الحجر آية ۲۶
وَلَـقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا،
English Sahih:
And We did certainly create man out of clay from an altered black mud.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے آدمی کو بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی، ف۳۳)
3 Ahmed Ali
اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے (١)۔
٢٦۔١ مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، بھیگی ہوئی، گوندھی ہوئی بدبودار خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (صلصال) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ (فخار کی ماند کہا گیا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ) 55۔ الرحمن;14) ' پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا '
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بلاشبہ ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے انسان کو سیاہی مائل نرم مٹی سے پیدا کیا ہے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگی تھی
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
آیت نمبر 26 تا 44
ترجمہ : بیشک ہم نے انسان (یعنی) آدم کو کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا یعنی ایسی خشک مٹی جب اس کو نجایا جائے تو اس کی آواز سنی جائے اور اس سے پہلے (یعنی) تخلیق آدم سے پہلے ہم نے جنات (یعنی) ابو الجن کو کہ وہ ابلیس ہے شعلے سے کہ جس میں دھواں نہ ہو اور وہ مسامات (یعنی بدن کے مسامات) میں نفوذ کر جائے پیدا کیا اور اس وقت کا تذکرہ کرو کہ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں انسان کو کالی سڑی ہوئی کھنکھناے والی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر چکوں اور اس میں اپنی روح ڈال چکوں اور وہ زندہ ہوجائے اور روح کی نسبت اللہ کی طرف آدم کیلئے کرامت کے طور پر ہے، تو تم سب اس کیلئے سجدہ میں گرپڑنا، یعنی جھک کر تعظیم کرنا، چناچہ تمام فرشتوں نے مجموعی طور سجدہ کیا مگر ابلیس نے اور وہ ابو الجن تھا جو فرشتوں کے درمیان رہتا تھا، سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے (صاف) انکار کردیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا من زائدہ ہے وہ بولا کہ میں ایسا کرنے والا نہیں (یعنی) میرے لئے ہرگز مناسب نہیں کہ میں ایسے انسان کو سجدہ کروں کہ جس کو تو نے کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا (اللہ نے) فرمایا جنت سے نکل جا اور کہا گیا ہے کہ آسمانوں سے نکل جا، بلاشبہ تو مردود ہے اور تجھ پر میری پھٹکار ہے روز جزاء تک، کہنے لگا مجھے اس دن تک ڈھیل دیدے کہ لوگوں کو زندہ کرکے اٹھایا جائے (اللہ نے) فرمایا اچھا تو تجھے وقت مقرر تک مہلت ہے یعنی نفخۂ اولی تک، (شیطان نے) کہا اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے یعنی تیرے مجھ کو گمراہ کرنے کی وجہ سے، اور باء قسمیہ ہے اور اس کا جواب لازیننہ ہے، مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کیلئے معاصی کو مزین کروں گا، اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی سوائے تیرے ان بندوں کے کہ جو مومنین ہیں ارشاد ہوا یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے، میرے مخلص بندوں یعنی مومن بندوں پر تیرا قابو نہ چلے گا، سوائے ان گمراہ کافر لوگوں کے جو تیری پیروی کریں یقیناً ان سب کے وعدہ کی جگہ جہنم ہے یعنی اس شخص کی جو تیرے ساتھ تیری پیروی کرے، جس کے ساتھ طبقے ہیں ہر طبقے کیلئے ان میں سے ایک حصہ مخصوص کردیا گیا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : آدم، الانسان کی تفسیر، آدم، سے کرکے اشارہ کردیا کہ الانسان میں الف لام عہد کا ہے۔
