الدخان آية ۳۰
وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِيْنِۙ
طاہر القادری:
اور واقعتہً ہم نے بنی اسرائیل کو ذِلّت انگیز عذاب سے نجات بخشی،
English Sahih:
And We certainly saved the Children of Israel from the humiliating torment –
1 Abul A'ala Maududi
اِس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات بخشی
3 Ahmed Ali
اورہم نے بنی اسرائیل کو اس ذلت کےعذاب سے نجات دی
4 Ahsanul Bayan
اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی
6 Muhammad Junagarhi
اور بےشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو (سخت) رسوا کن سزا سے نجات دی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات دی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے بچالیا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی
آیت نمبر 30 تا 42
ترجمہ : اور بیشک ہم نے (ہی) بنی اسرائیل کو رسواکن سزا سے نجات دی یعنی لڑکوں کے قتل اور عورتوں کو خادمہ بنانے سے، جو فرعون کی طرف سے (ہو رہی) تھی، کہا گیا ہے کہ مِنْ فرعونَ ، عذاب سے تقدیر مضاف کے ساتھ بدل ہے ای من عذاب فرعون اور کہا گیا ہے کہ عزاب سے حال ہے فی الواقع وہ سرکش حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے تھا اور ہم نے بنی اسرائیل کو ہمارے ان کے حالات سے واقف ہونے کی وجہ سے ان کے زمانہ کے عقلاء پر فوقیت دی اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح انعام تھا یعنی کھلی نعمتیں تھیں، مثلاً دریا کو چیرنا اور من و سلوٰی وغیرہ یہ لوگ یعنی کفار مکہ تو یہی کہتے ہیں، نہیں ہے ایسی موت کہ اس کے بعد حیات ہو مگر ہماری پہلی موت یونی نطفہ ہونے کی حالت کی اور ہم دوسری موت کے بعد زندہ کرکے اٹھائے نہیں جائیں گے ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے لے آؤ، اگر تم (اس بات میں) سچے ہو کہ ہم مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے یعنی زندہ کئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تبع کی قوم کے لوگ ؟ وہ نبی ہیں یا کوئی مرد صالح اور وہ امتیں جو ان سے بھی پہلے تھیں ہم نے ان کو ان کے کفر کی وجہ سے ہلاک کردیا، مطلب یہ کہ یہ لوگ ان سے زیادہ طاقتور نہیں، ان کو ہلاک کردیا یقیناً وہ گنہگار تھے اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو ان کے درمیان جو کچھ ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا اس کو پیدا کرکے (لاعبین) حال ہے ہم نے ان دونوں (یعنی زمین و آسمان) کو اور جو ان کے درمیان ہے حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے حال یہ کہ ان کی تخلیق میں باحکمت ہیں، تاکہ اس تخلیق سے ہماری قدرت اور وحدانیت وغیرہ پر استدلال کیا جائے لیکن کفار مکہ میں سے اکثر نہیں جانتے یقیناً فیصلہ کا دن یعنی یوم قیامت، اس دن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا ان سب کے دائمی عذاب کا طے شدہ وقت ہے، اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا، رشتہ داری کے اعتبار سے یا دوستی کے اعتبار سے یعنی اس سے کچھ بھی عذاب دفع نہ کرے گا، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی