البقرہ آية ۷۴
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ۗ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُۗ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۤءُۗ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِۗ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
طاہر القادری:
پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہوگئے) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت (ہو چکے ہیں، اس لئے کہ) بیشک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقیناً ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بیشک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی،) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں،
English Sahih:
Then your hearts became hardened after that, being like stones or even harder. For indeed, there are stones from which rivers burst forth, and there are some of them that split open and water comes out, and there are some of them that fall down for fear of Allah. And Allah is not unaware of what you do.
1 Abul A'ala Maududi
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کرّے اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں،
3 Ahmed Ali
پھر ا سکے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو پھٹتے ہیں پھر ان سے پانی نکلتا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو الله کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور الله تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں
4 Ahsanul Bayan
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالٰی کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
٧٤۔١ یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہو گیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔
٧٤۔٢ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا )17۔ الاسراء;44) بنی اسرائیل ۔٤٤
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں، اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور خدا تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں
6 Muhammad Junagarhi
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیاده سخت ہوگئے، بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرگر پڑتے ہیں، اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے بنی اسرائیل) پھر اس کے بعد تمہارے دل ایسے سخت ہوگئے کہ گویا وہ پتھر ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت کیونکہ پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو خدا کے خوف و خشیہ سے گر پڑتے ہیں۔ اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس سے غافل (بے خبر) نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
پھر اسکے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گرپڑتے ہیں اور خدا تمہارے عملوں سے بیخبر نہیں
قولہ : ثُمَّ قسَتْ قُلُوْبُکُمْ ۔
سوال : ثُمَّ تراخی زمان پر دلالت کرتا ہے اور یہاں تراخی فی الزمان نہیں ہے اس لئے کہ یہود کی شقاوت قلبی اسی وقت موجود تھی، نہ یہ کہ بعد میں پیدا ہوئی۔ لہٰذا ثُمَّ کا استعمال برمحل معلوم نہیں ہوتا۔
جواب : یہاں ثُمَّ کا استعمال مجازاً استبعاد کے معنی میں ہے یعنی اتنے سارے دلائل دیکھنے، سننے کے بعد ایک عاقل بالغ سے شقاوت قلبی بعید ہے۔
قولہ : مِنْ بَعْدَ ذٰلِکَ ، یہ استبعاد کی مزید تاکید ہے جو مفہوم ثُمَّ کا ہے وہی مِنْ بَعْد ذٰلِکَ کا ہے۔
قولہ : اَوْاَشَدُّ قَسْوَۃً ، اَوْ ، بمعنی بَلْ ہے، مگر ابوحیان نے اَوْ ، کو توزیع کے لئے لیا ہے، یعنی قلوب کی اقسام کو بیان کرنے کے لئے۔
قولہ : اَفَتَطْمَعُوْنَ ، یہ طَمْعٌ، سے مضارع جمع مذکر حاضر ہے، ہمزہ استفہام انکاری ہے یعنی کیا تم توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مانیں گے ؟ یعنی تم کو توقع نہیں رکھنی چاہیے، اَفَتَطْمَعُوْنَ ، اصل میں فَاَتَطْمَعُوْنَ ، فاء کی تقدیم کے ساتھ تھا، ہمزہ استفہام چونکہ صدارت کلام کو چاہتا ہے اس لیے ہمزہ کو فاء پر مقدم کردیا، اَفَتَطْمَعُوْنَ ہوگیا، یہ جمہور کا مذہب ہے، زمخشری نے کہا ہے کہ ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فائ عاطفہ ہے اور معطوف علیہ محذوف ہے تقدیر عبات یہ ہے : اَتَسْمَعُوْنَ کلَامَھُمْ وتَعرفون اَحْوَالَھُمْ فَتَطْمَعُون اَنْ یؤمنوا لکم۔
فائدہ : ہمزہ استفہام، حروف عطف میں سے صرف تین پر داخل ہوتا ہے، واؤ، فاء، ثم۔
قولہ : اَنْ یُّؤمِنُوْا لَکُمْ ۔
