الروم آية ۲۰
وَمِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ
طاہر القادری:
اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم انسان ہو جو (زمین میں) پھیلے ہوئے ہو،
English Sahih:
And of His signs is that He created you from dust; then, suddenly you were human beings dispersing [throughout the earth].
1 Abul A'ala Maududi
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں) پھیلتے چلے جا رہے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور اس کی نشانیوں سے ہے یہ کہ تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر جبھی تو انسان ہو دنیا میں پھیلے ہوئے،
3 Ahmed Ali
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہیں مٹی سے بنایا پھر تم انسان بن کر پھیل رہے ہو
4 Ahsanul Bayan
اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو (١)
٢٠۔١اذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اب تم انسان ہوکر جا بجا پھیل رہے ہو
6 Muhammad Junagarhi
اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر (چلتے پھرتے) پھیل رہے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اس کی (قدرت) کی نشانیوں سے (ایک) یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر تم ایک دم آدمی بن کر پھیلتے جا رہے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا ہے اور اس کے بعد تم بشر کی شکل میں پھیل گئے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم انسان ہو کر جابجا پھیل رہے ہو
آیت نمبر 20 تا 27
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں میں سے کہ جو اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں یہ ہے کہ اس نے تم کو یعنی تمہاری اصل آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب دفعۃً تم خون اور گوشت کے انسان بن کر زمین میں پھیلے پھرتے ہو اور اسی کی (قدرت) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی بیویاں بنائیں چناچہ حواء کو آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور (دیگر) تمام عورتوں کو مردوں اور عوتوں کے نطفہ سے پیدا کیا گیا تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اور ان سے الفت کرو اور تم سب کے اندر محبت اور ہمدردی پیدا کی یقیناً ان مذکورہ چیزوں میں اللہ کی کاری گری میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے (قدرت) کی نشانیاں ہیں اور اسی کی (قدرت) کی نشانیاں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں یعنی لغات کا (اختلاف ہے) بعض عربی اور بعض عجمی وغیرہ اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے کسی کا رنگ سفید اور (کسی کا) کالا وغیرہ حالانکہ تم سب ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہو دانشمندوں کے لئے یقیناً ان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں العٰلَمینَ فتحۂ لام اور کسرۂ لام کے ساتھ ہے یعنی عقل و علم رکھنے والوں کے لئے اور اس کی (قدرت) کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے تمہاری راحت کے لئے سونا (بھی) ہے اور دن میں تمہارا اس کی روزی میں طلب کرنا ہے یعنی طلب رزق کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے تمہارا چلت پھرت (کوشش) کرنا ہے بلاشبہ اس امر میں بھی ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر اور عبرت کے لئے سنتے ہیں (قدرت کی) نشانیاں ہیں اور اس کی نشانیاں میں سے مسافروں کو ڈرانے کے لئے اور مقیموں کو بارش کی امید دلانے کے لئے بجلی چمکا کردکھانا (بھی) ہے اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے جس کے ذریعہ مردہ یعنی خشک زمین کو زندہ کردیتا ہے اس طریقہ سے کہ وہ زمین گھاس اگانے لگتی ہے بلاشبہ ان مذکورہ باتوں میں (بھی) غور وفکر کرنے والوں کے لئے (قدرت) کی نشانیاں ہیں اور اسی کی (قدرت) نشانیوں میں سے یہ (بھی) ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم یعنی ارادہ سے بغیر ستوں کے قائم ہیں پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا تو ایک ہی آواز میں بایں طور کہ اسرافیل (علیہ السلام) قبروں سے اٹھانے کے لئے صور پھونکیں گے تو تم اچانک زمین یعنی قبروں سے زندہ ہو کر آؤ گے، تو تمہارا قبروں سے ایک ہی آواز میں نکل آنا خدا کی (قدرت) کی نشانیوں میں سے ہے اور زمین و آسمان کی ہر شئ اسی کی ہے ملک ہونے کے اعتبار سے اور مخلوق ہونے کے اعتبار سے اور غلام ہونے کے اعتبار سے اور ہر شئ اسی کی فرمانبردار ہے وہی ہے جو اول بار لوگوں کو پیدا کرتا ہے پھر اس کے ہلاک ہونے کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ (اعادہ) اس کے لئے ابتداء تخلیق سے بہت آسان ہے مخاطبین کی نسبت کا اعتبار کرتے ہوئے، اس لئے کہ شئ کا اعادہ اس کی ابتداء سے آسان ہوتا ہے ورنہ تو ابتداء اور اعادہ اللہ تعالیٰ کیلئے سہولت کے اعتبار سے برابر ہے آسمانوں اور زمین میں اسی کی شان اعلیٰ ہے یعنی اسی کی صفت اعلیٰ ہے اور وہ یہ کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہی اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی تخلیق میں حکمت والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَصْلَکُمْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ خَلَقَکُمْ میں کُم سے پہلے مضاف محذوف ہے اور یہ بھی بتادیا کہ اصل سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں۔
قولہ : ثُمَّ ، ثم سے تعبیر کرکے تاخیر تغیرات کی طرف اشارہ کردیا اس لئے کہ غذا اولاً نطفہ بنتی ہے پھر علقہ اور پھر مضغہ اور ان سب تغیرات کا وقفہ چالیس، چالیس ایام ہوتا ہے اور جب ایک سو بیس ایام ہوجاتے ہیں تو اس گوشت پوست کے لوتھڑے میں روح پھونک دی جاتی ہے تو وہ دفعۃً بشر ہوجاتا ہے اذا مفاجاتیہ ہے اگرچہ اذا مفاجاتیہ اکثر فا کے بعد آتا ہے مگر بعض اوقات واؤ کے بعد آتا ہے، اذا مفا کا تیہ لانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب مذکورہ تینوں تغیرات مکمل ہوجاتے ہیں تو پھر بشر بننے میں دیر نہیں لگتی ادھر روح پھونکی ادھر بشر بن کر تیار ہوگیا۔ قولہ : ومِنْ آیاتِہٖ یُرِیْکُم البَرْقَ.
قولہ : یُرِیْکم اصل میں اَنْ یُریکم تھا جس کی وجہ سے یریکم اراء تکم مصدر کے معنی میں ہے أن مصدریہ کو حذف کردیا گیا مفسر علام نے یریکم کی تفسیر اراء تکم سے کرکے اسی حذف ان مصدریہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور أن مصدریہ کو کلام عرب میں حذف کرنا شائع ہے، جیسے۔ ؎ تَسْمَعُ بالمعِیْدی خیرٌ مِن أن تراہ
ای اِنْ تسمَعَ ، یُریکم البرقَ مبتداء مؤخر ہے اور ومن آیاتہٖ خبر مقدم ہے۔
قولہ : خَوْفًا وطَمَعًا یہ یریکم کے مفعول لہ ہیں۔
قولہ : ھُوَ اس کا مرجع اعادہ ہے جو یعیدہ سے مفہوم ہے ھو ضمیر کو خبر کی رعایت سے مذکر لایا گیا ہے، ھو اَھْوَن مبتدا خبر ہیں۔
قولہ : بالنظر إلی ماعند المخاطبین مفسر علام اس عبارت سے ایک شبہ کا جواب دینا چاہتے ہیں، شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ابتداء اور اعادہ دونوں برابر ہیں یعنی آسان ہیں مگر اَھوَن علیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی اعادہ ابتداء سے آسان ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں انسانوں کے اعتبار سے ایک اصولی بات بتائی گئی ہے اور عقل کا مقتضٰی بھی یہی ہے کہ ابتداء بنانے کے اعتبار سے ثانیاً کسی چیز کا بنانا آسان ہوتا ہے، دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ اَھْوَنُ اسم تفضیل ھَیّن کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ ھُوَ اَھْوَنُ علَیہ میں علیہ کی ضمیر کا مرجع مخلوق کی طرف راجع ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اور مطلب یہ ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا، تو مخلوق کے لئے اس میں متعدد اور محتلف ابتداء کے آسان ہوگا اس لئے کہ ادھر روح کا تعلق جسم سے ہوا ادھر اعادہ ہوگیا، بخلاف ابتداء کے کہ اس میں متعدد اور محتلف تغیرات ہونے کے بعد زندگی ملتی ہے، مثلاً پہلے چالیس روز میں علقہ بنتا ہے اس کے بعددوسرے چالیس دن میں مضغہ بنتا ہے اس طرح اس میں تاخیر ہوتی ہے جو عود کے اعتبار سے دشوار ہے۔ (حاشیہ جلالین)
تفسیر وتشریح
