یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھے،
English Sahih:
He said, "Do you know what you did with Joseph and his brother when you were ignorant?"
1 Abul A'ala Maududi
(یہ سن کریوسفؑ سے نہ رہا گیا) اُس نے کہا "تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اور اُس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے"
2 Ahmed Raza Khan
بولے کچھ خبر ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کِیا تھا جب تم نادان تھے
3 Ahmed Ali
کہا تمہیں یاد ہے جو کچھ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب تمہیں سمجھ نہ تھی
4 Ahsanul Bayan
یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا (١)؟
٨٩۔١ جب انہوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا، جس سے یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا، آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کا ذکر کر کے ساتھ ہی اخلاق کریمانہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یوسف نے) کہا تمہیں معلوم ہے جب تم نادانی میں پھنسے ہوئے تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا
6 Muhammad Junagarhi
یوسف نے کہا جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اوراس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ (ع) نے کہا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے (سگے) بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جبکہ تم جاہل و نادان تھے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے جب کہ تم بالکل جاہل تھے
9 Tafsir Jalalayn
(یو سف نے) کہا تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادانی میں پھنسے ہوئے تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا ؟
10 Tafsir as-Saadi
جب معاملہ اپنی انتہا اور شدت کو پہنچ گیا، تو یوسف علیہ السلام نرم پڑگئے اور انہوں نے ان کو اپنا تعارف کروایا اور ان پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ﴾ ” کیا تمہیں معلوم ہے، تم نے یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟“ رہے یوسف علیہ السلام تو ان کے ساتھ ان کا سلوک ظاہر ہے اور رہا ان کا بھائی بنیامین تو شاید۔۔۔۔۔۔ واللہ۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد بھائیوں کا یہ قول ہے ﴿ قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ﴾(یوسف:12؍77) یا اس سے مراد وہ حادثہ ہے جس کی بنا پر باپ اور بیٹے میں جدائی واقع ہوئی اور اس جدائی کے اصل سبب اور موجب وہی تھے۔ ﴿ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ﴾ ” جب تم ناسمجھ تھے“ یہ ان کی جہالت پر ایک قسم کا اعتزار ہے یا ان پر زجروتوبیخ ہے کیونکہ انہوں نے جاہلوں کا سا کام کیا، حالانکہ یہ کام ان کے شایان شان نہیں تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yousuf ney kaha : tumhen kuch pata hai kay tum jab jihalat mein mubtala thay to tum ney yousuf aur uss kay bhai kay sath kiya kiya tha-?
12 Tafsir Ibn Kathir
جب بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس اس عاجزی اور بےبسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے ' اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا نہ رہا گیا۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لئے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے۔ قرآن فرماتا ہے آیت (ثم ان ربک للذین عملو السوء بجھالتہ) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا۔ اب کی مرتبہ حکم ہوگیا۔ آپ نے معاملہ صاف کردیا۔ جب تکلیف بڑھ گئی ' سختی زیادہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی۔ جیسے ارشاد ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی ہے یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ اب بھائی چونک پڑے ' کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات ' کچھ حالات ' کچھ اگلے واقعات سب سامنے آگئے ' تاہم اپنا شک دور کرنے کے لئے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ آپ نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے ' اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا ' بچھڑنے کے بعد ملا دیا ' تفرقہ کے بعد اجتماع کردیا ' تقوی اور صبر رائگاں نہیں جاتے۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی۔ اب تو بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کرلیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ ہم پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا۔ اسی وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا ' میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ ارحم الراحمین ہے۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا ' آپنے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے۔