ص آية ۲۷
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۤءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۗ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْاۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِۗ
طاہر القادری:
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا۔ یہ (بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے۔ سو کافر لوگوں کے لئے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے،
English Sahih:
And We did not create the heaven and the earth and that between them aimlessly. That is the assumption of those who disbelieve, so woe to those who disbelieve from the Fire.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے یہ تو اُن لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے
2 Ahmed Raza Khan
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے، یہ کافروں کا گمان ہے تو کافروں کی خرابی ہے آگ سے،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے بیکار تو پیدا نہیں کیا یہ تو ان کا خیال ہے جو کافر ہیں پھرکافروں کے لیے ہلاکت ہے جو آگ ہے
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا (١) یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔
٢٧۔١ بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کائنات ان میں ہے اس کو خالی از مصلحت نہیں پیدا کیا۔ یہ ان کا گمان ہے جو کافر ہیں۔ سو کافروں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا، یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بے فائدہ پیدا نہیں کیا یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کافر ہیں پس کافروں کیلئے دوزخ کی بربادی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے یہ تو صرف کافروں کا خیال ہے اور کافروں کے لئے جہّنم میں ویل کی منزل ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کائنات اس میں ہے اسکو خالی از مصلحت نہیں پیدا کیا یہ انکا گمان ہے جو کافر ہیں سو کافروں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے
آیت نمبر 27 تا 40
ترجمہ : اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو باطل یعنی بےفائدہ پیدا نہیں کیا یہ یعنی مذکورہ چیزوں کو بےفائدہ پیدا کرنے کا گمان تو مکہ کے کافروں کا ہے، سو کافروں کے لئے آگ کی وادی ہے، کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کردیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد برپا کرتے رہے ؟ یا پرہیز گاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے (مذکورہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب کافروں نے مومنوں سے یہ کہا کہ ہم کو آخرت میں ویسا ہی دیا جائے گا جیسا تم کو دیا جائے گا، اور أم ہمزہ انکاری کے معنی میں ہے، یہ بابرکت کتاب ہے یہ مبتداء محذوف یعنی ھٰذا کی خبر ہے، جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا کہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں یَدَّبَّرُوا کی اصل یتدَبَّرُوْا تھی، ت کو دال میں ادغام کردیا، اس کے معنی میں غور و فکر کریں، پس ایمان لے آئیں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو سلیمان نامی فرزند عطا کیا جو بڑا اچھا بندہ تھا اور وہ ذکر و تسبیح کی طرف ہمہ وقت بہت زیادہ رجوع کرنے والا تھا جب شام کے وقت اور وہ زوال کے بعد کا وقت ہے آپ کے روبرو عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے صافِنات کے معنی گھوڑوں کے ہیں اور یہ صافِنَۃٌ کی جمع ہے، اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو تین پیروں اور