الاسراء آية ۹۴
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَاۤءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُـوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا
طاہر القادری:
اور (ان) لوگوں کو ایمان لانے سے اور کوئی چیز مانع نہ ہوئی جبکہ ان کے پاس ہدایت (بھی) آچکی تھی سوائے اس کے کہ وہ کہنے لگے: کیا اﷲ نے (ایک) بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے،
English Sahih:
And what prevented the people from believing when guidance came to them except that they said, "Has Allah sent a human messenger?"
1 Abul A'ala Maududi
لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے اُن کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر اُن کے اِسی قول نے کہ "کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا؟"
2 Ahmed Raza Khan
اور کس بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا جب ان کے پاس ہدایت آئی مگر اسی نے کہ بولے کیا اللہ نے آدمی اللہ کا بھیجا ہوا اور کس بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا جب ان کے پاس ہدایت آئی مگر اسی نے کہ بولے کیا اللہ نے آدمی کو رسول بناکر بھیجا
3 Ahmed Ali
اورلوگوں کو ایمان لانے سے جب کہ ان کے پاس ہدایت آ گئی صرف اسی چیز نے روکا ہے کہ کہنے لگے کیا الله نے آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے
4 Ahsanul Bayan
لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟ (١)
٩٤۔١ یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر کرکے بھیجا ہے
6 Muhammad Junagarhi
لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
جب کبھی لوگوں کے پاس ہدایت پہنچی تو ان کو ایمان لانے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ کہنے لگے کیا اللہ نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہدایت کے آجانے کے بعد لوگوں کے لئے ایمان لانے سے کوئی شے مانع نہیں ہوئی مگر یہ کہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے کسی بشر کو رسول بناکر بھیج دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے ؟
آیت نمبر 94 تا 100
ترجمہ : لوگوں کے پاس ہدایت پہنچنے کے بعد ایمان سے روکنے والا منکرین کا ان سے صرف یہی کہنا رہا کہ کیا انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا، اور فرشتہ کو نہ بھیجا، آپ کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیتے اس لئے کہ قوم کے پاس ان ہی کی جنس کا رسول بھیجا جاتا ہے تاکہ ان کیلئے اس کی گفتگو اور افہام و تفہیم ممکن ہو، آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان میری صداقت پر اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے خوب آگاہ ہے، اور بخوبی دیکھنے والا ہے (یعنی) ان کے پوشیدہ اور ظاہر تمام حالات سے واقف ہے، اور اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ تو ان کے مددگار پائے جو ان کی رہنمائی کریں ایسے لوگوں کو ہم قیامت کے دن منہ کے بل گھسیٹ کر جمع کریں گے حال یہ کہ وہ اندھے گو نگے، بہرے ہوں گے ان کی اس بات کی سزا ہے کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جب وہ بجھنے لگے گی تو ہم اس کو مزید بھڑکا دیں گے وہ مزید شعلہ زن اور مشتعل ہونے لگے گی یہ ان کی اس باگت کی سزا ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور منکرین نے کہا، کیا جب ہم ہڈی رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم کو نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایا جائیگا، کیا انہوں نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ بلاشبہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو ان کی عظمت کے باوجود پیدا کیا (وہ) اس پر قادر ہے کہ جسے صغیر انسانوں کو پیدا کرے اسی نے ان کیلئے موت اور بعث کا ایک وقت مقرر کردیا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، لیکن ظالم لوگ انکار کئے بغیر رہتے ہی نہیں ہیں، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم میرے رب کی رحمت رزق اور بارش کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے اس میں بخیلی کرتے یعنی خرچ کرنے سے ختم ہونے کے خوف سے کہ پھر تم محتاج ہوجاؤ گے اور انسان ہے ہی تنگ دل۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : ای قولھم اس میں اشارہ ہے کہ أن مصدریہ ہے، یعنی ان کیلئے قرآن اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بارے میں کوئی شبہ اور کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی سوائے منکرین بعث کے جو مومنین سے یہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کو رسول بنا کر بھیجنے کیلئے انسان ہی رہ گیا تھا۔
قولہ : مطمئنین اسم فاعل جمع مذکر منصوب، وطن بنانے والے، قیام کرنے والے۔
قولہ : لَوْ انتم۔ سوال : لَوْ شرطیہ ہمیشہ فعل پر داخل ہوتا ہے مگر یہاں اسم پر داخل ہے۔
جواب : انتم سے پہلے فعل محذوف ہے اور مابعد کا فعل اس کی تفسیر کر رہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے لَوْ تملکون انتم تملکون خزائنَ رحمۃ ربی، انتم، تملکون کے اندر ضمیر فاعل کی تاکید ہے یہ ما اضمر عاملہ کے قبیل سے ہے۔
تفسیر و تشریح
