اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھا دیا تاکہ وہ آپس میں دریافت کریں، (چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، (بالآخر) کہنے لگے: تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو، سو تم اپنے میں سے کسی ایک کو اپنا یہ سکہ دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ حلال اور پاکیزہ ہے تو اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے اور اسے چاہئے کہ (آنے جانے اور خریدنے میں) آہستگی اور نرمی سے کام لے اور کسی ایک شخص کو (بھی) تمہاری خبر نہ ہونے دے،
English Sahih:
And similarly, We awakened them that they might question one another. Said a speaker from among them, "How long have you remained [here]?" They said, "We have remained a day or part of a day." They said, "Your Lord is most knowing of how long you remained. So send one of you with this silver coin of yours to the city and let him look to which is the best of food and bring you provision from it and let him be cautious. And let no one be aware of you.
1 Abul A'ala Maududi
اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایا تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں ان میں سے ایک نے پوچھا "کہو کتنی دیر اس حال میں رہے؟"دوسروں نے کہا "شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے" پھر وہ بولے "اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حالت میں گزرا چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لیے لائے اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے
2 Ahmed Raza Khan
اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں ان میں ایک کہنے والا بولا تم یہاں کتنی دیر رہے، کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے کہ تمہارے لیے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہیے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے،
3 Ahmed Ali
اوراسی طرح ہم نے انہیں جگا دیا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے کہا تم کتنی دیر ٹہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن سے کم ٹھیرے ہیں کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنی دیر تم ٹھہرے ہو اب اپنے میں سے ایک کو یہ اپنا روپیہ دے کر اس شہر میں بھیجو پھر دیکھے کون سا کھانا ستھرا ہے پھر تمہارے پاس اس میں سے کھانا لائے اور نرمی سے جائے اور تمہارے متعلق کسی کو نہ بتائے
4 Ahsanul Bayan
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا (١) کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم (٢) کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے (٣) اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وہ خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کونسا کھانا پاکیزہ تر ہے (٤) پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے، اور وہ بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے (٥)
١٩۔١ یعنی جس طرح ہم نے انہیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انہیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ ١٩۔٢ گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ ١٩۔٣ تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ ١٩۔٤ بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر و سامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ ١٩۔٥ احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے روپے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہو جائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تو اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کون سا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے
6 Muhammad Junagarhi
اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم۔ کہنے لگے کہ تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اب تو تم اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر بھیجو وه خوب دیکھ بھال لے کہ شہر کا کون سا کھانا پاکیزه تر ہے، پھر اسی میں سے تمہارے کھانے کے لئے لے آئے، اور وه بہت احتیاط اور نرمی برتے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (جس طرح انہیں اپنی قدرت سے سلایا تھا) اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ آپس میں سوال و جواب کریں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنی دیر ٹھہرے ہوگے؟ دوسروں نے کہا ہم ایک دن ٹھہرے ہوں گے یا دن کا کچھ حصہ (پھر) بولے تمہارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنا ٹھہرے؟ اچھا اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو۔ وہ (جا کر) دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاک و پاکیزہ ہے۔ تو وہ اس میں سے کچھ کھانا تمہارے لئے لائے۔ اور اسے چاہیے کہ ہوش و تدبر سے کام لے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس طرح ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کیا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں تو ایک نے کہا کہ تم نے کتنی مدت توقف کیا ہے تو سب نے کہا کہ ایک دن یا اس کا ایک حصہّ ان لوگوں نے کہا کہ تمہارا پروردگار اس مدّت سے بہتر باخبر ہے اب تم اپنے سکے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا بہتر ہے اور پھر تمہارے لئے رزق کا سامان فراہم کرے اور وہ آہستہ جائے اورکسی کو تمہارے بارے میں خبر نہ ہونے پائے
9 Tafsir Jalalayn
اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تم اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کونسا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَكَذٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے ان کو ان کی طویل نیند سے بیدار کیا ﴿لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ﴾ ” تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔“ یعنی سونے کی مدت کے بارے میں حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھیں۔ ﴿ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ﴾ ” ان میں سے ایک نے کہا، تم کتنی مدت ٹھہرے ؟ انہوں نے کہا، ہم ٹھہرے ایک دن یا ایک دن سے کم۔“ یہ قائل کے ظن پر مبنی ہے گویا ان کو اپنی مدت کی طوالت کے بارے میں اشتباہ واقع ہوگیا تھا، اس لیے ﴿قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ﴾ ” انہوں نے کہا تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے“ پس انہوں نے اپنے علم کو اس ہستی کی طرف لوٹا دیا جس کا علم اجمالا اور تفصیلا ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے ان کو مطلع کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیا تھا تاکہ وہ اس مدت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور اپنے اپنے مبلغ علم کے مطابق انہوں نے کلام کیا اور ان کی آپس میں بحث کا نتیجہ یہ رہا کہ ان کے سونے کی مدت کا معاملہ مشتبہ ہی رہا۔ یہ لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یقینی طور پر آگاہ کیا ہوگا اور ہمیں یہ بات ان کے بیدار کیے جانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے معلوم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو کوئی ان معاملات میں حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے جن کا جاننا مطلوب ہے اور اس کے لیے امکان بھر کوشش بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان معاملات کو اس پر واضح کردیتا ہے اور بعد میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ﴿وَكَذٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا﴾ (الکھف:18؍21)” اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور بے شک قیامت کی گھڑی ضرور آئے گی۔“ اگر ان کے حال کے بارے میں آگاہی نہ ہوئی ہوتی تو ان کے لیے مذکورہ واقعہ میں کوئی دلیل نہ ہوتی۔ پھر جب انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور ان کے درمیان وہ سوال جواب ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کچھ سکے، یعنی درہم دے کر، جو ان کے پاس تھے، کھانا خرید کر لانے کے لیے اس شہر میں بھیجا جہاں سے وہ نکل کر آئے تھے اور اس سے کہا کہ وہ اچھا اور لذیذ ترین کھانا منتخب کر کے لائے، نیز اس کے شہر جانے، کھانا خرید نے اور واپس لوٹنے میں ایسا نرم رویہ اختیار کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی چھپائے اور اپنے بھائیوں کے حال کو بھی مخفی رکھے اور کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔ ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا وہ ان دو امور میں سے ایک ہوگا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انہیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انہیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین، دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (1)حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (2) جب بندے پر علم مشتبہ ہوجائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (3) خرید و فروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (4) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ ﴾ ” پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمہارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔“ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں۔ (5) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (6) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دین کے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( jaisay hum ney unhen sulaya tha ) ussi tarah hum ney unhen utha diya , takay woh aapas mein aik doosray say pooch gich keren . unn mein say aik kehney walay ney kaha : tum iss halat mein kitni dair rahey hogay-? kuch logon ney kaha : hum aik din ya aik din say kuch kam ( neend mein ) rahey hon gay . doosron ney kaha : tumhara rab hi behtar janta hai kay tum kitni dair iss halat mein rahey ho . abb apney mein say kissi ko chaandi ka yeh sikka dey ker shehar ki taraf bhejo , woh jaker dekh bhaal keray kay iss kay kon say ilaqay mein ziyada pakeezah khana ( mil sakta ) hai . phir tumharay paas wahan say kuch khaney ko ley aaye , aur ussay chahiye kay hoshiyari say kaam keray , aur kissi ko tumhari khabar naa honey dey .
12 Tafsir Ibn Kathir
موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے۔ جیسے سوتے وقت تھے، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے۔ کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لئے انہیں یہی خیال ہوا۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لئے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی۔ دام ان کے پاس تھے۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے۔ کچھ موجود تھے۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت (وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 21) 24 ۔ النور :21) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14 ۙ ) 87 ۔ الأعلی:14) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لئے کا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کردیتی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں زکا الزرع اور جیسے شاعر کا قول ہے قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ واسبع ازکی من ثلاث والطیب پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہئے، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کرلے۔ اگر انہیں علم ہوگیا تو پھر خیر نہیں۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کردیں۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہوگئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لئے محال ہوجائے گا۔