اور اس عورت (زلیخا) نے جس کے گھر وہ رہتے تھے آپ سے آپ کی ذات کی شدید خواہش کی اور اس نے دروازے (بھی) بند کر دیئے اور کہنے لگی: جلدی آجاؤ (میں تم سے کہتی ہوں)۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ! بیشک وہ (جو تمہارا شوہر ہے) میرا مربّی ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے۔ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے،
English Sahih:
And she, in whose house he was, sought to seduce him. She closed the doors and said, "Come, you." He said, "[I seek] the refuge of Allah. Indeed, he is my master, who has made good my residence. Indeed, wrongdoers will not succeed."
1 Abul A'ala Maududi
جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی "آ جا" یوسفؑ نے کہا "خدا کی پناہ، میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے"
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جس عورت کے گھر میں تھا اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے اور دروازے سب بند کردیے اور بولی آؤ تمہیں سے کہتی ہوں کہا اللہ کی پناہ وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا،
3 Ahmed Ali
اورجس عورت کے گھر میں تھا وہ اسے پھسلا نے لگی اور دروازے بند کر لیے اور کہنے لگی لو آؤ اس نے کہا الله کی پناہ وہ تو میرا آقا ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا ہے بے شک ظالم نجات نہیں پاتے
4 Ahsanul Bayan
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا (١)۔
٢٣۔١ یہاں سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نیا امتحان شروع ہوا عزیز مصر کی بیوی، جس کو اس کے خاوند نے تاکید کی تھی کہ یوسف علیہ السلام کو اکرام و احترام کے ساتھ رکھے، وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور انہیں دعوت گناہ دینے لگی، جسے حضرت یوسف علیہ السلام نے ٹھکرا دیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کرکے کہنے لگی (یوسف) جلدی آؤ۔ انہوں نے کہا کہ خدا پناہ میں رکھے (وہ یعنی تمہارے میاں) تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے (میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا) بےشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وه اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند کرکے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناه! وه میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بے انصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور پھر وہ (یوسف) جس عورت کے گھر میں تھا وہ اپنی مطلب براری کے لئے اس پر ڈورے ڈالنے لگی (چنانچہ) ایک دن سب دروازے بند کر دیے اور کہا بس آجاؤ! یوسف نے کہا معاذ اللہ! (اللہ کی پناہ) وہ (تیرا شوہر) میرا مربی و محسن ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے (اپنے گھر میں) ٹھہرایا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی امانت میں خیانت کروں؟ (اے معاذ اللہ) بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس نے ان سے اظہار همحبتّ کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے اور کہنے لگی لو آؤ یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے
9 Tafsir Jalalayn
تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے انکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کرکے کہنے لگی (یو سف) جلدی آؤ۔ انہوں نے کہا کہ خدا پناہ میں رکھے وہ (یعنی تمہارے میاں) تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے (میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا) بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ عظیم آزمائش اس سے بہت بڑی تھی جو جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کی طرف سے پیش آئی اور اس پر ان کا صبر کرنا بہت بڑے اجر کا موجب بنا، کیونکہ اس قبیح فعل کے وقوع کے لیے کثیر اسباب کے باوجود انہوں نے صبر کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ان اسباب پر مقدم رکھا۔ اس لیے ان کا یہ صبر اختیاری تھا اور ان کو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جو آزمائش پیش آئی وہاں ان کا صبر اضطراری تھا۔ جیسے مرض اور دیگر تکالیف بندے کے اختیار کے بغیر اسے لاحق ہوتی ہیں جن میں طوعاً یا کرہاً صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں اور آزمائش کا یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر میں نہایت عزت و اکرام کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ کامل حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور یہی چیز ان کی آزمائش کا موجب بنی۔﴿ وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ﴾’’تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔‘‘ یعنی یوسف علیہ السلام جس عورت کے غلام اور اس کے زیر دست تھے اس نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کردئیے۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جہاں کسی شعور اور احساس کے بغیر اس مکروہ فعل کے مواقع میسر تھے اور اس سے بھی بڑھ کر مصیبت یہ نازل ہوئی کہ﴿ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ﴾ ’’اس نے دروازے بند کردئیے۔‘‘ اور مکان خالی ہوگیا اور دروازوں کو بند کردینے کی بنا پر کسی کے وہاں آنے کا ڈڑ نہ رہا۔ اس عورت نے جناب یوسف کو اپنے ساتھ بدکاری کی دعوت دی۔ ﴿وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ﴾ ’’کہنے لگی، جلدی آؤ۔‘‘ یعنی میرے پاس آؤ اور میرے ساتھ یہ فعل بد سر انجام دو۔ اس کے باوجود کہ یوسف علیہ السلام ایک غریب الوطن شخص تھے اور ایسا شخص اس طرح اپنے غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرسکتا جس طرح وہ اپنے وطن میں جان پہچان کے درمیان ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس عورت کے اسیر تھے اور وہ عورت ان کی آقا تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عورت میں حسن و جمال تھا۔ یوسف علیہ السلام خود جوان اور غیر شادی شدہ تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت دھمکی دے رہی تھی کہ اگر یوسف علیہ السلام نے اس کی خواہش پوری نہ کی تو وہ انہیں قید خانے میں بھجوادے گی یا انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کردے گی۔ مگر بایں ہمہ، جناب یوسف علیہ السلام اپنے اندر اس فعل کا قوی داعیہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکے رہے، کیونکہ جس فعل کا ارادہ انہوں نے کرلیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کردیا اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو اپنے نفس کی مراد پر مقدم رکھا جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے۔ انہیں اپنے رب کی برہان نظر آئی، یعنی ان کے پاس جو علم و ایمان تھا وہ اس بات کا موجب تھا کہ وہ ہر اس چیز کو ترک کردیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے یہ برہان حق ان کو اس بڑے گناہ سے دور رکھنے کی باعث تھی۔﴿ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ﴾ ’’انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ۔‘‘ یعنی میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور کردیتا ہے، نیز یہ فعل اپنے آقا کے حق میں خیانت ہے جس نے مجھے عزت و تکریم سے نوازا۔ پس مجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی بیوی کے ساتھ اس بدترین فعل کے ذریعے سے اس کے احسانات کا بدلہ دوں۔ یہ تو سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اس قبیح فعل سے جن امور کو موانع قرار دیاوہ تھے تقوائے الٰہی، اپنے آقا کے حق کی رعایت جس نے ان کو عزت و اکرام سے نوازا تھا اور اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچانا، جس کا مرتکب کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو ایمان کی برہان حق سے نوازا جو ان کے قلب میں جاگزیں تھا جو ان سے اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتا تھا۔ اس پورے معاملے میں جامع بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیا تھا، کیونکہ وہ ان بندوں میں سے تھے جو اپنی عبادات میں اخلاص سے کام لیتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنے لیے خاص کرلی اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کردی اور تمام ناپسندیدہ امور کو ان سے دور کر دیا۔ بنا بریں وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق میں سے تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام اس عورت کی طرف سے بدی کی سخت ترغیب کے باوجود اس کی خواہش پوری کرنے سے ممتنع رہے اور وہ اس عورت سے اپنے آپ کو چھڑا کر دروازے کی طرف تیزی سے بھاگے، تاکہ وہ بھاگ کر اس فتنہ سے بچ کر نکل جائیں تو وہ عورت بھی ان کے پیچھے بھاگی اور پیچھے سے ان کی قمیص کا دامن پکڑ لیا اور ان کی قمیص پھاڑ ڈالی۔ جب وہ دونوں اس حالت میں دروازے پر پہنچے تو انہوں نے دروازے پر عورت کے خاوند کو موجود پایا اس نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے سخت شاق گزرا۔ اس عورت نے فوراً جھوٹ گھڑ لیا اور دعویٰ کیا کہ یوسف اس کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتا تھا اور کہنے لگی
11 Mufti Taqi Usmani
aur jiss aurat kay ghar mein woh rehtay thay , uss ney unn ko warghalaney ki koshish ki , aur saray darwazon ko band kerdiya , aur kehney lagi : aa bhi jao ! yousuf ney kaha : Allah ki panah ! woh mera aaqa hai , uss ney mujhay achi tarah rakha hai . sachi baat yeh hai kay jo log zulm kertay hain , unhen falah hasil nahi hoti .
12 Tafsir Ibn Kathir
زلیخا کی بدنیتی سے الزام تک عزیز مصر جس نے آپ کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آجاتی ہے۔ جمال یوسف پر فریفتہ ہوجاتی ہے۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف کو بلاتی ہے لیکن حضرت یوسف بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کردیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ (آیت ھیت لک) کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آگیا ہے۔ اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے۔ اس کے دوسری قرأت ھئت بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے۔ یہ قرأت غریب ہے۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں قاریوں کی قرأتیں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ۔ پھر آپ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا۔ یعنی ھیت نہ کہ ھیت یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ جیسے (آیت ھیت لک ھیت لکم ھیت لکماا ھیتا لکن ھیت لھن) ۔