ق آية ۱۶
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں،
English Sahih:
And We have already created man and know what his soul whispers to him, and We are closer to him than [his] jugular vein.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں
3 Ahmed Ali
اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کے دل میں گزرتا ہے اور ہم اس سے اس کی رگ گلو سے بھی زیادہ قریب ہیں
4 Ahsanul Bayan
ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں (۱) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں (۲)
۱ ٦ ۔۱ یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالٰی نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان ۔
١٦۔١ ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیاﻻت اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم وہ وسوسے جانتے ہیں جو اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ (حیات) سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم ہی نے انسان پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم انکو جانتے ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں
ترجمہ : اور ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل میں نفس کے وسوسہ ڈالنے کو بھی جانتے ہیں (نعلم) نحن کی تقدیر کے ساتھ حال ہے، (بہ) میں باء زئادہ ہے یا تعدیہ کے لئے ہے اور (بہ) کی ضمیر انسان کی طرف لوٹ رہی ہے اور ہم انسان کے علم کے اعتبار سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں (حبل الورید) میں اضافت بیانیہ ہے، وریدان گردن کی دونوں طرف دو رگیں ہیں اور جب اخذ کرلیتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں دو اخذ کرنے والے اس کے عمل کو دو فرشتے جو انسان پر مقرر ہیں، انسان کے دائیں جانب اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے ہیں (اذ) کا ناصب اذکر مقدر ہے (قعید) بمعنی قاعدان ہے، یہ متبداء ہے اس کا ماقبل اس کی خبر ہے (انسان) کوئی لفظ منہ سے نہیں نکال پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس ایک نگہبان حاضر ہوتا ہے (قعید اور عتید) میں سے ہر ایک تثنیہ کے معنی میں ہے اور موت کی بےہوشی آخرت کی حقیقت لیکر آپہنچی یعنی موت کی بیہوشی اور شدت کو (لیکر آپہنچی) حتی کہ جو آخرت کا منکر ہے وہ بھی اس کو کھلم کھلا دیکھ لے گا اور وہ امر آخرت نفس شدت ہے، یہ وہی موت ہے جس سے تو بھگتا تھا اور ڈرتا تھا اور بعث کے لئے صور میں پھونکا جائے گا اور یہی پھونکنے کا دن کافر کے لئے وعید کا دن ہوگا اور اس وعید کے دن ہر نفس محشر کی طرف اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا ہوگا یعنی فرشتہ ہوگا جو اس کو میدان محشر کی طرف ہانک کر لائے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے خلاف اس کے اعمال کی گواہی دے گا اور وہ ہاتھ پیر وغیرہ ہیں اور کافر سے کہا جائے گا دنیا میں بلاشبہ تو آج کے دن تیرے اوپر نازل ہونے والی اس مصیبت سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا یعنی تیری غفلت کو زائل کردیا جس کی وجہ سے تو آج اس نازل ہونے والی مصیبت کا مشاہدہ کر رہا ہے پس آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے یعنی وہ جو اس پر مقرر تھا، عرض کرے گا یہ وہ ہے جو میرے پاس تیار ہے مالک یعنی (دوزخ کے نگران) سے کہا جائے گا ڈال دو جہنم میں حق کے دشمن ہر ضدی کافر کو یعنی ڈلوا ڈالو یا ضرور ڈالو، اور حسن نے (القین) نون خفیہ کے ساتھ پڑھا ہے، نون خفیفہ کو الف سے بدل دیا گیا جو کہ خیر زکوۃ سے روکنے والا ہو جو حد سے گذر جانے والا ظالم ہو اور دین میں شک ڈالنے والا ہو جس نے خد کے ساتھ دوسرا معبود تجویز کیا ہو (الذی) مبتداء متضمن بمعنی شرط ہے اس کی خبر فالقیاہ الخ ہے ایسے شخص کو شدید عذاب میں ڈالدو اس کی تفسیر ماقبل کے مانند ہے وہ شیطان جو اس کے ساتھ رہتا تھا کہے گا اے ہمارے پروردگار ! میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا یہ تو خود ہی دور و دراز کی گمراہی میں تھا سو میں نے اس کو بلایا تو اس نے میری بات مان لی، اور ہا کہ کافر نے مجھ کو اس نے دعوت دے کر گمراہ کردیا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا میرے سامنے جھگڑے کی باتیں نہ کرو یہاں جھگڑنا کچھ فائدہ نہ دے گا، میں تو پہلے ہی دنیا میں تمہارے پاس آخرت کے عذاب کی وعید بھیج چکا ہوں اگر تم ایمان نہ لائو گے، اور یہ ضرور اقع ہو کر رہے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ توسوس الوسوسۃ الصوت الخفی ” وسوسہ “ خفی آواز کو کہتے ہیں جس میں دل میں کھٹکنے والے خیالات بھی شامل ہیں، ولقد خلقنا الانسان جملہ مستانفہ ہے اور لقد میں لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے ای وعزتنا وجلا لنا لقد خلقنا الانسان، الانسان میں الف لام جنس کا ہے جو آدم اور اولاد آدم دونوں پر صادق آتا ہے، مفسر علام کا حال بتقدیر نحن کے اضافہ سے مقصد ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے۔
