البقرہ آية ۲۰۴
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِى الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِىْ قَلْبِهٖۙ وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
طاہر القادری:
اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی (ہوتا) ہے کہ جس کی گفتگو دنیاوی زندگی میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اﷲ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بھی بناتا ہے، حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑالو ہے،
English Sahih:
And of the people is he whose speech pleases you in worldly life, and he calls Allah to witness as to what is in his heart, yet he is the fiercest of opponents.
1 Abul A'ala Maududi
انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بعض آدمی وہ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے بھلی لگے اور اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے،
3 Ahmed Ali
اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی بات دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی دل کی باتوں پر الله کو گواہ کرتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
4 Ahsanul Bayan
بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے
(١)۔ ٢٠٤۔١ بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
6 Muhammad Junagarhi
بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں اور وه اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواه کرتا ہے، حاﻻنکہ دراصل وه زبردست جھگڑالو ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بعض لوگ (منافقین) ایسے بھی ہیں کہ جن کی (چکنی چپڑی) باتیں تمہیں زندگانی دنیا میں بہت اچھی لگتی ہیں اور وہ اپنی دلی حالت پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ (تمہارے) بدترین دشمن ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میںبھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
آیت نمبر ٢٠٤ تا ٢١٠
ترجمہ : اور بعض آدمی ایسے بھی ہیں کہ دنیا کی زندگی کے بارے میں آپ کو ان کی باتیں اچھی لگتی ہیں اور آخرت کے بارے میں اچھی نہیں لگتیں اس کے اعتقاد کے آپ کے اعتقاد کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ بناتا ہے کہ جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس کے قول کے مطابق ہے حالانکہ وہ زبردست جھگڑالو ہے یعنی آپ سے اور آپ کے متابعین سے سخت خصومت رکھنے والا ہے آپ سے خصومت رکھنے کی وجہ سے اور وہ اخنس بن شریق ہے جو منافق ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت شیریں گفتگو کرتا تھا اور قسمیں کھاتا تھا کہ وہ آپ پر ایمان رکھتا ہے اور آپ سے محبت رکھتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اپنے قریب بٹھاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اس کے دعوے میں تکذیب فرمائی، ایک مرتبہ مسلمانوں کی کھیتی اور گدھوں کے پاس سے گزرا تو رات کے وقت کھیتی کو جلا دیا اور گدھوں کی کونچیں کاٹ دیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جب وہ واپس جاتا ہے (یعنی) آپ کی مجلس سے لوٹتا ہے تو زمین میں دوڑ دھوپ کرتا ہے تاکہ زمین میں فساد برپا کرے (دوسرا ترجمہ) (اور جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو اس کی ساری دوڑ دھوپ زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے ہوتی) اور کھیتی اور نسل کو برباد کرتا ہے یہ بھی منجملہ فساد کے ہے، اور اللہ تعالیٰ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی اس سے راضی نہیں ہے اور جب اسے کہا جاتا ہے کہ تو اپنی حرکتوں کے بارے میں اللہ سے ڈر تو اس کو تکبر اور جاہلی تعصب گناہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے جس سے اس کو بچنے کے لئے کہا گیا ہے تو اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے یعنی وہ برا بچھونا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ اپنی جان کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بیچ دیتے ہیں یعنی اللہ کی طاعت میں اس کو قربان کردیتے ہیں اور وہ صہیب رومی ہیں جب کہ مشرکین نے اذیت پہنچائی تو مدینہ ہجرت کرگئے اور مشرکین کے لئے اپنا تمام مال چھوڑ گئے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے اس لئے کہ ان کو ان باتوں کی رہنمائی فرمائی جن میں اس کی خوشنودی ہے اور جب عبد اللہ بن سلام اور ان کے اصحاب نے اسلام قبول کرنے کے بعد شنبہ کے دن کی تعظیم کرنے کا ارادہ کیا اور اونٹ اور ان کے دودھ کو ناپسند کیا تو آیت نازل ہوئی اے ایمان والو ! اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ، (السِلم) سین کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ بمعنی اسلام کَافَّۃً ، سلم سے حال ہے یعنی اس کی پوری شریعت میں (داخل ہوجاؤ) اور شیطان کے طریقوں کی پیروی نہ کرو یعنی تفریق کے ذریعہ خوشنمائی کی بلاشبہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے یعنی اس کی عداوت بالکل واضح ہے پس اگر تم نے لغزش کھائی یعنی اگر اسلام میں مکمل داخل ہونے سے تم نے اعراض کیا بعد اس کے کہ تمہارے پاس اسلام کے حق ہونے پر واضح دلیلیں آگئیں تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے اس کو انتقام لینے سے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اپنی صنعت میں حکیم ہے پوری طرح اسلام میں نہ داخل ہونے والے، کیا اب صرف اس کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس اللہ اور فرشتے یعنی اس کا حکم آجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ” اَوْ یَأتِیَ اَمْرُ رَبِّک، ای عذابہ “ بادلوں کے سائبان میں ظَللٌ ظلَّۃٌ کی جمع ہے اور کام تمام کردیا جائے (یعنی) ان کی ہلاکت کا معاملہ انجام کو پہنچ جائے آخرت میں اللہ کی ہی طرف تمام کام لوٹنے والے ہیں (ترجع) معروف و مجہول دونوں ہیں تو وہ جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَمَنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجبُکَ ، اس کا عطف فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَقُوْلُ پر ہے اور وَمِن النَّاس، اپنے متعلق محذوف سے مل کر خبر مقدم ہے اور مَنْ یُعجبُکَ ، مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : اَلَدُّ الخِصَامِ ، لَدٌّ، سے اسم تفضیل ہے سخت جھگڑالو، خِصَامٌ یہ خاصَمَ کا مصدر ہے زجاج نے کہا ہے کہ خَصْمٌ کی جمع ہے جیسا کہ صَعْبٌ کی جمع صِعَابٌ اور ضَخْمٌ کی جمع ضِخَامٌ۔
قولہ : شدید الخصومَۃِ مفسر علام نے اَلَدُّ کی تفسیر شَدِیْدٌ سے کرکے اشارہ کردیا کہ اَلَدُّ ، اسم تفضیل نہیں ہے (کما فی قول بعض الناس) اس لئے کہ اس کی مؤنث، لُدیٰ اور جمع لُدٌّ ہے۔
قولہ : تَوَلّٰی، اِنْصَرفَ عَنْکَ تَوَلَّی، کی تفسیر اِنصَرَفَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ تَوَلّٰی بمعنی اِنْصَراف ہے نہ کہ بمعنی ولایۃ جیسا کہ کہا گیا ہے، اس لئے کہ آیت کا نزول اَخْنَسْ بن شَرِیْق کے بارے میں ہے اور وہ والی نہیں تھا۔
قولہ : مِنْ جملۃ الفساد یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھُوَ مِن الفساد اس جملہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : لِیُفْسِدَ فیھَا عام ہے اس میں ہر قسم کا فساد شامل ہے پھر اس کے بعد وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَسْلَ کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟
جواب : یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے، مِنْ جملۃ الفساد سے اسی جواب کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : حالٌ مِنَ السِلْم یہ ان لوگوں کا رد ہے جنہوں نے کافۃً کو مصدر محذوف کی صفت کہا اور تقدیر عبارت یہ مانی ہے ای اِذْ خَالاً کافّۃً رد کی وجہ یہ ہے کہ ابن ہشام نے کہا ہے کہ کافَّۃ، حال اور نکرہ ہونے کے لئے خاص ہے۔