سورة روم کے شروع میں روم وفارس کی جنگ کا ایک واقعہ سنانے کے بعد منکرین و کفار کی گمراہی اور حق بات سننے سمجھنے سے بےپروائی کا سبب ان کا صرف دنیا کی فانی زندگی کو اپنا مقصد حیات بنالینا اور آخرت کی طرف کوئی توجہ نہ دینا قرار دیا گیا تھا، اس کے بعد قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حساب و کتاب اور جزاء وسزا کے موقع ہونے پر جو سطحی نظر والوں کو استبعاد ہوسکتا تھا اس کا جواب مختلف پہلوؤں سے دیا گیا ہے، پہلے خود اپنے نفس میں غور و فکر کی، پھر گردو پیش میں گذرنے والی اقوام کے حالات اور ان کے انجام میں نظر کرنے کی دعوت دی گئی، پھر حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر فرمایا جس کا کوئی سہیم وشریک نہیں، مذکورہ الصدر آیات میں اسی قدرت کاملہ اور اس کی حکمت بالغہ کے چھ مظاہر آیات قدرت کے عنوان سے بیان فرمائے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں۔
مظاہر قدرت کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے وَمِنْ آیاتِہٖ کا اس موقع پر چھ مرتبہ ذکر فرمایا اور ابتداء تخلیق انسانی کے ذکر سے فرمائی ہے، اس کے بعد عالم اور سفلی کی تخلیق کا ذکر فرما کر اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ ان عالموں سے استفادہ کرنے کا حق انسان کو ہے اور ان کی تخلیق انسانوں ہی کے لئے ہوئی ہے، ان آیات قدرت اور مظاہر قدرت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان آیات قدرت میں غور و فکر کرکے راہ ہدایت کو اختیار کرے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہاں سے وہ متعدد آیات شروع ہوتی ہیں جو الوہیت میں اللہ تعالیٰ کے یکتا ہونے، اس کی عظمت کے کمال، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کی قوت و اقتدار، اس کی صنعت کے جمال اور اس کی بے پایاں رحمت و احسان پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ﴾ ” اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔“ یہ تھی نسل انسانی کے جد امجد، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ﴿ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ ﴾ ” پھر اب تم انسان ہو کر جابجا پھیل رہے ہو۔“ اور اس نے تمہیں زمین کے تمام گوشوں اور کناروں تک پھیلایا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس ہستی نے تمہیں اس اصل سے تخلیق کیا اور پھر تمہیں زمین کے کناروں تک پھیلایا، وہی ہستی رب معبود، قابل ستائش بادشاہ کائنات، نہایت مہربان اور محبت کرنے والا پروردگار ہے جو تمہیں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss ki ( qudrat ki ) aik nishani yeh hai kay uss ney tum ko mitti say peda kiya , phir tum dekhtay hi dekhtay insan ban ker ( zameen mein ) phelay parray ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
بتدریج نظام حیات
فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ تم سب کو اس نے بےوقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا۔ پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا۔ پھر روح پھونکی، آنکھ، کان، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا، دن بدن طاقتور اور مضبوط قدآور زورآور کیا، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے۔ سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا۔ پاک ہے وہ اللہ جو ہر چیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے۔ شکل وصورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل وہنر میں بھلائی برائی میں سعادت وشقات میں ہر ایک کو جداگانہ کردیا۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسرے میں دیکھ لے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لیکر اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بدخلق وغیرہ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو۔ یہ اس لئے کہ تمہیں ان سے سکوں وراحت آرام و آسائش حاصل ہو۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے۔ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت و رحمت ان میں نہ ہوسکتی۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے۔ ان میں آپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یا غم کھاکر اس کا خیال رکھتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے اولاد ہوچکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گذارتا ہے۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے۔ ادنی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے۔