہیں کرتے اور حق کی آواز کو دبا دینے کے لئے دوڑے چلے آرہے ہیں، کیا ایسے لوگ جنت کے امیدوار ہوسکتے ہیں ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ کفار کی فریب خوردگی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ﴾” پس ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔“ یعنی بڑی سرعت سے ﴿عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ﴾ ” دائیں بائیں سے گروہ گروہ ہو کر“ یعنی متفرق گروہوں اور مختلف جماعتوں میں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر خوش ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tu ( aey payghumber ! ) inn kafiron ko kiya hogaya kay yeh tumhari taraf charrhay chalay aarahey hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
مرکز نور و ہدایت سے مفرور انسان
اللہ تعالیٰ عزوجل ان کافروں پر انکار کر رہا ہے جوحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک زمانہ میں تھے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ دیکھ رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ہدایت لے کر آئے وہ ان کے سامنے تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھلے معجزے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے پھر باوجود ان تمام باتوں کے وہ بھاگ رہے تھے اور ٹولیاں ٹولیاں ہو کر دائیں بائیں کترا جاتے تھے، جیسے اور جگہ آیت ( فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ 49ۙ ) 74 ۔ المدثر :49) ، یہ نصیحت سے منہ پھیر کر ان گدھوں کی طرح جو شیر سے بھاگ رہے ہوں کیوں بھاگ رہے ہیں ؟ یہاں بھی اسی طرح فرما رہا ہے کہ ان کفار کو کیا ہوگیا ہے یہ نفرت کر کے کیوں تیرے پاس سے بھاگے جا رہے ہیں ؟ کیونکہ دائیں بائیں سرکتے جاتے ہیں ؟ اور کیا وجہ ہے کہ متفرق طور پر اختلاف کے ساتھ ادھر ادھر ہو رہے ہیں، حضرت امام احمد بن حنبل (رح) نے خواہش نفس پر عمل کرنے والوں کے حق میں یہی فرمایا ہے کہ وہ کتاب اللہ کے مخالف ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں کتاب اللہ کی مخالفت میں سب متفقہ ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس سے بروایت عوفی مروی ہے کہ وہ ٹولیاں ہو کر بےپرواہی کے ساتھ تیرے دائیں بائیں ہو کر تجھے مذاق سے گھورتے ہیں، حضرت حسن فرماتے ہیں یعنی دائیں بائیں الگ ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے کیا کہا ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں دائیں بائیں ٹولیاں ٹولیاں ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اردگرد پھرتے رہتے ہیں نہ کتاب اللہ کی چاہت ہے نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رغبت ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے پاس آئے اور وہ متفرق طور پر حلقے حلقے تھے تو فرمایا میں تمہیں الگ الگ جماعتوں کی صورتوں میں کیسے دیکھ رہا ہوں ؟ (احمد) ابن جریر میں اور سند سے بھی مروی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ان کی چاہت ہے کہ جنت نعیم میں داخل کئے جائیں ؟ ایسا نہ ہوگا یعنی جب ان کی یہ حالت ہے کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دائیں بائیں کترا جاتے ہیں پھر ان کی یہ چاہت پوری نہیں ہوسکتی بلکہ یہ جہنمی گروہ ہے، اب جس چیز کو یہ محال جانتے تھے اس کا بہترین ثبوت ان ہی کی معلومات اور اقرار سے بیان ہو رہا ہے کہ جس نے تمہیں ضعیف پائی سے پیدا کیا ہے جیسے کہ خود تمہیں بھی معلوم ہے پھر کیا وہ تمہیں دوبارہ نہیں پیدا کرسکتا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20ۙ ) 77 ۔ المرسلات :20) کیا ہم نے تمہیں ناقدرے پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ فرمان ہے آیت ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۭ ) 86 ۔ الطارق :5) ، انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور چھاتی کے درمیان سے نکلتا ہے، یقینا وہ اللہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے جس دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی اور کوئی طاقت نہ ہوگی نہ مددگار، پس یہاں بھی فرماتا ہے مجھے قسم ہے اس کی جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور مشرق و مغرب متعین کی اور ستاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی جگہیں مقرر کردیں، مطلب یہ ہے کہ اے کافرو ! جیسا تمہارا گمان ہے ویسا معاملہ نہیں کہ نہ حساب کتاب ہو نہ حشر نشر ہو بلکہ یہ سب یقینا ہونے والی چیزیں ہیں۔ اسی لئے قسم سے پہلے ان کے باطل خیال کی تکذیب کی اور اسے اس طرح ثابت کیا کہ اپنی قدرت کاملہ کے مختلف نمونے ان کے سامنے پیش کئے، مثلاً آسمان و زمین کی ابتدائی پیدائش اور حیوانات، جمادات اور مختلف قسم کی مخلوق کی موجودگی جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57) 40 ۔ غافر :57) یعنی آسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب بڑی بڑی چیزوں کو پیدا کرنے پر اللہ قادر ہے تو چھوٹی چیزوں کی پیدائش پر کیوں قادر نہ ہوگا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33) 46 ۔ الأحقاف :33) یعنی کیا یہ نہیں دیکھتے کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش میں نہ تھکا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک وہ قادر ہے اور ایک اس پر کیا ہر ایک چیز پر اسے قدرت حاصل ہے، اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81) 36 ۔ يس :81) ، یعنی کیا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ ہاں ہے اور وہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے، وہ جس چیز کا ارداہ کرے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا وہ اسی وقت ہوجاتی ہے، یہاں ارشاد ہو رہا ہے کہ مشرق اور مغرب کے پروردگار کی قسم ہم ان کے ان جسموں کو جیسے یہ آپ ہیں اس سے بھی بہتر صورت میں بدل ڈالنے پر پورے پورے قادر ہیں کوئی چیز کوئی شخص اور کوئی کام ہمیں عاجز اور درماندہ نہیں کرسکتا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ ۭ ) 75 ۔ القیامة :3) ، کیا کسی شخص کا یہ گمان ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کرسکیں گے ؟ غلط گمان ہے بلکہ ہم تو اس کی پور پور جمع کر کے ٹھیک ٹھاک بنادیں گے اور فرما آیت ( نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِيْنَ 60 ۙ ) 56 ۔ الواقعة :60) ، ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کردی ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تم جیسوں کو بدل ڈالیں اور تمہیں اس نئی پیدائش میں پیدا کریں جسے تم جانتے بھی نہیں، پس ایک مطلب تو آیت مندرجہ بالا کا یہ ہے، دوسرا مطلب امام ابن جریر نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ہم قادر ہیں اس امر پر کہ تمہارے بدلے ایسے لوگ پیدا کردیں جو ہمارے مطیع و فرمانبردار ہوں اور ہماری نافرمانیوں سے رکے رہنے والے ہوں، جیسے اور جگہ فرمان ہے آیت (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا 16) 48 ۔ الفتح :16) یعنی اگر تم نے منہ موڑا تو اللہ تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہوگی، لیکن پہلا مطلب دوسری آیتوں کی صاف دلالت کی وجہ سے زیادہ ظاہر ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ان کے جھٹلانے، کفر کرنے، سرکشی میں بڑھنے ہی میں چھوڑ دو جس کا وبال ان پر اس دن آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہوچکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا اور یہ میدان محشر کی طرف جہاں انہیں حساب کے لئے کھڑا کیا جائے گا اس طرح لپکتے ہوئے جائیں گے جس طرح دنیا میں کسی بت یا علم، تھان اور چلے کو چھونے اور ڈنڈوت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے جاتے ہیں، مارے شرم و ندامت کے نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی اور چہروں پر پھٹکار برس رہی ہوگی، یہ ہے دنیا میں اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے کا نتیجہ ! اور یہ ہے وہ دن جس کے ہونے کو آج محال جانتے ہیں اور ہنسی مذاق میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، شریعت اور کلام الٰہی کی حقارت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیامت کیوں قائم نہیں ہوتی ؟ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ الحمد اللہ سورة معارج کی تفسیر ختم ہوئی۔