طٰہٰ آية ۱۰۵
وَيَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّىْ نَسْفًا ۙ
طاہر القادری:
اور آپ سے یہ لوگ پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، سو فرمادیجئے: میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا،
English Sahih:
And they ask you about the mountains, so say, "My Lord will blow them away with a blast.
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور تم سے پہاڑوں کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا،
3 Ahmed Ali
اور تجھ سے پہاڑوں کا حال پوچھتے ہیں سوکہہ دے میرا رب انہیں بالکل اڑا دے گا
4 Ahsanul Bayan
وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا ان کو اُڑا کر بکھیر دے گا
6 Muhammad Junagarhi
وه آپ سے پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیں کہ انہیں میرا رب ریزه ریزه کر کے اڑا دے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ (قیامت کے دن کہاں جائیں گے)؟ تو آپ کہہ دیجئے! کہ میرا پروردگار ان کو (ریزہ ریزہ کرکے) اڑا دے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ قیامت میں ان کا کیا ہوگا تو کہہ دیجئے کہ میرا پروردگار انہیں ریزہ ریزہ کرکے اڑادے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور تم سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ خدا ان کو اڑا کر بکھیر دے گا
آیت نمبر 105 تا 115
ترجمہ : اور (بعض) لوگ آپ سے پہاڑوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا کیا حال ہوگا ؟ آپ فرما دیجئے میرا رب ان کو ریزہ ریزہ کرکے ہوا میں منتشر کر دے گا اس طریقہ سے کہ (اولاً ) ان کو ریگ رواں کے مانند ریزہ ریزہ کرے گا پھر ان کو ہوا کے ذریعہ اڑا دے گا، پھر زمین کو ایک ہموار میدان کرکے رکھ دے گا کہ اے (مخاطب) تو اس میں نشیب و فراز نہ دیکھے گا اس دن یعنی جس دن پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئے جائیں گے تو لوگ قبروں سے نکلنے کے بعد محشر کی جانب بلانے والے کی آواز کے پیچھے ہو لیں گے اور وہ (داعی) اسرافیل (علیہ السلام) ہیں، کہیں گے رحمٰن کے سامنے پیش ہونے کے لئے آؤ اس میں کوئی کجی نہ ہوگی یعنی ان کی اتباع میں، مطلب یہ کہ کسی کو اتباع نہ کرنے پر قدرت نہ ہوگی اور تمام آوازیں رحمٰن کے سامنے پست ہوجائیں گئ تو تو بجز پاؤں کی آہٹ کے کچھ نہ سنے گا (یعنی) محشر کی جانب چلنے کی رگڑ کی آواز کے علاوہ جیسا کہ چلتے وقت اونٹوں کے قدموں کی آواز ہوتی ہے اس دن کسی کو سفارش فائدہ نہ دے گی، بجز اس شخص کے کہ جس کے لئے (سفارش) کی رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس کی بات کو پسند کیا ہوا اس طرح کہ وہ لا الٰہَ الا اللہ کہے وہ جانتا ہے آنے والے آخرت کے تمام امور کو اور دنیا کے گزرے ہوئے تمام امور کو اور اس کی معلومات کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا یعنی ذات خداوندی کا کوئی علمی احاطہ نہیں کرسکتا اور (اس دن) الحی القیوم یعنی اللہ کے سامنے تمام چہرے جھکے ہوئے ہوں گے، اور ایسا شخص تو (ہر طرح) ناکام رہے گا جو ظلم شرک لیکر آئے گا اور جس نے نیک اعمال کئے ہوں گے اور وہ مومن بھی ہوگا تو اس کو ظلم کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا بایں طور کہ اس کے گناہوں میں اضافہ کردیا جائے اور نہ نقصان کا بایں طور کہ اس کی نیکیوں میں کمی کردی جائے اور اسی طرح اس کا عطف کذٰلک نقصُّ پر ہے، یعنی ماسبق میں مذکور نازل کرنے کے مانند اس قرآن کو عربی کا قرآن نازل کیا اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعیدیں بیان کیں تاکہ وہ شرک سے ڈر جائیں یا یہ قرآن ان کے لئے گذشتہ قوموں کی ہلاکت سے نصیحت (کا سامان) پیدا کرے جس سے یہ لوگ عبرت حاصل کریں سو اللہ تعالیٰ جو بادشاہ حقیقی ہے ان باتوں سے برتر ہے جو یہ مشرک کہتے ہیں اور آپ قرآن پڑھنے میں اس کے آپ پر مکمل ہونے سے پہلے جلدی نہ کیجئے یعنی جبرائیل (علیہ السلام) کے نازل کرنے سے فراغت سے پہلے اور یہ دعا کیجئے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما دیجئے یعنی قرآن کے ذریعہ چناچہ جب بھی آپ پر قرآن کا کچھ حصہ نازل ہوتا ہے تو اس سے آپ کے علم میں اضافہ ہوتا اور ہم نے پہلے ہی یعنی کھانے سے پہلے آدم کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ اس درخت سے نہ کھائیں تو آدم بھول گئے اور ہمارے عہد سے غفلت ہوگئی اور ہم نے ان کو پختہ ارادہ والانہ پایا یعنی جس چیز سے ہم نے ان کو روکا تھا (اس میں) پختہ اور صابر نہ پایا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
نَسْفًا مصدر (ض) بکھیر کر اڑا دینا صَفْصَفًا چٹیل میدان، ہموار زمین (اسم) اَمْتًا ٹیلہ، نشیب و فراز۔ قولہ : ویسئلونک عنِ الجِبَال ای حال الجبال مضاف محذوف ہے، مفسر علام نے کیف تکون سے حذف مضاف کی طرف اشارہ کیا ہے اس لئے کہ سوال شئ سے نہیں بلکہ اس کے احوال سے ہوا کرتا ہے، بعض حضرات نے بطور استہزاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روز قیامت پہاڑوں کی حالت کے بارے میں سوال کیا تھا جیسا کہ ابن منذر اور ابن جریج نے کہا کہ بعض قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کیا تھا کہ قیامت کے دن ان پہاڑوں کا کیا حال ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی فقل میں فاء شرط مقدر کے جواب میں ہے ای اِن سألوک فعل اس صورت میں کسی سائل کے سوال کا جواب نہ ہوگا فَیَذْرُھا کی ضمیر میں دو احتمال ہیں نمبر 1 یہ کہ جبال کی طرف راجع ہو اس صورت میں مضاف محذوف ہوگا ای ویَذَرُ مراکز الجبال نمبر 2 یہ کہ ھا ضمیر ارض کی طرف راجع ہو جو کہ صراحتاً ماقبل میں مذکور نہیں ہے مگر دلالت حال کی وجہ سے مقدر مان لیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ کے قول مَا تَرَکَ علیٰ ظھرِھَا من دابَّۃٍ قاعًا، یذرُھا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور یَذَرُ تَصِیْرُ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بدومفعول ہوگا ھَا ضمیر مفعول اول ہے، قاعًا حال ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے اس صورت میں صفصفاً قاعًا کی صفت اول ہوگی اور لا تریٰ فیھا عِوَجًا قاعًا کی صفت ثانی ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے۔
قولہ : الداعی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی سے مراد حضرت اسرافیل ہیں جیسا کہ مفسر علام کی رائے ہے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہوں گے یہی قول راحج ہے البتہ نافخ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) ہوں گے لاَعِوَجًا لَہٗ ، لَہٗ کی ضمیر میں تین احتمال ہیں نمبر 1 مرجع اتباع مصدر محذوف ہے جو کہ یتبعون سے مفہوم ہے نمبر 2 ضمیر داعی کی طرف راجع ہے یعنی داعی کی دعوت میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ تمام مخلوق بآسانی سنے گی نمبر 3 کلام میں قلب ہے اور تقدیر عبارت یہ ہے لاعِوَج لھم عنہٗ ۔ قولہ : ھمسًا ھمس پست آواز۔ قولہ : اِلاَّ مَنْ اَذِنَ لَہٗ الرحمن اس میں تین صورتیں ہیں نمبر 1 مَنْ منصوب ہے تَنْفَعُ کا مفعول بہ ہونے کی وجہ سے نمبر 2 محل میں رفع کے ہے اور شفاعۃ سے بدل ہے اس صورت میں حذف مضاف ضروری ہوگا، تقدیر عبارت یہ ہوگی لاتنفع الشفاعۃ اِلا شفاعۃُ اَذِنَ لہٗ نمبر 3 شفاعۃ سے استثناء ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اس صورت میں مستثنیٰ متصل اور منقطع دونوں ہوسکتا ہے۔ قولہ : لایَعلمون مفسر علام نے اس کلمہ سے اشارہ کردیا کہ علماً مفعول مطلق ہے اور یُحِیْطون یعلمون کے معنی میں ہے ای لا یعلمون علمًا اور اگر یحیطون اپنے معنی میں ہو تو علمًا نسبت سے تمیز بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : وَعَنَتْ (ن) عَنْوًا ذلیل ہونا پست ہونا۔ قولہ : وَقد خَابَ حال بھی ہوسکتا ہے اور جملہ مستانفہ بھی۔ قولہ : ھَضْمًا (ض) ھَضْمًا توڑنا، کم کرنا۔ قولہ : کذٰلک اَنْزَلناہٗ کاف مصدر محذوف کی صفت ہے اَیْ انزلناہٗ اِنْزَالاً مثلَ ذٰلِکَ ۔ قولہ : عَزْمًا ای جزمًا پختہ ارادہ عزماً ، نَجِدْ بمعنی نَعْلَمْ کا مفعول ہے۔ قولہ : لَہٗ یا تو عَزْمًا سے حال ہے یا نَجِدْ سے متعلق ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ آیت کے معنی لم نجد لہٗ قصداً کے ہیں، یعنی قصداً نہیں کھایا بلکہ نسیاناً کھایا۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : سورة طہٓ میں اصل بیان توحید و رسالت کا ہے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اس سلسلہ میں بیان ہوئے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ تو بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور اس کے ضمن میں رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اثبات بھی ہے، اسی اثبات رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ حصہ ہے جو ان آیات میں بیان ہوا ہے اس لئے کہ ان واقعات اور قصص کا اظہار جو ہزار ہا سال پہلے ہوچکے ہیں ایک امی کی زبان سے دلیل نبوت نہیں تو اور کیا ہے ؟
