الانبیاء آية ۱۱
وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَّاَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ
طاہر القادری:
اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو تباہ و برباد کر ڈالا جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے اور قوموں کو پیدا فرما دیا،
English Sahih:
And how many a city which was unjust have We shattered and produced after it another people.
1 Abul A'ala Maududi
کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دُوسری کسی قوم کو اُٹھایا
2 Ahmed Raza Khan
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ستمگار تھیں اور ان کے بعد اور قوم پیدا کی،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ظالم تھیں غارت کر دیا ہے اور ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں
4 Ahsanul Bayan
اور بہت سی بستیاں ہم نے تباہ کر دیں (١) جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا۔
١١۔١ قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں (سورہ بنی اسرائیل)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو ستمگار تھیں ہلاک کر مارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے
6 Muhammad Junagarhi
اور بہت سی بستیاں ہم نے تباه کر دیں جو ﻇالم تھیں اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم کو پیدا کر دیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو ہم نے بریاد کر دیں۔ کیونکہ وہ ظالم تھیں (ان کے باشندے ظالم تھے) اور ان کی جگہ اور قوم کو پیدا کر دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے کتنی ہی ظالم بستیوں کو تباہ کردیا اور ان کے بعد ان کی جگہ پر دوسری قوموں کو ایجاد کردیا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو جو سمتگار تھیں ہلاک کرمارا اور ان کے بعد اور لوگ پیدا کردیئے
آیت نمبر 11 تا 23
ترجمہ : اور کتنی ہی بستیوں کو یعنی بستی والوں کو جو ظالم یعنی کافر تھے تباہ یعنی ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قوم پیدا کردی تو ان ظالموں نے جب ہمارا عذاب آتا دیکھا یعنی بستی والوں نے جب ہلاکت کو محسوس کیا تو اس بستی سے تیزی سے بھاگنا شروع کردیا تو فرشتوں نے ان سے بطور استہزاء کے کہا بھاگو مت اور اپنے سامان کی طرف جس میں تم کو آسودگی دی گئی تھی اور اپنے مکانوں کی طرف واپس چلو تاکہ دنیا کے دستور کے مطابق تم سے کچھ پوچھ تاچھ کی جائے تو وہ لوگ کہنے لگے ہائے ہماری کمبختی (یا تنبیہ کے لئے ہے) یعنی ہماری ہلاکت بیشک ہم کفر کے ذریعہ ظلم کرنے والے تھے پھر تو انہی کلمات کی رٹ لگاتے رہے اور انہی کلمات کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو حَصِیْد کردیا درانتی سے کٹی ہوئی کھیتی کے مانند کردیا اس لئے کہ وہ سب تہہ تیغ کر دئیے گئے اور بجھی ہوئی آگ کے مانند مردہ کردیا جیسا کہ آگ بجھ جاتی ہے جب اس کو گل کردیا جائے اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے کھیلتے ہوئے نہیں بنایا یعنی بےفائدہ کام کرنے والے کے مانند نہیں بنایا بلکہ اس انداز پر بنایا کہ ہماری قدرت پر دلالت کریں اور ہمارے بندوں کے لئے نافع ہوں اور اگر ہم کو کھیل تماشہ کے طور پر بنانا مقصود ہوتا یعنی (کھلونا) جس سے تفریح طبع مقصود ہو مثلاً بیوی اور بچہ تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے یعنی (اس مقصد کے لئے) اپنے پاس سے حور و ملائکہ کا انتخاب کرلیتے، اگر ہم کو ایسا کرنا ہوتا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا لہٰذا اس کا ارادہ بھی نہیں کیا بلکہ ہم حق ایمان کو باطل یعنی کفر پر پھینک مارتے ہیں تو وہ بھیجہ نکال دیتا ہے (یعنی) نیست و نابود کردیتا ہے تو وہ دفعۃً دم توڑ دیتا ہے زاھقٌ بمعنی ذاھبٌ ہے اور دَمَعَہٗ کے (معنی) اصل میں دماغ پر ضرب لگانے کے ہیں (یعنی سرکوبی کرنے کے) حال یہ ہے کہ وہ ضرب مہلک ہو اور تمہارے لئے اے کفار مکہ ہلاکت (یعنی) عذاب شدید ہے ان باتوں کی وجہ سے کہ جن کے ساتھ تم اللہ کو متصف کرتے ہو (یعنی) بیوی یا بچہ اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کی ملک ہے اور جو فرشتے اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے مَن عندہٗ مبتداء ہے اور لایستکبرون اس کی خبر ہے اور نہ وہ تھکتے ہیں (بلکہ) شب و روز اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور تسبیح سے (ذرا بھی) سستی نہیں کرتے پس وہ تسبیح ان کے لئے، ہمارے لئے سانس کے مانند ہے کہ ہم کو اس سانس سے کوئی عمل نہیں روکتا کیا ان لوگوں نے زمین کی مخلوق مثلاً پتھر، سونا اور چاندی سے معبود بنا رکھے ہیں کیا وہ یعنی معبودان باطلہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں ؟ نہیں اور معبود وہی ہوسکتا ہے جو مردوں کو زندہ مشاہد سے نکل جاتے (یعنی درہم برہم ہوجاتے) ان کے درمیان ٹکراؤ کی وجہ سے عادت کے مطابق تعدد حکام کے وقت کسی شئ میں ٹکراؤ اور عدم اتفاق کی وجہ سے (یعنی دنیوی حکام میں بھی عادت اور دستور یہی ہے کہ جب مساوی حیثیت کے چند حکام جمع ہوجاتے ہیں تو ان کے درمیان کسی نہ کسی بات میں ضرور اختلاف ہوتا ہے جو ٹکراؤ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور چونکہ کوئی کسی سے کم نہیں ہوتا اس لئے وہ شئ درہم برہم ہوجاتی ہے) پس اللہ عرش کرسی کا رب خالق ہے ہر اس چیز سے پاک جو یہ کافر بیان کرتے ہیں، یعنی کفار، شرک وغیرہ جن صفات سے اس کو متصف کرتے ہیں (پاک ہے) اور وہ اپنے کاموں کے لئے جواب دہ نہیں اور وہ اپنے افعال کے بارے میں جواب دو ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
کَمْ خبر یہ ہے اور قَصَمْنَا کا مفعول مقدم ہے مِنْ قَرْیَۃ کَمْ خبر یہ کی تمیز ہے قَصَمْنَا (ض) ماضی جمع متکلم معروف قَصْمًا توڑنا، ریزہ ریزہ کردینا، توڑ پھوڑ کر رکھ دینا، ہلاک کرنا قریہ سے یمن کا ایک قریہ مراد ہے جس کا نام حضور ا تھا اللہ تعالیٰ نے اس قریہ والوں کی طرف حضرت موسیٰ بن میشا بن یوسف بن یعقوب کو نبی بنا کر مبعوث کیا تھا اور بعض حضرات نے امم سابقہ مثلاً قوم نوح و لوط و صالح وغیرہ بھی مراد لی ہیں مگر اول قول راجح ہے۔
کانت ظالمۃ یہ قریۃ کی صفت ہے قولہ : اَحَسُّوْا ای ادرکوْا بالحواسِ ۔ قولہ : اِذَاھُمْ یَرْکُضُوْنَ اِذَا مفاجاتیہ ہے ھُمْ مبتداء یرکضون اسکی خبر ہے الرکض ضرب الدابۃ بالرجل (ایڑھ لگانا) یہاں مراد ہے تیزی سے بھاگنا اِذَا، یرکضون کا ظرف ہے قولہ : استھزاء اس لفظ سے ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے، سوال یہ ہے کہ ملائکہ کذب وغیرہ سے معصوم ہیں تو پھر انہوں نے خلاف واقعہ بات کیوں کہی ؟ کہ تم اپنے سامان آسودگی اور مکانوں کی طرف لوٹ آؤ حالانکہ ملائکہ کو معلوم تھا کہ ان میں سے ایک بھی بچنے والا نہیں ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ انہوں نے استہزاء کہا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ہے ذُقْ اِنّکَ اَنْتَ العزیز الکریم۔
