البقرہ آية ۹۱
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَاۤءَهٗ وَهُوَ الْحَـقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْـــۢبِيَاۤءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
طاہر القادری:
اور جب ان سے کہا جاتا ہے: اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جسے اللہ نے (اب) نازل فرمایا ہے، (تو) کہتے ہیں: ہم صرف اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی، اور وہ اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ (قرآن بھی) حق ہے (اور) اس (کتاب) کی (بھی) تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے، آپ (ان سے) دریافت فرمائیں کہ پھر تم اس سے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کرتے رہے ہو اگر تم (واقعی اپنی ہی کتاب پر) ایمان رکھتے ہو،
English Sahih:
And when it is said to them, "Believe in what Allah has revealed," they say, "We believe [only] in what was revealed to us." And they disbelieve in what came after it, while it is the truth confirming that which is with them. Say, "Then why did you kill the prophets of Allah before, if you are [indeed] believers?"
1 Abul A'ala Maududi
جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں "ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو ہمارے ہاں (یعنی نسل اسرائیل) میں اتری ہے" اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اُس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی اچھا، ان سے کہو: اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے اتارے پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے ہیں اور باقی سے منکر ہوتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے ان کے پاس والے کی تصدیق فرماتا ہوا تم فرماؤ کہ پھر اگلے انبیاء کو کیوں شہید کیا اگر تمہیں اپنی کتاب پر ایمان تھا -
3 Ahmed Ali
اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس پر ایمان لاؤ جو الله نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں ہم تو اسی کو مانتے ہیں جو ہم پر اترا ہے اور اسے نہیں مانتے ہیں جو اس کے سوا ہے حالانکہ وہ حق ہے اور تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس ہے کہہ دو پھر تم کیوں اس سے پہلے الله کے نبیوں کو قتل کرتے رہے اگر تم مومن تھے
4 Ahsanul Bayan
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے (١) حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا؟ (٢)۔
٩١۔١ یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
٩١۔٢ یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کو تم قتل نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی ہے، اس کو مانو۔ تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر (پہلے) نازل ہو چکی ہے، ہم تو اسی کو مانتے ہیں۔ (یعنی) یہ اس کے سوا کسی اور (کتاب) کو نہیں مانتے، حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے، اس کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ (ان سے) کہہ دو کہ اگر تم صاحبِ ایمان ہوتے تو الله کے پیغمبروں کو پہلے ہی کیوں قتل کیا کرتے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان ﻻؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے۔ حاﻻنکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، کفر کرتے ہیں، اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں کہ اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیا کو کیوں قتل کیا؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (قرآن) اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہم (بنی اسرائیل) پر نازل کیا گیا ہے مگر اس کے علاوہ جو کچھ (قرآن، انجیل وغیرہ) ہے اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور جو ان کے پاس موجود ہے (توراۃ) اس کی بھی تصدیق کرتا ہے (اے رسول) آپ ان سے کہیے کہ اگر تم (توراۃ پر) ایمان رکھتے تھے تو اس سے پہلے (اگلے زمانہ) میں اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو؟ ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے نازل کئے ہوئے پر ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اس پر ایمان لے آئیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے اور اس کے علاوہ سب کا انکار کردیتے ہیں. اگرچہ وہ بھی حق ہے اور ان کے پاس جو کچھ ہے اس کی تصدیق کرنے والا بھی ہے. اب آپ ان سے کہئے کہ اگر تم مومن ہو تو اس سے پہلے انبیائ خدا کو قتل کیوں کرتے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی ہے اس کو مانو تو کہتے ہیں کہ جو کتاب ہم پر (پہلے) نازل ہوچکی ہے ہم تو اسی کو مانتے ہیں (یعنی) یہ اس کے سوا اور (کتاب) کو نہیں مانتے حالانکہ وہ (سراسر) سچی ہے اور جو ان کی (آسمانی) کتاب ہے اس کی بھی تصدیق کرتی ہے (ان سے) کہہ دو کہ اگر تم صاحب ایمان ہوتے تو خدا کے پیغمبروں کو پہلے ہی کیوں قتل کیا کرتے
آیت نمبر ٩١ تا ٩٦
ترجمہ : اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو قرآن وغیرہ (انجیل) اللہ نے نازل کیا ہے، اس پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر نازل کیا گیا ہے، یعنی تورات پر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور واؤ حالیہ ہے جتنی اس کے علاوہ ہے اس کے بعد ہے (اور وہ) قرآن ہے ان کا انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق بھی ہے، (جملہ) حالیہ ہے، اور اس (تورات) کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس ہے، (مصدقاً ) حال ثانی ہے تاکید کے لئے آپ ان سے دریافت کیجئے کہ اگر تمہارا تورات پر ایمان ہے تو انبیائ سابقین کو تم نے کیوں قتل کیا ؟ حالانکہ تم کو تورات میں ان کے قتل سے منع کیا گیا ہے، خطاب ان (یہود) کو ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھے، اس وجہ سے کہ ان کے آباؤ (و اجداد) نے جو کچھ کیا یہ اس سے راضی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس کھلے معجزات لائے جیسا کہ عصا، یدبیضاء اور دریا کا دولخت ہوجانا، پھر بھی تم نے اس کے موسیٰ (علیہ السلام) کے میقات (طور) پر چلے جانے کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا، اور تم بچھڑے کو (معبود) بنانے کی وجہ سے ظالم ہوئے اور جب ہم نے تم سے تورات کے احکام پر عمل کرنے کا وعدہ لیا اور ہم نے تم پر جبل طور کو مسلط کیا، تاکہ تم پر گرادیں، جب تم تورات کو قبول کرنے سے باز رہے، اور ہم نے کہا، ہماری دی ہوئی چیز (تورات) کو مضبوطی اور کوشش سے تھا مو اور جس بات کا تم کو حکم دیا جا رہا ہے اسے قبولیت کی نیت سے سنو، تو انہوں نے کہا ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے اور ان کے دلوں میں ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑا بسا دیا گیا تھا، یعنی بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں ایسی سرایت کرگئی تھی جیسا کہ شراب (جسم میں) سرایت کر جاتی ہے، آپ ان سے کہئے تمہارا توریت پر ایمان جس گاؤ پرستی کا تم کو حکم دیتا ہے، وہ نہایت بری چیز ہے اگر تم تورات پر ایمان رکھتے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے مطلب یہ کہ تمہارا توریت پر بھی ایمان نہیں ہے اس لئے کہ تورات پر ایمان گاؤ پرستی کا حکم نہیں دیتا، اور (کُمْ ) کے مخاطب ان کے آباء (و اجداد) ہیں یعنی اسی طرح تمہارا بھی تورات پر ایمان نہیں ہے اور تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرچکے ہو، اور تورات پر ایمان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اجازت نہیں دیتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہئے اگر دار آخرت یعنی جنت عند اللہ صرف تمہارے لئے ہے خاص طور پر اور لوگوں کے علاوہ جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو (ذرا) موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو، تمنائے موت کے ساتھ دو شرطیں متعلق ہیں، اس طریقہ پر کہ اول دوسری کے لئے قید ہے، یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ دار آخرت (جنت) صرف تمہارے لئے ہے اور جس کے لئے دار آخرت ہو تو وہ اس کو ترجیح دیتا ہے اور اس تک رسائی کا ذریعہ موت ہے، لہٰذا تم اس کی تمنا کرو، مگر وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار ہے اور موت کی تمنا نہ کرنا ان کی تکذیب کو مستلزم ہے، ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کافروں کو خوب جانتا ہے لہٰذا ان کو سزا دے گا بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص آپ ان کو پائیں گے کہ (یہ لوگ زندگی کی حرص میں) مشرکوں منکرین بعث سے بھی زیادہ بڑھے ہوئے ہیں، (لَتَجِدَنَّھُمْ ) میں لام قسمیہ ہے، اس لئے کہ انہیں (یہود کو) یہ بات معلوم ہے کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، بخلاف مشرکوں کے کہ وہ بعث بعد الموت کے قائل ہی نہیں ہیں ان میں کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر ہزار سال ہو، مصدریہ ہے، اَنْ ، کے معنی میں ہے اور لَوْ ، اپنے صلہ کے ساتھ مصدر کی تاویل میں ہو کر یَوَدُّ کا مفعول ہے، یہ درازی عمر بھی ان کو عذاب سے نہیں بچا سکتی، اَنْ یُّعَمَّرَ ، مُزَحْزِحہٖ ، کا فاعل ہے (یعنی اَنْ یُّعَمّرَ ) تعمیر کے معنی میں ہے، اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو بخوبی دیکھتا ہے، یعملون، یاء اور تاء کے ساتھ ہے، یعنی ان کو جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَرَآءَ ، یہ ظرف مکان ہے، یہ خلف کے معنی میں زیادہ اور امام کے معنی میں کم استعمال ہوتا ہے یہ اضداد میں سے ہے اور سِویٰ ، اور بِعْدُ ، کے معنی میں بھی مستعمل ہے، مفسر علام نے بعد کے معنی مراد لئے ہیں
قولہ : وَھُوْ الْحَقُّ ، یہ مَا سے حال ہے۔
قولہ : مُصَدِّقًا حالٌ ثانیۃ مؤکِدَّۃٌ، یہ ماقبل کے مضمون جملہ کی تاکید کے لئے ہے اس لئے کہ حق صادق ہی ہوتا ہے جیسا کہ زیدٌ اَبوک، عَطُوفًا، میں عطوفًا، ماقبل کی تاکید کے لئے ہے حال ثانیہ کا مطلب یہ ہے کہ تاکید کے اعتبار سے حال ثانی ہے ورنہ تو یہ حال ثالث ہے اس لئے کہ اول، ویکفرون، ہے۔
قولہ : قَتَلْتُمْ ، مضارع کی تفسیر ماضی سے کرنے میں اشارہ ہے کہ انبیاء اکا قتل نزول آیت کے زمانہ کے اعتبار سے زمانہ ماضی میں واقع ہوا ہے اور قرینہ اس پر (مِنْ قَبْل) ہے۔
قولہ : بِمَا فَعَل اٰبَاءُھم، اس میں اشارہ ہے کہ : تَقْتلون، میں اسناد مجازی ہے، اس لئے کہ انبیاء کے قاتل ان کے آباء و اجداد تھے نہ کہ وہ۔
قولہ : رضاھم یہ مجاز کے علاقہ کا بیان ہے اور وہ ملابست ہے، چونکہ موجودہ یہودی اپنے آباء کے قتل سے راضی تھے اسی لیے قتل کی نسبت ان کی طرف کردی گئی ہے۔
قولہ : بالمعجزات، بَیِّنات کی تفسیر معجزات سے کرکے ان لوگوں پر رد مقصود ہے، جو بینات سے تورات مراد لیتے ہیں، اس لئے کہ تورات واحد ہے اور بینات جمع ہے۔
قولہ : اِلھًا، اس تقدیر میں اشارہ ہے کہ اِتَّخَذَ ، کا مفعول ثانی محذوف ہے اور یہ اتخذتُ سَیفًا ای صنعتہ سے ماخوذ نہیں ہے جو ایک مفعول کو چاہتا ہے اس لئے کہ اتخاذ عجل، سامری سے صادر ہوا تھا نہ کہ بنی اسرائیل سے اسی مضمون کو سوال و جواب کی صورت میں بھی بیان کرسکتے ہیں۔
سوال : اِلھًا، محذوف ماننے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
جواب : اتخاذ، ابتداء صنعت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے : اِتخذتُ سیفا، ای صَنَعْتُہٗ ، مفعول ثانی ذکر نہ کرنے سے اس معنی کی طرف ذہن منتقل ہوسکتا تھا، اس صورت میں مطلب ہوتا، صَنَعتم یا بنی اسرائیل عجلاً ، حالانکہ عجل سازی کا عمل سامری سے صادر ہوا تھا، نہ کہ بنی اسرائیل سے۔