چوتھے کے سم (کُھر) کے کنارے پر سہارا دیکر کھڑا ہوتا ہو، اور یہ صَفَنَ یَصْفِنُ صُفُونًا سے مشتق ہے، الجیادُ ، جوادٌ کی جمع ہے، اس کے معنی تیزرو کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو روکا جائے تو رک جائیں اور اگر ان کو مہمیز لگائی جائے تو سبقت لے جائیں ایک ہزار گھوڑے تھے جو ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد آپ کے روبرو آپ کے دشمن کے ساتھ جہاد کرنے کے ارادہ سے پیش کئے گئے، ان میں سے نو سو کا معائنہ فرما چکے تھے کہ سورج غروب ہوگیا، اور آپ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی، چناچہ آپ کا صدمہ ہوا، تو فرمانے لگے میں نے اپنے پروردگار کی یاد پر ان گھوڑوں کی محبت کو ترجیح دی یعنی عصر کی نماز پر (ترجیح دی) یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا یعنی ایسی چیز میں روپوش ہوگیا جو اس کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر دے ان گھوڑوں کو دوبارہ میرے سامنے لاؤ پھر تو تلوار سے پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا سوق، ساقٌ کی جمع ہے، یعنی اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان کو ذبح کردیا اور ان کے پیروں کو کاٹ دیا، اس لئے کہ ان کی وجہ سے نماز سے غفلت ہوگئی، اور آپ نے ان کے گوشت کو صدقہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر اور زیادہ تیز رفتار چیز عطا فرما دی، اور وہ ہوا تھی، کہ وہ ان کے حکم سے چلتی تھی، جس طرح چاہتے تھے اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی یعنی ان سے ان کی حکومت لے کر آزمایا اور یہ آزمائش اس عورت سے نکاح کرنے کی وجہ سے کی جس سے ان کو محبت تھی، اور وہ عورت سلیمان کے گھر میں ان کی لاعلمی میں بت پرستی کرتے تھی، اور ان کی حکومت ان کی انگوٹھی کے زیر اثر تھی، چناچہ ایک روز بیت الخلاء کے ارادہ کے وقت اس انگوٹھی کو اتار کر اپنی ایک بیوی، مسماۃ امینہ کو اپنی عادت کے مطابق دیدی، تو ایک جن سلیمان (علیہ السلام) کی صورت میں اس کے پاس آیا، اور اس انگوٹھی کو اس سے لے لیا، اور ہم نے اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا اور یہ وہی جن تھا (جس نے انگوٹھی لی تھی) اور صخر تھا یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا تھا، جو کہ سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کے اوپر پرند وغیرہ سایہ فگن ہوگئے، چناچہ سلیمان (علیہ السلام) اپنی ہیئت معتادہ کے برخلاف نکلے تو اس جنی کو اپنی کرسی پر دیکھا، اور لوگوں سے کہا میں سلیمان ہوں، لیکن لوگوں نے ان کو نہ پہچانا پھر سلیمان (علیہ السلام) اپنی حکومت پر چند دن کے بعد واپس آگئے بایں طور کہ انگوٹھی ان کو مل گئی جس کو پہن کر وہ اپنے تخت سلطنت پر بیٹھ گئے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو یعنی میرے بعد کسی کو عطا نہ ہو، مِنْ بَعْدِیْ بمعنی سِوَای جیسا کہ فمَنْ یَھْدِیہِ من بعد اللہ میں بعد اللہ، سِوَی اللہ کے معنی میں ہے، تو بڑا ہی عطا کرنے والا ہے، پس ہم نے ہوا کو اس کے زیر حکم کردیا وہ آپ کے حکم سے جہاں آپ چاہتے سبک رفتاری سے پہنچا دیا کرتی تھی (ان کے زیر فرمان کردیا) اور عمارت بنانے والے ہر جن کو بھی (زیر فرمان کردیا) جو عجیب عجیب عمارتیں بناتے تھے اور دریا میں غوطہ زنی کرنے والے کو بھی جو موتی نکالتا تھا، اور ان میں سے دیگر جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے ان کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر اور ہم نے اس سے کہا یہ ہمارا عطیہ ہے اب تو احسان کر یعنی اس میں سے جس کو چاہے دے (اور جس کو چاہے) نہ دے تجھ پر اس میں کوئی حساب نہیں اور اس کے لئے ہمارے پاس بڑا قرب ہے اور بہت اچھا ٹھکانہ ہے اس کے مثل سابق میں گزر چکا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وما خلقنا السماء والارض وما بینھما باطلاً یہ کلام مستانف ہے مضمون سابق کی تاکید و تقریر کیلئے لایا گیا ہے۔