کہ ان کو عذاب سے بچا لیا جائے، یومَ ، یوم الفصل سے بدل ہے مگر جس پر اللہ کی مہربانی ہوجائے اور وہ مومن ہوں گے اس لئے کہ مومن اللہ پاک کی اجازت سے آپس میں ایک دوسرے کی سفارش کریں گے وہ زبردست ہے کفار سے اپنا بدلہ لینے میں اور رحم کرنے والا ہے مومنین پر۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ولقد نجَّینَا بنی اسرائیل (الآیۃ) یہ کلام مستانف ہے، اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی مقصود ہے، لَقَدْ میں لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے۔
قولہ : مِن فرعون اعادۂ جار کے ساتھ مِنَ الْعَذَابِ سے بدل ہے اور کائناً یا صادرًا یا واقعًا کے متعلق ہو کر عذاب سے حال بھی ہوسکتا ہے ای صَادرًا من فرعونَ ۔ قولہ : کان کا اسم ھُوَ مستتر ہے اور عالیاً اس کی خبر اور المسرفین، کانَ کی دوسری خبر ہے۔
قولہ : ای عالمی زمانھم ای العُقَلاء اس عبارت کا اضافہ دراصل ایک شبہ کا دفع ہے جو اخترناھم علی علمٍ علی العٰلمین سے پیدا ہوتا ہے
شبہ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام جہان کے عقلاء پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے، حالانکہ نص صریح
کُنْتُمْ خیر اُمَّۃٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں سے افضل ہے۔
دفع : بنی اسرائیل کو ان ہی کے زمانہ کے عقلاء پر فضیلت حاصل تھی، نہ کہ تاقیامت دنیا جہان کے عقلاء پر، مفسر علام علی العلمین کی تفسیر العقلاء سے کرنے کے بجائے الثقلَین سے فرماتے تو زیادہ مناسب ہوتا اس لئے کہ عقلاء میں جن، انس اور ملائکہ سب شامل ہیں، حالانکہ بنی اسرائیل ملائکہ سے افضل نہیں ہے۔
قولہ : من الآیات یہ المبین کا بیان مقدم ہے فواصل کی رعایت کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے۔
قولہ : نعمۃ ظاھرۃ یہ بلاءٌ کی تفسیر ہے بلاءٌ کے اصل معنی امتحان و آزمائش کے ہیں اور آزمائش چونکہ نعمت و رحمت وسعت و عسرت تنگی و خوشحالی دونوں صورتوں میں ہوتی ہے، اسی سے مفسر علام نے یہاں بلاءٌ کا ترجمہ نعمت سے کیا ہے۔ (صاوی)
قولہ : المَنَّ اسم ہے، ایک قسم کا شبنمی گوند ہے، وادی تیہ میں بھٹکنے والے اسرائیلیوں کے کھانے کیلئے اللہ تعالیٰ روزانہ درختوں کے پتوں پر جما دیتا تھا۔ قولہ : سَلْویٰ سلویٰ ایک چھوٹا پرندہ ہے، جس کو بٹیر کہتے ہیں، قاموس میں اس کا واحد سلواۃٌ مرقوم ہے، صحاح میں اخفش سے منقول ہے کہ اس کا واحد نہیں سنا گیا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا واحد اور جمع ایک ہی ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : ھؤلائ یہ اسم اشارہ قریب کیلئے ہے کافروں کی تحقیر و تذلیل کے لئے اسم اشارہ قریب کا استعمال فرمایا۔
قولہ : قوم تُبَّعٍ یہ تبغ حمیری ہے، ابو کریب اسکی کنیت اور اسکا نام اسعد ہے، انصار بنی حیرۃ اسی کی طرف منسوب ہیں، حیرۃ کوفہ کے قریب ایک شہر ہے، مزید تفصیل تفسیر و تشریح کے زیر عنوان ملاحظہ فرمائیں۔ قولہ : والذین من قبلھم اس کا عطف قوم تُبَّع پر ہے۔
تفسیر و تشریح