سوال : یؤمنوا، کا صلہ لام نہیں آتا بلکہ باء آتا ہے اور یہاں لام استعمال ہوا ہے۔
جواب : یؤمنوا، یَنْقادُوْا کے معنی کو مشتمل ہے لہٰذا لام صلہ لانا درست ہے، یعنی کیا تم کو توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔
قولہ : فلَھُمْ سابقۃ بالکفر، یعنی ان کو کفر و انکار کی پرانی عادت ہے، اس لئے کہ یہود تورات میں تحریف کا ارتکاب کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنے سے پہلے ہی کفر کرچکے ہیں گویا کہ کفر و انکار ان کی عادت قدیمہ ہے لہٰذا ان کا ایمان لانا مستبعد ہے۔
قولہ : اِذَا خَلَا رَجَعَ ، خَلَا، کی تفسیر رِجِع، سے کرکے اس اعتراض کا جواب دیدیا کہ : خَلاَ ، کا صلہ اِلیٰ نہیں آتا حالانکہ اذا خلا بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ میں خَلَا کا صلہ اِلیٰ استعمال ہوا ہے۔
جواب : خَلَا، رَجَعَ ، کے معنی کو متضمن ہے، اس کی وجہ سے اس کا صلہ الیٰ لانا درست ہے۔
قولہ : والسلام للصیرورۃ، لِیُحَاجُّوکم میں لامتعلیل کا نہیں ہے بلکہ صیرورت یا عاقبت کا ہے، اس لئے کہ احتجاج ان کی غرض اور مقصد نہیں ہے، یُحَاجُّوکم، مضارع جمع مذکر غائب ہے، یعنی انجام کار وہ تمہارے ساتھ حجت بازی کریں، لِیُحَاجُّوکم، أن مقدرہ کی وجہ سے منصوب ہے، اس لئے کہ لام صیرورت کے بعد اِنْ جوازاً مقدر ہوتا ہے لِیُحاجُّوکم، تحدثونھم، سے متعلق ہے، نہ کہ فتح اللہ سے۔
اللغۃ والبلاغۃ
سوال : ماقبل میں رؤسائ یہود کا کلام ہے، جو کہ معطوف علیہ ہے اور اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ معطوف ہے لیکن معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان کوئی معنوی ربط نہیں ہے۔
جواب : مفسر علام نے قال اللہ تعالیٰ کا اضافہ کرکے اسی اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے مطلب یہ کہ یہ یہود کے کلام کا تتمہ نہیں ہے کہ اس میں جوڑ اور ربط تلاش کرنے کی ضرورت ہو یہ کلام مستانف ہے اور باری تعالیٰ کا کلام ہے۔
قولہ : الواؤ الداخلۃ للعطف، الداخلۃ، الواؤ کی صفت ہے اور الدَّاخلۃُ کا فاعل محذوف ہے اور وہ ہمزہ استفہام ہے، یعنی وہ واو کہ جس پر ہمزہ استفہام داخل ہے، اگر مفسر علام اَلدَّاخلۃُ کے فاعل کو ظاہر کردیتے تو بات زیادہ واضح ہوجاتی، تقدیر عبارت یہ ہے ” الواؤ الداخل علیھا استفھام للعطف “ یعنی وہ واؤ کہ جس پر ہمزہ استفہام داخل ہے۔ عطف کے لئے ہے اور معطوف علیہ محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے، ” أیَلُومَوْنَھُمْ علی التحدیث مخَافَۃ الحاجۃ وَلَا یَعْلمونَ اَنّ اللہ یعلم مَا یُسِرون ومَا یُعلنُوْنَ “ یہ مذہب زمخشری کا ہے۔
جمہور کا مذہب
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ : واؤ ہمزہ استفہام پر داخل ہے اور تقدیر عبارت ” وَایَعْلَمُوْنَ “ ہے، مگر چونکہ ہمزہ صدارت کلام کو چاہتا ہے، اس لئے ہمزہ کو واؤ پر مقدم کردیا، ” اَوَلَا یَعْلمونَ “ ہوگیا۔
قولہ : مِن ذلک وغیرہٖ ، سے اشارہ اخفاء اور تحریف وغیرہ کی طرف ہے۔
قولہ : فَیَرْعَوا عن ذٰلک، یہ اِرْعوَاءٌ سے ماخوذ ہے، اس کے معنی باز رہنے اور رجوع کرنے کے ہیں۔
ثُمَّ قَسَت قلوبکم مِنْ بعد ذلک فھِیْ کالحجارۃ اَو أشَدُّ قَسْوَۃً فی الآیۃ المذکورۃ، التشبیہ المرسل، فقد شبَّہ قلوبَھُمْ فی نبوِّھا عن الحقِّ ، وتحا فیھا مع احکامہٖ بالحجارۃ القاسیۃ، چم ترقی التشبیہ، فَجَعَلَ الحجارۃ اکثر لینا مِن قلوبھم۔
المجاز العقلی فی اسناد الخشیۃ الی الحجارۃ وھو کثیرٌ فی اَلْسنَۃِ العرب۔
تفسیر و تشریح
ذبح بقر کے واقعہ کی قدرے تفصیل : وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ ، یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جس کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جس کی قدرے تفصیل سابق میں گزر چکی ہے، اِذْقَتَلْتُمْ ، میں خطاب اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کو ہے، مگر مراد ان کے آباء و اجداد ہیں موجود بنی اسرائیل کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تمہارے اگلے بزرگوں نے ایک شخص کو جس کا نام عامیل تھا اور نہایت مالدار ہونے کے ساتھ لاولد بھی تھا اور اس کے قاتل خود اس کے بھتیجے ہی تھے، بھتیجوں نے جب دیکھا کہ یہ بڈھا تو مرنے کا نام ہی نہیں لیتا اور وہ کافی عمردراز ہوگیا تھا، مگر بظاہر اس کے مرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے، بھتیجوں نے میراث کی لالچ میں اندھیری رات میں قتل کرکے کسی دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دیا اور خود ہی خون کے دعویدار بن گئے اور قتل کا الزام ایک دوسرے پر ڈالنے لگے قریب تھا کہ خانہ جنگی شروع ہوجائے، جب اختلاف شدید ہوگیا تو معاملہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سوچ کر کہ اگر قاتل کا پتہ نہ چلا، تو قوم میں اختلاف شدید رونما ہوجائے گا، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کا ایک حصہ مقتول کے جسم سے لگائیں وہ بحکم خداوندی زندہ ہو کر اپنے قاتل کو بتادے گا، مگر بنی اسرائیل نے اپنی پرانی جبلت کی وجہ سے کٹھ حجتی شروع کردی اور گائے ذبح کرنے کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے گائے کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنی شروع کردیں اور جس قدر سوالات کرتے گئے، اسی قدر اور زیادہ گھر تے چلے گئے، آخر کار ایک خاص قسم کی سنہری گائے پر جسے اس زمانہ میں پرستش کے لئے مخصوص کیا جاتا تھا، بات ٹھہر گئی، آخر کار ان صفات کی حامل گائے ایک شخص کے پاس مل گئی جو اپنی والدہ کا بڑا فرمانبردار تھا، اور اس گائے کے چمڑے بھر سونے کے عوض اس کو خریدا اور ذبح کرکے اس کا ایک حصہ جس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، ایک روایت میں ہے کہ گائے کی زبان لگائی اور دوسری روایت میں ہے کہ دم کی جڑ لگائی، بہرحال وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتلوں کے نام بتائے اور ان دونوں قاتلوں کو میراث سے محروم کرنے کے علاوہ قصاصاً قتل بھی کردیا گیا۔
گائے ذبح کرانے کی مصلحت : اس موقع پر یہ سوال ذہن میں آسکتا ہیں کہ اللہ تعالیی کو تو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ براہ راست مردہ کو زندہ کرسکتا ہے، ذبح بقر کو وسیلہ اور ذریعہ بنانے میں کیا مصلحت اور حکمت ہے ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں تک پہنچا انسانی مقدرت سے باہر ہے، تاہم عقل و شعور کی جو روشنی اس نے انسان کو بخشی ہے، وہ اس طرف رہنمائی کرتی ہے کہ بنی اسرائیل کی صدہا سال تک مصریوں کی غلامی اور ان کے ساتھ بودوباش نیز مصریوں کے ساتھ اختلاط اور میل جول نے ان کے اندر بت پرستی کے جراثیم پیدا کر دئیے تھے اور گائے کی عظمت اور تقدیس کا جذبہ بہت زیادہ نمایاں کردیا تھا، پس خدا کی مصلحت نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی اس گمراہی کو کسی ایسے عملی طریقہ سے دور کرے کہ جس کا مشاہدہ خود ان کی آنکھیں کر رہی ہوں، چناچہ عملی طور پر گائے ذبح کراکر ان کو یہ مشاہدہ کرایا گیا کہ جس گائے کی تقدیس تمہارے دلوں میں پیوست ہوگئی ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تم نے خود اس کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرکے فنا کے گھاٹ اتار دیا، وہ تمہارا بال بیکا بھی نہ کرسکی۔
حقیقت حال یہ ہے کہ موت وحیات کا معاملہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور جس گؤسالہ کی محبت تمہارے دلوں میں رچ گئی ہے وہ تم سے بھی ادنی ایک حیوان ہے جو صرف تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ تمہارا دیوتا اور دیوی ہے۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ ، (الآیۃ) یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا دیکھ کر بھی تمہارے دل متاثر نہیں ہوتے کہ انابت الی اللہ کا داعیہ اور توبہ و استغفار کا جذبہ پیدا ہو بلکہ اس کے برعکس تمہارے قلوب پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے، اس لئے کہ بعض پتھر اپنی سنگینی کے باوجود ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ خوف خدا سے لرز کر گر بھی پڑتے ہیں، مگر تمہارے قلوب ان مذکورہ قسم کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں کہ ایسے عجیب و غریب معجزات اور حیرت زدہ واقعات دیکھ کر بھی اثر پذیر نہیں ہوتے، بلکہ اس کے برعکس تمردو سرکشی پر کمربستہ ہوجاتے ہیں یاد رکھو ! وہ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾ یعنی پھر تمہارے دل بہت سخت ہوگئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی۔ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ ﴾یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمہیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمہارے دلوں کا سخت ہوجانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ولوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ﴾۔ یعنی وہ سختی میں ” پتھر کی مانند ہیں‘ جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾” یا اس سے بھی زیادہ سخت“ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں سے کم نہیں۔ یہاں ” او“ (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ ۭوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ﴾ کیونکہ ” بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمہارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا : ﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمہارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے، وہ تمہارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمہیں تمہارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔
معلوم ہونا چاہئے کہ بہت سے مفسرین رحمتہ اللہ علیہم نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں (حَدِّثوا عن بَني إسرائيلَ ولا حَرَجَ) ” بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔“
[سنن ابی داؤد، العلم ، باب الحدیث عن بنی اسرائیل‘ حدیث:3662]
اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ((لَاتُصَدِّقُواَهل الْكِتَابِ وَلَاتُكَذِّبُوْهُم))[صحیح البخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللّٰه وماانزل الینا‘ حدیث:4485]
” تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔“ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے، لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss sabb kay baad tumharay dil phir sakht hogaye , yahan tak kay woh aesay hogaye jaisay pathar ! balkay sakhti mein kuch unn say bhi ziyada . ( kiyonkay ) pathraon mein say kuch aesay bhi hotay hain jinn say nehren phoot behti hain , aur unhi mein say kuch woh hotay hain jo khud phatt parrtay hain aur unn say paani nikal aata hai , aur unhi mein woh ( pathar ) bhi hain jo Allah kay khof say lurhak jatay hain . . aur ( iss kay bar-khilaf ) jo kuch tum ker rahey ho , Allah uss say bey khabar nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
پتھر دل لوگ
اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا آیت (اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57 ۔ الحدید :16) یعنی کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں ؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مرگیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوگئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گرپڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے آیت (تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا) 17 ۔ الاسرآء :44) یعنی ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے۔ ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے واللہ اعلم۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گرپڑنا دل سے ڈرنا بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے یریدان ینقض یعنی دیوار گرپڑنا چاہ رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔ رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کرسکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ) 33 ۔ الاحزاب :72) یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور جگہ ہے آیت (والنجم والشجر یسجدان یعنی اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور فرمایا یتقیاظلالہ الخ اور فرمایا آیت (قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ) 41 ۔ فصلت :11) زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے آیت (وقالوا لجلودھم) یعنی گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہوگا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔ آیت میں لفظ " او " جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم۔
اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے جیسے آیت (وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا) 76 ۔ الانسان :24) میں اور آیت (عذرا اور نذرا) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے آیت ( كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً ) 4 ۔ النسآء :77) میں اور آیت (وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) 37 ۔ الصافات :147) میں اور آیت (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى) 53 ۔ النجم :9) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) 34 ۔ سبأ :24) یعنی ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے آیت (كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا) 2 ۔ البقرۃ :17) پھر فرمایا آیت (او کصیب) اور فرمایا ہے کسراب پھر فرمایا آیت (او کظلمات) مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کردیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا۔ دل کا سخت ہوجانا۔ امیدوں کا بڑھ جانا۔ لالچی بن جانا۔