النحل آية ۱
اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۗ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ
طاہر القادری:
اللہ کا وعدہ (قریب) آپہنچا سو تم اس کے چاہنے میں عجلت نہ کرو۔ وہ پاک ہے اور وہ ان چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں،
English Sahih:
The command of Allah is coming, so be not impatient for it. Exalted is He and high above what they associate with Him.
1 Abul A'ala Maududi
آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اب آتا ہے اللہ کا حکم تو اس کی جلدی نہ کرو پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے،
3 Ahmed Ali
الله کا حکم آ پہنچا تم اس میں جلدی مت کرو وہ لوگو ں کے شرک سے پاک اور برتر ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ (١) تمام پاکی اس کے لئے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں۔
١۔١ اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آ گئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس کے لیے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ تمام پاکی اس کے لیے ہے وه برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ کا حکم (عذاب) آگیا ہے پس تم اس کے لئے جلدی نہ کرو وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
امر الٰہی آگیا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدی نہ مچاؤ کہ خدا ان کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور بلند و بالا ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا کا حکم (یعنی عذاب گویا) آ ہی پہنچا تو (کافرو) اس لے لئے جلدی مت کرو۔ یہ لوگ جو (خدا کا) شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 9
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، جب مشرکوں نے عذاب آنے میں تاخیر دیکھی (تو عذاب کا مطالبہ کیا) اس وقت (آئندہ آیت) نازل ہوئی، اللہ کا حکم آگیا یعنی قیامت اور قیامت کے یقینی الوقوع ہونے سے (أتٰی) ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور أتٰی بمعنی قَربَ ، ہے یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا، تو تم اس کے وقت سے پہلے طلب میں جلدی مت مچاؤ وہ یقیناً واقع ہونے والی ہے، اللہ پاک ہے، اور جس غیر اللہ کو وہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں اللہ اس سے بالا و برتر ہے (اللہ) فرشتوں (یعنی) جبرئیل کو وحی دیکر اپنے حکم اور ارادہ سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا یہ نازل کرتا ہے اور وہ انبیاء ہیں، یہ کہ لوگوں کو آگاہ کردو أن مفسرہ ہے، کافروں کو عذاب سے ڈراؤ اور ان کو یہ بتاؤ کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو، اس اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق یعنی بامقصد پیدا کیا وہ ان بتوں سے وراء الوراء ہے جس کو یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں، انسان کو نطفہ منی سے پیدا کیا یہاں تک کہ اس کو قوی اور مضبوط کردیا، تو وہ بعث (بعد الموت) کا انکار کرکے (صریح) جھگڑالو بن گیا یہ کہتے ہوئے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو (بھلا) کون زندہ کرسکتا ہے ؟ اور تمہارے لئے جانوروں کو (مثلاً ) اونٹ اور گائے (بیل) اور بکریاں پیدا کیں اور (اَنْعَامَ ) کا نصب اس فعل مقدر کی وجہ سے، ہے جس کی تفسیر خلقھا لکم کررہا ہے، منجملہ دیگر لوگوں کے تمہارے لئے وہ مویشی پیدا کئے کہ ان کی اون اور بالوں سے بنی ہوئی (گرم) چادروں اور لباسوں میں سردی سے حفاظت ہے (اس کے علاوہ) نسل، دودھ اور سواری کے منافع (بھی) ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو اور ظرف (منھا) کو فواصل کر رعایت کی وجہ سے مقدم کیا ہے، اور تمہارے لئے وہ باعث زینت بھی ہوتے ہیں جب کہ تم ان کو شام کے وقت ان کے باڑوں کی طرف واپس لاتے ہو اور اس وقت بھی (باعث زینت ہوتے ہیں) کہ جب تم انہیں صبح کے وقت ان کی چراگاہ کی طرف لے جاتے ہو، اور وہ تمہارے سامان کا بوجھ اٹھا کر ایسے شہروں تک لیجاتے ہیں کہ تم وہاں اونٹوں کے بغیر نہیں پہنچ سکتے مگر سخت جانفشانی کے بعد، حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے، اس لئے کہ اس نے تمہارے لئے ان جانروں کو پیدا کیا، اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تمہاری سواری کے لئے اور زینت کے لئے دونوں مفعول لہ ہیں، اور (رکوب وزینت) کو علت قرار دینا نعمتوں کے تعارف کے لئے ہے، لہٰذا اس کے علاوہ کیلئے تخلیق کے منافی نہیں، جیسا کہ گھوڑا کھانے کے لئے (بھی) جو کہ صحیحین کی حدیث سے ثابت ہے اور وہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم جانتے بھی نہیں، اور سیدھا راستہ بتانا اللہ کے ذمہ ہے جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں، اگر وہ تمہاری ہدایت چاہتا تو سب کو ہدایت دیدتا تو تمہارے اختیار سے اس تک رسائی ہوجاتی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای قَرُبَ ، ای قَرُبَ وقوعُہٗ ، تطلبوہ، ای تطْلبوا وقوعہٗ ۔ قولہ : سبحانَہٗ ، یہ فعل محذوف کا مفعول ہے، ای سَبَّحَ سبحانہٗ ۔
قولہ : بہٖ اس میں اشارہ ہے کہ عَمَّا میں ماموصولہ ہے جس کے صلہ میں عائد کا ہونا ضروری ہے، اور اگر مامصدر یہ ہو تو عائد کی ضرورت نہ ہوگی۔
قولہ : عَمَّا میں سبحانہ اور تعالیٰ دونوں فعل تنازع کررہے ہیں ہر ایک عَمَّا میں ما کو اپنا مفعول بنانا چاہتا ہے یہ بات تنازع فعلان سے ہے، بصریین کے نزدیک ثانی فعل کو اور کو فیین کے نزدیک اول فعل کو عمل دیں گے۔
قولہ : ای جبرئیل۔ سوال : اَلْملائکۃ صیغہ جمع بول کر واحد مراد لیا ہے ایسا کیوں ؟
جواب : ایسا مجازًا کیا ہے جیسا کہ اذقالتِ الملائکۃ یا مریم میں ملائکہ سے مراد جبرئیل امین ہی ہیں، واحدی نے کہا ہے کہ جب فرد جماعت کا رئیس ہو تو اس پر جمع کا اطلاق درست ہے، جبرئیل چونکہ ملائکہ کے سردار ہیں لہٰذا ان پر جمع کا اطلاق صحیح ہے۔
قولہ : بارادتہ اس میں اشارہ ہے کہ مِنْ اَمْرہ میں مِنْ بمعنی باء ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ من امرہٖ میں مِنْ نہ بیانیہ ہوسکتا ہے اور نہ تبعیضیہ اور نہ ابتدائیہ۔
قولہ : اَنْ مفسرہ۔ سوال : أن مفسرہ قال یا قال کے مشتقات یا قال کے ہم معنی کے بعد واقع ہوتا ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے۔
جواب : یہاں روح چونکہ وحی کے معنی ہے اور وحی قال میں ہے لہٰذا أن مفسرہ ہونا درست ہے۔
قولہ : وَاعلموھم، یہ اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : انداز متعدی بیک مفعول اور وہ محذوف ہے ای اندرو المشرکین، لہٰذا أنَّہٗ لا الہٰ میں اَنَّ کے فتحہ کی کیا وجہ ہے ؟ قیاس کا تقاضا ہے کہ اِنَّ بکسر الھمزہ ہو۔
جواب : یہ ہے کہ یہاں اعلموا مقدر ہے اور أنَّہ لا اِلہٰ الا انا، مفعول ثانی ہے، اسی وجہ سے أنّہ لایا گیا ہے۔
قولہ : محقًا، اس میں اشارہ ہے کہ بالحق حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : شدید الخصومۃ اس میں اشارہ ہے کہ خصیم (فعیل) مبالغہ کے لئے ہے۔
قولہ : نصبُہٗ بفعلٍ یفسرہ خلَقَھا، یعنی یہ ما اضمر عاملہ کے قبیل سے ہے، تقدیر عبارت یہ ہے خَلَق الانعام خلَقَھا لکم۔
قولہ : دفْءٌ جاڑے کی پوشاک، گرم کپڑا، گرمی حاصل کرنے کا سامان، اونٹوں کی پیداوار اور ان سے جو نفع حاصل ہو، (س ک) دَفْأً ، دُفُوءًا، دَفَاء ۃً ، گرم ہونا گرمی محسوس کرنا، استدفاءٌ، گرم کپڑا پہننا۔
قولہ : من اشعارھا واصوفھا مَا تستَدْفِئونَ ، میں ما کا بیان ہے، دِفْ ءٌ کی تفسیر ما تسَتَدْفِئونَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ دِفْءٌ مصدر اسم کے معنی میں ہے، اس طرح دفْءٌ کا حمل بھی درست ہوگیا۔