قولہ : بعد ذِھَابِہٖ ، اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اس صورت میں مِنْ بعدہ کا تعلق مضاف محذوف سے ہوگا، نہ کہ اتخاذ سے یہ ان حضرات پر رد بھی ہے جن حضرات نے بعد ذھابہٖ کے بجائے مجیئہٖ محذوف مانا ہے، ورنہ تو لازم آئے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں عجل سازی ہوئی جو کہ غلط ہے۔
قولہ : عَلَی العَمَلِ بِمَا فِی التُّورَاۃِ ، اس میں اشارہ ہے کہ : اخذ میثاق سے وہ عمومی میثاق مراد نہیں ہے جو ازل میں تمام اولاد آدم سے الست بربکم کی صورت میں لیا گیا تھا۔
قولہ : وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ العجل سے پہلے حب مضاف محذوف ہے اس لئے کہ بچھڑا دل میں نہیں سما سکتا، مضاف کو حذف کرکے مبالغۃ مضاف الیہ کو اس کے قائم کردیا گیا ہے۔
قولہ : عِبَادُۃُ العِجْل، یہ مخصوص بالذم مقدر ہے۔
قولہ : کذلک انتم لَسْتُمْ بمؤمنین، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : آباء کی جنابت کی وجہ سے ابناء سے مؤاخذہ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجودین کو ان کے آباء کے فعل پر مذمت کس وجہ سے ہے ؟
جواب : ظاہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود اپنے اسلاف کے فعل پر راضی اور اس سے متفق تھے، نہ کہ نادم و شرمندہ اس لئے کہ برائی پر راضی اور اس سے متفق ہونا بھی برائی ہے۔
قولہ : ای الجنۃ، دار آخرت کی تفسیر جنت سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دار آخرت عام ہے، جس میں دوزخ اور جنت شامل ہے اور یہ لوگ صرف خود کو جنت کس مستحق سمجھتے تھے۔
قولہ : کما زعمتم، ای بقولکم، ” لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ھُوْدًا “۔
قولہ : تَعَلَّقَ بِتَمَنِّیْہ الشرطانِ الخ، اظہر یہ ہے کہ تعلق تمنیہ بالشرطین کیا جائے، اس میں قلب ہے، یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ جزاء واحد کا تعلق دو شرطوں سے عطف کے بغیر جائز نہیں ہے اور یہاں یہی لازم آرہا ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ جزاء واحد کا تعلق دو شرطوں سے نہیں ہے بلکہ ایک ہی شرط سے ہے اس لئے کہ اول شرط، ثانی کے لئے قید ہے مستقل شرط نہیں ہے۔
قاعدہ : قاعدہ یہ ہے کہ جب دو شرطیں جمع ہوجائیں اور ان کا جواب درمیان میں ہو تو اول شرط ثانی کے لئے قید ہوگی، بایں طور کہ اول ثانی کے معنی کے لئے متمم ہوگی اور جواب ثانی کا ہوگا تقدیر آیت یہ ہوگی : ” اِنْ کُنْتُمْ صٰادقینَ فی زعمکمْ اَنَّ الدَّارَ الآخِرۃَ لکم خاصَّۃً فَتَمنَّوُا المَوْتَ “ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : فَتَمنوا الموت، ثانی کا جواب ہے اور اول کا جواب محذوف ہے جس پر اول کا جواب دلالت کر رہا ہے۔
قولہ : المستلزم لِکِذْبِھِمْ ، یہ شکل اول کا نتیجہ ہے، اِنْ کانَتْ لکم الدَّارُ الآخرۃُ ، مقدم ہے فَتمنِّوُاق الموتَ ، تالی ہے اور لَن یتمنَوہ ابداً نقیض تالی ہے، نقیض تالی کا عدم مقدم کے عدم کو مستلزم ہوتا ہے اور مقدم دار آخرت کو اپنے لئے خاص کرنا ہے، لہٰذا دار آخرت کی تخصیص کا دعوی معدوم ہوگیا اور یہ نقیض تعالیٰ کے عدم کی وجہ سے لازم آیا المستلزم لکذبھم، کا یہی مطلب ہے، یعنی یہود کا موت کی تمنا نہ کرنا، اپنے لئے دار آخرت کی تخصیص کے دعوے کے کذب کو مستلزم ہے۔
قولہ : لام قسمٍ ، اس میں اشارہ ہے کہ : وَلتجدنھم، کا عطف لَنْ یَتَمَنَّوْہ، پر ہے اور یہ عدم تمنائے موت کی تاکید ہے نہ کہ جملہ معترضہ جیسا کہ کہا گیا ہے اس لئے کہ اس صورت میں لام تاکید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
قولہ : یتمنی، یَوَدُّ ، کی تفسیر یتمنٰی، سے کرکے اس سوال کا جواب دینا مقصد ہے کہ : وِدَاد، موجود اشیائ میں ہوا کرتا ہے نہ کہ معدوم میں، اور درازی عمر کی تمنا معدومات میں سے ہے۔
جواب : مُزَحْزِحِہٖ ، اسم فاعل واحد مذکر، دور کرنے والا، مصدر زحزحَۃٌ، بروزن فَعْلَلۃٌ، دور کرنا ثلاثی مجرد زَحَّ ، زَحًّا، (ن) دور کرنا۔
اللغۃ والبلاغۃ
(١) وَرَآءَ ، وھو مِن ظروف مکانٍ ، والمشھور اَنَّہ بمعنی خلفٍ وقد تکون بمعنی اَمَامٍ فھو من الاضداد۔
