Skip to main content

فَاَ تْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِيْنَ

So they followed them
فَأَتْبَعُوهُم
تو انہوں نے پیروی کی ان کی
(at) sunrise
مُّشْرِقِينَ
صبح سویرے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے

English Sahih:

So they pursued them at sunrise.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو فرعونیوں نے ان کا تعاقب کیا دن نکلے،

احمد علی Ahmed Ali

پھر سورج نکلنے کے وقت ان کے پیچھے پڑے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے (١)

٦٠۔١ یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تو انہوں نے سورج نکلتے (یعنی صبح کو) ان کا تعاقب کیا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

چنانچہ صبح تڑکے وہ لوگ (فرعونی) ان کے تعاقب میں نکلے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پھر ان لوگوں نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کا صبح سویرے پیچھا کیا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر سورج نکلتے وقت ان (فرعونیوں) نے ان کا تعاقب کیا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

فرعون اور اس کا لشکر غرق دریا ہوگیا
فرعون اپنے تمام لاؤ لشکر اور تمام رعایا کو مصر اور بیرون کے لوگوں کو اپنے والوں کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر بڑ طمطراق اور ٹھاٹھ سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے چلا بعض کہتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرگئی تھی۔ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے لیکن یہ خبر اہل کتاب کی ہے جو تامل طلب ہے۔ کعب سے تو مروی ہے کہ آٹھ لاکھ تو ایسے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ سب بنی اسرائیل کی مبالغہ آمیز روایتیں ہیں۔ اتنا تو قرآن سے ثابت ہے کہ فرعون اپنی کل جماعت کو لے کر چلا مگر قرآن نے ان کی تعداد بیان نہیں فرمائی نہ اس کو علم ہمیں کچھ نفع دینے والا ہے طلوع آفتاب کے وقت یہ ان کے پاس پہنچ گیا۔ کافروں نے مومنوں اور مومنوں نے کافروں کو دیکھ لیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا کہ موسیٰ اب بتاؤ کیا کریں۔ پکڑ لیے گئے آگے بحر قلزم ہے پیچھے فرعون کا ٹڈی دل لشکر ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ ظاہر ہے کہ نبی اور غیر نبی کا ایمان یکساں نہیں ہوتا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت ٹھنڈے دل سے جواب دیتے ہیں کہ گھبراؤ نہیں تمہیں کوئی ایذاء نہیں پہنچا سکتی میں اپنی رائے سے تمہیں لے کر نہیں نکلا بلکہ احکم الحکمین کے حکم سے تمہیں لے کر چلا ہوں۔ وہ وعدہ خلاف نہیں ہے ان کے اگلے حصے پر حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے انہی کے ساتھ حضرت یوشع بن نون تھے یہ آل فرعون کا مومن شخص تھا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لشکر کے اگلے حصے میں تھے۔ گھبراہٹ کے مارے اور راہ نہ ملنے کی وجہ سے سارے بنو اسرئیل ہکا بکا ہو کر ٹھہر گئے اور اضطراب کے ساتھ جناب کلیم اللہ سے دریافت فرمانے لگے کہ اسی راہ پر چلنے کا اللہ کا حکم تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اتنی دیر میں تو فرعون کا لشکر سر پر آپہنچا۔ اسی وقت پروردگار کی وحی آئی کہ اے نبی ! اس دریا پر اپنی لکڑی مارو۔ اور پھر میری قدرت کا کرشمہ دیکھو، آپ نے لکڑی ماری جس کے لگتے ہی بحکم اللہ پانی پھٹ گیا اس پریشانی کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو دعامانگی تھی۔ وہ ابن ابی حاتم میں ان الفاظ سے مروی ہے۔ دعا (یا من کان قبل کل شئی المکون لکل شئی والکائن بعد کل شئی اجعل لنا مخرجا) یہ دعا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ اللہ کی وحی آئی کہ دریا پر اپنی لکڑی مارو۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی سے وحی بھیج دی تھی کہ جب میرے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئیں اور تجھے لکڑی ماریں تو تو ان کی بات سننا اور ماننا پس سمندر میں رات بھر تلاطم رہا اس کی موجیں ادھر ادھر سر ٹکراتی پھیریں کہ نہ معلوم حضرت (علیہ السلام) کب اور کدھر سے آجائیں اور مجھے لکڑی ماردیں ایسانہ ہو کہ مجھے خبر نہ لگے اور میں ان کے حکم کی بجا آوری نہ کرسکوں جب بالکل کنارے پہنچ گئے تو آپ کے ساتھی حضرت یوشع بن نون رحمۃ اللہ نے فرمایا اے اللہ کے نبی ! اللہ کا آپ کو کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ــ یہی کہ میں سمندر میں لکڑی ماروں۔ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے ؟ چناچہ آپ نے لکڑی مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے تو پھٹ اور مجھے چلنے کا راستہ دے دے۔ اسی وقت وہ پھٹ گیا راستے بیچ میں صاف نظر آنے لگے اور اس کے آس پاس پانی بطور پہاڑ کے کھڑا ہوگیا۔ اس میں بارہ راستے نکل آئے بنو اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ ہی تھے۔ پھر قدرت الٰہی سے ہر دو فریق کے درمیان جو پہاڑ حائل تھا اسمیں طاق سے بن گئے تاکہ ہر ایک دوسرے کو سلامت روی سے آتا ہوا دیکھے۔ پانی مثل دیواروں کے ہوگیا۔ اور ہوا کو حکم ہوا کہ اس نے درمیان سے پانی کو اور زمین کو خشک کرکے راستے صاف کردیئے پس اس خشک راستے سے آپ مع اپنی قوم کے بےکھٹکے جانے لگے۔ پھر فرعونیوں کو اللہ تعالیٰ نے دریا سے قریب کردیا پھر موسیٰ اور بنواسرائیل اور سب کو تو نجات مل گئی۔ اور باقی سب کافروں کو ہم نے ڈبودیا نہ ان میں سے کوئی بچا۔ نہ ان میں سے کوئی ڈوبا۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں۔ فرعون کو جب بنو اسرائیل کے بھاگ جانے کی خبر ملی تو اس نے ایک بکری ذبح کی اور کہا اس کی کھال اترنے سے پہلے چھ لاکھ کا لشکرجمع ہوجانا چاہئے۔ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) بھاگم بھاگ دریا کے کنارے جب پہنچ گئے تو دریا سے فرمانے لگے تو پھٹ جا کہیں ہٹ جا اور ہمیں جگہ دے دے اس نے کہا یہ کیا تکبر کی باتیں کررہے ہو ؟ کیا میں اس سے پہلے بھی کبھی پھٹا ہوں ؟ اور ہٹ کر کسی انسان کو جگہ دی ہے جو تجھے دوں گا ؟ آپ کے ساتھ جو بزرگ شخص تھے انہوں نے کہا اے نبی کیا یہی راستہ اور یہی جگہ اللہ کی بتلائی ہوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی انہوں نے کہا پھر نہ تو آپ جھوٹے ہیں نہ آپ سے غلط فرمایا گیا ہے۔ آپ نے دوبارہ یہی کہا لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اس بزرگ شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا اسی وقت وحی اتری کہ سمندر پر اپنی لکڑی مار۔ اب آپ کو خیال آیا اور لکڑی ماری لکڑی لگتے ہی سمندر نے راستہ دے دیا۔ بارہ راہیں ظاہر ہوگئیں ہر فرقہ اپنے راستے کو پہچان گیا اور اپنی راہ پر چل دیا اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بہ اطمینان تمام چل دئیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو بنی اسرائیل کو لے کر پار نکل گئے اور فرعونی ان کے تعاقب میں سمندر میں آگئے کہ اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی جیسا تھا ویسا ہوگیا اور سب کو ڈبودیا۔ جب سب سے آخری بنی اسرائیلی نکلا اور سب سے آخری قبطی سمندر میں آگیا اسی وقت جناب باری تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی ایک ہوگیا اور سارے کے سارے قبطی ایک ایک کرکے ڈبودیئے گئے۔ اس میں بڑی عبرتناک نشانی ہے کہ کس طرح گنہگار برباد ہوتے ہیں اور نیک کردار شاد ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اکثر لوگ ایمان جیسی دولت سے محروم ہیں۔ بیشک تیرا رب عزیز ورحیم ہے۔