قولہ : من السِلْم، یہ اس کا رد ہے جس نے کہا ہے کہ کافَّۃً ، ادخلوا کی ضمیر سے حال ہے یا تو اس لئے کہ کافُّۃً مؤنث ہے اور سلم مذکر ہے یا اس لئے کہ سِلْم بمعنی اسلام کے اجزاء نہیں ہیں حالانکہ ذوالحال کا ذات الاجزاء ہونا ضروری ہے پہلی دلیل کا جواب اَلسِلْم، حربٌ، کی مانند مذکر و مؤنث دونوں مستعمل ہے دوسری دلیل کا جواب، اسلام سے جمیع شرائع والا حکام مراد ہیں اور شرائع ذات الاجزاء ہیں، لہٰذا سِلْمٌ کا کافۃ سے حال واقع ہونا درست ہے، مفسر علام نے اپنے قول ای فی جمیع شرائعہٖ سے اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے، مذکورہ آیت عبد اللہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی اصحاب میں ثعلبہ بن یامین واسد واسید و سعید بن عمرویہ سب حضرات یہودی تھے انہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا۔
قولہ : طُرُقٌ، خطُواتٌ کی تفسیر طُرُقٌ سے کرکے اس اشکال کا جواب دیا ہے کہ شیطان کے قدم نہیں ہے جواب یہ ہے کہ حال بول کر محل مراد ہے۔ قولہ : ای اَمْرہٗ ، اس میں اشارہ ہے کہ یاتیھُم اللہ کے اندر اسناد مجازی ہے۔
قولہ : تزیینہ، ای تزیین الشیطان، المراد من التزیین وسوستہ، کتحریم لحم الابل و تعظیم یوم السبت۔
تفسیر و تشریح
بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت اَخْنسْ بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر اس آیت کے مصداق تمام منافقین ہیں، لباب النقول میں ہے، اَخْرَجَ ابن جریر عن السُّدی قال نزل فی اخنس بن شریق، ایک روز اخنس جس کا اصل نام ابی ہے اخنس اس کا لقب ہے اس کنیت کا سبب یہ ہوا کہ بدر کے دن یہ شخص واپس چلا گیا تھا اور اپنے ہمراہ تین سو افراد کو بھی لے گیا تھا جنس کے معنی واپس ہونے اور پلٹنے کے ہیں خناس ان تاروں کو کہتے ہیں جو آگے چلتے چلتے پیچھے کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ اس شخص نے اپنے ساتھ واپس جانے والے منافقوں سے کہا : اِنّ محمداً ابن اُختِکم فِان یَکُ کَاذِبًا کفا کموہ الناسُ وَاِن کان صادقا کنتم اَسْعَدَ الناسِ بہ، قالوا نَعَمَ مَا رَأیتَ ، قال اِنّی سَأخْنَسُ بکم فاتبعونی فخَنَسَ فَسُمِّیَ الَاخْنَسْ لِذَلِکَ ۔ (خازن)
اس نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارا بھانجا، اگر جھوٹا ہے تو لوگ تمہاری طرف سے کفایت کریں گے اور اگر سچا ہے تو تم اس کی وجہ سے خوش نصیب ترین لوگ ہوگے، لوگوں نے کہا تم نے بہت اچھی بات کہی، اخنس نے کہا میں تمہارے پاس واپس آؤنگا تو تم میری اتباع کرنا، چناچہ وہ واپس آیا، اسی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام اخنس رکھ دیا۔
ربط و شان ونزول : سابقہ آیت میں منافقین کا ذکر تھا، اس آیت میں مخلصین کا ذکر ہے، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہٗ (الآیۃ) یہ آیت صہیب رومی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب سے بیان کیا ہے کہ صہیب رومی مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ میں مشرکین قریش کی ایک جماعت نے راستہ روک لیا یہ دیکھ کر حضرت صہیب رومی اپنی سواری سے اتر کر کھڑے ہوگئے اور ان کے ترکش میں جتنے تیر تھے سب نکال لئے اور قریش کی اس جماعت سے مخاطب ہو کر کہا اے قبیلہ قریش کے لوگو ! تم سب جانتے ہو کہ میں تیر اندازی میں تم سب سے زیادہ ہوں، میرا تیر کبھی خطا نہیں کرتا، اور ان میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم میرے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکو گے جب تک میرے ترکش میں ایک تیر بھی باقی ہے اور تیروں کے بعد میں تلوار سے کام لوں گا جب تک مجھ میں دم رہے گا، پھر تو جو چاہو کرلینا، اور اگر تم نفع کا سودا چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کا پتہ دیتا ہوں جو مکہ مکرمہ میں رکھا ہوا ہے، تم وہ مال لے لو اور میرا راستہ چھوڑ دو اس پر قریش کی جماعت راضی ہوگئی اور حضرت صہیب رومی (رض) نے صحیح