ولقد۔۔۔۔ العلمین اس سے بنی اسرائیل کے زمانہ کا جہان مراد ہے علی الاطلاق کل جہان یا تا قیامت کے لوگ مراد نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں امت محمدیہ کو کُنْتُم خیر اُمَّۃ کے لقب سے نوازا گیا ہے، مطلب یہ کہ بنی اسرائیل کی فضیلت ان کے زمانہ کے لوگوں پر تھی اور فضیلت و فوقیت ہم نے اپنے علم کی رو سے دی تھی، علم کی رو سے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے، لہٰذا ان کو فوقیت دینے میں بھی ہماری حکمت تھی، جزوی یا وقتی فضیلت سے کلی اور دائمی فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کو کسی جزوی خوبی کی وجہ سے تمام اہل عالم پر فضیلت حاصل ہو مثلاً یہ بات متفق علیہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی اکثریت بنی اسرائیل سے تعلق رکھتی ہے۔
علیٰ علم کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگرچہ بنی اسرائیل کی بعض کمزوریوں کا بھی ہم کو علم حاصل تھا مگر اس کے باوجود ہم نے بنی اسرائیل کو وقتی اور جزئی فضیلت دیدی۔ (فوائد عثمانی)
واتینٰھُم من الاٰیٰتِ ما فیہ بلاءٌ مبینٌ آیات سے مراد معجزات بھی ہوسکتے اور احسانات و انعامات بھی، دونوں صورتوں میں آزمائش کا پہلو موجود ہے، اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یہ لوگ کس طرح عمل کرتے ہیں ؟ اور ان انعامات کا کس طرح شکریہ ادا کرتے ہیں جو ان پر اللہ تعالیٰ نے فرمائے تھے ؟ مثلاً ان کے دشمن فرعون کو غرق کرکے ان کو نجات دینا، ان کے لئے دریا کو پھاڑ
کر راستہ بنانا، بادلوں کا سایہ فگن ہونا، اور من وسلویٰ کا نازل ہونا وغیرہ وغیرہ۔
انَّ ھؤلاء لیقولون، ھؤلاء اسے اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے اسلئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے، درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ فرعون بھی اسی طرح کفر پر اصرار کرتا رہا، دیکھ تو اس کا کیا حشر ہوا، اگر یہ بھی اپنے کفر پر مصر رہے تو ان کا انجام بھی فرعون اور اس کے ماننے والوں سے مختلف نہ ہوگا۔
فاتوا۔۔۔۔ صادقین یعنی دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب دینا ممکن نہیں ہے، اور اگر یہ بات صحیح ہے تو اولاً ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو اگر تم سچے ہوتا کہ ہمیں اخروی زندگی کا یقین آجائے، اور اگر بالفرض ہم تسلیم کرلیں کہ مرنے کے بعد زندگی ہے تو وہ نطفہ کے بعد دنیوی حیات ہے، گویا کہ نطفہ مردہ اور اس سے انسان کا پیدا ہونا یہ مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے، قرآن کریم نے ان کے اس سوال کا جواب ظاہر ہونے کی وجہ سے نہیں دیا وہ یہ کہ دنیا و آخرت کے اصول اور ضابطے الگ الگ ہیں اگر کسی مردے کو زندہ کرکے دنیا میں نہیں لایا گیا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ آخرت میں بھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ؟
اھم خیر ام قوم تبع، یعنی یہ کفار مکہ کیا تُبَّعْ اور ان سے پہلی قوموں مثلاً عاد وثمود وغیرہ سے بھی زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟ تُبَّع سے مراد قوم سبا ہے، سبا میں ایک قبیلہ حِمیَر تھا، یہ اپنے بادشاہوں کو تبع کہتے تھے جیسے روم کے بادشاہوں کو قیصر اور فارس کے بادشاہوں کو کسریٰ اور مصر کے حکمرانوں کو فرعون اور حبشہ کے فرمانرواؤں کو نجاشی کہا جاتا تھا، اہل تاریخ کا اتفاق ہے کہ تبابعہ میں سے بعض کو بڑا عروج حاصل ہوا اور وہ ملکوں کو فتح کرتے ہوئے سمر وند تک پہنچے۔