(٢) اِذَا سَبَقَ مَا الاستفھامیۃ حرف جر حذفت الفھا، وَنَزلت الکلمتان منزلۃ الکلمۃ الواحدۃ، فتقول : اِلامَ ، حتامَ ، لِمَ ، بِمَ ، عَمَّ ۔
(٣) زُحْرِحَ ، یستعمل متعدًیا ولا زمًا، و تکرار الحروف بمثابۃ تکرارِ العمل۔
(٤) الکنایۃ الف سنۃ وہی کنایۃ عن الکثرۃ فلیس المراد خصوص الف۔
تفسیر و تشریح
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ آمِنُوْا، (الآیۃ) یہ بنی اسرائیل کا ذکر چل رہا ہے اور یہ بات ان ہی سے کہی جا رہی ہے کہ : آخری کتاب الہٰی، قرآن پر ایمان لاؤ، یہود چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر نازل کردہ کتاب انجیل پر بھی ایمان نہیں رکھتے تھے، اس لئے اس دعوت ایمان میں انجیل اور قرآن دونوں شامل ہیں : ” بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ “ کے عموم سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے، اس کے جواب میں بنی اسرائیل کہا کرتے تھے، کہ ہماری قوم کے لئے جو کتاب نازل کی گئی ہے، وہ ہمارے لئے کافی ہے کسی دوسری کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔
وَیَکْفُرُوْنَ بِمَآ وَرَآءَہٗ ، یہود کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اسرائیلی سلسلہ سے باہر کسی اور نبی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، ایک عرصہ تک الطاف الہٰی اور انعامات خداوندی کے مورد خاص بنے رہے اور اسی نسل کے اندر مسلسل انبیاء کے مبعوث ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں یہ بات جم گئی ہے کہ : نبوت خاندان اسرائیل سے باہر نہیں جاسکتی۔
قَلْ فَلِمَ یَقْتُلُوْنَ اَنْبِیآءَ اللہِ مِنْ قَبْلُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِئْنَ ، یہ یہود کے اس دعوت کی تردید ہے کہ ہم تورات پر ایمان رکھتے ہیں ہمیں کسی اور کتاب پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے، یعنی آپ ان سے کہئے کہ : تمہارا تورات پر ایمان کا دعوی بھی صحیح نہیں ہے، اگر تمہارا دعوی صحیح ہوتا تم انبیاء سابقین کو قتل نہ کرتے، اس لئے کہ تورات میں انبیاء کے قتل سے تم کو صراحۃً منع کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب یہود کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے یعنی قرآن کریم پر تو انہوں نے تکبر اور سرکشی سے کہا : ﴿ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ ﴾ یعنی وہ (تورات کے سوا) تمام کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر علی الاطلاق ایمان لائیں خواہ یہ کتابیں بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئی ہوں یا ان کے علاوہ کسی اور نبی پر، اور یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان جو تمام انبیائے کرام علیہ السلام پر نازل کی گئی ہیں۔
رہا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے درمیان تفریق کرنا اور اپنے زعم کے مطابق کسی پر ایمان لانا اور کسی کا انکار کردینا، تو یہ ایمان نہیں بلکہ عین کفر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيلًا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا﴾ (لنساء:4؍150۔151)
” وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے مابین (یعنی ایمان اور کفر کے مابین) ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں، بلا شبہ وہی کافر ہیں۔“
اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کو شافی جواب دیا ہے اور ان کو ایک ایسی الزامی دلیل دی ہے جس سے ان کو کوئی مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار قرآن کا دو پہلوؤں سے رد کیا ہے۔
(الف) فرمایا : ﴿وَهُوَ الْحَقُّ﴾’’اور وہ (قرآن) حق ہے“ پس جب یہ قرآن اوامرونواہی اور اخبار میں سراسر حق پر مشتمل ہے اور یہ حق ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے، لہٰذا یہ معلوم ہوجانے کے بعد اس کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا اور اس حق کا انکار کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔
