آپ فرما دیں کہ میں تمہارے لئے نہ تو نقصان (یعنی کفر) کا مالک ہوں اور نہ بھلائی (یعنی ایمان) کا (گویا حقیقی مالک اللہ ہے میں تو ذریعہ اور وسیلہ ہوں)،
English Sahih:
Say, "Indeed, I do not possess for you [the power of] harm or right direction."
1 Abul A'ala Maududi
کہو، "میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں تمہارے کسی برے بھلے کا مالک نہیں،
3 Ahmed Ali
کہہ دو میں نہ تمہارے کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں اورنہ کسی بھلائی کا
4 Ahsanul Bayan
کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں۔ (۱)
۲۱۔۱یعنی مجھے تمہاری ہدایت یا گمراہی کا یا کسی اور نفع نقصان کا اختیار نہیں ہے میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں جسے اللہ نے وحی ورسالت کے لیے چن لیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کہیے! میں تمہارے لئے نہ کسی نقصان اور برائی کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ فائدہ کا
9 Tafsir Jalalayn
(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا ترجمہ : کفار کی اس بات کے جواب میں کہ آپ اپنی اس تبلیغ سے باز آجائیے آپ نے جواباً فرمایا ایک قرأت میں قل ہے، میں تو اپنے رب ہی کو معبود ہونے کے اعتبار سے پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا آپ کہہ دیجئے میں تمہارے نفع نقصان کا مالک نہیں آپ کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے (یعنی) اس کے عذاب سے اگر میں اس کی نافرمانی کروں نہیں بچا سکتا اور میں اس کے علاوہ ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پاتا مگر میرا کام اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دینا ہے الا بلاغا، املک کے مفعول سے استثناء ہے یعنی میں تمہارے لئے سوائے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانے کے کسی چیز کا مالک نہیں ورسالاتہ کا عطف بلاغا پر ہے اور مستثنی منہ اور استثناء کے درمیان استطاعت کی نفی کی تاکید کے لئے جملہ معترضہ ہے، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی توحید میں نافرمانی کرے گا کہ ایمان نہ لائے گا، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا خالدین من کی طرف لوٹنے والی لہ کی ضمیر سے معنی کے اعتبار سے حال ہے اور یہ حال مقدرہ ہے معنی یہ ہیں کہ اس میں داخل ہوں گے حال یہ کہ ان کے لئے جہنم میں داخلہ ہمیشہ کے لئے مقدر ہوچکا ہے، یہ لوگ اپنے کفر پر قائم رہیں گے حتیٰ کہ اس عذاب کو دیکھ لیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے حتی ابتدائیہ ہے اس میں (مغیا) مقدر کی غایت کے معنی ہیں تقدیر عبارت یہ ہے لا یزالون علی کفرھم الی ان یروا سو بدر کے دن یا قیامت کے دن جب یہ اس میں داخل ہوں گے تو عنقریب سب معلوم ہوجائے گا کہ کس کا مددگار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے، وہ یا مسلمان، اول قول (بدر) کی صورت میں یا میں یا وہ، ثانی قول (قیامت) کی صورت میں تو ان میں سے بعض نے کہا یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ تو (قل ان ادری) نازل ہوئی (آپ) کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس عذاب کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لئے میرا رب مدت بعید مقرر کرے گا جس کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا غیب (یعنی) جو بندوں سے غائب ہے کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی شخص کو مطلع نہیں کرتا مگر اس رسول کو جس کو وہ پسند کرے، مگر جس رسول کو چاہے بطور معجزہ مطلع کردیتا ہے اس کو اطلاع کرنے کے باوجود اس قاصد کے آگے پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ فرشتہ اس وحی کو منجملہ وحی کے پہنچا دیتا ہے تاکہ اللہ علم ظہور کے طور پر جان لے کہ ان فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام (رسول تک بحفاظت) پہنچا دیا ان مخففہ عن الثقیلہ ہے ای انہ ضمیر کے جمع لانے میں من کے معنی کی رعایت کی گئی ہے اور اللہ ان (پہرہ داروں) کے احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے (واحاط) کا عطف مقدر پر ہے ای فعلم ذلک واحاط اور اس کو ہر چیز کی گنتی معلوم ہے (عددا) تمیز ہے اور یہ مفعول سے منقول ہے اور اصل احصی عدد کل شیء ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ادعوا ربی الھا، الھا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ ادعوا بمعنی اعتقد ہے جو متعدی بدو مفعول ہے دوسرا مفعول الھا ہے، اگر اعبد کے معنی میں ہو تو الھا مقدر ماننے کی ضرورت نہیں۔ قولہ : الا بلاغا یہ لا املک کے مفعول سے مستثنیٰ ہے، یعنی میں تمہارے لئے سوائے پیغام رسانی کے کسی شیء کا مالک نہیں ہوں نہ نفع کا اور نہ نقصان کا گویا کہ آپ نے فرمایا لا املک لکم شیئا الا بلاغا اس صورت میں مستثنیٰ متصل ہوگا اور قل انی لن یجیرنی الخ مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کے درمیان میں جملہ معترضہ نفی استطاعت کی تاکید کے لئے ہے۔ قولہ : ورسالاتہ اس کا عطف بلاغا پر ہے ای لا املک لکم الا التبلیغ و الرسالۃ۔ قولہ : علی القول الاول و علی النول الثانی اول قول سے مراد اضعف ناصرا اور ثانی سے اقل عددا ہے یعنی مدد کے اعتبار سے مومنین کمزور ہیں یا وہ اور عدد کے اعتبار سے میں کمزور ہوں یا وہ۔ تنبیہ : اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ دونوں صورتوں میں دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ قولہ : فقال بعضھم کہا گیا ہے کہ قائل نضر بن حارث ہے۔ قولہ : عالم الغیب یہ ربی سے بدل ہے، مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھو ربی۔ قولہ : ماغاب بہ عن العباد، بہ کو ذ کر نہ کیا جائے تو مناسب ہے۔ تفسیر و تشریح قل انی لا املک لکم ضرا ولا رشاءا یعنی مجھے تمہاری گمراہی یا نفع و نقصان کا اختیار نہیں ہے میں تو صرف اس کا بندہ ہوں جسے اللہ نے وحی رسالت کے لئے چن لیا ہے الا بلاغا الخ یہ لا املک لکم سے مستثنیٰ ہے یہ بھی ممکن ہے کہ لن یجیرنی سے مستثنیٰ ہو یعنی مجھے اللہ (کے عذاب) سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی ہے کہ میں تبلیغ و رسالت کا فریضہ بجا لائوں جس کی ادائیگی اللہ نے میرے اوپر واجب کی ہے۔ رسالاتہ کا عطف اللہ پر ہے یا بلاغا پر۔
10 Tafsir as-Saadi
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ آپ انہیں اس بات کی وضاحت کردیں کہ میں تو ایک بندہ ہوں، معاملے اور تصرف میں مجھے کوئی اختیار نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : naa tumhara koi nuqsan meray ikhtiyar mein hai , aur naa koi bhalai .