اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکر مند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئے،
English Sahih:
And let those [executors and guardians] fear [injustice] as if they [themselves] had left weak offspring behind and feared for them. So let them fear Allah and speak words of appropriate justice.
1 Abul A'ala Maududi
لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں
2 Ahmed Raza Khan
اور ڈریں وہ لوگ اگر اپنے بعد ناتواں اولاد چھوڑتے تو ان کا کیسا انہیں خطرہ ہوتا تو چاہئے کہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی بات کریں
3 Ahmed Ali
اور ایسے لوگو ں کو ڈرنا چاہيے اگر اپنے بعد چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ جائیں جن کی انہیں فکر ہو ان لوگو ں کو چاہیئے کہ خدا سے ڈریں اور سیدھی بات کہیں
4 Ahsanul Bayan
چاہئے کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جنکے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا (تو ان کی چاہت کیا ہوتی) پس اللہ تعالٰی سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں (١)
٩۔١ بعض کے نزدیک اس کے مخطب اوصیاء ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں انکے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرسکے نہ حقوق بنی آدم میں، اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لیے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دو چار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بچے فقر و فاقہ سے دو چار ہو جائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیئے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور چاہئے کہ وه اس بات سے ڈریں کہ اگر وه خود اپنے پیچھے (ننھے ننھے) ناتواں بچے چھوڑ جاتے جن کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے، (تو ان کی چاہت کیا ہوتی) پس اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جچی تلی بات کہا کریں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ترکہ تقسیم کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس و کمزور بچے چھوڑ جاتے۔ تو انہیں ان کی کس قدر فکر ہوتی۔ لہٰذا وہ دوسروں کے یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈریں اور بالکل درست اور سیدھی بات کریں
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعیف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو کس قدر پریشان ہوتے لہذا خدا سے ڈریں اور سیدھی سیدھی گفتگو کریں
9 Tafsir Jalalayn
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔ وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً (الآیۃ) بعض مفسرین کے نزدیک اس کے مخاطب اوصیاء ہیں (یعنی جن کی وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں ان کے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں قطع نظر اس سے کہ وہ ان کی زیر کفالت ہیں یا نہیں، بعض کے نزدیک اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو قریب المرگ کے پاس بیٹھے ہوئے ہوں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرے اور نہ حقوق العباد میں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لئے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ سعد کی بچیاں ہیں جو آپ کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں، ان کے چچا نے پوری جائدار پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لئے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا ؟ اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس شخص کے لیے ہے جو کسی قریب المرگ شخص کے پاس موجود ہو اور مرنے والا اپنی وصیت میں ظلم اور گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ تو وہ اس شخص کو اس کی وصیت میں عدل و انصاف اور مساوات کی تلقین کرے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے﴿وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴾ یعنی ان سے درست بات کہو جو انصاف اور معروف کے موافق ہو۔ وہ ان لوگوں کو، جو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرنا چاہتے ہیں، ان کی اولاد کے بارے میں ایسی تلقین کریں جو وہ خود اپنے بعد اپنی اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے سمجھ یعنی پاگل، کم سن اور کمزور لوگوں کے سرپرست ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ وہ ان بے سمجھ لوگوں کے دینی اور دنیاوی مفادات کا ایسا انتظام کریں جو وہ اپنے مرنے کے بعد اپنی کمزور اور بے سمجھ اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ ﴿فَلْيَتَّقُوا اللَّـهَ ﴾ وہ دوسروں کی سرپرستی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں یعنی وہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں جو تقویٰ پر مبنی ہو جس میں ان لوگوں کی اہانت نہ ہو جو ان کی سرپرستی میں ہیں، ان کی دیکھ بھال کریں اور ان سے تقویٰ کا التزام کروائیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے مال کی دیکھ بھال کا حکم دیا تو اب ان کو یتیموں کا مال کھانے پر زجر و توبیخ کی ہے اور اس پر سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur woh log ( yateemon kay maal mein khurd-burd kernay say ) daren jo agar apney peechay kamzor bacchay chorr ker jayen to unn ki taraf say fiker mand rahen gay . lehaza woh Allah say daren aur seedhi seedhi baat kaha keren .