اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَـكَ مَا فِىْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
(وہ اُس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، "میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے"
English Sahih:
[Mention, O Muhammad], when the wife of Imran said, "My Lord, indeed I have pledged to You what is in my womb, consecrated [for Your service], so accept this from me. Indeed, You are the Hearing, the Knowing."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
(وہ اُس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ، "میرے پروردگار! میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا میری اس پیشکش کو قبول فرما تو سننے اور جاننے والا ہے"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
جب عمران کی بی بی نے عرض کی اے رب میرے! میں تیرے لئے منت مانتی ہو جو میرے پیٹ میں ہے کہ خالص تیری ہی خدمت میں رہے تو تو مجھ سے قبول کرلے بیشک تو ہی سنتا جانتا،
احمد علی Ahmed Ali
جب عمران کی عورت نے کہا اے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد کر کے میں نےتیری نذر کیا سو تو مجھ سے قبول فرما بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
جب عمران کی بیوی نے کہا کے اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے (١) کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔
٣٥۔١ مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما توتو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما! یقیناً تو خوب سننے واﻻ اور پوری طرح جاننے واﻻ ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
(اس وقت کو یاد کرو) جب عمران کی بیوی نے کہا اے میرے پروردگار! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے اسے میں (دنیا کے کاموں سے) آزاد کرکے (خانہ کعبہ کی) جاروب کشی اور تیری عبادت کے لئے تیری بارگاہ میں نذر کرتی ہوں تو میری (نذر) قبول فرما۔ بے شک تو بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس وقت کو یاد کرو جب عمران علیھ السّلام کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (یاد کریں) جب عمران کی بیوی نے عرض کیا: اے میرے رب! جو میرے پیٹ میں ہے میں اسے (دیگر ذمہ داریوں سے) آزاد کر کے خالص تیری نذر کرتی ہوں سو تو میری طرف سے (یہ نذرانہ) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے خوب جاننے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
مریم بنت عمران
حضرت عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا حضرت مریم (علیہما السلام) کی والدہ تھیں حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہوگیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہوگا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کرچکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے، واللہ اعلم بما وضعت بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی حضرت حسنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور " تا " کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا، اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم، حضرت انس بن مالک (رض) اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں ؟ فرمایا عبدالرحمن نام رکھو (بخاری) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سید (رض) کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہوگئے بچہ کا خیال نہ رہا۔ حضرت ابو اسید نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو (یعنی ڈرا دینے والا) مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے، اور بچہ کا سر منڈوائے، ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم، لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہوسکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی واللہ اعلم۔ حضرت مریم (علیہما السلام) کی اس دعا کو قبول فرمایا، چناچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اس سے بچے رہے، اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو آیت (وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران ;36) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے، یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے، ایک حدیث میں صرف عیسیٰ کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا۔