فرما دیجئے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروہِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں،
English Sahih:
Say, "O People of the Scripture, you are [standing] on nothing until you uphold [the law of] the Torah, the Gospel, and what has been revealed to you from your Lord [i.e., the Quran]." And that which has been revealed to you from your Lord will surely increase many of them in transgression and disbelief. So do not grieve over the disbelieving people.
1 Abul A'ala Maududi
صاف کہہ دو کہ "اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں" ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زیادہ بڑھا دے گا مگر انکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو
2 Ahmed Raza Khan
تم فرمادو، اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو جب تک نہ قائم کرو توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اور بیشک اے محبوب! وہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس میں بہتوں کو شرارت اور کفر کی اور ترقی ہوگی تو تم کافروں کا کچھ غم نہ کھاؤ،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے اہل کتاب تم کسی راہ پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو چیز تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے قائم نہ کرو اور ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پرنازل ہوا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور انکار کو اور زيادہ بڑھائے گا مگر انکار کرنے والاوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا (١) ہی تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں۔
٦٨۔١ یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال و اشیاء سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے ــ' فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں (بہرا پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے '"اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے"(القرآن)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے اور یہ (قرآن) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجیئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات وانجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی سے طرف اتارا گیا ہے قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وه ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ہی، تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے اہلِ کتاب تم کسی راہ (حق) پر نہیں ہو جب تک کہ تورات، انجیل کو اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کو قائم نہ رکھو اور جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے (قرآن) وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا آپ کافروں پر افسوس نہ کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے جب تک توریت و انجیل اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے قائم نہ کرو اور جو کچھ آپ کے پاس پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ ان کی کثیر تعداد کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کردے گا تو آپ کافروں کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے اور (یہ قرآن) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا۔ تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو۔ قل یٰااھْل الکتاب لَسْتُمْ علی شیْءٍ الخ، یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے یعنی جس طرح بعض نیک کاموں سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق و عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں بھی زیادتی ہوتی ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ قل یا اھل الکتاب لاتغلوا فی دینکم غیر الحق، یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جس کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے اس میں مبالغہ کرکے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت پر فائز مت کرو جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملہ میں تم نے غلو کیا، غلو ہر دور میں شر اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے، انسان کو جس سے عقیدت و محبت ہوتی ہے اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے، وہ ولیوں اور بزرگوں کو پیغمبروں کی طرح معصوم سمجھنے لگتا ہے، اور پیغمبروں کی خدائی صفات سے متصف کردیتا ہے۔ وَلا تتبعوا اھواءَ قوم قد ضلوا من قبل، یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو جو ایک نبی کو الٰہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اہل کتاب کی گمراہی کی منادی اور ان کے باطل کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیجیے ! ﴿سْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ﴾ ” تم کسی چیز پر نہیں ہو“ یعنی تم کسی بھی دینی اصول پر قائم نہیں ہو۔ تم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہو نہ تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کی تصدیق کی ہے، تم نے حق کو تھاما ہے نہ کسی اصول پر تمہارا اعتماد ہے ﴿حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ﴾” جب تک تم تورات اور انجیل کو قائم نہ رکھو گے۔“ یعنی جب تک کہ تم تورات اور انجیل پر ایمان لا کر ان کو قائم نہ کرو، ان کی اتباع نہ کرو اور جن امور کی طرف یہ دعوت دیتی ہیں ان میں سے ہر چیز کو مضبوطی سے تھام نہ لو اور جب تک کہ تم اس چیز کو قائم نہ کرو ﴿وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ﴾ ” جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے“ جس نے تمہاری تربیت کی اور تمہیں نعمتوں سے نوازا۔ تم پر اس کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ تمہاری طرف کتابیں نازل فرمائیں۔ پس تم پر فرض ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو، اس کے احکام کا التزام کرو اور اللہ تعالیٰ کی امانت اور اس کے عہد کی جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اسے پورا کرو۔ ﴿وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾” اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اس سے ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہوگا اس لئے آپ کافروں کے گروہ پر متاسف نہ ہوں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : aey ehal-e-kitab ! jab tak tum toraat aur injeel per aur jo ( kitab ) tumharay perwerdigar ki taraf say tumharay paas ( abb ) bheji gaee hai uss ki poori pabandi nahi kero gay , tumhari koi buniyad nahi hogi jiss per tum kharray hosako . aur ( aey Rasool ! ) jo wahi tum per tumharay perwerdigar ki taraf say nazil ki gaee hai woh inn mein say boht son ki sarkashi aur kufr mein mazeed izafa ker kay rahey gi , lehaza tum inn kafir logon per afsos matt kerna .
12 Tafsir Ibn Kathir
آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں۔ پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے۔ صابی، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بےدین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے۔ قتادہ کہتے ہیں یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے۔ وہب فرماتے ہیں اللہ کو پہچانتے تھے، اپنی شریعت کے حامل تھے، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی، یہ عراق کے متصل آباد تھے، یلوثا کہے جاتے تھے، نبیوں کو مانتے تھے، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا، اس لئے رفع کے ساتھ عطف ڈالا۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ " امن وامان والے بےڈر اور بےخوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے، جب تک اس آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پس آپ پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بےخوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں "۔ سورة بقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کردیئے گئے ہیں۔