سوال : ونعلم یہ خلقنا کی ضمیر سے حال ہے اور مضارع مثبت جب حال واقع ہوتا ہے تو پھر وائو حالیہ نہیں آتا صرف ضمیر کافی ہوتی ہے وائو اس وقت آتا ہے جب حال جملہ اسمیہ ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے۔
جواب :۔ یہاں حال جملہ اسمیہ ہے جس کی طرف مفسر علام نے حال بتقدیر نحن کہہ کر اشارہ کردیا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ونحن نعلم مبتداء خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر حال واقع ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض باقی نہیں رہا۔
قولہ :۔ ماتوسوس مامصدریہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی و نعلم وسوسۃ نفسہ ایاہ یعنی انسان کے دل میں نفس کے وسوسہ ڈالنے کو ہم جانتے ہیں اور ماموصولہ بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں بہ کی ضمیر عائد ہوگی اور تقدیر عبارت یہ ہوگی ونعلم الامر الذی تحدت نفسہ بہ یعنی ہم اس بات کو جانتے ہیں جس کو اس نفس اس کے دل میں ڈالتا ہے، ماموصولہ ہونے کی صورت میں بہ کی باء زائدہ ہوگی، اور ضمیر ماموصولہ کی طرف راج عہو گی اور اگر مامصدریہ ہو تو باء تعدید کے لئے ہوگی اور ضمیر انسان کی طرف راجع ہوگی۔ (ترویح الارواح)
قولہ :۔ نحن اقرب الیہ بالعلم
سوال : بالعلم کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب :۔ مفسر علام نے بالعلم کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں قربت سے قربت علمیہ مراد ہے نہ کہ قربت جسمیہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ ہے، حبل الوریہ سے شدت قرب کی طرف اشارہ ہے، حبل رگ کو کہتے ہیں اور حبل الورید شہ رگ کو کہتے ہیں، جس کو رگ جاں بھی کہا جاتا ہے، یہ رگیں دو ہوتی ہیں گردن کی دونوں جانب ایک ایک، ان کے کٹ جانے سے یقینا موت واقع ہوجاتی ہے، ذبیحہ میں ان دونوں رگوں کا کٹنا ضرور ی ہے۔
قولہ :۔ مایعملہ یہ یتلقی کا مفعول ہے یعنی انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو متعین کردہ دونوں فرشتے اچک لیتے ہیں اور ثبت کردیتے ہیں۔
قولہ :۔ ای قاعدان یہ بھی ایک شبہ کا جواب ہے۔
شبہ : قعید جملہ ہو کر المتلقیان سے حال ہے ذوالحال تثنیہ ہے اور حال مفرد ہے حالانکہ دونوں میں مطابقت ضروری ہے۔
دفع : قعید بروزن فعیل ہے اور فعیل کے وزن میں مفردو تثنیہ و جمع سب برابر ہیں، لہٰذا قعید مفرد تثنیہ کے قائم مقام ہے،
قعید متبداء اور اس کا ماقبل یعنی عن الیمین وعن الشمال اس کی خبر مقدم ہے پھر جملہ ہو کر المتلقیان سے حال ہے۔
قولہ :۔ لدیہ رقیب، رقیب مبتداء مئوخر ہے اور لدیہ خبر مقدم ہے۔
قولہ :۔ عتید تیار، حاضر، یہ عتادٌ سے ہے جس کے معنی ضرورت سے پہلے کسی چیز کے ذخیرہ کرلینے کے ہیں۔
قولہ :۔ وھو نفس الشدۃ بہتر ہوتا کہ مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ اس عبارت کو حذف فرما دیتے اس لئے کہ ماقبل کے ہوتے ہوئے اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر ھو کا مرجع امر آخرت ہو اور شدۃ سے مراد امرشدید ہو اور وہ اھوال آخرت ہیں تو کچھ بات بن سکتی ہے۔
قولہ :۔ الق، الق یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لقیادراصل الق، الق تھا تکرار فعل کے ساتھ یعنی ڈالو ڈالو، ایک فعل کو حذف کر کے اس کی ضمیر فاعل کو اول فعل کے ساتھ ملا دیا، جس کی وجہ سے ضمیر مثنیٰ ہوگئی۔
قولہ :۔ اوالقین اس کا مطلب یہ ہے کہ الیا میں الف تثنیہ کا نہیں ہے بلکہ نون تاکید خفیفہ سے بدلا ہو ہے۔
سوال :۔ نون تاکید خفیفہ کو الف سے حالت وقف میں بدلتے ہیں نہ کہ وصل میں۔
جواب :۔ حالت وصل کو حالت وقف پر محمول کرلیا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ القیا تثنیہ ہی کا صیغہ ہے اور مراد اس سے سابق اور شہید ہیں۔
قولہ :۔ عنید عناد رکھنے والا، مخالف، ضدی، سرکش (جمع) عند آتی ہے۔
