اور (اے سننے والے!) تو انہیں (دیکھے تو) بیدار خیال کرے گا حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم (وقفوں کے ساتھ) انہیں دائیں جانب اور بائیں جانب کروٹیں بدلاتے رہتے ہیں، اور ان کا کتا (ان کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے، اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لیتا تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا اور تیرے دل میں ان کی دہشت بھر جاتی،
English Sahih:
And you would think them awake, while they were asleep. And We turned them to the right and to the left, while their dog stretched his forelegs at the entrance. If you had looked at them, you would have turned from them in flight and been filled by them with terror.
1 Abul A'ala Maududi
تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی
2 Ahmed Raza Khan
اور تم انھیں جاگتا سمجھو اور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر اے سننے! والے اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے
3 Ahmed Ali
اور تو انہیں جاگتا ہوا خیال کرے گا حالانکہ وہ سو رہے ہیں اورہم انہیں دائیں بائیں پلٹتے رہتے ہیں اور ان کا کتا چوکھٹ کی جگہ اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے اورالبتہ تم پر ان کی دہشت چھا جائے
4 Ahsanul Bayan
آپ خیال کرتے کہ وہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے (١) خود ہم انہیں دائیں بائیں کروٹیں دلایا کرتے تھے (٢) ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی (٣)۔
١٨۔١ ایقاظ، یقظ کی جمع اور رقود راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔ ١٨۔٢ تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔ ١٨۔٣ یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔ اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے تھے۔ اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور ان سے دہشت میں آجاتے
6 Muhammad Junagarhi
آپ خیال کرتے کہ وه بیدار ہیں، حاﻻنکہ وه سوئے ہوئے تھے، خود ہم ہی انہیں دائیں بائیں کروٹیں دﻻیا کرتے تھے، ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر آپ جھانک کر انہیں دیکھنا چاہتے تو ضرور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور ان کے رعب سے آپ پر دہشت چھا جاتی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور تم انہیں دیکھو تو خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلواتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے بیٹھا ہے اگر تم انہیں جھانک کر دیکھو تو تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اور تمہارے دل میں دہشت سما جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تمہارا خیال ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ عالهِ خواب میں ہیں اورہم انہیں داہنے بائیں کروٹ بھی بدلوارہے ہیں اور ان کا کتا ّڈیوڑھی پر دونوں ہاتھ پھیلائے ڈٹا ہوا ہے اگر تم ان کی کیفیت پر مطلع ہوجاتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ نکلتے اورتمہارے دل میں دہشت سما جاتی
9 Tafsir Jalalayn
اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ تو سوتے ہیں۔ اور ہم ان کو دائیں بائیں کروٹ بدلاتے تھے اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور ان سے دہشت میں آجاتے۔ آیت نمبر 18 تا 20 ترجمہ : اور اگر آپ ان کو دیکھیں تو بیدار محسوس کریں یعنی بیدار سمجھیں گے اس لئے کہ آنکھیں ان کی کھلی ہوئی ہیں (اَیقاظ) یُقِظ بکسر قاف کی جمع ہے حالانکہ وہ سو رہے ہیں رقود راقد کی جمع ہے اور ہم ان کو دائیں بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں تاکہ زمین ان کے گوشت کو نہ کھاجائے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا ہے یعنی غار کے صحن میں اور جب اصحاب کہف کروٹ لیتے ہیں تو وہ بھی کروٹ لیتا ہے، یعنی نیند اور بیداری میں وہ کتا انہیں کے مانند ہے اور اگر آپ ان کو جھانک کر دیکھیں تو وہاں سے الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوں اور آپ کے اوپر دہشت غالب آجائے (لملئتَ ) لام کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے (رُعْبًا) عین کے سکون اور ضمہ کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے رعب کے ذریعہ ان کی حفاظت فرمائی ہے تاکہ ان کے پاس کوئی داخل نہ ہو سکے اور اسی طرح یعنی جس طرح ہم نے ان کے ساتھ مذکورہ معاملات کئے اسی طرح ہم نے ان کو بیدار کردیا تاکہ وہ اپنے احوال کے بارے میں اور غار میں قیام کی مدت کے بارے میں آپس میں پوچھ تاچھ کریں ان میں سے ایک سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ تم (غار میں) کتنی مدت ٹھہرے ہو گے، تو وہ کہنے لگے کہ ہم ایک دن یا اس سے بھی کم ٹھہرے ہوں گے اس لئے کہ وہ غار میں طلوع شمس کے وقت داخل ہوئے تھے، اور غروب کے وقت بیدار ہوئے تو وہ سمجھے کہ یہ دخول ہی کے دن کا غروب ہے، پھر کچھ غور کرنے کے بعد بولے تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے، اب کسی کو یہ چاندی کا روپیہ (سکہ) دے کر شہر بھیجو (بِوَرِقِکُمْ ) میں راء کے سکون اور کسرہ دونوں درست ہیں، کہا جاتا ہے کہ اب اس شہر کو طرطوس فتحہ را کے ساتھ کہتے ہیں اور وہ اس بات کا خیال رکھے کہ کون سا کھانا ستھرا ہے یعنی شہر کا کونسا کھانا حلال ہے پھر اس میں سے وہ تمہارے لئے کچھ کھانا لے آئے اور اس کو چاہیے کہ بیدار مغزی سے کام لے اور ہرگز کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے اگر وہ تمہاری خبر پالیں گے تو یقیناً وہ تم کو سنگسار کردیں گے یا اپنے دھرم میں واپس لے جائیں گے اور اس صورت میں تم ہرگز کامیاب نہ ہو گے، یعنی اگر تم ان کے دھرم میں چلے گئے تو تم کبھی کامیاب نہ ہو گے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد الوَصِیْدُ دہلیز، آستانہ، چوکھٹ، شارح نے کشادہ جگہ یا صحن کے معنی مراد لئے ہیں، باسط ذراعیہ، حکایت حال ماضیہ ہے اس لئے کہ اسم فاعل اگر ماضی کے معنی میں ہو تو عمل نہیں کرتا، بالوصید باسط سے متعلق ہے اور ذِراعَیْہ باسط کا مفعول بہ ہے فِرَارًا وَلَّیْتَ کا مفعول ثانی ہے کَمَا فَعَلْنَا کے اضافہ کا مقصد کذٰلک کے مرجع کو ظاہر کرنا ہے قولہ بَعَثْنَا کی تفسیر اَیْقَظْنَا سے تعیین معنی کے لئے ہے اس لئے کہ بعثنا مختلف معنی میں مستعمل ہے یہاں بیدار ہونے کے معنی مراد ہیں لِیَتَسَاءَلُوْا میں لام عاقبۃ یا سببیہ کا ہے کَمْ ظرفیت کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اس کا ممیز محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے کَمْ مدۃً لبثتم قال قائل منھم، لیتساء لوا کا بیان ہے قولہ اَیُّھَا ازکٰی ایُّھَا مرکب اضافی مبتداء ہے ازکٰی اس کی خبر ہے طعاماً تمیز ہے مضاف الیہ سے منقول ہے ای ازکٰی الطعام پھر جملہ ہو کر یَنْظُرُ کا مفعول بہ ہے اور اَیُّھَا میں ہا ضمیر کا مرجع مدینہ کو قرار دیا جائے اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی ای ینظر ایُّ اَھْلِھَا اَطْیَبُ طعَاماً شہر کے باشندوں میں سے کھانے کے معاملہ میں کون پاکیزہ لوگ ہیں (فتح القدیر شو کانی) ۔ قولہ اِذًا کے بعد اِنْ عُدتُمْ نکال کر اشارہ کردیا کہ اِذًا متضمن بمعنی شرط ہے اور لن تفلحوا اس کا جواب ہے۔ تفسیر وتشریح اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کوئی بھی شخص ان کو دیکھتا تو بیدار محسوس کرتا حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے، کیونکہ اللہ نے قدرت سے ان کو نیند کے آثار و علامات سے محفوظ رکھا تھا، اور وہ اس نیند کی مدت میں ہر چھ ماہ میں کروٹ لیتے تھے، اسی طرح ان کا کتا جو کہ ان کے ساتھ آگیا تھا ہر چھ ماہ میں کروٹ بدلتا تھا، اور وہ دہلیز یا فناء غار میں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا، اصحاف کہف کے خداداد اور رعب و جلال کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی ان کو جھانک کر دیکھتا تو مارے خوف کے ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا اور اس کے اندر دہشت سما جاتی، اور یہ تمام سامان حق تعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لئے جمع کر دئیے تھے۔ فائدہ : حدیث کی رو سے بلاضرورت کتا پالنا ممنوع ہے، البتہ ضرورت مثلاً شکار کے لئے یا گھر اور جانوروں کی حفاظت کے لئے کتا پالا جاسکتا ہے ورنہ اس کے ثواب میں دو قیراط یومیہ کمی ہوجائے گی، اصحاب کہف کا کتا از خود ساتھ ہوگیا تھا، یا ہوسکتا ہے اصحاب کہف کی شریعت میں مطقاً کتا پالنا جائز ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ﴾ ” اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔“ سو رہے ہیں مفسرین کہتے ہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں تاکہ خراب نہ ہوں، اس لیے ان کو دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ محو خواب تھے۔ ﴿ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ﴾” اور کروٹیں دلاتے ہیں ہم ان کو دائیں اور بائیں جانب۔“ یہ انتظام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جسموں کی حفاظت کے لیے تھا کیونکہ یہ زمین کی خاصیت ہے کہ جو چیز اس کے ساتھ پیوست رہتی ہے یہ اس کو کھا جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تھی کہ وہ ان کو دائیں پہلو پر اور کبھی بائیں پہلو پر پلٹاتا رہتا تھا تاکہ زمین ان کے جسم کو خراب نہ کرے اور اللہ تعالیٰ تو اس پر بھی قادر ہے کہ وہ ان کے پہلوؤں کو ادل بدل کے بغیر ہی ان کے جسموں کی حفاظت کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس نے ارادہ فرمایا کہ وہ اس تکوینی قوانین میں اپنی سنت کو جاری و ساری کرے اور اسباب کو ان کے مسببات کے ساتھ مربوط کرے ﴿ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ﴾ ” اور ان کا کتا اپنے بازو پھیلائے ہوئے تھا چوکھٹ پر“ یعنی وہ کتا جو اصحاب کہف کے ساتھ تھا اس کی چوکیداری کے وقت اس پر بھی وہی نیند طاری ہوئی جو ان پر طاری ہوگئی تھی وہ اس وقت اپنی اگلی ٹانگیں زمین پر بچھائے غار کے دہانے پر بیٹھا تھا یا وہ غار میں کھلی جگہ پر بیٹھا تھا، یہ انتظام تو ان کو زمین سے بچانے کے لیے تھا۔ رہا لوگوں سے ان کی حفاظت کرنا، تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ رعب کے ذریعے سے ان کی حفاظت کی جو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہیئت میں رکھ دیا تھا۔ اگر کوئی شخص غار کے اندر جھانک کر دیکھے تو اس کا دل رعب سے بھر جائے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے۔ یہی وہ چیز تھی جو اس امر کی موجب تھی کہ وہ طویل مدت تک صحیح سلامت باقی رہیں۔ اور شہر سے بہت قریب ہونے کے باوجود کسی کو ان کے بارے میں علم نہ ہوا اور شہر سے ان کے قرب کی دلیل یہ ہے کہ جب وہ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ شہر سے کھانا خرید کر لائے اور دوسرے لوگ اس کا انتظار کرتے رہے یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ شہر ان سے بہت قریب تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum unhen ( dekh ker ) yeh samajhtay kay woh jaag rahey hain , halankay woh soye huye thay . aur hum unn ko dayen aur bayen kerwat dilwatay rehtay thay , aur unn ka kutta dehleez per apney dono haath phelaye huye ( betha ) tha . agar tum unhen jhank ker dekhtay to unn say peeth pher ker bhag kharray hotay , aur tumharay andar unn ki dehshat samaa jati .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک آنکھ بند ایک کھلی یہ سو رہے ہیں لیکن دیکھنے والا انہیں بیدار سمجھتا ہے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ مذکور ہے کہ بھیڑیا جب سوتا ہے تو ایک آنکھ بند رکھتا ہے، ایک کھلی ہوتی ہے پھر اسے بند کر کے اسے کھول دیتا ہے چناچہ کسی شاعر نے کہا ہے۔ ینام باحدی مقلتیہ ویتقی باخری الرزایا فہو یقطان نائم جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں اور دشمنوں سے بچانے کے لئے تو اللہ نے نیند میں بھی ان کی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور زمین نہ کھاجائے، کروٹیں گل نہ جائیں اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں کروٹیں بدلوا دیتا ہے، کہتے ہیں سال بھر میں دو مرتبہ کروٹ بدلتے ہیں۔ ان کا کتا بھی انگنائی میں دروازے کے پاس مٹی میں چوکھٹ کے قریب بطور پہریدار کے بازو زمین پر ٹکاتے ہوئے بیٹھا ہوا ہے دروازے کے باہر اس لئے ہے کہ جس گھر میں کتا تصویر جنبی اور کافر شخص ہو اس گھر میں فرشتے نہیں جاتے۔ جیسے کہ ایک حسن حدیث میں وارد ہوا ہے۔ اس کتے کو بھی اسی حالت میں نیند آگئی ہے۔ سچ ہے بھلے لوگوں کی صحبت بھی بھلائی پیدا کرتی ہے دیکھئے نا اس کتے کی کتنی شان ہوگئی کہ کلام اللہ میں اس کا ذکر آیا۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے کسی کا یہ شکاری کتا پلا ہوا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بادشاہ کے باورچی کا یہ کتا تھا۔ چونکہ وہ بھی ان کے ہم مسلک تھے۔ ان کے ساتھ ہجرت میں تھے۔ ان کا کتا ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ واللہ اعلم۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو مینڈھا ذبح ہوا اس کا نام جریر تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جس ہدہد نے ملکہ سبا کی خبر دی تھی اس کا نام عنفر تھا اور اصحاب کہف کے اس کتے کا نام قطیر تھا اور بنی اسرائیل نے جس بچھڑے کی پوجا شروع کی تھی اس کا نام مہموت تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بہشت بریں سے ہند میں اترے تھے، حضرت حواجدہ میں ابلیس دشت بیسان میں اور سانپ اصفہان میں۔ ایک قول ہے کہ اس کتے کا نام حمران تھا۔ نیز اس کتے کے رنگ میں بھی بہت سے اقوال ہیں، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ اس سے کیا نتیجہ ؟ کیا فائدہ ؟ کیا ضرورت ؟ بلکہ عجب نہیں کہ ایسی بحثیں ممنوع ہوں۔ اس لئے کہ یہ تو آنکھیں بند کر کے پتھر پھینکنا ہے بےدلیل زبان کھولنا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں وہ رعب دیا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ ہی نہیں سکتا یہ اس لئے کہ لوگ ان کا تماشہ نہ بنالیں کوئی جرات کر کے ان کے پاس نہ چلا جائے کوئی انہیں ہاتھ نہ لگا سکے وہ آرام اور چین سے جب تک حکمت الہی متقضی ہے باآرام سوتے رہیں۔ جو انہیں دیکھتا ہے مارے رعب کے کلیجہ تھر تھرا جاتا ہے۔ اسی وقت الٹے پیروں واپس لوٹتا ہے، انہیں نظر بھر کر دیکھنا بھی ہر ایک کے لئے محال ہے۔