قولہ : باطلاً یہ مصدر محذوف کی صفت ہے ای خلقًا باطلاً اور یہ بھی جائز ہے کہ خلقنا کی ضمیر فاعل سے حال ہو ای مَا خلقنَا مُبْطلینَ ۔
قولہ : ذٰلک ای خلق ما ذُکِرَ لاَ لِشَیْئٍ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ذٰلک کے مشار الیہ کو متعین کرنا ہے یعنی زمین و آسمان کی عبث تخلیق کا گمان مکہ کے کافروں کا ہے۔
قولہ : کتابٌ، ھٰذا مبتداء محذوف کی خبر ہے ای ھٰذا کتابٌ۔ قولہ : انزلناہُ الَیکَ ، کتابٌ کی صفت ہے۔
قولہ : مُبارکٌ مبتداء محذوف کی خبر ثانی ہے، بعض حضرات نے مبارکٌ کو کتاب کی صفت قرار دیا ہے، مگر یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ جمہور کے نزدیک و صف غیر صریح کو وصف صریح پر مقدم نہیں کرسکتے۔
قولہ : لیَدَّبَّرُوا اس کا تعلق انزلناہ سے ہے، ظاہر یہ ہے کہ لیدَّبَّرُوا کے فاعل کو حذف کردیا گیا ہے، اور یہ باب تنازع فعلان سے ہے، اس لئے کہ لیدَّبَّرُوْا اور لیَتَذَکَّرَ دونوں اُولُوا الالبابِ کو اپنا فاعل بنانا چاہتے ہیں، بصریین کے مذہب کے مطابق فعل ثانی کو عمل دیدیا۔ اور اول کے لئے ضمیر لے آئے۔ قولہ : ای سلمانَ یہ نعم کا مخصوص بالمدح ہے۔
قولہ : اِذ عُرِضَ یہ فعل محذوف کا ظرف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اذکر اذ عُرِضَ ۔
قولہ : الجیادُ جمع جوادٍ کہا گیا ہے کہ جید کی جمع ہے عمدہ اور تیز رفتار گھوڑے کو کہتے ہیں جواد کا اطلاق نر و مادہ دونوں پر ہوتا ہے۔
قولہ : المعنی یعنی صافنات الجیاد کے معنی۔
قولہ ؛ احببتُ حُبَّ الخَیر، حُبَّ الخیر یہ احببتُ کا مفعول بہ ہے، اور احببتُ بمعنی آثرت ہے اس لئے کہ احببتُ کا صلہ عن نہیں آتا یا حُبَّ الخیر احببتُ کا مفعول مطلق ہے، حرف زوائد حذف کرکے جیسے انبت نباتًا اور عَنْ بمعنی علیٰ ہے اور خیرٌ بمعنی خیلٌ ہے، حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے الخیل معقودٌ بنَواصِیْھَا الخیرُ یعنی گھوڑے کی پیشانی سے خیر وابستہ رہتی ہے، غالباً اسی مناسبت سے خیل کو خیر کہا جاتا ہے، بعض حضرات نے فرمایا ہے چونکہ خیل کثیر المنافع ہوتا ہے اسی وجہ سے اس کو خیر کہتے ہیں۔ (فتح القدیر شوکانی)
قولہ ؛ توارت بالحجابِ ، توارت کا فاعل ھِیَ ضمیر مستتر ہے اور ھی کا مرجع الشمس ہے، اگرچہ شمس ما سبق میں مذکور نہیں ہے، جس کی وجہ سے بظاہر اضمار قبل الذکر لازم آتا ہے، مگر چونکہ العشیُ کا قرینہ شمس کے حذف پر دلالت کرتا ہے لہٰذا اضمار قبل الذکر کا اعتراض واقع نہیں ہوگا، اس لئے کہ ذکریا قرینہ ذکر کافی ہوتا ہے، یہاں قرینہ موجود ہے، اور کہا گیا ہے کہ توارتْ کی ضمیر صافنات کی طرف راجع ہے، کذافی الکشاف، امام رازی نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، اس لئے کہ گھوڑوں کے معائنہ میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ نماز فوت ہوجائے یہ گناہ عظیم ہے، جو انبیاء کی شان کے لائق نہیں ہے، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کا معائنہ فرماتے رہے، یہاں تک وہ نظروں سے غائب ہوگئے (یعنی گھوڑوں کو جہاد کی تیاری کے طور پر دوڑا کر دیکھ رہے تھے حتی کہ نظروں سے غائب ہوگئے) ۔
قولہ : اصَابَ ای ارَادَ سُلیمانُ یہاں اَصَابَ بمعنی اَرَادَ ہے اس لئے کہ یہاں اصاب بمعنی فَعَلَ فِعْلَ الصواب (ای بردرستگی رسید) درست نہیں ہے، اور اصاب بمعنی اراد لغت عرب میں مستعمل ہے، کہا جاتا ہے اصَابَ الصوابَ فاخطَأَ الجواب یعنی درست جواب کا ارادہ کیا مگر جواب خطا ہوگیا۔
