ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں سوائے اس شخص (کے مشورے) کے جو کسی خیرات کا یا نیک کام کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دیتا ہے اور جو کوئی یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لئے کرے تو ہم اس کو عنقریب عظیم اجر عطا کریں گے،
English Sahih:
No good is there in much of their private conversation, except for those who enjoin charity or that which is right or conciliation between people. And whoever does that seeking means to the approval of Allah – then We are going to give him a great reward.
1 Abul A'ala Maududi
لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے، اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اُسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے
2 Ahmed Raza Khan
ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضا چاہنے کو ایسا کرے اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے،
3 Ahmed Ali
ان لوگو ں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ہاں مگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے یا کسی نیک کام کرنے یا لوگو ں میں صلح کرانے میں کی جائے تو یہ بھلی بات ہے اور جو شخص یہ کام الله کی رضا جوئی کے لیے کرے تو ہم اسے بڑا ثواب دیں گے
4 Ahsanul Bayan
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، (١) ہاں بھلائی اس کے مشورے میں جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے (٢) اور جو شخص صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے (٣) اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے (٤)۔
١١٤۔١ نَجْوَیٰ (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ ١١٤۔٢ یعنی صدقہ خیرات معروف (جو ہر قسم کی نیکی میں شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے، خیر پر مبنی ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ١١٤۔٣ کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع ہو جائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ ١١٤۔٤ احادیث میں اعمال مزکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا، نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی رشتہ داروں دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا (الا اخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ؟قالوابلیٰ(اصلاح ذات البین،۔ قال۔;وفسادذات البین ھی الحالقۃ) (ابوداود کتاب الأدب۔ ترمذی، کتاب البرومسند أحمد٦/٤٤۵،٤٤٤) حتیٰ کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے (لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس، فینمی خیرا اور یقول خیرا) (بخاری) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا اچھی بات کرتا ہے۔،
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
6 Muhammad Junagarhi
ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ﺛواب دیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگوں کی زیادہ تر سرگوشیوں میں کوئی خیر و خوبی نہیں ہے سوا اس کے کہ کوئی صدقہ دینے، نیکی کرنے یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے کی بات کرے اور جو شخص خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ایسا کرے ہم اسے اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیںہے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ, کا» خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے اور جو بھی یہ سارے کام رضائے الٰہی کی طلب میں انجام دے گا ہم اسے اجر هعظیم عطا کریں گے
9 Tafsir Jalalayn
ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
10 Tafsir as-Saadi
یعنی بہت سی ایسی سرگوشیاں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں ان میں کوئی بھلائی نہیں اور جس کلام میں کوئی بھلائی نہ ہو تو وہ یا تو بے فائدہ کلام ہوتا ہے مثلاً فضول مگر مباح بات چیت، یا وہ محض شر ہوتا ہے مثلاً محرم کلام کی تمام اقسام، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے استثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ﴾ ” ہاں وہ شخص جو صدقہ کا حکم دے۔“ یعنی اس میں سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو مال، علم یا کسی اور منفعت میں صدقہ کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ شاید بعض چھوٹی عبادات بھی اس زمرے میں شمار ہوتی ہیں، مثلاً تسبیح و تحمید وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر تہلیل صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے اور تم میں سے کسی کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔“ [صحيح مسلم، الزكاة، حديث: 1006] ﴿أَوْ مَعْرُوفٍ﴾ ” یا نیک بات“ معروف سے مراد بھلائی اور نیکی ہے اور ہر وہ کام جسے شریعت نے نیکی قرار دیا اور عقل نے اس کی تحسین کی، معروف کے زمرے میں آتا ہے جب ” امر بالمعروف“ کا لفظ ” نہی عن المنکر“ کے ساتھ ملائے بغیر استعمال كيا جائے تو برائی سے روکنا اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ منہیات کو ترک کرنا بھی نیکی ہے، نیز بھلائی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ برائی کو ترک نہ کردیا جائے اور جب ” امر بالمعروف“ اور ” نہی عن المنکر“ کا ایک ساتھ ذکر ہو تو، ” معروف“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہو ”منکر“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے شریعت میں روکا گیا ہو۔ ﴿ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ﴾” یا لوگوں کے مابین صلح کرانے کا حکم کرے“ اور اصلاح صرف دو جھگڑنے والوں کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ نزاع، جھگڑا، مخاصمت اور آپس میں ناراضی اس قدر شر اور تفرقہ کا باعث بنتے ہیں جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پس اسی لئے شارع نے لوگوں کو ان کے قتل، مال اور عزت ناموس کے جھگڑوں میں اصلاح کی ترغیب دی ہے بلکہ تمام ادیان میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ﴾ (آل عمران :3؍103) ” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“ فرمایا: ﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ﴾ (الحجرات :49؍9) ” اگر مومنوں میں دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو اگر ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے“ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَالصُّلْحُ خَيْرٌ﴾ (النساء :4؍128) ” اور صلح اچھی چیز ہے۔ “ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والا اس شخص سے بہتر ہے جو کثرت سے (نفلی) نماز، روزے اور صدقہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے والے کے عمل اور کوشش کی اصلاح نہیں کرتا اور نہ اس کا مقصد پورا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴾ (یونس :10؍81) ” اللہ فساد کرنے والوں کے کام کی اصلاح نہیں کرتا۔ “ یہ تمام افعال جہاں کہیں بھی بجالائے جائیں گے بھلائی کے زمرے میں آئیں گے، جیسا کہ یہ استثناء دلالت کرتا ہے۔ مگر پورا اور کامل اجر بندے کی نیت پر منحصر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَن يَفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے“ بنا بریں بندے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھے اور ہر وقت چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرے تاکہ اسے اجر عظیم حاصل ہو، تاکہ اس میں اخلاص کی عادت راسخ ہو اور وہ اہل اخلاص کے زمرے میں شمار ہو اور اس کے اجر کی تکمیل ہو خواہ اس کے مقصد کی تکمیل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو کیونکہ اس نے اس نیک مقصد کی نیت کی تھی اور امکان بھر اس پر عمل بھی کیا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
logon ki boht si khufiya sargoshiyon mein koi khair nahi hoti , illa yeh kay koi shaks sadqay ka ya kissi naiki ka ya logon kay darmiyan islaah ka hukum dey . aur jo shaks Allah ki khushnoodi hasil kernay kay liye aisa keray ga , hum uss ko zabardast sawab ata keren gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں لوگوں کے اکثر کلام بےمعنی ہوتے ہیں سوائے ان کے جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو، حضرت سفیان ثوری کی عیادت کے لئے لوگ جاتے ہیں ان میں سعید بن حسان بھی ہیں تو آپ فرماتے ہیں سعید تم نے ام صالح کی روایت سے جو حدیث بیان کی تھی آج اسے پھر سناؤ، آپ سند بیان کرکے فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں بجز اللہ کے ذکر اور اچھے کاموں کے بتانے اور برے کاموں سے روکنے کے، حضرت سفیان نے کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے، یہی مضمون آیت (يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا) 78 ۔ النبأ :38) میں ہے یہی مضمون سورة والعصر میں ہے مسند احمد میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے اور صلح صفائی کے لئے جو بھی بات کہے ادھر ادھر سے کہے یا قسم اٹھائے وہ جھوٹوں میں داخل نہیں، حضرت ام کلثوم بنت عقبہ فرماتی ہیں میں نے آپ کو ادھر کی بات ادھر کہنے کی تین صورتوں میں اجازت دیتے ہوئے سنا ہے " جہاد کی ترغیب میں، لوگوں میں صلح کرانے اور میاں بیوی کو ملانے کی صورت میں " یہ ہجرت کرنے والیوں اور بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاؤں ؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے بھی افضل ہے لوگوں نے خواہش کی تو آپ نے فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے فرماتے ہیں اور آپس کا فساد نیکیوں کو ختم کردیتا ہے (ابوداؤد وغیرہ) بزار میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو ایوب سے فرمایا آ میں تجھے ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑ رہے ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے جب ایک دوسرے سے رنجیدہ ہوں تو انہیں ملا دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضامندی خلوص اور نیک نیتی سے جو کرے وہ اجر عظیم پائے گا۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو۔ فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ ہو اور اس کا مقصد عمل اور ہو۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہوچکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرکے مسلمانوں کی صاف راہ سے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے ہیں اسے وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ بیچوں بیچ جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ مومنوں کی راہ کے علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور دشمنی کے مترادف ہے جو کبھی تو شارع (علیہ السلام) کی صاف بات کے خلاف اور کبھی اس چیز کے خلاف ہوتا ہے جس پر ساری امت محمدیہ متفق ہے جس میں انہیں اللہ نے بوجہ ان کی شرافت و کرامت کے محفوظ کر رکھا ہے۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں اور ہم نے بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کردیا ہے، بعض علماء تو اس کے تواتر معنی کے قائل ہیں، حضرت امام شافعی غورو فکر کے بعد اس آیت سے امت کے اتفاق کی دلیل ہونے پر استدلال کیا ہے حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے، بعض دیگر ائمہ نے اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے، غرض ایسا کرنے والے کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے (آیت سنستدر جھم اور فلمازاغوا اور نذرھم) یعنی ہم ان کی بیخبر ی میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے رہتے ہیں، ان کے بہکتے ہی ہم بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیتے ہیں، ہم انہیں ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے ہیں، بالآخر ان کی جائے بازگشت جہنم بن جاتی ہے جیسے فرمان ہے ظالموں کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ قبروں سے اٹھائیں گے، اور جیسے فرمایا ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے گا کہ اس میں کودنا پڑے گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے کی نہ پائے گا۔