اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر کھڑے کئے جائیں گے)
نفس امارہ، لوامہ، مطمئنہ :
حضرات صوفیائے کرام نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ نفس اپنی جبلت اور فطرت کے اعتبار سے (امارۃ بالسوء) ہوتا ہے مگر ایمان اور عمل صالح اور ریاضت و مجاہدہ سے یہ ” نفس لو امہ “ بن جاتا ہے مگر برائی سے بالکلیہ اس کا انقطاع نہیں ہوتا، آگے عمل صالح میں ترقی اور قرب حق کے حصول میں کوشش کرتے کرتے جب اس کا یہ حال ہوجائے کہ شریعت اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے اور خلاف شرع کام سے طبعی نفرت بھی ہونے لگے تو اس نفس کا لقب ” مطمئنہ “ ہوجاتا ہے۔
یکایک سلسلہ کلام کو موقوف کر کے آیت ١٦ سے ١٩ تک جملہ معترضہ کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاتا ہے کہ اس وحی کو یاد کرنے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان مبارک کو حرکت نہ دیجئے اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہمارا کام ہے الخ، اس کے بعد آیت ٢٠ سے پھر وہی مضمون شروع ہوجاتا ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے، یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے اور روایات کی رو سے بھی اس بنا پر دوران کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) یہ سورة حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا رہے تھے اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اندیشہ سے کہ کہیں بعد میں بھول نہ جائوں اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دھراتے جا رہے تھے، بعد میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھی طرح مشق ہوگئی اور تحمل وحی کی عادت پڑگئی تو اس قسم کی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں رہی، لہٰذا وہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے جس کو مفسر علام نے علاقہ تضاد ثابت کر کے علاقہ ثابت کرنے کی بایں طور کوشش کی ہے کہ سابقہ آیات میں آیات سے اعراض کا ذکر تھا اور ان آیات میں سبقت الی الآیات کا ذکر ہے، اور یہی علاقہ تضاد ہے۔