قولہ : حماء، کیچڑ، گارا، سیاہ مٹی۔ قولہ : تنفذ فی المسام، اس میں سموم کی وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : فقعوا، وقع یقع، سے امر جمع مذکر حاضر ہے، تم سب گر جاؤ۔ فاء، جواب شرط ہونے کی وجہ سے داخل ہے۔
قولہ : تاکید ان اول تاکید نے اطلاق الجمع علی البعض کے احتمال کو ختم کردیا جیسا کہ ” اذقالت الملائکۃ یا مریم “ میں جمع کا اطلاق بعض پر ہوا ہے مگر ابھی احتمال انفراد باقی ہے اس کو اجمعون کہہ کر ختم کردیا، اب آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ہے گویا کہ حکم موجودین کو ہوا جن مکیں ابلیس بھی داخل ہے۔
قولہ : باغوائک اس میں اشارہ ہے کہ بما اغویتنی میں ما مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ کہ عائد کی ضرورت ہو اور باء قسمیہ ہے، یعنی قسم ہے تیرے مجھے گمراہ کرنے کی۔
قولہ : ازینن، یہ تزیین (تفعیل) سے مضارع واحد متکلم بانون تاکید ثقیلہ ہے میں زینت دوں گا، آراستہ کروں گا۔
قولہ : المعاصی اس میں اشارہ ہے کہ ازینن متعدی ہے، اور اس کا مفعول معاصی محذوف ہے۔
قولہ : مخلصین، ای اخلصتہ لعبادتک۔ قولہ : ھذا ای تخلص المؤمنین من اغوائک۔
قولہ : صراط علی، ای حق علی۔
قولہ : وھو، اس میں اشارہ ہے کہ ھو کا مرجع ان عبادی الخ ہے، اور ان عبادی، صراط مستقیم کا بیان ہے۔
قولہ : اطباق یہ طبق کی جمع ہے یعنی وہ درجات جن میں حسب اتباع مراتب شیطان جہنمیوں کو داخل کیا جائیگا، اور جہنم کے حسب ترتیب سات درجے ہیں، (1) جھنم (2) لظی (3) الحطمہ (4) السعیر (5) السقر (6) الجحیم (7) الھاویہ۔
تفسیر و تشریح
انسان کی اصل آدم (علیہ السلام) ہے نہ کہ بندریا کوئی حیوان : ولقد خلقنا۔۔۔۔ مسنون، یہاں قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ انسان کا پہلا فرد آدم (علیہ السلام) ہے اور آدم کی اصل مٹی ہے، ایسا نہیں کہ انسان بندر یا کسی اور حیوان سے ترقی کے منازل طے کرتا ہوا انسان بنا ہو جیسا کہ ڈرارون کا نظریہ ارتقاء ہے اور بعض ڈارون زدہ ذہنیت کے لوگ قرآن کی صراحت کے باوجود اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اپنا جدامجد بندریا کسی اور جانور کو ثابت کریں، حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تخلیق براہ راست ارضی مادہ سے ہوئی ہے جس کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے صلصال من حماء مسنون کے الفاظ سے بیان فرمائی ہے حماء مسنون کے الفاظ سے بیان فرمائی ہے حماء عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر بو پیدا ہوگئی ہو، یا بالفاظ دیگر خمیر اٹھ آیا ہو ” مسنون “ کے دو معنی ہیں، ایک معنی ہیں، متغیر، منتن اور املس یعنی ایسی سڑی ہوئی مٹی کہ جس میں سڑنے کی وجہ سے چکناہٹ پیدا ہوگئی ہو، اس کا مصدر سَنٌّ ہے، (ن) متغیر، سڑا ہوا، علامہ سیوطی نے یہی معنی مراد لئے ہیں، دوسرے معنی ہیں مصور، یعنی سانچے میں ڈھلی ہوئی جس کو کوئی خاص شکل دیدی گئی ہو، ” صلصال “ اس سوکھے گارے کو کہتے ہیں کہ جو خشک ہوجانے کے بعد بجنے لگے، ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خمیر اٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اس کے بعد اس میں روح پھونکی گئی۔
روح کی حقیقت کیا ہے ؟ روح کوئی جسم لطیف ہے یا جوہر مجرد ؟ اس میں علماء اور حکماء کا اختلاف قدیم زمانہ سے چلا آتا ہے، ہمارے محققین علماء نے روح کو جسم لطیف تسلیم کیا ہے۔ الروح جسم لطیف۔ (قرطبی) ۔ الروح جسم لطیف یحیا بہ الانسان۔ (معالم)
واجمع اھل السنۃ علی انھا جسم لطیف یخالف الاجسام بالماھیۃ والصفۃ متصرف فی البدن حال فیہ حلول الزیت فی الزیتون او النار فی الفحم، یعبر عنہ بانا وانت والی ذلک ذھب امام الحرمین۔ (روح)
