الاسراء آية ۷۱
يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍ ۢبِاِمَامِهِمْ ۚ فَمَنْ اُوْتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَاُولٰۤٮِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا
طاہر القادری:
وہ دن (یاد کریں) جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے، سو جسے اس کا نوشتۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا پس یہ لوگ اپنا نامۂ اعمال (مسرت و شادمانی سے) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا،
English Sahih:
[Mention, O Muhammad], the Day We will call forth every people with their record [of deeds]. Then whoever is given his record in his right hand – those will read their records, and injustice will not be done to them, [even] as much as a thread [inside the date seed].
1 Abul A'ala Maududi
پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اُس وقت جن لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنا کارنامہ پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جو اپنا نامہ داہنے ہاتھ میں دیا گیا یہ لوگ اپنا نامہ پڑھیں گے اور تاگے بھر ان کا حق نہ دبایا جائے گا
3 Ahmed Ali
جس دن ہم ہر فرقہ کو ان کے سرداروں کے ساتھ بلائیں گے سوجسے اس کا اعمال نامہ ا سکے داہنے ہاتھ میں دیا گیا سو وہ لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور وہ تاگے کے برابر ظلم نہیں کئے جائیں گے
4 Ahsanul Bayan
جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت (١) بلائیں گے۔ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو شوق سے اپنا نامہ اعمال پڑھنے لگیں گے اور دھاگے کے برابر (ذرہ برابر) بھی ظلم نہ کئے جائیں گے (٢)۔
٧١۔١ اِ مَام کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات! اے اہل انجیل! اور اے اہل قرآن! وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں 'امام سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔
٧١۔٢ فَتِیل اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے۔ تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے پیشوا سمیت بلائیں گے۔ پھر جن کا بھی اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وه تو شوق سے اپنا نامہٴ اعمال پڑھنے لگیں گے اور دھاگے کے برابر (ذره برابر) بھی ﻇلم نہ کئے جائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اس دن (کو یاد کرو) جب ہم (ہر دور کے) تمام انسانوں کو انکے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے پس جس کسی کو اس کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو یہ لوگ اپنا صحیفۂ اعمال (خوش خوش) پڑھیں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
جس دن ہم سب لوگوں کو انکے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔
آیت نمبر 71 تا 77
ترجمہ : اس دن کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس دن ہم ہر گروہ (امت) کو اس کے نبی کے ساتھ بلائیں گے، یوں کہا جائے گا اے فلاں نبی کی امت یا ان کو ان کے نامۂ عمل کے ساتھ بلایا جائیگا، یوں ندا دی جائے گی اے صاحب خیر اور اے صاحب شر اور وہ قیامت کا دن ہوگا، تو ان میں سے جس کو دائیں ہاتھ میں نامہ عمل دیا جائیگا تو یہ لوگ خوش نصیب اور دنیا میں صاحب بصیرت تھے تو وہ لوگ اپنے اعمال ناموں کو (خوشی خوشی) پڑھیں گے اور ان کے اعمال میں سے گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کمی نہ کی جائے گی اور جو اس دنیا میں حق (بینی) سے اندھا رہا ہوگا تو وہ آخرت میں بھی راہ نجات اور نامۂ عمل کے پڑھنے سے اندھا رہے گا اور زیادہ گم کردۂ راہ ہوگا، یعنی راہ راست سے بہت دور ہوگا، اور (آئندہ) آیت بنی ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ ان کی وادی (طائف) کو حرم بنادیں اور اس بات پر اصرار کیا اور بلاشبہ قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہٹا دیں (بچلا دیں) تاکہ آپ ہماری طرف اس کے علاوہ کی گھڑ کر نسبت کردیں اگر آپ ان کے کہنے کے مطابق کرلیتے تب تو یہ لوگ آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر حفاظت کے ذریعہ ہم آپ کو حق پر قائم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی شدید حیلہ گری اور ان کے اصرار کی وجہ سے ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہوجاتے یہ اس بات میں صریح ہے کہ نہ تو آپ مائل ہوئے اور نہ مائل ہونے کے قریب ہوئے اور اگر آپ مائل ہوجاتے تو ہم آپ کو ضرور چکھاتے دوگنا عذاب دنیا میں اور دوگنا عذاب مرنے میں اس کا دو گنا جو دوسروں کو دنیا و آخرت میں دیا جاتا پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے یعنی اس عذاب سے بچانے والا، اور (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی کہ جب یہود نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو شام چلے جاؤ اسلئے کہ وہ انبیاء کی سرزمین ہے اور بلاشبہ یہ بات قریب تھی کہ یہ لوگ آپ کے قدم ارض مدینہ سے اکھاڑ دیں تاکہ آپ کو مدینہ سے نکال دیں، اگر یہ لوگ آپ کو نکال دیتے تو یہ خود بھی آپ کے بعد مدینہ میں نہ ٹھہر پاتے مگر بہت کم مدت پھر ان کو ہلاک کردیا جاتا ایسا ہی دستور ان رسولوں کا تھا جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا، یعنی ان لوگوں کو ہلاک کرنے کے ہمارے دستور کے مطابق جنہوں نے ان (انبیاء) کو نکالا، اور آپ ہمارے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اُناس، لوگ، نَوْس، لوگ، نَوْسٌ سے ماخوذ ہے جس کے معنی حرکت کرنے کے ہیں، یہ انسانٌ کی جمع بغیر لفظہ ہے مصباح میں ہے کہ انسان ناس سے ماخوذ ہے اور یہ اسم جنس ہے اس کا اطلاق مذکر اور مؤنث واحد اور جمع سب پر ہوتا ہے۔
قولہ : یا صاحب الشر، اس میں مضاف محذوف ہے ای یا صاحب کتاب الشر۔
قولہ : یقرءون ای یقرءون سُرورًا، خوشی خوشی پڑھیں گے۔
قولہ : قدر قشرۃ النواۃ، مفسر علام نے فتیلاً ، کی تفسیر قشرۃ النواۃ سے کی ہے، بہتر ہوتا کہ الخیط الذی فی نقرۃ النواۃ النواۃ طولاً ، سے کرتے اس لئے کہ کھجور کی گٹھلی میں تین چیزیں ہوتی ہیں، (1) فتیل (2) قطمیر (3) نقیر، فقیلؔ اس دھاگے یا ریشے کو کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشت میں طولا ایک شق میں ہوتا ہے اور گٹھلی کے اوپر جو جھلی کے مانند ایک غلاف ہوتا ہے اسے قطمیر کہتے ہیں اور گٹھلی کی پشت میں ایک سوراخ ہوتا ہے اس میں جو ریشہ یا دھاگہ ہوتا ہے اس کو نقیرؔ کہتے ہیں۔ (اعراب القرآن للدرویش)
قولہ : ابعد طریقا عنہ ای ابعد طریقاً عن الاعمیٰ فی الدنیا، یعنی اندھا جس طرح راستہ دیکھنے سے بعید ہوتا ہے کافر آخرت میں راہ نجات دیکھنے میں بعید تر ہوگا۔
قولہ : رکوناً ، اس میں اشارہ ہے کہ شیئاً مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے نہ کہ مفعول بہ ہونے کی وجہ ہے اسلئے کہ ترکن لازم ہے نہ کہ متعدی، شیئاً کا موصوف رکوناً محذوف ہے۔
قولہ : یستفزونکَ ، ای لیزعجونَکَ ، (استفزاز استفعال) سے مضارع جمع مذکر غائب کی ضمیر مفعول، تمہارے قدم اکھاڑ دیں۔
تفسیر و تشریح
یوم ندعوا۔۔۔ بامامھم، امام کے معنی پیشوا، لیڈر، قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے نبی کے حوالہ سے پکارا جائیگا، اے فلاں نبی کی امت، بعض نے کہا اس سے آسمانی کتاب مراد ہے، یعنی آسمانی کتاب کے حوالہ سے پکارا جائے گا، اے توریت والو، اے زبور والو، اے انجیل والو، اے قرآن والو، وغیرہ وغیرہ، بعض نے کہا ہے کہ یہاں امام سے مراد اعمال نامہ ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائیگا تو اس کا اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اسی کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائیگا، اس رائے کو ابن کثیر نے ترجیح دی ہے۔