قولہ : مُقَرَّنینَ اسم مفعول جمع مذکر واحد مُقرَّنٌ (تفعیل) باندھے ہوئے، جکڑے ہوئے۔ قولہ : الاصفاد جمع صفدٍ بمعنی قید، بیڑی۔
قولہ : زُلفٰی درجہ، مرتبہ، تقرب، قربیٰ کے مانند مصدر ہے، امام بغوی نے لکھا ہے زُلفَۃً اسم بوصف مصدر ہے، اس میں مذکر، مؤنث واحد، تثنیہ جمع سب برابر ہیں۔
تفسیر و تشریح
وما خلقنا السماء والارض (الآیۃ) یعنی ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے خالی از حکمت پیدا نہیں کیا بلکہ ہر شئ حکمت سے پُر ہے، ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ میرے بندے میری حکمت اور قدرت کو دیکھ کر میرے وجود اور توحید کے قائل ہوجائیں اور میری بندگی کریں، جو ایسا کرے گا میں اس کو بہترین جزاء سے نوازوں گا، اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا اس کیلئے جہنم کا عذاب ہے۔
صافناتٌ صافنۃٌ یا صافنٌ کی جمع ہے، وہ گھوڑے جو تین پیروں پر کھڑے ہوں اور چوتھے کو برائے نام زمین پر رکھیں گویا کہ
ہمہ وقت دوڑنے کیلئے تیار م ہیں ایسے گھوڑوں کو، اصیل، جواد، کہتے ہیں جواد کی جمع جیاد، ایسے ہی عمدہ گھوڑے شام کے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے روبرو معائنہ کے لئے پیش کئے گئے۔
مذکورہ آیتوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس واقعہ کی مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ حضرت سلیمان کے معائنہ کیلئے جہادی گھوڑے پیش کئے گئے، ان کی جانچ پڑتال اور معائنہ میں ایسے مشغول ہوئے کہ آپ کا جو معمول تھا خواہ عصر کی نماز ہو یا اور کوئی وظیفہ، چھوٹ گیا، جب آپ کو تنبہ ہوا تو آپ نے ان گھوڑوں کو ذبح کر ڈالا کہ ان کی وجہ سے یاد الٰہی میں خلل واقع ہوا تھا۔
ان آیات کی یہ تفسیر متعدد ائمہ تفسیر سے منقول ہے، حافظ ابن کثیر جیسے محقق عالم نے بھی اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، اور اس کی تائید ایک مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے، جو علامہ سیوطی نے معجم طبرانی سے اور ابن مردویہ کے ھوالہ سے نقل کی ہے عَنْ اُبَیِ بن کعب (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی قولہٖ فطفقَ مسحًا بالسُّوقِ والاعناقِ قالَ قطع سوقھا واعناقھا بالسیف علامہ سیوطی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
اس حدیث مرفوع کی وجہ سے گویہ تفسیر کافی مضبوط ہوجاتی ہے، لیکن اس تفسیر پر درایۃً کچھ سبہات بھی ہیں، عموماً یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ گھوڑے اللہ کا عطا کیا ہوا ایک انعام تھا، اور مال کو اس طرح ضائع کردینا ایک نبی کی شایان شان معلوم نہیں ہوتا، لیکن مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ گھوڑے بیت المال کے نہیں تھے بلکہ حضرت سلیمان کی ذاتی ملکیت تھے، اور ان کی شریعت میں دیگر جانوروں کے مانند گھوڑوں کی بھی قربانی جائز تھی، لہٰذا گھوڑوں کی قربانی کردی اور گوشت ضرورت مندوں کو دے دیا، لہٰذا اس کا ضائع کرنا نہیں کہا جائے گا، قربانی کرنا عبادت ہی کا ایک شعبہ ہے۔ (روح المعانی ملخصاً )
مذکورہ آیات کی ایک تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے جس میں واقعہ بالکل مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہے، اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے جہادی گھوڑے معائنہ کے لئے پیش کئے گئے، حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور یہ بھی فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں سے جو محبت اور تعلق ہے وہ دنیا کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے پروردگار کی یاد کی وجہ سے ہے، اس تفسیر کی صورت میں عَنْ ، اجَل کے معنی میں ہوگا ای لاجلِ ذکرِ ربِّی یعنی اپنے رب