قولہ :۔ الشدید یعنی القیا میں تثنیہ لانے کی جو تین توجیہ سابق میں کی گئی ہیں وہی فالقیہ میں ہوگی۔
قولہ :۔ قال قرینہ الشیطان ربنا ما اطغیتہ، ربنا ما اطغیتہ یہ کافر کے قول ھو اطغانی بد عائہ لی کے جواب میں ہے یعنی جب کافر رب العالمین کے حضور میں عذر پیش کرتے ہوئے کہے گا، اس یعنی شیطان نے مجھے گمراہ کیا تھا تو اس کے جواب میں شیطان کہے گا ربنا ما اطغیتہ مگر مفسر علامہ کے لئے مناسب تھا کہ ھو اطغانی کو مقدم کرتے۔
قولہ :۔ لاتختصموا یہ کافروں اور ان کے ہمنشینوں سے خطاب ہے۔
قولہ :۔ وقد قدمت الیکم بالوعید ظاہر یہ ہے کہ یہ لاتختصموا سے حال ہے مگر یہ دشوار ہے اس لئے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے حالانکہ یہاں ایسا نہیں ہے اس لئے کہ تقدیم وعید دنیا میں ہوئی اور اختصام آخرت میں۔
قولہ :۔ ولامفھوم لہ یعنی لاظلم الیوم کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے، یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ آج ظلم نہیں ہے آج کے علاوہ میں ظلم ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات :
سابقہ آیات میں منکرین حشر و نشر اور مردوں کے زندہ ہونے کو بعید از عقل و امکان کہنے والوں کے شبہات کا ازالہ تھا، آیات مذکورہ میں بھی علم الٰہی کی وسعت اور ہمہ گیری کا بیان ہے کہ انسان کے اجزاء منتشرہ کا علم ہونے سے بھی زیادہ بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم ہر انسان کے دل میں آنے والے خیالات ووسوں کو بھی ہر وقت اور ہرحال میں جانتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان سے اتنے زیادہ قریب ہیں کہ اس کی رگ جان کو جس پر اس کی زندگی کا مدار وہ بھی اتنی قریب نہیں، اس لئے ہم اس کے حالات کو خود اس سے بھی زیادہ جانتے ہیں جیسا کہ تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان عرض کیا جا چکا ہے، کہ نحن اقرب الیہ من حبل الورید میں قرب سے مراد قربت علمیہ ہے نہ کہ جسمیہ جمہور مفسرین کا یہی خیال ہے۔
اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے :
من حبل الورید، حبل الورید میں اضافت بیانیہ ہے یعنی وہ رگیں جو ورید ہیں، جسم حیوانی میں دو قسم کی رگیں ہوتی ہیں، کچھ تو وہ ہیں جو جسم حیوانی میں خون کی سپلائی کا کام کرتی ہیں ان کا منبت جگر ہے اور دوسری قسم کی شریان کہلاتی ہیں، ان کا کام جسم حیوانی میں روح سپلائی کرنا ہے، ان کا منبت قلب ہے اور یہ بہ نسبت ورید کے باریک ہوتی ہیں، مذکورہ اصطلاح طبی ہے ضروری نہیں کہ آیت میں ورید کا لفظ طبی اصطلاح کے مطابق ہی استعمال ہوا ہو بلکہ قلب سے نکلنے والی رگوں کو بھی لغت کے اعتبار سے ورید کہا جاسکتا ہے اور چونکہ اس جگہ مراد انسان کے قلبی خیالات سے مطلع ہونا ہے اس لئے ورید سے شریان مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔
یتلقی المتلقیان ای یاخذان ویثبتان، فتح القدیر میں شوکانی نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام حالات کو جانتے ہیں بغیر اس کے کہ ہم فرشتوں کے محتاج ہوں، جن کو ہم نے انسان کے اقوال و احوال لکھنے کے لئے مقرر کیا حالات کو جانتے ہیں بغیر اس کے کہ ہم فرشتوں کے محتاج ہوں، جن کو ہم نے انسانوں کے اقوال و احوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لئے مقرر کئے ہیں، بعض کے نزدیک دو فرشتوں سے نیکی اور بدی لکھنے والے فرشتے مراد ہیں اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔
اعمال کو ریکارڈ کرنے والے فرشتے :
حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت عن الیمین وعن الشمال قعید تلاوت فرما کر، کہا :
” اے ابن آدم ! تیرے لئے نامہ اعمال بچھا دیا گیا ہے اور تجھ پر دو معزز فرشتے مقرر کردیئے گئے ہیں، ایک تیری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب داہنی جانب والا تیری حسنات لکھتا ہے اور بائیں جانب والا تیری سیئات، اب اس حقیقت کو سامنے رکھ کر جو تیرا جی چاہے عمل کر کم کر یا زیادہ، یہاں تک کہ جب تو مرے جائے گا تو یہ صحیفہ یعنی نامہ اعمال لپیٹ دیا جائے گا اور تیری گردن میں ڈال دیا جائے گا جو تیرے ساتھ قبر میں جائے گا اور رہے گا، یہاں تک کہ جب تو قیامت کے روز قبر سے نکلے گا تو اس وقت حق تعالیٰ فرمائے گا وکل انسان الزمنہ طائرہ فی عنقہ ونخرج لہ یوم القیامۃ کتاباً یلقاہ منشوراً اقراء کتابتک کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً “
ترجمہ :۔ ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اس کی گردن میں لگا دیا ہے اور قیامت کے روز وہ اس کو کھلا ہوا پائے گا، اب اپنا اعمال نامہ خود پڑھ لے اور تو خود ہی اپنا حساب لگانے کے لئے کافی ہے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ انسان کی جنس مرد اور عورت کو پیدا کرنے میں وہ تنہا ہے۔ وہ انسان کے تمام احوال کو، جنہیں وہ چھپاتا ہے اور اس کا نفس اسے وسوسے میں مبتلا کرتا ہے، خوب جانتا ہے اور وہ ﴿أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ﴾ ” اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے۔“ جو انسان کے سب سے زیادہ قریب والی رگ ہے۔ اس سے مراد وہ رگ ہے جس نے سینے کے گڑھے کا احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ چیز انسان کو اپنے خالق کے مراقبے کی دعوت دیتی ہے، جو اس کے ضمیر اور اس کے باطن سے مطلع ہے اور اس کے تمام احوال میں اس کے قریب رگ ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ ایسے کام کے ارتکاب سے حیا کرے جس کام سے اللہ نے اس کو روکا ہے، اس لئے کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے، اور جس کام کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے ترک نہ کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur haqeeqat yeh hai kay hum ney insan ko peda kiya hai , aur uss kay dil mein jo khayalaat aatay hain , unn ( tak ) say hum khoob waqif hain , aur hum uss ki sheh rag say bhi ziyada uss kay qareeb hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
دائیں اور بائیں دو فرشتے
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آجائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ (وانا) نہیں کہا بلکہ (ونحن) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت (ونحن اقرب الیہ منکم) الخ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15 ۔ الحجر :9) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10 ۙ ) 82 ۔ الإنفطار :10) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب و عذاب لکھ لیا کرتے ہیں۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے۔ جب بندے سے کوئی خطا ہوجاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کرلی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے (ابن ابی حاتم) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13) 17 ۔ الإسراء :13) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنادیا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39 ۔ ) 13 ۔ الرعد :39) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چناچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہوجائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پاسکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کرسکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کرسکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا
من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق
مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19) 50 ۔ ق :19) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کردیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ (ما) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں (ما) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہوگئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مرگئی۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کرسکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت (وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ\017\03 ) 3 ۔ آل عمران :173) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہوگا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہوگا۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہوگا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہوگا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہوگئی۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہوجائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38) 19 ۔ مریم :38) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32 ۔ السجدة :12) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے۔