قوم تبع کا واقعہ : قرآن کریم میں قوم تبع کا ذکر دو جگہ آیا ہے، ایک یہاں اور دوسرے سورة قٓ میں اور دونوں جگہ صرف نام ہی مذکور ہے، اس لئے مفسرین نے تبع کے بارے میں مفصل بحثیں کی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ تبع کسی فرد معین کا نام نہیں بلکہ یہ یمن کے ان حمیری بادشاہوں کا لقب رہا ہے جنہوں نے ایک عرصہ دراز تک یمن کے مغربی حصہ کو دافر السلطنت قرار دیکر عرب، شام، عراق اور افریقہ کے بعض حصوں پر حکومت کی، یہاں ان تبابعہ میں سے کونسا تُبَّعْ مراد ہے ؟
قرآنی تبع : قرآنی تُبَّعْ ، تبع اوسط ہے جس کا نام اسعد، ابوکریب یا ابو کرب کنیت ہے، یہ بادشاہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے نو سو سال اور ایک روایت کے اعتبار سے کم از کم سات سو سال پہلے گزرا ہے، یہ اور اس کی قوم آتش پرست تھی، ایک مرتبہ سفر کے دوران اس کا مدینہ منورہ سے گزرہوا، یہاں اس کا بیٹا مارا گیا، تبع نے مدینہ کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کیا، اوس و خزرج سے جو یہاں کے قدیم باشندے تھے مقابلہ ہوا، اہل مدینہ کا عجیب و غریب طریقہ تھا کہ دن میں تبع کے ساتھ لڑتے اور رات کو ان کی دعوت کرتے، تبع کو یہ امر نہایت عجیب معلوم ہوا، مدینہ میں یہودی بھی آباد تھے، بنی قریظہ کے دو بڑے عالم جن میں ایک کا نام کعب اور دوسرے کا نام اسعد تھا، یہ دونوں بادشاہ کے پاس گئے اور عرض کیا اے بادشاہ مدینہ کی طرف نظر بد نہ کرو، ورنہ عذاب آجائے گا، تجھ کو معلوم نہیں کہ یہ شہر نبی آخر الزمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت گاہ ہے، جن کا مولد مکہ ہے اور وہ قریش کی قوم سے ہوں گے، اے تبع اس وقت جہاں تو ہے اس سے قتال عظیم ہوگا، تبع نے معلوم کیا کہ جب وہ پیغمبر ہے تو اس سے قتال کون کرے گا، ان دونوں عالموں نے جواب دیا کہ ان کی قوم ان سے لڑے گی، تبع یہ سن کر لڑائی سے باز آگیا، پھر ان دونوں عالموں نے اس کو دین یہود کی تبلیغ کی جس کے نتیجے میں اس نے یہودیت قبول کرلی، اور ان دونوں عالموں کو اپنے ہمراہ لیکر یمن چلا، جب مکہ معظمہ پہنچا تو قبیلہ ہذیل کے بعض لوگوں نے ازراہِ شفقت بادشاہ سے کہا کہ ہم تجھے وہ گھر بتائیں کہ جس میں خزانہ ہے اور وہ گھر خانہ کعبہ ہے، مقصد ان کو یہ تھا کہ تبع اس گستاخی سے ہلاک ہوجائے مگر ان دونوں عالموں نے اس کو اس حرکت سے باز رکھا، اور عرض کیا یہ خانہ خدا ہے، خبردار اس کی طرف نظر بد ہرگز نہ کرنا، تبع نے اس حرکت سے توبہ کی اور ہذیلیوں کو قتل کرا دیا، اور مکہ میں حاضر ہو کر شعب صالح میں قیام کیا اور خانہ خدا کو لباس پہنایا، سب سے پہلے تبع ہی نے خانہ کعبہ پر غلاف ڈالنا شروع کیا، تبع نے مکہ میں چھ روز قیام کیا اور چھ ہزار بد نے قربان کئے، جب تبع یمن پہنچا تو قوم نے بغاوت کردی اور کہا تو نے دین بدل ڈالا ہے، آخر فیصلہ یہ ہوا کہ زیر کوہ جو ایک آگ ہے وہاں دونوں فریق چلیں اور آگ حسب معمول ظالم کو جلا دے، قوم اپنے بتوں کو لیکر گئی، اور تبع کعب واسعد کو ساتھ لے گیا ان کے گلوں میں مصاحف لٹکے ہوئے تھے، یہ آگ کے اوپر سے بآسانی گزر کر مقام معین پر پہنچ گئے، اس کے بعد آگ نکلی اور بت پرستوں کو جلا کر خاکستر کردیا، اس کے بعد آگ جدھر سے آئی تھی واپس چلی گئی، اس کے بعد قوم تبع کے کچھ بچے ہوئے لوگوں نے یہودیت قبول کرلی۔ (خلاصۃ التفاسیر، تائب لکھنوی)