وان کادوا۔۔۔۔ الیک، یہ ان حالات کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں پیش آرہے تھے کفار مکہ اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کردیں کہ آپ ان کے شرک اور رسوم جاہلیت سے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ کرلیں اس غرض سے انہوں نے آپ کو ڈرانے کی ہر کوشش کی، فریب بھی دئیے اور لالچ بھی، دھمکیاں بھی دیں اور وعدے بھی کئے، جھوٹا طوفان بھی اٹھایا اور ظلم و ستم بھی کیا ؟ معاشی دباؤ بھی ڈالا، اور سماجی مقاطعہ بھی، غرضیکہ وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم و حوصلہ کو شکست دینے کیلئے کیا جاسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائیں ہیں، ایک یہ کہ اگر تم حق کو جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتا کرلیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور خوش ہوجاتی، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا، اور تمہیں دنیا و آخرت میں دوہری سزا دی جاتی، اور دوسرےؔ یہ کہ انسان خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو خود اپنے بل بوتے پر باطل کے طوفانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا جبتک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شامل حال نہ ہو، یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر و ثبات تھا جس کی بدولت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق و صداقت کے موقف پر پہاڑ کی طرف جمے رہے اور کوئی سیلاب بلا آپ کو بال برابر بھی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔
وان کادوا۔۔۔۔ منھا، یعنی مشرکین مکہ کی پوری کوشش یہ ہے کہ آپ کو تنگ کرکے مکہ سے نکال دیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ اگر ایسا کیا تو وہ خود بھی زیادہ دنوں تک یہاں نہ رہ سکیں گے، چناچہ اہل مکہ کا ظلم و ستم آپ کی ہجرت کا سبب بنا آپ کا مکہ سے تشریف لیجانا تھا کہ اس کے ڈیڑھ دو سال بعد ہی مکہ کے بڑے نامور ستر سردار گھروں سے نکال کر میدان بدر میں ہلاک کر دئیے گئے اور اتنے ہی قیدی بنائے گئے اور اس کے صرف پانچ چھ سال بعد مکہ پر السام کا قبضہ ہوگیا بالآخر قلیل مدت میں پورا جزیرۃ العرب مشرکین سے پاک ہوگیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ کا ہے کہ یہود مدینہ ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے ابو القاسم، اگر آپ اپنی نبوت کے دعوے میں سچے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ شام جاکر رہیں کیونکہ ملک شام ہی انبیاء کی سرزمین ہے اور شام ہی محشر کی زمین ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے کلام کا کچھ اثر ہوا اور غزوۂ تبوک کے وقت جو ملک شام کا سفر ہوا تو آپ کا قصد یہ ہوا کہ ملک شام کو اپنا مستقر بنالیں مگر یہ آیت نازل ہوئی ” وان کادوا لیستفزونک “ جس نے آپ کو اس ارادہ سے روک دیا، مگر ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے ناقابل اطمینان قرار دیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
قیامت کے روز مخلوق کا جو حال ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو (اپنی عدالت میں) بلائے گا ان کے ساتھ ان کے امام اور رشدو ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے راہ نما یعنی انبیاء و مرسلین اور ان کے نائبین بھی ہوں گے۔ پس ہر امت اللہ کے حضور پیش ہوگی اور اس امت کو وہی رسول، اللہ کے حضور پیش کرے گا جس نے دنیا میں اسے دعوت توحید پیش کی تھی۔ ان کے اعمال اس کتاب کے سامنے پیش کیے جائیں گے، جسے لے کے رسول اس امت میں مبعوث ہوا تھا کہ آیا ان کے اعمال اس کتاب کے موافق ہیں یا نہیں۔ تب یہ لوگ دو قسم کے گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے۔ ﴿فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ﴾ ” پس جس کو ملا اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں“ کیونکہ اس نے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والے اپنے ہادی و راہنما کی پیروی کی تھی اور اس کی کتاب کو اپنا لائحہ عمل بنایا تھا تب اس کی نیکیاں بڑھ گئیں اور اس کے گناہ کم ہوگئے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ ﴾ ” پس وہ ( خوش خوش) اپنے اعمال نامے کو پڑھیں گے“ کیونکہ وہ اس اعمال نامے میں ایسی چیزیں دیکھیں گے جنہیں دیکھ کر انہیں فرحت و سرور حاصل ہوگا۔ ﴿وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾ ” اور ان پر ایک دھاگے برابر ظلم نہیں ہوگا“ یعنی انہوں نے جو نیک عمل کئے ہیں اس بارے میں ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