قولہ : مَسَاکنِکم اس کا عطف ما پر ہے تلک الکلمات سے مراد ان کا قول یا وَیْلَنَا اِنَّا کنَّا ظالمینَ ہے۔ قولہ : لاَعِبِیْنَ یہ خلقنا کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔ قولہ : دَعْواھم ای دُعائُھم وندائھم، مناجِلْ جمع مِنْجَل کھیت کاٹنے کا آلہ (درانتی) حصیدًا مصدر بمعنی محصودکٹی ہوئی کھیتی، مصدر چونکہ واحد تثنیہ جمع سب پر بولا جاتا ہے اس لئے حصیدًا کو جمع نہیں لایا گیا۔ قولہ : خامدین جعلناھم کی ضمیر ھم سے حال ہے حصیدًا خامدین دونوں کا مجموعہ بمنزلہ مفعول واحد کے ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ جعل متعدی بسہ مفعول نہیں ہوتا اور یہاں متعدی بسہ مفعول ہے خامدین خَمَدَتِ النار سے مشتق ہے جبکہ آگ کی لپٹیں بجھ جائیں اسی سے خَمَدَتِ الحُمّٰی مشتق ہے جبکہ بخار کی تیزی کم ہوجائے اور ھَمَدَتِ النَّار اس وقت بولتے ہیں جبکہ آگ بالکل بجھ کر راکھ ہوجائے۔ قولہ : لاعبینَ ، ما خلَقْنَا میں مقصود نفی لاعبین ہے اس لئے کہ نفی جب مقید پر داخل ہوتی ہے تو قید کی نفی ہوتی ہے لہٰذا ما خلقنا میں تخلیق کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ لاعبین کی نفی مقصود ہے۔
قولہ : لَوْ اَرَدْنَا اَنْ نتّخِذَ لھوًا، تخذناہٗ منْ لدُنّا کا جواب ہے، تالی کی نقیض کا استثناء مقدم کی نقیض کا نتیجہ دیتا ہے لہٰذا عبارت اس طرح ہوگی لَو تَعَلَّقَتْ اِرَادتُنَا باتخاذ اللھوِ لاتخذناہٗ مِنْ عنِدنا لکنّا لم نتخذہٗ فلمْ تتعلق بہٖ ارادتنا۔
قولہ : اِنْ کُنَّا فاعلین ان شرطیہ ہے اور جواب شرط محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ان کنّا فاعلین اَرَدْناہ مفسر علام نے اپنے قول لکنا لم نفعلہ سے نقیض تالی کی طرف اشارہ کیا ہے، اور فَلَمْ نُرِدْہٗ کا اضافہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ان شرطیہ ہے، اِنْ کنّا فاعِلِیْنَ میں ان نافیہ بھی ہوسکتا ہے، ای ما کنا فاعلین۔
قولہ : مِمّا تصِفُوْنَ مفسر علام نے بہٖ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ مِمّا میں مَا موصولہ ہے اور تصِفُون جملہ ہو کر اس کا صلہ ہے اور عائد بہٖ محذوف ہے، ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی ولکم الویل من اجل وصفکم ایاہ بما لایلیق مِمّا تصفُوْنَ استقر کے متعلق ہے ای استقر لکم الویل من اجل ما تصفون اللہ بہ مما لایلیق بعزتہٖ ۔ قولہ : مَنْ عِندہٗ ای مکرمٌ عندہٗ ۔ قولہ : لایَسْتحسِرونَ (استفعال) جمع مذکر غائب منفی، وہ نہیں تھکتے۔ قولہ : لایَفْتَرُوْنَ (ن) جمع مذکر غائب منفی، سستی نہیں کرتے اِتَّخذُوْا آلِھَۃ کائنۃً مِن الارض مفسر علام نے کائنۃ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ من الارض کائنۃ کے متعلق ہو کر آلِھَۃً کی صفت ہے اور اتخذوا کا مفعول ثانی بھی ہوسکتا ہے اور من الارض اتخذوا فعل کے متعلق بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : لَوْ کَانَ فِیْھِما آلِھَۃً لفَسَدَتَا لَوْ حرف شرط ہے اور کان تامہ ہے شرط ہے آلھۃ اس کا فاعل ہے اور فیھما کان کے متعلق ہے اور الا بمعنی غیر، آلھۃ کی صفت ہے اس کا اعراب مابعد میں ظاہر ہوا ہے۔ قولہ : لَفَسَدَتا جواب شرط ہے۔