سالم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر واقعہ سنایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ فرمایا : ربِحَ البَیْعُ یا ابا یحیٰی رَبِحَ البَیْعُ یا ابا یحیٰی، اے ابا یحییٰ تمہارا سودا نفع بخش رہا، تمہارا سودا نفع بخش رہا۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا، خاص طور پر فضیلت والے اوقات میں، وہ ذکر الٰہی جو سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے حال کے بارے میں خبر دی جو اپنی زبان سے جو بات کرتا ہے اس کا فعل اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پس کلام ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرتی ہے یا اس کو پستی میں گرا دیتی ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا﴾ ” بعض لوگ وہ ہیں جن کی بات تجھ کو اچھی لگتی ہے دنیا کی زندگی میں“ یعنی جب وہ بات کرتا ہے تو اس کی باتیں سننے والے کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی فائدہ مند بات کر رہا ہے۔ اور بات کو مزید موکد بناتا ہے۔ ﴿ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ ۙ﴾۔ اور جو اس کے دل میں ہے، اس پر وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے“ یعنی وہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کے دل میں وہی کچھ ہے جس کا اظہار وہ زبان سے کر رہا ہے، درآنحالیکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، کیونکہ اس کا فعل اس کے قول کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس کا فعل اس کے قول کی موافقت کرتا جیسا کہ سچے مومن کا حال ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿َھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ﴾” اور وہ سخت جھگڑالو ہے“ یعنی جب کبھی آپ اس سے بحث کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں سخت جھگڑالو پن، سرکشی اور تعصب جیسی مذموم صفات موجود ہیں اور ان کے نتیجے میں، اس کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو قبیح ترین اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے اوصاف کی مانند نہیں ہیں۔ وہ اہل ایمان جنہوں نے سہولت کو اپنی سواری، اطاعت حق کو اپنا وظیفہ اور عفو و درگزر کو اپنی طبیعت بنا لیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur logon mein aik woh shaks bhi hai kay dunyawi zindagi kay baaray mein uss ki baaten tumhen bari achi lagti hain , aur jo kuch uss kay dil mein hai uss per woh Allah ko gawah bhi banata hai , halankay woh ( tumharay ) dushmanon mein sabb say ziyada kattar hai
12 Tafsir Ibn Kathir
دل بھیڑیوں کے اور کھال انسانوں کی
سدی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ منافق شخص تھا ظاہر میں مسلمان تھا اور لیکن باطن میں مخالف تھا، ابن عباس کہتے ہیں کہ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے حضرت خبیب اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں کی تھیں جو رجیع میں شہید کئے گئے تھے تو ان شہداء کی تعریف میں (من بشری) والی آیت اتری اور ان منافقین کی مذمت کے بارے میں آیت (من یعجبک) الخ والی آیت نازل ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے تمام منافقوں کے بارے میں پہلی اور دوسری آیت ہے اور تمام مومنوں کی تعریف کے بارے میں تیسری آیت ہے، قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے اور یہی صحیح ہے، حضرت نوف بکالی جو تو راہ و انجیل کے بھی عالم تھے فرماتے ہیں کہ میں اس امت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں لکھا ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں ان کی زبانیں تو شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے (مصبر) سے زیادہ کڑوے ہیں لوگوں کے لئے بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا وہ مجھ پر جرأت کرتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکے بازیاں کرتے ہیں مجھے اپنی ذات کی قسم کہ میں ان پر وہ فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے، قرظی کہتے ہیں میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ منافقوں کا وصف ہے اور قرآن میں بھی موجود ہے پڑھئے آیت (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ ) 2 ۔ البقرۃ :204) حضرت سعید نے بھی جب یہ بات اور کتابوں کے حوالے سے بیان کی تو حضرت محمد بن کعب (رض) نے یہی فرمایا تھا کہ یہ قرآن شریف میں بھی ہے اور اسی آیت کی تلاوت کی تھی سعید کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے آپ نے فرمایا سنئے آیت شان نزول کے اعتبار سے گو کسی کے بارے میں ہی ہو لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہوئی ہے۔ ابن محیصن کی قرأت میں (یشہد اللہ) ہے معنی یہ ہوں گے کہ گو وہ اپنی زبان سے کچھ ہی کہے لیکن اس کے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جیسے اور جگہ آیت (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون :1) یعنی منافق تیرے پاس آکر تیری نبوت کی گواہی دیتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق یقینًا جھوٹے ہیں، لیکن جمہور کی قرأت یشہد اللہ ہے تو معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کے سامنے تو اپنی خیانت چھپاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ان کے دل کا کفر ونفاق ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ ) 4 ۔ النسآء :108) یعنی لوگوں سے چھپاتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے، ابن عباس (رض) نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسلام ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہی کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے، صحیح معنی آیت کے یہی ہیں کہ عبدالرحمن بن زید اور مجاہد (رح) سے بھی یہی مروی ہے ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ " الد " کے معنی لغت میں ہیں سخت ٹیڑھا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا) 19 ۔ مریم :97) یہی حالت منافق کی ہے کہ وہ اپنی حجت میں جھوٹ بولتا ہے اور حق سے ہٹ جاتا ہے، سیدھی بات چھوڑ دیتا ہے اور افترا اور بہتان بازی کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے بیوفائی کرے، جب جھگڑا کرے گالیاں بکے، ایک اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اس کی کئی ایک سندیں ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ برے اقوال والا ہے اسی طرح افعال بھی اس کے بدترین ہیں تو قول تو یہ ہے لیکن فعل اس کے سراسر خلاف ہے، عقیدہ بالکل فاسد ہے۔
نماز اور ہماری رفتار۔
سعی سے مراد یہاں قصد جیسے اور جگہ ہے آیت (ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى) 79 ۔ النازعات :22) اور فرمان ہے آیت (فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ) 62 ۔ الجمعہ :9) یعنی جمعہ کی نماز کا قصد و ارادہ کرو، یہاں سعی کے معنی دوڑنے کے نہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا ممنوع ہے، حدیث شریف میں ہے جب تم نماز کے لئے آؤ بلکہ سکینت ووقار کے ساتھ آؤ۔
منافقوں کا مزید تعارف۔
غرض یہ کہ ان منافقوں کا قصد زمین میں فساد پھیلانا کھیتی باڑی، زمین کی پیداوار اور حیوانوں کی نسل کو برباد کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی معنی مجاہد سے مروی ہیں کہ ان لوگوں کے نفاق اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارش کو روک لیتا ہے جس سے کھیتیوں کو اور جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو بانی فساد ہوں ناپسند کرتا ہے۔ ان بدکرداروں کو جب وعظ نصیحت کے ذریعہ سمجھایا جائے تو یہ اور بھڑک اٹھتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں گناہوں پر آمادہ ہوجاتے ہیں آیت (وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ ۭ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ بالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا ۭ قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ اَلنَّارُ ۭ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ) 22 ۔ الحج :72) یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیتیں جب ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کافروں کے منہ چڑھ جاتے ہیں اور پڑھنے والوں پر جھپٹتے ہیں، سنو، اس سے بھی بڑھ کر سنو، کافروں کے لئے ہمارا فرمان جہنم کا ہے جو بدترین جگہ ہے، یہاں بھی یہی فرمایا کہ انہیں جہنم کافی ہے یعنی سزا میں وہ بدترین اوڑھنا بچھونا ہے۔
مومن کون ؟
منافقوں کی مذموم خصلتیں بیان فرما کر اب مومنوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں، یہ آیت حضرت صہیب بن سنان رومی (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے یہ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنی چاہی تو کافروں نے ان سے کہا کہ ہم تمہیں مال لے کر نہیں جانے دیں گے اگر تم مال چھوڑ کر کر جانا چاہتے ہو تو تمہیں اختیار ہے، آپ نے سب مال سے علیحدگی کرلی اور کفار نے اس پر قبضہ کرلیا اور آپ نے ہجرت کی جس پر یہ آیت اتری حضرت عمر بن خطاب (رض) اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کے استقبال کے لئے حرہ تک آئی اور مبارکبادیاں دیں کہ آپ نے بڑا اچھا بیوپار کیا بڑے نفع کی تجارت کی آپ یہ سن کر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ آپ کی تجارتوں کو بھی نقصان والی نہ کرے آخر بتاؤ تو یہ مبارکبادیاں کیا ہیں۔ ان بزرگوں نے فرمایا آپ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی ہے، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خوشخبری سنائی۔ قریش نے ان سے کہا تھا کہ جب آپ مکہ میں آئے آپ کے پاس مال نہ تھا یہ سب مال یہیں کمایا اب اس مال کو لے کر ہم جانے نہ دیں گے چناچہ آپ نے مال کو چھوڑا اور دین لے کر خدمت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوگئے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ ہجرت کے ارادے سے نکلے اور کفار مکہ کو علم ہوا تو سب نے آن کر گھیر لیا آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکال لئے اور فرمایا اے مکہ والو تم خوب جانتے ہو کہ میں کیسا تیر انداز ہوں میرا ایک نشانہ بھی خطا نہیں جاتا جب تک یہ تیر ختم نہ ہوں گے میں تم کو چھیدتا رہوں گا اس کے بعد تلوار سے تم سے لڑوں گا اور اس میں بھی تم میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جب تلوار کے بھی ٹکڑے ہوجائیں گے پھر تم میرے پاس آسکتے ہو پھر جو چاہو کرلو اگر یہ تمہیں منظور ہے تو بسم اللہ ورنہ سنو میں تمہیں اپنا کل مال دئیے دیتا ہوں سب لے لو اور مجھے جانے دو وہ مال لینے پر رضامند ہوگئے اور اس طرح آپ نے ہجرت کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بذریعہ وحی یہ آیت نازل ہوچکی تھی آپ کو دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مبارک باد دی اکثر مفسرین کا یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی شان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) 9 ۔ التوبہ :111) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں اور مال خرید لئے ہیں اور ان کے بدلے جنت دے دی ہے یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں مارتے بھی ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ سچا عہد تو راہ انجیل اور قرآن میں موجود ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچے عہد والا اور کون ہوگا تم اے ایماندارو اس خرید فروخت اور ادلے بدلے سے خوش ہوجاؤ یہی بڑی کامیابی ہے، حضرت ہشام بن عامر نے جبکہ کفار کی دونوں صفوں میں گھس کر ان پر یکہ وتنہا بےپناہ حملہ کردیا تو بعض لوگوں نے اسے خلاف شرع سمجھا۔ لیکن حضرت عمر اور حضرت ابوہریرہ وغیرہ نے ان کی تردید کی اور اسی آیت (من بشری) کی تلاوت کر کے سنا دی۔