uss din ko yaad rakho jab hum tamam insanon ko unn kay aemal naamon kay sath bulain gay . phir jinhen unn ka aemal nama dahaney haath mein diya jaye ga , to woh apney aemal namay ko parhen gay , aur unn per resha barabar bhi zulm nahi hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
الکتاب ہی ہدایت و امام ہے
امام سے مراد یہاں نبی ہیں ہر امت قیامت کے دن اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائے گی جیسے اس آیت میں ہے ( وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَيْنَھُمْ بالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 47) 10 ۔ یونس :47) ہر امت کا رسول ہے، پھر جب ان کے رسول آئیں گے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ حساب کیا جائے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ اس میں اہل حدیث کی بہت بڑی بزرگی ہے، اس لئے کہ ان کے امام آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ابن زید کہتے ہیں مراد یہاں امام سے کتاب اللہ ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی۔ ابن جریر اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں۔ مجاہد (رح) کہتے ہیں مراد اس سے ان کی کتابیں ہیں۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب اللہ ہو یا نامہ اعمال۔
چنانچہ ابن عباس (رض) اس سے مراد اعمال نامہ لیتے ہیں۔ ابو العالیہ، حسن، ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ترجیع والا قول ہے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت (وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12ۧ) 36 ۔ يس :12) ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہ کرلیا ہے۔ اور آیت میں ہے و آیت (وضع الکتاب) الخ کتاب یعنی نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے۔ الخ اور آیت میں ہے ہر امت کو تو گھٹنوں کے بل گری ہوئی دیکھے گا۔ ہر امت اپنے نامہ اعمال کی جانب بلائی جا رہی ہوگی، آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ ہے ہماری کتاب جو تم پر حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گی جو کچھ تم کرتے رہے ہم برابر لکھتے رہتے تھے۔ یہ یاد رہے کہ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ایک طرف نامہ اعمال ہاتھ میں ہوگا دوسری جانب خود نبی سامنے موجود ہوگا۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) 39 ۔ الزمر :69) زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو موجود کردیا جائے گا اور آیت میں ہے ( فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41ڲ) 4 ۔ النسآء :41) یعنی کیا کیفیت ہوگی اس وقت جب کہ ہر امت کا ہم گواہ لائیں گے اور تجھے اس تیری امت پر گواہ کر کے لائیں گے۔ لیکن مراد یہاں امام سے نامہ اعمال ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جن کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو اپنی نیکیاں فرحت و سرور، خوشی اور راحت سے پڑھنے لگیں گے بلکہ دوسروں کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے۔ اسی کا مزید بیان سورة الحاقہ میں ہے۔ فتیل سے مراد لمبا دھاگہ ہے جو کجھور کی گٹھلی کے بیچ میں ہوتا ہے۔ بزار میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بلوا کر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس کا جسم بڑھ جائے گا، چہرہ چمکنے لگے گا، سر پر چمکتے ہوئے ہیروں کا تاج رکھ دیا جائے گا، یہ اپنے گروہ کی طرف بڑھے گا اسے اس حال میں آتا دیکھ کر وہ سب آرزو کرنے لگیں گے، کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ عطا فرما اور ہمیں اس میں برکت دے وہ آتے ہی کہے گا کہ خوش ہوجاؤ تم میں سے ہر ایک کو یہی ملنا ہے۔ لیکن کافر کا چہرہ سیاہ ہوجائے گا اس کا جسم بڑھ جائے گا، اسے دیکھ کر اس کے ساتھی کہنے لگیں گے اللہ اسے رسوا کر، یہ جواب دے گا، اللہ تمہیں غافت کرے، تم میں سے ہر شخص کے لئے یہی اللہ کی مار ہے۔ اس دنیا میں جس نے اللہ کی آیتوں سے اس کی کتاب سے اس کی راہ ہدایت سے چشم پوشی کی وہ آخرت میں سچ مچ رسوا ہوگا اور دنیا سے بھی زیادہ راہ بھولا ہوا ہوگا۔