فعل شرط کو مقدم اور جواب شرط کو تالی کہتے ہیں تالی کی نقیض کا استثنا مقدم کی نقیض کا نتیجہ دیتا ہے مطلب یہ ہوا لکنھما لم تَفْسُدَا فَلَمْ یکُنْ فیھِمَا آلِھَۃ غیر اللہ۔
تفسیر وتشریح
وکم قصمنا من قریۃٍ ان آیات میں جن بستیوں کی تباہی کا ذکر ہے، بعض مفسرین نے قوم ثمود وقوم عاد کی بستیاں مراد لی ہیں، اور بع نے یمن کی حضور اء اور قلابہ بستیوں کو اس کا مصداق قرار دیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ایک رسول بھیجا تھا جس کے نام میں روایات مختلف ہیں بعض نے موسیٰ بن میشا اور بعض نے شعیب بیان کیا ہے مگر یہ شعیب (علیہ السلام) مدین والے شعیب (علیہ السلام) نہیں ہیں ان کے علاوہ کوئی اور ہیں ان بستی والوں نے اللہ کے رسول کو قتل کردیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک کافر بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے پوری قوم کو تہہ تیغ کردیا، قرائن سے دوسرا قول راجح معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ قوم نوح اور قوم ثمود و عاد وغیرہ کو صاعقہ اور صیحہ وغیرہ کے عذاب کے ذریعہ ہلاک کیا گیا تھا اور ان بستی والوں کو عذاب کے سلسلہ میں قصمنا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں کاٹ کر رکھ دینا اور یہ تلوار کے ذریعہ ہوگا، لہٰذا اس سے بخت نصر کا عذاب مراد ہے جس نے ان بستی والوں کو گاجر مولی کی طف کاٹ کر رکھ دیا۔
جب بستی والوں نے عذاب کے آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور بخت نصر کی آمد کا علم ہوا تو بستی چھوڑ کر بھاگنے لگے تو فرشتوں نے بطور استہزاء کہا تھا بھاگو نہیں اپنے مکانات اور جہاں تم کو آسودگی دی گئی تھی اور جہاں تم نے عیش کیا تھا، مزے اڑائے تھے یعنی جب عذاب الٰہی سامنے آگیا تو چاہا کہ وہاں سے نکل بھاگیں اور بھاگ کر جان بچالیں، اس وقت تکوینی طور پر زبان حال سے یا فرشتوں نے کہا بھاگتے کہاں ہو ٹھہرو اور ادھر ہی واپس چلو جہاں عیش کیا کرتے تھے اور جہاں بہت سامان تنعم جمع کر رکھے تھے شاید وہاں کوئی تم سے پوچھے کہ جناب وہ مال و دولت اور زور و قوت کا نشہ کیا ہوا ؟ اور وہ سامان عیش کہاں گیا ؟ یا یہ کہ آپ بڑے آدمی تھے جن کو ہر موقعہ پر پوچھ ہوتی تھی اب بھی وہیں چلئے بھاگنے کی ضرورت نہیں تاکہ لوگ اپنے مہمات میں آپ سے مشورہ کرسکیں اور آپ کی رائے دریافت کرسکیں۔ (یہ سب باتیں تہکماً کہی گئیں ہیں)
جب عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تب اپنے جرموں کا اعتراف کیا اور برابر یہی چلاتے رہے کہ بیشک ہم ظالم اور مجرم ہیں وہ کلمہ جس کی وہ رٹ لگا رہے تھے یا وَیْلَنَا اِنَّا کنَّا ظالمین تھا لیکن ؎
اب پچتائے کا ہوّ ت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
یہ وقت قبولیت توبہ کا نہ تھا، اعتراف اور ندامت سب بیکار ثابت ہوئیں، آخر اس طرح ختم کر دئیے گئے جیسے کھیتی ایک دم کاٹ کر
ڈھیر کردی جاتی ہے یا آگ میں جلتی ہوئی لکڑی بجھ کر رکھ رہ جاتی ہے۔ (العیاذ باللہ) (فوائد عثمانی)
