پھر جب وہ (سب اَفرادِ خانہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) یوسف (علیہ السلام) نے (شہر سے باہر آکر ہزارہا سواریوں، فوجیوں اور لوگوں کے ہمراہ شاہی جلوس کی صورت میں ان کا استقبال کیا اور) اپنے ماں باپ کو تعظیماً اپنے قریب جگہ دی (یا انہیں اپنے گلے سے لگا لیا) اور (خوش آمدید کہتے ہوئے) فرمایا: آپ مصر میں داخل ہو جائیں اگر اﷲ نے چاہا (تو) امن و عافیت کے ساتھ (یہیں قیام کریں)،
English Sahih:
And when they entered upon Joseph, he took his parents to himself [i.e., embraced them] and said, "Enter Egypt, Allah willing, safe [and secure]."
1 Abul A'ala Maududi
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کنبے والوں سے) کہا "چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے"
2 Ahmed Raza Khan
پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ
3 Ahmed Ali
پھر جب یوسف کے پاس آئے تو اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو جاؤ اگر الله نے چاہا تو امن سے رہو گے
4 Ahsanul Bayan
جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی (١) اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن و امان کے ساتھ مصر میں آؤ۔
٩٩۔١ یعنی عزت و احترام کے ساتھ انہیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا مصر میں داخل ہو جائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیئے گا
6 Muhammad Junagarhi
جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
جب وہ سب لوگ کنعان سے روانہ ہو کر یوسف (ع)کے پاس (مصر میں) پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا (اب) مصر میں داخل ہو خدا نے چاہا تو یہاں امن و اطمینان سے رہوگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس کے بعد جب وہ لوگ سب یوسف کے یہاں حاضر ہوئے تو انہوں نے ماں باپ کو اپنے پہلو میں جگہ دی اور کہا کہ آپ لوگ مصر میں انشائ اللہ بڑے اطمینان و سکون کے ساتھ داخل ہوں
9 Tafsir Jalalayn
جب (یہ سب لوگ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا مصر میں داخل ہوجائیے۔ خدا نے چاہا تو خاطر جمع سے رہیئے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿فَلَمَّا﴾ جب یعقوب علیہ السلام، ان کے بیٹے اور گھر والے تیار ہو کر اپنے ملک فلسطین روانہ ہوئے، ان کا مقصد مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچ کر وہاں آباد ہونا تھا، پس جب وہ مصر پہنچ گئے ﴿دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ﴾ ” وہ یوسف کے پاس پہنچے، تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی“ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ بٹھایا ان کو اپنا قرب عطا کیا اور ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آئے۔ ﴿وَقَالَ﴾ اور اپنے تمام گھر والوں سے کہا : ﴿ ادْخُلُوا مِصْرَ إِن شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ﴾ ” داخل ہو مصر میں، اگر اللہ نے چاہا، بے خوف ہو کر“ ہر قسم کے خطرناک حالات اور سختیوں سے محفوظ ہو۔ وہ اسی حالت میں مصر میں داخل ہوئے ان سے تمام سختی اور معاشی تنگی دور ہوگئی اور بہجت و سرور حاصل ہوگیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir jab yeh sabb log yousuf kay paas phonchay to unhon ney apney walaiden ko apney paas jagah di , aur sabb say kaha kay : aap sabb misir mein dakhil hojayen , jahan inn sha Allah sabb chain say rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بھائیوں پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے فرمایا تھا کہ ابا جی کو اور گھر کے سب لوگوں کو یہیں لے آؤ۔ بھائیوں نے یہی کیا، اس بزرگ قافلے نے کنعان سے کوچ کیا جب مصر کے قریب پہنچے تو نبی اللہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ بھی مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے چلے اور حکم شاہی سے شہر کے تمام امیر امرا اور ارکان دولت بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ مروی ہے کہ خود شاہ مصر بھی استقبال کے لئے شہر سے باہر آیا تھا۔ اس کے بعد جو جگہ دینے وغیرہ کا ذکر ہے اس کی بابت بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی آپ نے ان سے فرمایا تم مصر میں چلو، انشاء اللہ پر امن اور بےخطر رہو گے اب شہر میں داخلے کے بعد آپ نے اپنے والدین کو اپنے پاس جگہ دی اور انہیں اونچے تخت پر بٹھایا۔ لیکن امام ابن جریر (رح) نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں سدی (رح) کا قول بالکل ٹھیک ہے جب پہلے ہی ملاقات ہوئی تو آپ نے انہیں اپنے پاس کرلیا اور جب شہر کا دروازہ آیا تو فرمایا اب اطمینان کے ساتھ یہاں چلئے۔ لیکن اس میں بھی ایک بات رہ گئی ہے۔ ایوا اصل میں منزل میں جگہ دینے کو کہتے ہیں جیسے اوؤ الیہ احاہ میں ہے۔ اور حدیث میں بھی ہے من اوی محدثا پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کا مطلب یہ بیان نہ کریں کہ ان کے آجانے کے بعد انہیں جگہ دینے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ تم امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو یعنی یہاں قحط وغیرہ کی مصیبتوں سے محفوظ ہو کر با آرام رہو سہو، مشہور ہے کہ اور جو قحط سالی کے سال باقی تھے، وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تشریف آوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دور کر دئے۔ جیسے کہ اہل مکہ کی قحط سالی سے تنگ آکر ابو سفیان نے آپ سے شکایت کی اور بہت روئے پیٹے اور سفارش چاہی۔ عبد الرحمن کہتے ہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا تو پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔ اس وقت آپ کے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی خالہ صاحبہ آئی تھیں۔ لیکن امام ابن جریر اور امام محمد بن اسحاق (رح) کا قول ہے کہ آپ کی والدہ خود ہی زندہ موجود تھیں، ان کی موت پر کوئی صحیح دلیل نہیں اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اس بات کو چاہتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ زندہ موجود تھیں، یہی بات ٹھیک بھی ہے۔ آپ نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ تخت شاہی پر بٹھا لیا۔ اس وقت ماں باپ بھی اور گیارہ بھائی کل کے کل آپ کے سامنے سجدے میں گرپڑے۔ آپ نے فرمایا ابا جی لیجئے میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہوگئی یہ ہیں گیارہ ستارے اور یہ ہیں سورج چاند جو میرے سامنے سجدے میں ہیں۔ ان کی شرع میں یہ جائز تھی کہ بڑوں کو سلام کے ساتھ سجدہ کرتے تھے بلکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک یہ بات جائز ہی رہی لیکن اس ملت محمدیہ میں اللہ تبارک وتعالی نے کسی اور کے لئے سوائے اپنی ذات پاک کے سجدے کو مطلقا حرام کردیا۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے اپنے لئے ہی مخصوص کرلیا۔ حضرت قتادہ (رح) وغیرہ کے قول کا ماحصل مضمون یہی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت معاذ (رض) ملک شام گئے، وہاں انہوں نے دیکہا کہ شامی لوگ اپنے بڑوں کو سجدے کرتے ہیں یہ جب لوٹے تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا، آب نے پوچھا، معاذ یہ کیا بات ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے اہل شام کو دیکھا کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپ تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر میں کسی کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ کرے۔ بہ سبب اس کے بہت بڑے حق کے جو اس پر ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت سلمان (رض) نے اپنے اسلام کے ابتدائی زمانے میں راستے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر آپ کے سامنے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا سلمان مجھے سجدہ نہ کرو۔ سجدہ اس اللہ کو کرو جو ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبہی نہ مرے گا۔ الغرض چونکہ اس شریعت میں جائز تھا اس لئے انہوں نے سجدہ کیا تو آپ نے فرمایا لیجئے ابا جی میرے خواب کا ظہور ہوگیا۔ میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا۔ اس کا انجام ظاہر ہوگیا۔ چناچہ اور آیت میں قیامت کے دن کے لئے بھی یہی لفظ بولا گیا ہے آیت (یوم یاتی تاویلہ) پس یہ بھی اللہ کا مجھ پر ایک احسان عظیم ہے کہ اس نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا اور جو میں نے سوتے سوتے دیکھا تھا، الحمد للہ مجھے جاکنے میں بھی اس نے دکھا دیا۔ اور احسان اس کا یہ بھی ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نجات دی اور تم سب کو صحرا سے یہاں لا کر مجھ سے ملا دیا۔ آپ چونکہ جانوروں کے پالنے والے تھے، اس لئے عموما بادیہ میں ہی قیام رہتا تھا، فلسطین بھی شام کے جنگلوں میں ہے اکثر اوقات پڑاؤ رہا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ اولاج میں حسمی کے نیچے رہا کرتے تھے اور مویشی پالتے تھے، اونٹ بکریاں وغیرہ ساتھ رہتی تھیں۔ بھر فرماتے ہیں اس کے بعد کہ شیطان نے ہم میں پھوٹ ڈلوا دی تھی، اللہ تعالیٰ جس کام کا ارادہ کرتا ہے، اس کے ویسے ہی اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے آسان اور سہل کردیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اپنے افعال اقوال قضا و قدر مختار و مراد میں وہ باحکمت ہے۔ سلیمان کا قول ہے کہ خواب کے دیکھنے اور اس کی تاویل کے ظاہر ہونے میں چالیس سال کا وقفہ تھا۔ عبداللہ بن شداد فرماتے ہیں خواب کی تعبیر کے واقع ہونے میں اس سے زیادہ زمانہ لگتا بھی نہیں یہ آخری مدت ہے۔ حضرت حسن (رح) سے روایت ہے کہ باپ بیٹے اسی برس کے بعد ملے تم خیال تو کرو کہ زمین پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے زیادہ اللہ کا کوئی محبوب بندہ نہ تھا۔ پھر بھی اتنی مدت انہیں فراق یوسف میں گزری، ہر وقت آنکھوں سے آنسو جاری رہتے اور دل میں غم کی موجیں اٹھتیں اور روایت میں ہے کہ یہ مدت تراسی سال کی تھی۔ فرماتے ہیں جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کنویں میں ڈالے گئے اس وقت آپ کی عمر سترہ سال کی تھی۔ اسی برس تک آپ باپ کی نظروں سے اوجھل رہے۔ پھر ملاقات کے بعد تیئس برس زندہ رہے اور ایک سو بیس برس کی عمر میں انتقال کیا۔ بقول قتادہ (رح) ترپن برس کے بعد باپ بیٹا ملے۔ ایک قول ہے کہ اٹھارہ سال ایک دوسرے سے دور رہے اور ایک قول ہے کہ چالیس سال کی جدائی رہی اور پھر مصر میں باپ سے ملنے کے بعد سترہ سال زندہ رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ بنو اسرائیل جب مصر پہنچے ہیں ان کی تعداد صرف تریسٹھ کی تھی اور جب یہاں سے نکلے ہیں اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کی تھی۔ مسروق کہتے ہیں آنے کے وقت یہ مع مرد و عورت تین سو نوے تھے، عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ جب یہ لوگ آئے کل چھیاسی تھے یعنی مرد عورت بوڑھے بچے سب ملا کر اور جب نکلے ہیں اس وقت ان کی گنتی چھ لاکھ سے اوپر اوپر تھی۔