(ب) پھر فرمایا ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ﴾ ” ان کی موجودہ کتاب کی تصدیق کرتا ہے“ یعنی یہ ہر اس چیز کے موافق اور اس کا محافظ ہے جس پر حق دلالت کرتا ہے۔
پس تم اس کتاب پر کیوں ایمان لاتے ہو جو تم پر نازل کی گئی جب کہ اس جیسی دوسری کتاب کا انکار کرتے ہو؟ اور کیا یہ تعصب نہیں؟ کیا یہ ہدایت کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی پیروی نہیں؟
نیز قرآن کا ان کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان پر نازل کی گئیں ہیں، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ قرآن ان کے لیے اس بات کی دلیل ہو کہ ان کے پاس جو کتابیں ہیں، وہ سچی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اپنی کتابوں کا اثبات بھی قرآن کے بغیر نہیں کرسکتے۔ جب وہ قرآن کا انکار کردیتے ہیں تو ان کی حالت اس مدعی کی سی ہوجاتی ہے جس کے پاس اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیل و حجت بھی ہے جو اثبات دعویٰ کی واحد دلیل ہے، اس دلیل کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہوسکتا، لیکن پھر وہ خود ہی اپنی دلیل میں جرح و قدح کرتا ہے اور اس کو جھٹلا دیتا ہے۔ کیا یہ پاگل پن اور حماقت نہیں؟ پس واضح ہوا کہ ان کا قرآن کا انکار کرنا درحقیقت ان کتابوں کا انکار ہے جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی ان سے (کہہ دو) ﴿فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّـهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم ایماندار ہو تو پھر تم اس سے قبل اللہ کے انبیاء کو کیوں قتل کردیتے رہے؟“
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unn say kaha jata hai kay Allah ney jo kalam utaara hai uss per emaan ley aao , to woh kehtay hain kay hum to ( sirf ) ussi kalam per emaan rakhen gay jo hum per nazil kiya gaya , ( yani toraat ) aur woh uss kay siwa ( doosri aasmani kitabon ) ka inkar kertay hain , halankay woh bhi haq hain , ( aur ) jo kitab unn kay paas hai woh uss ki tasdeeq bhi kerti hain . ( aey payghumber ! ) tum inn say kaho kay agar tum waqaee ( toraat per ) emaan rakhtay thay to Allah kay nabiyon ko pehlay zamaney mein kiyon qatal kertay rahey-?
12 Tafsir Ibn Kathir
خود پسند یہودی مورد عتاب
یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں توراۃ انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق موجود ہے، جیسے فرمایا آیت (اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :146) یعنی اہل کتاب آپ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں پس آپ سے انکار کا مطلب توراۃ انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے۔ اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا توراۃ اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا ؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو۔ پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ (علیہ السلام) سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنادینا، بادلوں کا سایہ کرنا، من وسلویٰ کا اترنا، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود توراۃ پر اور خود حضرت موسیٰ پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا ؟ کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں ؟ من بعدہ سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے طور پر جانے کے بعد ہے دوسری جگہ ارشاد ہے آیت (واتخذ قوم موسیٰ ) الخ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طور پر جانے کے بعد آپ کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گو سالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا جیسے فرمایا آیت (ولما سقط فی ایدیھم) یعنی جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہوجائیں گے۔