یہ (عذاب) اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم پر اَرزانی فرمائی ہو یہاں تک کہ وہ لوگ اَز خود اپنی حالتِ نعمت کو بدل دیں (یعنی کفرانِ نعمت اور معصیت و نافرمانی کے مرتکب ہوں اور پھر ان میں احساسِ زیاں بھی باقی نہ رہے تب وہ قوم ہلاکت و بربادی کی زد میں آجاتی ہے)، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
That is because Allah would not change a favor which He had bestowed upon a people until they change what is within themselves. And indeed, Allah is Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جو نعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک وہ خود نہ بدل جائیں اور بیشک اللہ سنتا جانتا ہے
3 Ahmed Ali
اس کا سبب یہ ہے کہ الله ہر گز اس نعمت کو نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو دی تھی جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدلیں اوراس لیے کہ الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
یہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی (١) اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
٥٣۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالٰی کے احکام سے اعراض کر کے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالٰی اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالٰی گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرمالیتا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ اس لیے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لیے کہ خدا سنتا جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ اس بنا پر ہے کہ اللہ کبھی اس نعمت کو تبدیل نہیں کرتا جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہے جب تک وہ خود اپنی حالت تبدیل نہ کر دیں اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ اس لئے کہ خدا کسی قوم کو دی ہوئی نعمت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے تئیں تغیر نہ پیدا کردیں کہ خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
یہ اس لئے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لئے کہ خدا سنتا جانتا ہے۔ ذالک باَنَّ اللہ لَمْ یک مغیراً نعمة الخ اللہ تعالیٰ نے اعطاء نعمت کے لئے کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا نہ ان کے لئے کوئی قید لگائی نہ ان کو کسی اچھے عمل پر موقوف رکھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلی نعمت جو خود ہمارا وجود ہے اور اس میں قدرت حق جلّ شانہ کی عجیب صنعت گری سے ہزاروں نعمتیں ودیعت رکھی گئی ہیں یہ نعمتیں ظاہر ہے کہ اس وقت عطا ہوئیں جب کہ نہ ہم تھے اور نہ ہمارا کوئی عمل، اگر حق تعالیٰ کے انعامات و احسانات بندوں کے نیک اعمال کے منتظر رہا کرتے تو ہمارا وجود ہی قائم نہ ہوتا۔ حق تعالیٰ کی نعمت و رحمت تو اس کے رب العالیمن اور رحمٰن و رحیم ہونے کے نتیجہ میں خود بخود ہے البتہ اس نعمت و رحمت کو قائم رہنے کا ایک ضابطہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دیتے ہیں اس سے اس وقت تک واپس نہیں لیتے جب تک وہ اپنے حالات اور اعمال کو بدل کر برے اعمال اور برے حالات اختیار کرے یا یہ کہ اللہ کی نعمتیں مبذول ہونے کے بعد جب اعمال بد اور گناہوں میں مبتلا تھا نعمتوں کے ملنے کے بعد ان سے زیادہ برے اعمال میں مبتلا ہوجائے۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جو قوموں کا ذکر پچھلی آیات میں آیا ہے یعنی کفار قریش اور آل فرعون ان کا تعلق اس آیت سے اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملنے کے وقت بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں تھے سب کے سب مشرک و کافر تھے لیکن انعامات کے بعد یہ لوگ اپنی بدعملیوں اور شرارتوں میں پہلے سے زیادہ دلیر اور بےباک ہوگئے، آل فرعون نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم شروع کردئے پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے مقابلہ اور مخالفت پر آمادہ ہوگئے جو ان کے پچھلے جرائم میں ایک نہایت قبیح اضافہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے اپنے حالات مزید برائی کی طرف ڈالدئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعمت کو نقمت و عذاب سے بدل دیا، اسی طرح مشرکین مکہ اگرچہ مشرک و بد عمل تھے لیکن اس کے ساتھ ان میں کچھ اچھے اعمال مثلاً صلہ رحمی، مہمان نوازی، حجاج کی خدمت، بیت اللہ کی تعظیم وغیرہ بھی تھے، اللہ تعالیٰ نے ان پر دین و دنیا کے دروازے کھول دئے دنیا میں ان کی تجارتوں کو فروغ دیا اور ایسے ملک میں جہاں کسی کا تجارتی قافلہ سلامتی سے نہ گذر سکتا تھا ان لوگوں کے تجارتی قافلے ملک شام و یمن میں جاتے اور کامیاب آتے تھے جس کا ذکر سورة لایلٰف میں بھی ہے۔ اور دین کے اعتبار سے انھیں وہ عظیم نعمت عطا ہوئی جو پچھلی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوئی کہ سید الانبیاء خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں مبعوث ہوئے اللہ تعالیٰ کی آخری اور جامع کتاب قرآن ان میں بھیجی گئی۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کی شکر گذاری اور قدر کرنے اور اس کے ذریعہ اپنے حالات کو درست کرنے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ گندے کردیئے کہ صلہ رحمی کو چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والے بھائی بھتیجوں پر وحشیانہ مظالم کرنے لگے، مہمان نوازی کے بجائے مسلمانوں پر آب و دانہ کرنے کے عہد نامے لکھے گئے، حجاج کی خدمت کے بجائے مسلمانوں کو نقمتوں اور اپنے انعام کو انتقام کی صورت میں تبدیل کردیا کہ وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوئے، اور جو ذات رحمة للعٰلمین بن کر آئی تھی اسی کے ذریعہ انہوں نے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دے دی۔ (معارف) مدینہ کے یہود سے معاہدہ : اَلَّذِیْنَ عٰھَد تَّ منھم، اس آیت میں خاص طور سے یہود کی طرف اشارہ ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے ان ہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں، نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب کو ترجع دیتے تھے، لیکن ان کے علماء اور مشائخ کو توحید خالص اور اخلاقی صالحہ کی وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کر رہے تھے ایک آن نہ بھائی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے اس مقصد کے لئے مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے اسی کیلئے وہ اوس و خزرج کے لوگوں میں ان کی ہرانی عداوتوں کو بھڑکاتے تھے جو اسلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں، اسی کے لئے قریش اور دوسرے مخالف اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ سب حرکات اس معاہدہ دوستی کے باوجود ہورہی تھیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا، جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتداء میں ان کا خیال تھا کہ قریش کی پہلی ہی چاٹ اس تحریک کا خاتمہ کردے گی لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو ان کے سینوں کی آتش حسد اور زیادہ بھڑک اٹھی، انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل خطرہ نہ بنا دے اپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز کردیا حتی کہ ان کا ایک لیڈر کعب بن اشرف (جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لئے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا، اور وہاں اس نے ہیجان انگیز مرثیہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلایا، اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی، یہودیوں کے قبیلے بنی قینقاع نے معاہدہ حسن جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کردیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ یہ قریش نہیں ہیں، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنامرنا جانتے ہیں جب ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ذَٰلِكَ ﴾ وہ عذاب جو اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والی قوموں پر نازل فرمایا تھا اور وہ نعمتیں جو انہیں حاصل تھیں، ان سے سلب کرلی گئی تھیں۔ اس کا سبب ان کے گناہ اور ان کا اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار کرنا تھا۔ ﴿بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ ﴾ ” اللہ بدلنے والا نہیں ہے اس نعمت کو جودی اس نے کسی قوم کو“ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرتا ہے تو ان کو سلب نہیں کرتا، بلکہ ان کو باقی رکھتا ہے اور اگر وہ شکر کرتے رہیں تو ان میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ ” جب تک وہی نہ بدل ڈالیں اپنے دلوں کی بات“ یعنی جب تک کہ وہ اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار نہیں کرتے، پس جب وہ نعمتوں کی ناشکری کرتے اور ان کے بدلے کفر کرتے ہیں۔۔۔ تب اللہ تعالیٰ ان سے ان نعمتوں کو چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو اس طرح بدل ڈالتا ہے جس طرح انہوں نے اپنے رویے کو بدل ڈالا۔ اس بارے میں اپنے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ حکمت اور عدل و احسان پر مبنی ہے، کیونکہ وہ ان کو عذاب نہیں دیتا، مگر ان کے ظلم کے سبب سے اور بندے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو عبرت ناک سزا دیتا ہے، جس سے وہ اپنے اولیا کے دل اپنے طرف کھینچ لیتا ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘ بولنے والے جو کچھ بولتے ہیں خواہ وہ آہستہ آواز سے بات کریں یا اونچی آواز میں، اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سنتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو بندوں کے ضمیر میں مخفی اور ان کی نیتوں میں چھپا ہوا ہے، وہ اپنے بندوں کی تقدیر میں وہی کچھ جاری کرتا ہے جس کا اس کا علم اور اس کی مشیت تقاضا کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh sabb kuch iss liye huwa kay Allah ka dastoor yeh hai kay uss ney jo naimat kissi qoam ko di ho , ussay uss waqt tak badalna gawara nahi kerta jab tak woh log khud apni halat tabdeel naa kerlen , aur Allah her baat sunta , sabb kuch janta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہوسکتا ہے۔ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