ترجمہ : جمہور اہل السنت کا مسلک یہ ہے کہ روح ایک جسم لطیف ہے ماہیت اور صفت میں اجسام کے عکس ہے بدن میں متصرف ہے، روح جسم میں اس طرح حلول کئے ہوئے ہے جس طرح زیتون کا تیل زیتون میں اور آگ کوئلہ میں، اس کو میں اور تو، سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض کی تحقیق جن میں امام غزالی بھی شامل ہیں یہ ہے کہ روح ایک جوہر مجرد ہے جو نہ جسم میں داخل ہے نہ خارج، نہ اس سے متصل نہ اس سے منفصل۔
مولانا عبد الماجد دریا بادی اپنی تفسیر ماجدی میں لکھتے ہیں کہ ” احقر کے نزدیک روح کی ماہیت و حقیقت کے باب میں زیادہ کھود کرید کچھ مناسب نہیں، مسلمان کیلئے صرف اس قدر عقیدہ کافی ہے کہ روح موہبت الٰہی میں سے کوئی خاص چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ براہ راست انسان کو منتقل کردیتا ہے اور اس سے انسان، انسان بن جاتا ہے اور جوں ہی وہ اپنے اس عطیہ کو واپس لے لیتا ہے انسان مردہ بےجان ہوجاتا ہے، “ (اسی حقیقت کی جانب اللہ تعالیٰ نے ” قل الروح من امر ربی “ سے اشارہ فرمایا ہے) ۔
انسان کی پیدائش میں اگرچہ عنصر غالب مٹی ہے اور اسی لئے قرآن عزیز میں انسان کی پیدائش کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن انسان درحقیقت دس چیزوں کو جامع ہے جن سے پانچ عالم خلق کی ہیں اور پانچ عالم امر کی۔ عالم خلق کی چیزوں میں چار تو عناصر اربع آگ، پانی، مٹی، ہوا ہیں اور پانچواں ان چاروں سے پیدا ہونے والا بخار لطیف جس کو روح سفلی یا نفس کہا جاتا ہے اور عالم امر کی پانچ چیزیں یہ ہیں قلب، روح، سر، خفی، اسی جامعیت کی وجہ سے انسان خلافت الٰہیہ کا مستحق بنا اور نور معرفت اور نار عشق و محبت کا متحمل ہوا، جس کا نتیجہ بےکیف محبت الٰہیہ کا حصول ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” المرء مع من احب “۔
اور انسان تجلیات الٰہیہ کی قابلیت اور محبت الٰہیہ کا جو درجہ اس کو حاصل ہے اسی وجہ سے حکمت الٰہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اس کو مسجود ملائکہ بنایا جائے ارشاد ہوا ” فقعوا لہ ساجدین “۔ (معارف)
آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کے حکم میں ابلیس شامل تھا یا نہیں ؟ سورة اعراف میں ابلیس کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا، ” مامنعک ان لا تسجد اذ امرتک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی دیا گیا تھا، مذکورہ آیات جن سے بظاہر اس حکم کا فرشتوں کیلئے مخصوص ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ اصالۃ حکم فرشتوں کو دیا گیا مگر ابلیس بھی چونکہ فرشتوں میں موجود تھا اسلئے تبعا وہ بھی اس حکم میں شامل تھا، اس لئے کہ جب فرشتوں کو جو کہ اللہ کے نزریک بزرگ ترین مخلوق اور ابلیس سے بہرحال افضل ہیں حکم دیا گیا تو دوسری مخلوق جو کمتر ہے اس کا حکم میں تبعا داخل ہونا ظاہر تھا، اسی لئے ابلیس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کا حکم دیا ہی نہیں گیا تو عدم تعمیل کا جرم مجھ پر عائد ہی نہیں ہوتا۔
قال فاخرج۔۔۔۔۔ الخ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس کا جواب سنا تو فرمایا ” اچھا تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے “ اور اب تجھ پر روز جزاء تک لعنت ہے، یعنی قیامت تک تو ملعون رہے گا اور اس کے بعد جب روز جزاء قائم ہوگا تو تجھے تیری نافرمانیوں کی سزا دی جائیگی۔
قال رب بما۔۔۔۔ (الآیۃ) یعنی جس طرح تو نے اس حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کردیا کہ تیرا حکم نہ مانوں، اسی طرح اب میں ان انسانوں کیلئے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے۔ اغوا اور اضلال کا یہ انتساب ذات باری تعالیٰ کی جانب جس حد تک بھی صحیح ہے صرف تکوینی حیثیت سے یا علت العلت کے معنی میں ہے، بما میں باء سببیہ ہے ای بسبب اغوائک ایای۔
ھذا صراط علی مستقیم، اس فقرہ کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ ” راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا پہنچاتا ہے “ اور راستہ سے مراد اخلاص کا راستہ ہے، دوسرے معنی یہ ہیں ھذا طریق حق علی أن اراعیہ ” یعنی یہ بات درست ہے میں بھی اس کا پابند رہوں گا “۔
ان عبادی لیس لک علیھم سلطان (الآیۃ) شیطان کا منتہائے قوت بس یہ ہے کہ شیطان دم دلاسا خوب دیتا ہے انسان کو فوری لذتوں کی چاٹ خوب چٹاتا ہے بس اس سے زیادہ اس کو کوئی اختیار نہیں، انسان گناہ کرنے پر مجبور مضطر نہیں، جب توفیق الٰہی ساتھ چھوڑ دیتی ہے تب خود انسان شیطان کے دام فریب میں پھنس جاتا ہے امام رازی (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان نے جو اوپر دعویٰ کردیا کہ میں لوگوں کو گمراہ کروں گا اور خوب سبز باغ دکھاؤں گا، تو اس سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید شیطان کو کچھ نہ کچھ قوت و اقتدار حاصل ہے اس آیت میں اسی غلط فہمی کی تردید ہے، اور اعلان ہے کہ شیطان کی راہ پر چلنے لگے تو اسے اختیار ہے، غرض اس آیت سے حق تعالیٰ نے خود شیطان کی بھی غلط فہمی دور کردی۔ (کبیر، ملخصا)
لھا سبعۃ ابواب (الآیۃ) دوزخ کے دروازوں یا طبقات کی یہ تعداد ممکن ہے کہ استحقاق عذاب کے اظہار کیلئے ہو لان صلھا سبع فرق (بیضاوی) ای سبعۃ اطباق۔ (ابن جریر، عن عکرمۃ) ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ محض تعداد مراد ہو، اور اس سے مراد دوزخ میں داخل ہونے والوں کی کثرت تعداد کا اظہار ہو۔ (روح)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے باپ حضرت آدم پر اپنی نعمت اور اپنے احسان کا ذکر کرتاہے، حضرت آدم کا اپنے دشمن ابلیس کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کو بھی بیان کرتا ہے اور اس ضمن میں ہمیں ابلیس کے شر اور فتنہ سے ڈراتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ﴾ ” ہم نے انسان کو پیدا کیا۔“ یعنی آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ﴿مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ﴾ ” کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے“ یعنی خمیر شدہ گارے سے پیدا کیا جس میں خشک ہونے کے بعد کھنکھناہٹ کی آواز پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے پکی ہوئی ٹھیکری کی آواز۔
(اَلْحَماُالْمَسْنُون) اس گارے کو کہتے ہیں، جس کا رنگ اور بو، طویل عرصے تک پڑا رہنے کی وجہ سے بدل گئے ہوں۔ ﴿وَالْجَانَّ﴾ ” اور جنوں کو۔“ اس سے مراد جنوں کا باپ، یعنی ابلیس ہے
11 Mufti Taqi Usmani
hum ney insan ko sarray huye garay ki khankhanati hoi mitti say peda kiya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
خشک مٹی
صلصال سے مراد خشک مٹی ہے۔ اسی جیسی آیت ( خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14 ۙ ) 55 ۔ الرحمن :14) ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو حما کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو مسنون کہتے ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ سموم کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور حرور کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم (علیہ السلام) اس سے جو تمہارے سامنے بیان کردیا گیا ہے۔ اس آیت سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے۔