ویسئلونک عن الجبال اے نبی بعض لوگ قیامت کا حال سن کر آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا ؟ آپ فرما دیجئے میرا رب ان کو ریزہ ریزہ کرکے ہوا میں اڑا دیگا یعنی جن پہاڑوں کو تم بہت زیادہ مضبوط اور مستحکم سمجھ رہے ہو میرے رب کی قدرت کے سامنے ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور زمین کو ایسا ہموار اور صاف کر دے گا کہ اس میں کہیں نشیب و فراز نہ رہے گا، اور خوف اور دہشت کے مارے لوگوں کی آوازیں دب جائیں گی اور قدموں کی آہٹ کے علاوہ سنائی نہیں دے گی، ایسے ہولناک وقت میں کسی کی شفاعت بھی کام نہ آئے گی ہاں البتہ اللہ تعالیٰ جس کو شفاعت کی اجازت دیدیں اور جس کے لئے دیدیں تو شفاعت سے فائدہ ہوسکتا ہے۔
ولا تعجل بالقرآن، صحیح حدیث میں حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ابتداء وحی میں جب جبرائیل امین کوئی آیت لیکر آتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے تو آپ ان کے ساتھ آیت کو پڑھنے کی کوشش کرتے کہیں ایسا نہ ہو کہ یاد سے نکل جائے اس میں آپ کو مشقت زیادہ ہوتی تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کی سہولت کے لئے فرمایا آپ کو پڑھنے میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ زبان کو حرکت دینے کی ضرورت ہے یاد کرا دینا ہماری ذمہ داری ہے آپ تو صرف اطمینان سے سنا کیجئے اور یہ دعا کیا کیجئے کہ اے میرے پروردگار آپ میرے علم میں اضافہ فرما دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخصوص دعاؤں میں سے ایک یہ بھی ہے اَللّٰھُمَّ اَنْفَعْنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ وَعَلِّمْنِیْ بِمَا یَنْفَعُنِیْ وزِدْنِی عِلْمًا والحمدُ للہِ علیٰ کلِّ حالٍ (ابن ماجہ)
ولقد عھدنا الیٰ آدم یہاں عَھِدْنا اَمَرْنَا یا وَصَّیْنَا کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی طور پر بتادیا تھا کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے اور فرمایا دیکھو اس درخت کے قریب بھی مت جانا کھانا تو درکنار، باقی پوری جنت کے باغات اور نعمتیں تمہارے لئے کھلی پڑی ہیں ان کو جس طرح چاہو استعمال کرتے رہو، مگر آدم (علیہ السلام) بھول گئے، ان میں ارادہ کی پختگی نہ پائی گئی، یہاں نسیان سے مراد ترک ہے جو کہ نسیان کے لازم معنی ہیں اس لئے نسیان جس کو بھول کہتے ہیں اس پر مواخذہ نہیں ہوتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے رُفِعَ عَنْ اُمتی الخطاءُ والنِّسْیان اور قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے لا یکلّفُ اللہُ نفسًا اِلاَّ وُسْعَھَا مگر یہاں نسیان سے یہ معروف نسیان مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مراد بیداری مغزی سے کام نہ لینا اور ان اسباب کا اختیار نہ کرنا ہے جن کو اختیار کرکے انسان بھول اور خطاء سے بچ سکتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) چونکہ حق تعالیٰ کے خاص مقربین ہوتے ہیں ان سے اتنی بات پر مواخذہ ہوسکتا ہے کہ ان اسباب اختیار یہ سے کیوں کام نہیں لیا جن کے ذریعہ اس بھول سے بچ سکتے تھے یہ بات اگرچہ کوئی جرم عظیم نہیں ہے مگر بقول حضرت جنید بغدادی (رح) حسنات الابرار سیئات المقربین صالحین اور نیک لوگوں کے بہت سے نیک اعمال مقربان بارگاہ الٰہی کے حق میں سیئات اور لغزش قرار دی جاتی ہے۔
