اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی،
English Sahih:
And I swear by the reproaching soul [to the certainty of resurrection].
1 Abul A'ala Maududi
اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی
2 Ahmed Raza Khan
اور اس جان کی قسم! جو اپنے اوپر ملامت کرے
3 Ahmed Ali
اور پشیمان ہونے والے شخص کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو (١)۔
٢۔١ یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر) کھڑے کئے جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے واﻻ ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر کھڑے کئے جائیں گے) نفس امارہ، لوامہ، مطمئنہ : حضرات صوفیائے کرام نے اس میں یہ تفصیل کی ہے کہ نفس اپنی جبلت اور فطرت کے اعتبار سے (امارۃ بالسوء) ہوتا ہے مگر ایمان اور عمل صالح اور ریاضت و مجاہدہ سے یہ ” نفس لو امہ “ بن جاتا ہے مگر برائی سے بالکلیہ اس کا انقطاع نہیں ہوتا، آگے عمل صالح میں ترقی اور قرب حق کے حصول میں کوشش کرتے کرتے جب اس کا یہ حال ہوجائے کہ شریعت اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے اور خلاف شرع کام سے طبعی نفرت بھی ہونے لگے تو اس نفس کا لقب ” مطمئنہ “ ہوجاتا ہے۔ یکایک سلسلہ کلام کو موقوف کر کے آیت ١٦ سے ١٩ تک جملہ معترضہ کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاتا ہے کہ اس وحی کو یاد کرنے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان مبارک کو حرکت نہ دیجئے اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہمارا کام ہے الخ، اس کے بعد آیت ٢٠ سے پھر وہی مضمون شروع ہوجاتا ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے، یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے اور روایات کی رو سے بھی اس بنا پر دوران کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) یہ سورة حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا رہے تھے اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اندیشہ سے کہ کہیں بعد میں بھول نہ جائوں اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دھراتے جا رہے تھے، بعد میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھی طرح مشق ہوگئی اور تحمل وحی کی عادت پڑگئی تو اس قسم کی ہدایت دینے کی ضرورت نہیں رہی، لہٰذا وہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے جس کو مفسر علام نے علاقہ تضاد ثابت کر کے علاقہ ثابت کرنے کی بایں طور کوشش کی ہے کہ سابقہ آیات میں آیات سے اعراض کا ذکر تھا اور ان آیات میں سبقت الی الآیات کا ذکر ہے، اور یہی علاقہ تضاد ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ﴾ ” اور نفس لوامہ کی قسم! “ اس سے مراد تمام نیک اور بد نفوس ہیں۔ نفس کو اس کے کثرت تردد، اسے ملامت کرنے اور اپنے احوال میں سے کسی حال پر بھی اس کے عدم ثبات کی بنا پر (لَوَّامَۃِ) سے موسوم کیا گیا ہے نیز اس بنا پر اس ک(لَوَّامَۃِ) کہا گیا ہے کہ یہ موت کے وقت انسان کو اس کے افعال پر ملامت کرے گا مگر مومن کا نفس اسے دنیا ہی میں اس کو تاہی، تقصیر اور غفلت پر ملامت کرتا ہے جو حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں اس سے ہوتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur qasam khata hun malamat kernay walay nafs ki , ( kay hum insan ko zaroor dobara zinda keren gay )