وما خلقنا السماء والارض الخ یعنی ہم نے زمین و آسمان اور عالم کون و مکان کو یوں ہی عبث و بےفائدہ صرف تفریح طبع کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ اس کی تخلیق میں بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں ہیں، اسی طرح جن بستیوں کو تباہ و برباد کیا گیا ان کا تباہ کرنا بھی عین حکمت تھا۔ اگر ہم کو تفریحی طبع ہی مقصود ہوتی تو اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کرلیتے اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی کیا ضرورت تھی ؟
بل نقذف بالحق علی الباطل الخ یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیر و شر کے درمیان جو تصادم ہے اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں، چناچہ ہم حق کو باطل پردے مارتے ہیں جس سے باطل کا سرپاش پاش ہو کر بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں باطل بےنام و نشان نیست و نابود ہوجاتا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ دنیا محض کھیل تماشہ نہیں بلکہ میدان کا رزار ہے جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے حق حملہ آور ہو کر باطل کے سر کو کچل ڈالتا ہے اور رب کی جانب جو بےسروپا باتیں منسوب کرتے ہو مثلاً یہ کہ یہ کائنات ایک کھیل ہے اور ایک کھلنڈرے کا فضول شوق ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب باتیں تمہاری ہلاکت کا باعث ہیں، اس لئے کہ اسے کھیل تماشہ اور عبث سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری ہلاکت اور بربادی ہے۔
فرشتے باوجود مقربین بارگاہ ہونے کے شیخی اور تکبر نہیں کرتے، اپنے پروردگار کی بندگی اور غلامی پر فخر کرتے ہیں، وظائف عبودیت ادا کرنے میں کبھی سستی یا کاہلی کو راہ نہیں دیتے، شب و روز اس کی تسبیح اور یاد میں لگے رہتے ہیں نہ تھکتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں بلکہ تسبیح و ذکر ہی ان کی غذا ہے جس طرح ہم ہر وقت سانس لیتے ہیں اور دوسرے کام بھی کرتے رہتے ہیں، یہی کیفیت ان کے ذکر و تسبیح کی ہے۔
عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے کعب احبار سے پوچھا کہ فرشتوں کو تسبیح کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں، اگر ہے تو پھر دوسرے کاموں کے ساتھ ہر وقت تسبیح کیسے جاری رہتی ہے ؟ کعب نے فرمایا اے میرے بھتیجے کیا تمہارا کوئی کام اور مشغلہ سانس لینے سے روکتا ہے اور کام کرنے میں مخل اور مانع ہوتا ہے ؟ فرشتوں کے لئے تسبیح ایسی ہے جیسا کہ انسانوں کے لئے سانس۔
سوال : جو کام زبان کے علاوہ دیگر اعضاء سے ہوتے ہیں ان میں اور تسبیح لسانی میں کوئی تمانع اور تضاد نہیں ہے، مگر زبان سے بیک وقت دو قسم کے کام کیسے ہوسکتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاعل الملائکۃ رُسُلاً ظاہر ہے کہ کار رسالت کی انجام دہی میں زبان کو استعمال کی بھی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت وہ تسبیح کا عمل کیسے جاری رکھ سکتے ہیں، دوسری جگہ فرمایا گیا ہے اُوْلٰئکَ عَلَیْھِمْ لعنَۃُ اللہِ والملائکۃِ ظاہر ہے کہ ملعونین پر اللہ اور فرشتوں کی لعنت کا تقاضہ یہ ہے کہ لعنت کرتے وقت تسبیح کا کام موقوف رہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں کے اعضاء متعدد ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں حضرت جبرائیل امین کے چھ سو بازو بتائے ہیں، اسی طرح فرشتوں کی زبانیں بھی ایک سے زیادہ ہوسکتی ہیں، لہٰذا اب کوئی تضاد باقی نہیں رہا۔