قولہ : قدّم الظرف للفاصلۃ یعنی ومنھا تاکلون اصل میں تاکلون منھا تھا، فواصل کے رعایت کی وجہ سے ظرف کو مقدم کردیا۔
قولہ : مُراح بضم الیم، آرام کی جگہ، ٹھکانہ، جانوروں کا باڑا۔
قولہ : وخَلَقَ ، خَلَقَ مقدر مان کر اشارہ کردیا الخیل کا عطف الانعام پر ہے، ای خَلَقَ الانعام وخلق الخیل الخ۔
قولہ : مفعولٌ لَہٗ ، زینۃً مفعول لہ ہے، اور لتر کبوھا کے محل پر عطف ہے یعنی ترکبوھا اور زینۃً دونوں خَلَقَ کے مفعول لہ ہیں۔
سوال : دونوں مفعول لہ ہیں مگر دونوں کو ایک طرز پر نہیں لایا گیا۔
جواب : دونوں میں فرق ہے کہ رکوب مخاطبین کا فعل ہے اور زینتہ خالق کا فعل ہے۔
قولہ : والتعلیلُ بھما لتعریف النعم الخ، یہ احناف کے استدلال کا جواب ہے، احناف کا استدلال اس آیت سے اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کی تخلیق کی علت زینت بیان فرمائی ہے اور ان تینوں کی تخلیق کو کھانے کی علت قرار نہیں دیا جیسا کہ انعام میں تخلیق کی علت اکل بیان فرمائی ہے حالانکہ منفعت اکل دیگر منفعتوں سے اعلی ہے اور آیت بیان نعمت ہی کے لئے لائی گئی ہے اور یہ بات ہرگز مناسب نہیں ہے کہ احسان جتانے کے موقع پر ادنی کا ذکر کیا جائے اور اعلی کو چھوڑدیا جائے۔
قولہ : قولہ : قصدالسبیل، یہ اضافت الی الموصوف ہے، ای السبیل القصد، اور قصد بمعنی قاصد ہے تاکہ حمل درست ہوجائے قصد سیدھے راستے کو کہتے ہیں، یقال سبیلٌ قصدٌ وسبیلٌ قاصدٌ سیدھا راستہ۔
تفسیر وتشریح
سورت کا نام : اس صورت کا نام سورۂنحل اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ اس میں نحل یعنی شہد کی مکھیوں کا ذکر قدرت کی عجیب و غریب صفت کے بیان کے سلسلے میں ہوا ہے، اس کا دوسرا نام سورة نِعَمْ بھی ہے (قرطبی) نِعَمْ نعمت کی جمع ہے، اس لئے کہ اس صورت میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
موضوع اور مرکزی مضمون : مرکزی مضمون شرک کا بطلان اور توحید کا اثبات، دعوت پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ اور فہمائش، اور حق کی ممانعت و مزاحمت پر زجروتوبیخ ہے۔
اس سورت کو بغیر کسی خاص تمہید کے ایک شدید و عید اور ہیبت ناک عنوان سے شروع کیا گیا ہے جس کی وجہ مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں قیامت سے اور اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں، اور یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو غالب کرنے اور مخالفوں کو مغلوب کرنے اور سزا دینے کا وعدہ کیا ہے، ہمیں تو یہ کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا، اس کے جواب میں اشاد فرمایا کہ |" آپہنچا حکم اللہ کا تم جلد بازی نہ کرو |" (معارف) یعنی عنقریب پہنچنے والا ہے جس کو تم خود عنقریب بچشم سر دیکھ لو گے۔
بعض حضرات نے فرمایا کہ اس میں اللہ سے مراد قیامت ہے اس کے آپہنچنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کا وقوع دنیا کی گذشتہ مدت کے اعتبار سے قریب ہے۔
مذکورہ آیت کا خلاصہ ایک وعید شدید کے ذریعہ توحید کی دعوت دینا ہے، دوسری آیت میں دلیل نفلی سے توحید کا اثبات ہے کہ آدم علیہ الصلاۃ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دنیا کے مختلف خطوں، مختلف زمانوں میں جو رسول آیا، ہے اس نے یہی عقیدۂ توحید پیش کیا ہے حالانکہ ایک کو دوسرے کے حال اور تعلیم کے اسباب سے کوئی اطلاع بھی نہ تھی، غور کرو کہ کم از کم ایک لاکھ بیس ہزار حضرات عقلاء جو مختلف اوقات میں مختلف ملکوں مختلف خطوں میں پیدا ہوں اور وہ سب کے سب ایک ہی بات کے قائل ہوں تو فطرۃً انسان یہی سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ بات غلط نہیں ہوسکتی، ایمان لانے کیلئے تنہا یہی دلیل کافی ہے، لفظ
