اور ان (منافقوں) میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ تو کان (کے کچے) ہیں۔ فرما دیجئے: تمہارے لئے بھلائی کے کان ہیں۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان (کی باتوں) پر یقین کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے رحمت ہیں، اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے،
English Sahih:
And among them are those who abuse the Prophet and say, "He is an ear." Say, "[It is] an ear of goodness for you that believes in Allah and believes the believers and [is] a mercy to those who believe among you." And those who abuse the Messenger of Allah – for them is a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے کہو، "وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور ان میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں، تم فرماؤ تمہارے بھلے کے لیے کا ن ہیں اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور جو تم میں مسلمان ہیں ان کے واسطے رحمت ہیں، اور جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے،
3 Ahmed Ali
اور بعضے ان میں سے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نِرا کان ہے کہہ دے وہ کان تمہاری بھلائی کے لیے ہے الله پر یقین رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے ایمان والوں کے حق میں رحمت ہے اور جو لوگ رسول الله کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہیں (١) وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے۔
٦١۔١ یہاں سے پھر منافقین کا ذکر ہو رہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک ہرزہ سرائی انہوں نے یہ کی کہ یہ کان کا کچا (ہلکا) ہے، مطلب ہے کہ یہ ہر ایک بات سن لیتا ہے (یہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و کرم اور عفو و صفع کی صفت سے ان کو دھوکہ ہوا) اللہ نے فرمایا کہ نہیں، ہمارا پیغمبر شر و فساد کی کوئی بات نہیں سنتا جو بھی سنتا ہے تمہارے لئے اس میں خیر اور بھلائی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے۔ (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لیے۔ وہ خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے اور جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لیے عذاب الیم (تیار) ہے
6 Muhammad Junagarhi
ان میں سے وه بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ وه کان تمہارے بھلے کے لئے ہے وه اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے، رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو بس کان ہیں (یعنی کان کے کچے ہیں) کہہ دیجیے! وہ تمہارے لئے بہتری کا کان ہیں (ان کے ایسا ہونے میں تمہارا ہی بھلا ہے) جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتے ہیں اور جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے سراپا رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ہیں -آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے حق میں بہتری کے کان ہیں کہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی تصدیق کرتے ہیں اور صاحبانِ ایمان کے لئے رحمت ہیں اور جو لوگ رسول خدا کو اذیت دیتے ہیں ان کے واسطے دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔ وَ مِنْھُمْ ای المنافقین الذین یؤذونَ النبیَّ ، یہ بھی منافقوں کی ہر زہ سرائی اور بیہودہ بکواس کا ذکر ہے جس کا مقصد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانا ہے، جو باتیں منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کان کے کچے ہیں یعنی جو سنتے ہیں اس کو سچ مان لیتے ہیں اس پر غور نہیں کرتے اگر کوئی مسلمان ان کی باتیں جا کر کہہ دیتا ہے تو اس کو سچ مان لیتے ہیں اور جب ہم قسم کھا کر اس کا انکار کردیتے ہیں ہماری بات کو سچ مان لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ تم انہیں (کان کا کچا) کہتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ انہیں جھوٹ اور سچ کی تمیز نہیں ہے، ایسا نہیں ہے انہیں جھوٹ اور سچ کی خوب تمیز ہے مگر تمہاری طرف سے تغافل اور چشم پوشی کرتے ہیں اور اہل نفاق کے حق میں رحمت ہیں کہ اپنی زبان سے کچھ کہہ کر ان کا پردہ فاش نہیں کرتے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو لوگ ایسی باتیں کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں عبد اللہ بن مسعود کی ایک روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت جب ایک منافق جس کا نام معتب بن قشیر تھا اس نے مال غنیمت کے بارے میں اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا اللہ موسیٰ پر رحمت نازل کرے کہ انہوں نے امت کے لوگوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ اذیتیں برداشت کی تھیں۔ (صحیح بخاری)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی یہ منافقین ﴿الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ ﴾ ” جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔“ یعنی جو ردی اقوال اور عیب جوئی کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ﴿ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ﴾ ” اور کہتے ہیں کہ وہ کان (کا کچا) ہے۔