وہ لوگ جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ سے (اس بات کی) رخصت طلب نہیں کریں گے کہ وہ اپنے مال و جان سے جہاد (نہ) کریں، اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے،
English Sahih:
Those who believe in Allah and the Last Day would not ask permission of you to be excused from striving [i.e., fighting] with their wealth and their lives. And Allah is Knowing of those who fear Him.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم سے چھٹی نہ مانگیں گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں، اور اللہ خوب جا نتا ہے پرہیزگا روں کو،
3 Ahmed Ali
جو لوگ الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں وہ تم سے رخصت نہیں مانگتے اس سے کہ اپنے مالوں اورجانوں سے جہاد کریں اور الله پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے (١) اور اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے۔
٤٤۔١ یہ مخلص ایمانداروں کا کردار بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ نہایت ذوق شوق کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا ڈرنے والوں سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ویقین رکھنے والے تو مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی آپ سے اجازت طلب نہیں کریں گے کہ وہ اپنے مال و جان سے (اللہ کی راہ میں) جہاد کریں۔ اور اللہ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ اللہ اور روز هآخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ہرگز اپنے جان و مال سے جہاد کرنے کے خلاف اجازت نہ طلب کریں گے کہ خدا صاحبانِ تقوٰی کو خوب جانتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا پرہیزگاروں سے واقف ہے۔ لا یَسْتَاذِنُکَ الَّذِیْنَ یؤمنون باللہ الخ جب منافقوں نے جہاد میں عدم شرکت کی اجازت چاہی اور آپ نے اجازت دے دی جیسا کہ اوپر مذکور ہے، اب اس کے بعد مومنین مخلصین کا ذکر فرمایا، کہ جو مومنین مخلصین ہیں آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی گھر میں بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں چاہتے۔ انہیں تو یہی پسند ہے کہ جس طرح ممکن ہو جان سے مال سے جہاد میں شریک ہوں بلکہ اگر ان کو رخصت دے دی جائے تو ان پر شاق گذرتی ہے، چناچہ صحیح بخاری کے حوالہ سے سعد بن عبادہ کی حدیث گذر چکی ہے کہ حضرت علی (رض) کو آنحضرت نے غزوہ تبوک ہی میں حکم دیا کہ تم مدینہ ہی رہ کر اہل و عیال کی نگرانی کرو حضرت علی پر یہ حکم نہایت گراں گذرا، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے علی کیا تم کو مجھ سے وہ نسبت پسند نہیں جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نیابت کی تھی، یہ سنکر حضرت علی مدینہ میں رہ جانے پر رضا مند ہوئے۔ منافقوں کی حالت کا بیان : وَلَوْ ارادوا الخروج لاَ عدّوا لَہ عُدَّةً ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا حال بیان فرمایا ہے، کہ ان لوگوں کا ارادہ اس لڑائی میں شریک ہونے کا پہلے ہی سے بالکل نہیں تھا، اگر ان کا ارادہ ہوتا تو دیگر لوگوں کی طرح یہ بھی کچھ نہ کچھ تیاری کرتے، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ اللہ تعالیٰ کو بھی ان لوگوں کا شریک ہونا پسند نہیں تھا، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بزدلی اور سستی پیدا فرما دی، ان لوگوں کے جہاد میں شریک نہ ہونے میں بڑی مصلحت تھی، اس لئے کہ اگر یہ لوگ لڑائی میں شریک ہوتے تو مدد کے بجائے فتنہ برپا کرتے مسلمانوں کو خوف دلاتے ایسی ایسی باتیں اور حرکتیں کرتے کہ مسلمانوں کے دل ٹوٹنے لگتے ان میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہوتی، اس لئے کہ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو تمہاری جاسوسی کرتے ہیں اور تمہاری پوشیدہ خبریں دشمن کو پہنچاتے ہیں، قتادہ (رض) کے قول کے مطابق اگرچہ بعض مفسرین نے وفیکم سماعون لھم، کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ان منافقوں کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں قتادہ کے اس قول کو ضعیف ٹھہرایا ہے، اس لئے مجاہد کے صحیح قول کے مطابق پہلی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے۔ منافقوں نے ہمیشہ نازک موقع پر دھوکا دیا ہے : غزوہ احد کے موقع پر عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تین سو مسلمانوں کی جمیعت کو میدان سے واپس لے آیا تھا، اسی عبد اللہ بن ابی نے غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر اپنے قبیلے کے انصار کو بہکایا تھا اور کہا تھا کہ واپس مدینہ جانے کے بعد مہاجروں کو مدینہ سے نکال دیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اپنے جان و مال کے ذریعے سے جہاد ترک کرنے کی اجازت طلب نہیں کرتے، بلکہ بغیر کسی عذر کے جہاد ترک کرنے کی اجازت مانگنا تو کجا، بغیر کسی ترغیب کے، ایمان اور بھلائی میں ان کی رغبت انہیں جہاد پر آمادہ رکھتی ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ﴾ ” اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے“ پس وہ انہیں اس بات کی جزا دے گا کہ انہوں نے تقویٰ کو قائم رکھا۔ متقین کے بارے میں یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی ہے کہ اس نے آگاہ فرمایا کہ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ جہاد چھوڑنے کی اجازت نہیں مانگتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log Allah aur yoam-e-aakhirat per emaan rakhtay hain , woh apney maal o jaan say jihad naa kernay kay liye tum say ijazat nahi maangtay , aur Allah muttaqi logon ko khoob janta hai .