ام اتخذوا آلھۃ الخ یعنی یہ مشرکین کس قدر جاہل اور احمق ہیں کہ معبود بھی بنایا تو ایسی چیزوں کو کہ جن کے اندر نہ زندہ کرنے کی قدرت ہے اور نہ مارنے کی، حالانکہ معبود کے لئے اس قدرت کا نام ضروری ہے، معبود وہی ہوسکتا ہے کہ مخلوق کی موت وحیات اس کے قبضہ وقدرت میں ہو۔
لو کان فیھما آلھۃً یہ توحید کی دلیل عادی ہے جو عام عادات کے اعتبار پر مبنی ہے اور تعد الہٰ کی ابطال پر نہایت پختہ اور واضح دلیل ہے، اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ عبادت کا مل تذلل کا نام ہے، اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جاسکتا جو اہنی ذات وصفات میں ہر طرح کامل ہے۔
اس دلیل عادی کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر زمین اور آسمان میں دو خدا ہوں اور دونوں مالک و مختار ہوں تو ظاہر یہ ہے کہ دونوں کے احکام پورے پورے زمین و آسمان میں نافذ ہونے چاہیے اور عادۃً یہ ممکن نہیں کہ جو حکم ایک دے دوسرا بھی وہی حکم دے یا جس چیز کو ایک پسند کرے دوسرا بھی وہی پسند کرے اس لئے کبھی نہ کبھی اختلاف رائے اور اختلاف احکام ہونا ناگزیر ہے، اور جب دو خداؤں کے احکام زمین و آسمان میں مختلف ہوئے تو نتیجہ ان دونوں کا فساد کے سوا کیا ہوگا ؟ مثلاً ایک خدا چاہے کہ اس وقت دن ہو اور دوسرا چاہے کہ رات ہو ایک چاہے کہ بارش ہو اور دوسرا کہ نہ ہو تو دونوں کے متضاد احکام کس طرح جاری ہوں گے، اور اگر ایک مغلوب ہوگیا تو وہ مالک و مختار نہ رہا خدا نہیں ہوسکتا، اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ دونوں مشورہ کر کے احکام جاری کیا کریں تو اس میں کیا بعد ہے ؟ اس کے جواب کے سلسہ میں یہاں صرف اتنا سمجھنا کافی ہے کہ اگر دونوں مشورہ کے پابند ہوئے کہ ایک دوسرے کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہ کرسکے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان میں سے ایک بھی مالک و مختار نہ ہو لہٰذا دونوں ناقص ہیں اور ناقص خدا نہیں ہوسکتا، غالباً اگلی آیت لا یُسْئَلُون عما یفعل وھم یُسْئَلُون میں اسی طرف اشارہ پایا جاتا ہے، جو کسی قانون کا پابند ہو اور جس کے اعمال و افعال پر کسی کو مواخذہ کرنے کا اختیار ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا، اگر دو خدا ہوں اور دونوں مشورہ کے پابند ہوں تو ہر ایک دوسرے سے سوال کرنے اور ترک مشورہ پر مواخذہ کرنے کا حق ہے جو خود منصب خدائی کے منافی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے ظالموں کو ان قوموں کے انجام سے ڈراتا ہے جنہوں نے دیگر انبیاء و مرسلین کی تکذیب کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿ وَكَمْ قَصَمْنَا﴾ اور کتنی ہی ہم نے ہلاک کردیں۔ یعنی جڑ کاٹنے والے عذاب کے ذریعے سے ﴿ مِن قَرْيَةٍ﴾ بستیاں جنہوں نے اپنے انجام کو نظر انداز کیا۔ ﴿وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ﴾ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پیدا کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney kitni bastiyon ko pees daala jo zalim then aur unn kay baad hum ney doosri naslen peda ken .