“ اور انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی بدگوئی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھ پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان میں سے کچھ باتیں آپ تک پہنچتی ہیں تو ہم آپ کے پاس معذرت پیش کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور آپ ہماری معذرت قبول کرلیتے ہیں، کیونکہ آپ کان کے کچے ہیں۔ یعنی آپ سے جو کچھ کہا جاتا ہے آپ اسے تسلیم کرلیتے ہیں سچے اور جھوٹے میں تمیز نہیں کرتے۔ ان کا مقصد تو محض یہ تھا۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اس بات کی کوئی پروا کریں نہ اس کو اہمیت دیں، کیونکہ ان کی کوئی بات آپ تک نہ پہنچے تو یہی ان کا مطلوب ہے اور اگر آپ تک وہ بات پہنچ جائے تو صرف باطل معذرتوں پر اکتفا کریں۔ پس انہوں نے بہت سے پہلوؤں سے برائی کا رویہ اختیار کیا : (١) ان میں سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے ہیں جو ان کی رہنمائی اور ان کو ہلاکت اور شقاوت کے گڑھے سے نکال کر ہدایت اور سعادت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے تشریف لائے۔ (٢) وہ اس ایذا رسانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، یہ مجرد ایذا رسانی پر ایک قدر زائد ہے۔ (٣) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش میں عیب نکالتے تھے، آپ کو عدم ادراک اور سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز نہ کرسکنے کی صفات سے متصف کرتے تھے۔ حالانکہ آپ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل کامل سے بہرہ مند، بدرجہ اتم ادراک کے حامل، عمدہ رائے اور روشن بصیرت رکھنے والے تھے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ ﴾ ” آپ کہہ دیجیے، کان ہیں تمہاری بہتری کے لئے“ یعنی جو کوئی بھلی اور سچی بات کہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول فرما لیتے ہیں۔ رہا آپ کا صرف نظر کرنا اور جھوٹے عذرات پیش کرنے والے منافقین کے ساتھ سختی سے پیش نہ آنا، تو یہ آپ کی کشادہ ظرفی، ان کے معاملے میں عدم اہتمام اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اطاعت کی بنا پر تھا۔ ﴿سَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ﴾(التوبة:9؍ 95) ” جب تم واپس لوٹو گے تو یہ منافقین قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو، پس تم ان کے معاملے کو نظر انداز کر دو کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔“ رہی یہ حقیقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں کیا ہے اور آپ کی رائے کیا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾ ” وہ یقین کرتا ہے اللہ پر اور یقین کرتا ہے مومنوں کی بات پر“ جو سچے اور تصدیق کرنے والے ہیں اور وہ سچے اور جھوٹے کو خوب پہچانتا ہے اگرچہ وہ بہت سے ایسے لوگوں سے صرف نظر کرتا ہے جن کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان میں سچائی معدوم ہے ﴿وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ﴾ ” اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان لائے“ کیونکہ وہی آپ کی وجہ سے راہ راست پر گامزن ہوتے اور آپ کے اخلاق کی پیروی کرتے ہیں۔ رہے اہل ایمان کے علاوہ دیگر لوگ تو انہوں نے اس رحمت کو قبول نہ کیا، بلکہ ٹھکرا دیا اور یوں وہ دنیا و آخرت کے گھاٹے میں پڑگئے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـهِ﴾ ” اور وہ لوگ جو (قول و فعل کے ذریعے سے) رسول اللہ کو دکھ دیتے ہیں۔“ ﴿ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ دنیا و آخرت میں اور دنیا میں ان کے لئے درد ناک عذاب یہ ہے کہ آپ کو دکھ پہنچانے والے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے اور ایذا پہنچانے والے کی حتمی سزا قتل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur inhi ( munafiqeen ) mein woh log bhi hain jo nabi ko dukh phonchatay hain , aur ( unn kay baaray mein ) yeh kehtay hain kay : woh to sarapa kaan hain . keh do kay : woh kaan hain uss cheez kay liye jo tumharay liye bhalai hai . woh Allah per emaan rakhtay hain aur mominon ki baat ka yaqeen kertay hain , aur tum mein say jo ( zahiri tor per ) emaan ley aaye hain , unn kay liye woh rehmat ( ka moamla kernay walay ) hain . aur jo log Allah kay Rasool ko dukh phonchatay hain , unn kay liye dukh denay wala azab tayyar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
نکتہ چین منافقوں کا مقصد منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے اپنے باتوں سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات کا یقین کرلے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا بہترین سننے والا ہے وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے وہ اللہ کی باتیں مانتا ہے، اور باایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے وہ مومنوں کے لئے رحمت ہے اور بےایمانوں کے لئے اللہ کی حجت ہے رسول کے ستانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