روح سے مراد اس آیت میں بقول ابن عباس وحی اور بقول دیگر مفسرین ہدایت ہے۔
عقیدۂ توحید کا عملی طور پر اثبات : خَلَقَ السمٰوات۔۔۔ بالحق (الآیۃ) ان آیتوں میں تخلیق کائنات کی عظیم نشانیوں سے حق تعالیٰ کی توحید کا اثبات ہے، اول تو سب سے پہلی مخلوق آسمان اور زمین کا ذکر فرمایا اس کے بعد تخلیق انسانی کا ذکر فرمایا، جس کو اللہ تعالیٰ نے مخدوم کائنات بنایا، انسان کی ابتداء ایک حقیر نطفہ سے ہونا بیان کرکے فرمایا، فَاِذَا ھُوَ خصیم مبین یعنی جب اس ضعیف الخلقت کو طاقت اور قوت گویائی عطا ہوئی تو خدا ہی کی ذات وصفات میں جھگڑنے لگا۔
انسانی تخلیق کے بعد ان اشیاء کی تخلیق کا ذکر فرمایا جو انسان کے فائدے کے لئے خصوصی طور پر بنائی گئی ہیں، اور قرآن کے سب سے اول مخاطب چونکہ عرب تھے اور عرب کی معیشیت کا بڑا دارمدار جانوروں میں اونٹ، گائے، بکری پر تھا اس لئے پہلے ان کا ذکر فرمایا، |" وَالْاََنعام خَلَقھا |" پھر جانوروں سے جو فوائد انسان کو حاصل ہوتے ہیں ان میں سے دو فائدے خاص طور سے بیان کردیئے۔
فائدہ : (١) ایک لکم فیھا دِفْءٌ یعنی ان جانوروں کی اون سے انسان اپنے گرم کپڑے اور کھال سے پوستین وغیرہ تیار کرکے سردی کے موسم میں گرمائش حاصل کرتا ہے۔
فائدہ : (٢) ومنھا تاکلون، یعنی انسان جانوروں میں سے بعض کو ذبح کرکے اپنی خوراک بھی بنا سکتا ہے، غرضیکہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے دو یعنی خوراک اور پوشاک کی ضرورت جانوروں سے پوری ہوسکتی ہیں، اور ان کے دودھ سے اپنی بہترین غذا تیار کرسکتا ہے اور باقی عام فوائد کے لئے فرمایا |" و منافع للناس |" اور بیشمار فوائد انسان کے جانوروں کے گوشت چمڑے، ہڈی، اور بالوں سے وابستہ ہیں، اس ابہام و اجمال میں ان سب نئی سے نئی ایجادات کی طرف بھی اشارہ ہے جو حیوانی اجزاء سے انسان کی غذا، لباس، دواء استعمال اشیاء کے لئے ابتک ایجاد ہوچکی ہیں یا آئندہ قیامت تک ہوں گی۔ (معارف)
ولکم۔۔۔۔ تریحون، اس میں ایک فائدہ عرب کے ذوق کے مطابق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تمہارے لئے جمال اور زینت کا ذریعہ ہیں خصوصاً جب وہ شام کو چراگاہوں کی طرف آتے ہیں یا صبح کو آرام گاہوں سے نکل کر چراگاہوں کی طرف جاتے ہیں، کیونکہ اس وقت مویشیوں سے ان کے مالکان کی خاص شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے آخر میں ان جانوروں کا ایک اور فائدہ یہ بیان کیا کہ یہ جانور تمہارے بوجھل سامان دور دراز شہروں تک پہنچادیتے ہیں جہاں تمہاری اور تمہارے سامان کی رسائی جان جوکھوں میں ڈالے بغیر ممکن نہ تھی، آج ریل گاڑیوں اور ٹرکوں اور ہوائی جہازوں کے زمانہ میں بھی انسان ان جانوروں سے مستثنی نہیں۔
کھائے جانے والے حلال جانوروں کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوا جن کی تخلیق ہی سواری اور باربرداری کے لئے ہے ان کے
دودھ یا گوشت سے انسان کا فائدہ متعلق نہیں کیونکہ ازروئے شرع وہ اخلاقی بیماریوں کا سبب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہیں، فرمایا، |" والخیلَ والبغال والحمیر لتر کبوھا و زینۃً ، یعنی ہم نے گھوڑے، خچر، گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہارے لئے باعث زینت بھی ہوں۔
مسئلہ : قرآن کریم نے اول انعام یعنی اونٹ، گائے، بکری، کا ذکر فرمایا، اور ان کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ ان کا گوشت کھانا بھی قرار دیا پھر اس سے الگ کرکے فرمایا، والخیل والبغال والحمیر ان کے فوائد میں ان سے سواری لینے اور ان سے اپنی زینت حاصل کرنے کا ذکر ہے مگر گوشت کھانے کا یہاں ذکر نہیں کیا اس میں یہ دلالت پائی جاتی ہے کہ گھوڑے، خچر، گدھے کا گوشت حلال نہیں، گدھے اور خچر کا گوشت حرام ہونے پر تو جمہور فقہاء کا اتفاق ہے اور ایک مستقل حدیث میں ان کی حرمت کا صراحۃً بھی ذکر ہے مگر گھوڑے کے معاملہ میں حدیث کی دو روایتیں متعارض آئی ہیں ایک سے حلت اور دوسری سے حرمت معلوم ہوتی ہے اسی لئے فقہاء امت کے اقوال اس میں مختلف ہوگئے بعض نے حلال قرار دیا اور بعض نے حرام، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے اسی تعارض دلائل کی وجہ سے گھوڑے کے گوشت اور خچر کی طرح حرام نہیں کہا مکروہ قرار دیا۔ (احکام القرآن جصاص)