حضرت عائشہ نے فرمایا تبع کو برا نہ کہو وہ مرد صالح تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبع کے بارے میں فرمایا کہ وہ اسلام لایا تھا اور یہ بھی فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ تبع نبی تھا یا نہیں، تبع نے دار ابی ایوب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بنوایا تھا، اور وصیت نامہ لکھا تھا کہ نبی آخر الزمان جب تشریف لائیں تو یہ گھر اور میرا پیام نیاز پیش خدمت کیا جائے، چناچہ وہ خط حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا۔ (خلاصۃ التفاسیر) اس خط میں یہ اشعار بھی تھے :
شھدتُ علی احمد أنَّہٗ رسول من اللہ باری النسم
فلو مد عمری الی عمرہ لکنت وزیراً لہٗ وابن عم
خط کا مضمون ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق یہ تھا : امَّا بعد ! فانی آمنت بک وبکتابک الذی أنزل علَیْک، وانا علی دینک وسنتکَ وآمنتُ بربک ورب کل شئ وآمنتُ بکل ما جاء من ربک من شرائع الاسلام فِان ادرکتُکَ فبھا ونعمت وان لم ادرککَ فاشفع لی ولا تنسنی یوم القیامۃ فانی من ربک من امتک الاولین وتابعتک قبل مجیئک وأنا علی ملتک وملت ابیک ابراھیم (علیہ السلام) ثم ختم الکتاب ونقش علیہ، للہ الامر من قبل ومن بعد وکتب عنوانہ الی محمد بن عبد اللہ نبی اللہ ورسولہ خاتم النبیین و رسول رب العالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من تُبَّع اول۔ (لغات القرآن للدرویش)
ما خلقنھما الا بالحق (الآیۃ) ہم نے زمین و آسمان کو کسی حکمت ہی سے بنایا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے، مطلب یہ ہے کہ
اگر سوچنے سمجھنے والی عقل ہو تو آسمان اور زمین اور ان کے درمیان جو مخلوقات پیدا کی گئی ہیں، وہ سب بہت سے حقائق پر دلالت کرتی ہیں، مثلا ایک تو قدرت خداوندی پر دوسرے آخرت کے امکان پر کیونکہ جس ذات نے ان عظیم اجسام کو وجود بخشا وہ یقیناً اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں ایک مرتبہ فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دے، تیسرے جزاء و سزا کی ضرورت پر کیونکہ اگر آخرت کی جزاء و سزا نہ ہو تو یہ سارا کارخانۂ وجود بیکار ہوجاتا ہے، اس کی تخلیق کی حکمت ہی یہی ہے کہ اس کو دار الامتحان بنایا جائے اور اس کے بعد آخرت میں جزاء و سزا دی جائے ورنہ نیک و بد دونوں کا انجام ایک ہونا لازم آتا ہے جو اللہ کی شان حکمت سے بعید ہے، چوتھےؔ یہ کہ یہ کائنات سوچنے سمجھنے والوں کو اطاعت خداوندی پر آمادہ کرنے والی ہے، اس لئے کہ پوری کائنات اس کا بہت بڑا انعام ہے اور بندے پر واجب ہے، کہ اس کی نعمت کا شکر، اس کے خالق کی اطاعت کرے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴾ ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔“ جس میں وہ مبتلا تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur bani Israel ko hum ney zillat kay azab say nijat dey di ,