آپ آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اول تو قبل نبوت کا ہے جس میں کسی گناہ کا صدور انبیاء سے بعض علماء اہل سنت کے نزدیک عصمت انبیاء کے خلاف نہیں دوسرے یہ درحقیقت بھول ہے جو گناہ نہیں مگر حضرت آدم (علیہ السلام) کے مقام بلند کے لحاظ سے اس کو بھی ان کے حق میں لغزش قرار دیا گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب بھی ہوا اور ان کو متنبہ کرنے کیلئے اس لغزش کو عصیان سے تعبیر کیا گیا جیسا کہ آئندہ آئے گا۔ دوسرا لفظ عزم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَمْ نجد لہٗ عزماً عزم کے معنی پختہ ارادہ کے ہیں آدم (علیہ السلام) حکم ربانی پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کئے ہوئے تھے مگر شیطانی وسوسہ کی وجہ سے اس قصد کی مضبوطی میں فرق آگیا ان میں بغاوت اور سرکشی کا جذبہ نہیں تھا، یہ بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی تھی جو کہ عصمت اور کمال نبوت کے منافی نہیں ہے اس لئے ایسی غلطی کے بعد انسان فوراٍ نادم اور شرمندہ ہو کر خدا کی طرف رجوع ہوجاتا ہے چناچہ حضرت آدم (علیہ السلام) جب متنبہ ہوئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک گئے اور اس قدر ندامت کے آنسو بھائے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ معاف فرما دیا بلکہ نبوت و رسالت جیسے بلند مقام پر بھی فائز فرما دیا۔
فائدہ : حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے کہ دس چیزیں نسیان پیدا کرتی ہیں نمبر 1 غم کی کثرت (2) گدی پر پچھنے لگوانا (3) ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا (4) کھٹے سیب کھانا (5) دنیا کا (بکثرت) استعمال (6) چوہے کا جھوٹا استعمال کرنا (7) قبر کے کتبات پڑھنا (8) مصلوب کو دیکھنا (9) تارکول لگے ہوئے دو اونٹوں کے درمیان چلنا (10) جوں کو زندہ چھوڑنا (تم کلام علی (رض)) واعلم مِن اشد اسباب النسیان العصیان فنسأل اللہ العصمۃ والحفظ (روح البیان)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کی ہولنا کیوں اور اس کے خوفناک زلزلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ﴾ ” یعنی وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ کیا یہ پہاڑ اپنی حالت پر باقی رہیں گے؟ ﴿ فَقُلْ يَنسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان پہاڑوں کو ان کی جگہ سے اکھاڑ پھینکے گا اور یہ پہاڑ ایسے ہوجائیں گے جیسے دھنکی ہوئی اوان اور ریت پھر ان کو ریزہ ریزہ کر کے اڑتی ہوئی خاک میں تبدیل کر دے گا۔ پہاڑ فنا ہو کر ختم ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو ہموار کر کے زمین کے برابر کر دے گا اور زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا دے گا۔ زمین کے کامل طور پر ہموار ہونے کی بنا پر دیکھنے والے کو کوئی نشیب و فراز نظر نہیں آئے گا، یعنی وادیاں اور پست یا بلند مقامات نہیں ہوں گے۔ تمام زمین ہموار اور یکساں نظر آئے گی جو تمام مخلوقات کے لئے کشادہ ہوگی اور اللہ اس کو اس طرح بچھا دے گا جس طرح چمڑا بچھایا جاتا ہے۔ تمام مخلوق ایک جگہ کھڑی ہوگی پکارنے والے کی آواز ان کو سنائی دے گی اور دیکھنے والا ان کو دیکھ سکے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur log tum say paharon kay baaray mein poochtay hain ( kay qayamat mein inn ka kiya banay ga-? ) jawab mein keh do kay mera perwerdigar inn ko dhool ki tarah urra dey ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟
لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں ؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی۔ قاع کے معنی ہموار صاف میدان ہے۔ صفصفا اسی کی تاکید ہے اور صفصف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز پر ساری مخلوق لگ جائے گی، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہوگی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے۔ اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے۔ اندھیری جگہ حشر ہوگا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آواز پر سب چل کھڑے ہوں گے۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہوگی مگر اس غضب کا سناٹا ہوگا کہ آداب الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہوگی اور کانا پھوسی۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب۔ جیسے ارشاد ہے، ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ\010\05 ) 11 ۔ ھود :105) ۔ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے۔