مسئلہ : اس آیت سے جمال اور زینت کا جواز معلوم ہوتا ہے، اگرچہ تفاخرو تکبر حرام ہیں فرق یہ ہے کہ جمال وزینت کا حاصل اپنے دل کی خوشی یا اللہ تعالیٰکی نعمتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ (معارف)
وعلی۔۔۔ السبیل، یہ آیت درمیان میں بطور جملہ معترضہ کے اس بات پر تنبیہ کرنے کے لئے لائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ قدیمہ کی بنا پر اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ لوگوں کے لئے وہ صراط مستقیم واضح کردے جو اللہ تک پہنچانے والا ہے۔
لیکن اس کے بر خلاف کچھ لوگوں نے دوسرے ٹیڑھے راستے بھی اختیار کر رکھے ہیں وہ ان تمام واضح آیات اور دلائل سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ گمراہی میں بھٹکتے رہتے ہیں، پھر ارشاد فرمایا کہ مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ جبر نہ کیا جائے، دونوں راستے سامنے کردیئے جائیں چلنے والا جس راستہ پر چلنا چاہے چلا جائے، صراط مستقیم اللہ تعالیٰ اور جنت تک پہنچائیگا اور ٹیڑھے راستے جہنم پر پہنچائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وعدے کو قریب بتلاتے ہوئے اور اس کے وقوع کو متحقق کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَتَىٰ أَمْرُ اللّٰـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ﴾ ”اللہ کا حکم آ پہنچا، پس آپ اس میں جلدی نہ کریں“ کیونکہ یہ وعدہ ضرور آئے گا اور جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہی ہوتی ہے۔ ﴿سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ” وہ پاک اور بلند ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک بناتے ہیں“ اللہ تبارک و تعالیٰ شریک، بیٹے، بیوی اور ہمسر وغیرہ کی نسبت سے بالکل پاک ہے جن کو یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے جلال کے لائق نہیں اور اس کے کمال کے منافی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ان سے منزہ قرار دیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کو اس کے دشمنوں نے متصف کیا ہے۔ اس لئے اس وحی کا ذکر فرمایا جو اس نے اپنے انبیاء و مرسلین پر نازل فرمائی جس کی اتباع کو وہ پسند فرماتا ہے۔ اس وحی میں ان صفات کمال کا ذکر فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جانا چاہئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ka hukum aan phoncha hai , lehaza uss kay liye jaldi naa machao . jo shirk yeh log ker rahey hain , woh uss say pak aur boht baala o bartar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا
اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہوچکی۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی۔ چاند پھٹ گیا۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو۔ ہ کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے۔ ضحاک (رح) نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18) 42 ۔ الشوری :18) بےایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آپہنچا اب جلدی نہ کرو۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہوجائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہوگا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آجائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