کی یاد کی وجہ سے میں ان گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں، یعنی ان کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد ہوتا ہے، پھر ان گھوڑوں کو تجربہ اور آزمائش کے طور پر دوڑایا (یعنی ان کی ٹرائی لی) جب نظروں سے اوجھل ہوگئے تو ان کو دوبارہ طلب کیا، اور پیار و محبت سے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا خیرٌ قرآن میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یہاں یہ لفظ گھوڑوں کے لیے استعمال ہوا ہے، اس تفسیر کی صورت میں توارت کی ضمیر کا مرجع صافنات (گھوڑے) ہوں گے، امام ابن جریر طبری اور امام رازی وغیرہ نے اس دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے، قرآن کریم کے الفاظ کے لحاظ سے دونوں تفسیروں کی گنجائش ہے۔
سورج کی واپسی کا قصہ : بعض حضرات نے پہلی تفسیر کو اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ نماز عصر کے قضا ہوجانے کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یا فرشتوں سے یہ درخواست کی کہ سورج کو واپس لوٹا دیا جائے، چناچہ سورج لوٹا دیا گیا، اور آپ نے اپنا معمول ادا کرلیا، اس کے بعد دوبارہ سورج غروب ہوا، یہ حضرات رُدُّوھَا کی ضمیر سورج کی طرف راجع مانتے ہیں۔
لیکن محقق مفسرین مثلاً علامہ آلوسی وغیرہ نے اس قصہ کی تردید کی ہے، اور فرمایا کہ رُدُّوھَا کی ضمیر صافنات (گھوڑوں) کی طرف راجع ہے نہ کہ سورج کی طرف اس لئے نہیں کہ معاذ اللہ سورج کو لوٹانا اللہ کی قدرت میں نہیں بلکہ اس لئے کہ یہ قصہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ (روح المعانی، معارف)
ولقد فتنا سلیمن (الآیۃ) اس آیت میں باری تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک اور آزمائش کا تذکرہ فرمایا ہے، اس سلسلہ میں صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ اس آزمائش کے دوران کوئی دھڑ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ یہ آزمائش کیا تھی ؟ کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا ؟ اور اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا مستند احادیث میں نہیں ملتی، البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعہ کو اس آیت پر چسپاں کیا ہے، اور وہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ کہا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد 70 یا 90 تھی) ہمبستری کروں گا تاکہ ان سے شہسوار مجاہد پیدا ہوں اور راہ خدا میں جہاد کریں، اور اس پر انشاء اللہ نہیں کہا (یعنی صرف اپنی تدبیر پر پورا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہ ہوئی، اور حاملہ بیوی نے بھی جو بچہ جنا وہ ناقص یعنی ادھورا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سلیمان (علیہ السلام) انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب بیویوں سے مجاہد پیدا ہوتے۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء، صحیح مسلم کتاب الایمان)
ان مفسرین کے خیال میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا انشاء اللہ نہ کہنا آزمائش کا سبب بنا، اور کرسی پر لا کر ڈالا جانے والا جسم یہی ناقص الخلقت بچہ تھا۔ (واللہ اعلم الصواب)
بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جو خالص اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے، وہ یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا راز ایک انگوٹھی میں تھا، ایک روز ایک شیطان نے اس انگوٹھی کو اپنے قبضہ میں کرلیا، اسکی صورت یہ ہوئی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی عادت کے مطابق بیت الخلاء جاتے وقت وہ انگوٹھی اپنی بیوی امینہ کو دیدی، ادھر ایک جن جس کا نام ” صخر مارد “ تھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ہیئت و شکل میں آیا اور انگوٹھی امینہ سے حاصل کرلی، جس کی وجہ سے وہ جنی اس انگوٹھی کی بدولت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت شاہی پر جلوہ افروز ہو کر حکمراں بن گیا، چالیس روز کے بعد وہ انگوٹھی سلیمان (علیہ السلام) کو ایک مچھلی کے پیٹ سے ملی، اسکے بعد آپ نے دوبارہ حکومت پر قبضہ کرلیا، یہ روایت متعدد مزید قصوں کے ساتھ کئی تفسیر کی کتابوں میں آئی ہے، لیکن حافظ ابن کثیر (رح) اس قسم کی تمام روایات کو اسرائیلیات میں شمار کرنے کے بعد لکھتے ہیں، اہل کتاب میں ایک جماعت ایسی ہے جو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتی، ظاہر یہی ہے کہ یہ جھوٹے قصے ان ہی لوگوں کے گھڑے ہوئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر : ص 26، ج 4) ۔ لہٰذا اس قسم کی روایات کو اس آیت کی تفسیر کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔
حقیقت حال : حقیقت یہ ہے کہ زیر بحث آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی یقینی تفصیلات معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں، اور نہ ہی ہم اس کے مکلف، لہٰذا اتنی بات پر ایمان رکھنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کوئی آزمائش کی تھی، جس کے بعد ان میں انابت الی اللہ کا جذبہ پہلے سے زیادہ پیدا ہوا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی حکمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ اس نے زمین و آسمان کو باطل، یعنی بغیر کسی فائدے اور مصلحت کے کھیل تماشے کے طور پر عبث پیدا نہیں کیا: ﴿ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے“ اپنے رب کے ساتھ کہ وہ اپنے رب کے بارے میں ایسا گمان رکھتے ہیں جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔ ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ﴾ ” پس کافروں کے لئے آگ کی ہلاکت ہے۔“ یہ آگ ہے جو ان سے حق حاصل کرے گی اور انہیں پوری طرح عذاب میں مبتلا کرے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ اور حق کی خاطر تخلیق فرمایا ہے، ان کو اس لئے تخلیق فرمایا تاکہ بندوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا مل علم، کامل قدرت اور لامحدود قوت کا مالک ہے اور وہی اکیلا معبود ہے اور وہ معبود نہیں ہیں جو زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی تخلیق نہیں کرسکتے۔ حیات بعد الموت حق ہے اور قیامت کے روز اللہ نیکوکاروں اور بدکاروں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney aasman o zameen aur unn kay darmiyan jo cheezen hain unn ko fuzool hi peda nahi kerdiya . yeh to unn logon ka gumaan hai jinhon ney kufr ikhtiyar kerliya hai , chunacheh unn kafiron kay liye dozakh ki shakal mein bari tabahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادت خالق کے لئے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کردیا ہے ؟ اور آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہوگی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لئے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہونی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کردیں۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقینا ہے۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کرسکیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لئے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہئے۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے۔