ما منع الناس الخ، عام مشرکین کا خیال تھا کہ اللہ کا رسول بشر نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ تو ہماری طرح ضروریات انسانی کا عادی ہوتا ہے پھر اس کو ہم پر کیا فوقیت حاصل ہوگی کہ ہم اسے اللہ کا رسول سمجھیں اور اپنا مقتدا بنالیں آج کل کے اہل بدعت کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت سے انکار کرنے میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہے یعنی جس طرح مشرکین رسالت اور بشریت میں منافات سمجھتے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی بشریت اور رسالت میں تضاد و تنافی سمجھتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مشرکین آپ کی بشریت کے قائل ہونے کی وجہ سے رسالت کی نفی کرتے اور آج کل کے اہل زیغ و ضلال آپ کی رسالت کے قائل ہونے کی وجہ سے آپ کی بشریت کی نفی کرتے ہیں۔
مشرکین مکہ کے سوال کا جواب قرآن نے یہ دیا ہے کہ اللہ کا رسول جن لوگوں کی جانب بھیجا جائے وہ ان ہی کی جنس سے ہونا ضروری ہے اگر مبعوث الیہم انسان ہیں تو مبعوث کا بھی انسان ہونا ضروری ہے اسلئے کہ غیر جنس سے باہم مناسبت نہیں ہوتی اور بلا مناسبت کے رشد و ہدایت کا فائدہ نہیں ہوتا اگر انسانوں کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیا جائے جو نہ بھوک کو جانتا ہے نہ پیاس کو نہ جنسی خواہشات کو اور نہ سردی گرمی کے احساس کو اور نہ اس کو کبھی محنت اور تکان لاحق ہوتی ہے، تو وہ انسانوں سے بھی ایسے عمل کی توقع رکھتا انسانوں کی کمزوری و مجبوری کا احساس نہ کرتا اسی طرح انسان جب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو فرشتہ ہے ہم ان کے کاموں کے نقل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو ان کی اتباع کیسے کریں گے رشد و ہدایت کا فائدہ اور اصلاح صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اللہ کا رسول جنس بشر سے ہو جو تمام انسانی جذبات اور خواہشات کا حامل ہو، مگر ساتھ ہی اس کو ایک شان ملکیت بھی حاصل ہوتا کہ عام انسانوں اور فرشتوں کے درمیان واسطہ اور رابطہ کا کام کرسکے وحی لانے والے فرشتوں سے وحی حاصل کرے اور اپنے ہم جنس انسانوں کو پہنچا دے۔
قل لو۔۔۔ ربی (الآیۃ) اس آخری آیت میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوجاؤ تو تم بخل کرو گے، کسی کو نہ دو گے اس خطرہ سے کہ اگر لوگوں کو دیتے رہے تو یہ خزانہ ختم ہوجائیگا اگرچہ رحمت کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں، مگر انسان اپنی طبیعت سے تنگ دل اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے اس کو فراخی کے ساتھ لوگوں کو دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا، اس میں خزائن رحمت ربی سے عام مفسرین نے مال اور دولت کے خزانے مراد لئے ہیں اور اس کا ربط ما سبق سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس کی فرمائش کی تھی کہ اگر آپ واقعی نبی ہیں تو آپ مکہ کے اس خشک ریگستان میں نہریں جاری کرکے اس کو سرسبز باغات میں تبدیل کردیں جیسا کہ ملک شام کا خطہ ہے جس کا جواب پہلے آچکا ہے کہ تم نے مجھے گویا خدا ہی سمجھ لیا، کہ خدائی اختیارات کا مجھ سے مطالبہ کر رہے ہو میں تو صرف ایک رسول ہوں خدا نہیں کہ جو چاہوں کردوں۔
حضرت حکیم الامت تھانوی (رح) تعالیٰ نے بیان القرآن میں اس جگہ رحمت رب سے مراد نبوت و رسالت اور خزائن سے مراد کمالات نبوت لئے ہیں اس تفسیر کے مطابق اس کا ربط آیات سابقہ سے یہ ہوگا کہ تم نبوت و رسالت کے لئے بےسروپا اور بیہودہ مطالبات کر رہے ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ میری نبوت کو ماننا نہیں چاہتے تو کیا پھر تمہاری خواہش یہ ہے کہ نبوت کا نظام تمہارے ہاتھوں میں دیدیا جائے جس کو تم چاہو نبی بنالو، اگر ایسا کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی کو بھی نبوت و رسالت نہ دو گے بخل کرکے بیٹھ جاؤ گے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا ررَّسُولًا﴾ ” میں نہیں ہوں مگر ایک آدمی بھیجا ہوا“ میرے ہاتھ میں کچھ بھی اختیار نہیں۔۔۔ یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر اکثر لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ ان کی طرف جو رسول اور نبی مبعوث کئے گئے وہ سب انہی کی جنس میں سے تھے، یعنی وہ سب بشر تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unn logon kay paas hidayat ka paygham aaya to unn ko emaan laney say issi baat ney to roka kay woh kehtay thay : kiya Allah ney aik bashar ko Rasool bana ker bheja hai ?
12 Tafsir Ibn Kathir
فکری مغالطے اور کفار
اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے۔ وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ فرعون اور اسکی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہمارے ماتحتی میں ہے۔ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔ اسکے بعد اللہ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ انکے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ انکی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو، ان کی عادات واطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرسکتے ہو، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ\016\04 ) 3 ۔ آل عمران :164) ۔ اور آیت میں ہے (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الخ۔ اور آیت میں ہے ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ\015\01ړ) 2 ۔ البقرة :151) ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الہٰی تمہیں پڑھ کر سنائیں، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنادیں پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہئے اور ناشکری سے بچنا چاہئے۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے۔