الطور آية ۲۹
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍۗ
طاہر القادری:
سو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ نصیحت فرماتے رہیں پس آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے نہ تو کاہن (یعنی جنّات کے ذریعے خبریں دینے والے) ہیں اور نہ دیوانے،
English Sahih:
So remind, [O Muhammad], for you are not, by the favor of your Lord, a soothsayer or a madman.
1 Abul A'ala Maududi
پس اے نبیؐ، تم نصیحت کیے جاؤ، اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ مجنون
2 Ahmed Raza Khan
تو اے محبوب! تم نصیحت فرماؤ کہ تم اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو نہ مجنون،
3 Ahmed Ali
پس نصیحت کرتے رہئے آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں نہ دیوانہ ہیں
4 Ahsanul Bayan
تو آپ سمجھاتے رہیں کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں نہ دیوانہ (١)
٢٩۔١ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ اور نصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جو کچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لئے کہ آپ اللہ کے فضل سے کاہن ہیں نہ دیوانہ (جیسا کہ یہ کہتے ہیں) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے جو کہ کاہن پر نہیں آتی آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیوں کر ممکن ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو (اے پیغمبر) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
6 Muhammad Junagarhi
تو آپ سمجھاتے رہیں کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں نہ دیوانہ
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ(ص) یاددہانی کرتے رہیے! کہ آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لہذا آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں - خدا کے فضل سے آپ نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون
9 Tafsir Jalalayn
تو (اے پیغمبر ! ) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
ترجمہ : تو آپ سمجھاتے رہیں (یعنی) مشرکین کو سمجھانے کی پابندی رکھیں، اور ان کے آپ کو کاہن مجنون کہنے کی وجہ سے سمجھانے سے کنارہ کشی نہ کریں، اس لئے کہ آپ اپنے رب کے فضل سے یعنی آپ پر اس کے انعام سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون بکاھن ما کی خبر ہے اور ولا مجنون اس پر معطوف ہے کیا کافریوں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ہم اس پر زمانہ کے حوادثات کا انتظار کر رہے ہیں، سو دیگر شعرئا کے مانند یہ بھی ہلاک ہوجائے گا آپ کہہ دیجیے کہ تم میری ہلاکت کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ تمہاری ہلاکت کا منتظر ہوں چناچہ یوم بدر میں تلوار کے ذریعہ ان کو سزا دی گئی، اور تربض کے معنی انتظار کے ہیں کیا ان کی عقلیں انہیں یہی سکھاتی ہیں یعنی آپ کے بارے میں ساحر، کاہن، شاعر، مجنون کہنا (سکھاتی ہیں) یکنی ایسا نہیں سکھاتیں، یا اپنے اعتماد کی وجہ سے یہ لوگ ہی سرکش ہیں کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن اس نے خود گھڑ لیا ہے یعنی خود قرآن کا اختراع کرلیا ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ تکبر کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے پس اگر ان کا یہی کہنا ہے کہ یہ قرآن ان کا خود ساختہ ہے تو یہ بھی اس طرح کا کوئی کلام بنا کرلے آئیں اگر یہ اپنے قول میں سچے ہیں کیا یہ لوگ بدون کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خلاق ہیں اور یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ کسی مخلوق کا وجود خالق کے بغیر ہو اور نہ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ معدوم کسی کو پیدا کرسکے لہٰذا (یہ بات ثابت ہوگئی) کہ ان کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے اور وہ تنہا اللہ ہے بس کس لئے اس کی توحید کے قائل نہیں ہوتے اور اس کے رسولوں پر اور کتابوں پر ایمان نہیں لاتے کیا انہوں نے ہی آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں ؟ حالانکہ ان کی تخلیق پر اللہ خلاق کے علاوہ کوئی قادر نہیں تو پھر اس کی بندگی کیوں نہیں کرتے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ یقین نہیں رکھتے ورنہ تو اس کے نبی پر ایمان لے آتے، کیا ان کے قبضہ میں ہیں نبوت اور رزق وغیرہ کے تیرے رب کے خزانے کو وہ جس کے لئے چاہیں اور جو چاہیں مخصوص کردیں یا یہ لوگ حاکم ہیں (یعنی) مسلط حاکم ہیں اور اس کا فعل صیطر ہے اور اس کے مانند بیطر وبیقر ہے (بیطر، بیطار) سے ہے جانوروں کے معالج کو کہتے ہیں اور بیقر بمعنی شق و افسد و اھلک ہے) یا کیا ان کے پاس سیڑھی ہے ؟ آسمان پر چڑھنے کا آلہ کہ اس پر چڑھ کر فرشتوں کی باتیں سن لیتے ہوں حتی کہ ان کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کے خیال میں منازعات کرنا ممکن ہوگیا ہو، اگر ان کا یہ دعویٰ ہے تو وہ سننے کا دعویدار اس پر کوئی واضح دلیل پیش کرے اور اس زعم کے، ان کے اس زعم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے کہ فرشتے اللہ کی بٹیاں ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اللہ کے لئے تمہارے زعم میں بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کیا آپ ان سے اس دین پر جو آپ ان کے پاس لے کر آئے ہیں کوئی اجرت طلب کرتے ہیں ؟ کہ وہ اس کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اسلام قبول نہیں کرتے یا ان کے پاس غیب یعنی علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں حتی کہ ان کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کے خیال میں بعث اور امر آخرت میں نزاع کرنا ممکن ہوگیا کیا یہ لوگ آپ کے ساتھ دار الند وہ میں کوئی فریب کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ آپ کو ہلاک کردیں، تو آپ یقین کرلیں فریب خوردہ مغلوب ہونے والے ہلاک ہونے والے یہ کافر ہی ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ان سے حفاظت فرمائی پھر ان کو بدر میں ہلاک کردیا کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی اور معبود ہے ؟ سبحان اللہ (ہرگز نہیں) اللہ تعالیٰ (معبود ان باطلہ) میں سے ہر اس معبود سے پاک ہے جس کو یہ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں اور استفہام ام کے ساتھ تمام مقامات میں تقبیح و توبیخ کے لئے ہے، اگر یہ لوگ آسمان کے کسی ٹکڑے کو اپنے اوپر گرتا ہوا دیکھ لیں جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ آسمان کا کوئی ٹکڑا ہمارے اوپر گرا دو یعنی ان کو عذاب دینے کے لئے تو کہہ دیں گے کہ یہ تو تہ بہ تہ بادل ہے یعنی جما ہوا بادل ہے جس سے ہم سیراب ہوں گے اور اس پر ایمان نہ لائیں، تو آپ انہیں چھوڑ دیجیے یہاں تک کہ انہیں اپنے اس دن سے سابقہ پڑے جس دن میں ان کی موت واقع ہوگی جس دن ان کی تدبیریں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی (یوم لایغنی) یومھم سے بدل ہے اور نہ ان کو مدد ملے گی یعنی آخرت میں ان سے عذاب دفع نہ کیا جائے گا اور ان کے لئے جہنموں نے اپنے کفر کے ذریعہ ظلم کیا ہے اس عذاب سے قبل بھی عذاب ہونے والا ہے یعنی دنیا میں ان کی موت
سے پہلے، چناچہ بھوک اور قحط کے ذریعہ سات سال تک عذاب میں مبتلا کئے گئے او یوم بدر میں قتل کے ذریعہ لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں کہ ان کے اوپر عذاب نازل ہوگا اور آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر کیجیے اور ان کو مہلت دے کر اور آپ دل تنگ نہ ہوں کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں یعنی آپ ہماری نظروں کے سامنے ہیں ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اور آپ کی حفاظت کر رہے ہیں، اور آپ اپنے رب کی سو کر اٹھنے کے بعد یا اپنی مجلس سے اٹھنے کے بعد تسبیح وتحمید کیجیے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہئے، اور رات میں بھی اس کی حقیقتاً تسبیح کیا کیجیے اور ستاروں کے ڈوبنے کے بعد بھی ادبار مصدر ہے یعنی ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی تسبیح بیان کیجیے اور اول میں مغرب و عشاء کی نماز پڑھنا مراد ہے اور ثانی میں سنت فجر اور کہا گیا ہے صبح کی نماز مراد ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ دم علی تذکیر المشرکین، فذکر کی تفسیر دم سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ذکر اثبت کے معنی میں ہے یعنی جس طرح آپ اب تک ان کو نصیحت کرتے رہے آئندہ بھی اس طرز کو باقی رکھئے ان کی یادہ گوئی کی وجہ سے تنگ دل ہو کر ان سے بےرخی اور کنارہ کشی اختیار نہ کیجیے۔
قولہ :۔ بنعمۃ ربک ای بفضل ربک
قولہ :۔ فما انت بنعمۃ ربک بکاھن ولا مجنون باء قسم کے لئے نعمۃ ربک مقسم بہ ہے جو کہ ما کے اسم (انت) اور خبر (کاہن) کے درمیان واقع ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ماانت و نعمۃ ربک بکاھن ولا مجنون، کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو دعویٰ کرے کہ میں بغیر وحی کے غیب جانتا ہوں اور بعض حضرات نے کہا کہ بنعمۃ میں باء سبیہ ہے اور جملہ منقیہ کے مضمون سے متعلق ہے، معنی یہ ہیں انتفی عنک الکھانۃ والجنون بسبب نعمۃ اللہ علیک یعنی آپ سے بفضلہ تعالیٰ کہانت اور جنون منتقی ہے۔ (فتح القدیر شو انی)
قولہ :۔ ام بل یقولون، ام ان آیات میں پندرہ جگہ آیا ہے ہر جگہ اس کی تقدیر بل اور ہمزہ کے ساتھ ہے اور ہمزہ استفہام انکاری تو بیخی کے لئے ہے، لہٰذان مفسر علامہ کے لئے مناسب تھا کہ ہر جگہ بل اور ہمزہ کے ساتھ مقدر مانتے۔ (صاوی)
قولہ :۔ قل تربصوا امر تہدید کے لئے۔
قولہ :۔ احلامھم حلم اور حلم دونوں کی جمع ہے حلم کے معنی خواب کے ہیں اور حلم کے عمنی برد باری کے ہیں اور چونکہ بردباری عقل کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے حلم کے معنی عقل کے بھی لئے جاتے ہیں گویا کہ یہاں مسبب بول کر سبب مراد لیا ہے۔
قولہ :۔ لم یختلقہ اس سے اشارہ کردیا کہ ام یقولون تقولہ میں ہمزہ استفہام انکاری ہے۔
قولہ :۔ فان قالوا، اختلقہ مقدر مان کر اشارہ کردیا فلیاتوا بحدیث شرط محذوف کی جزاء ہے۔
قولہ :۔ فان قالوا، اختلقہ مقدر مان کر اشارہ کردیا فلیاتوا بحدیث شرط محذوف کی جزاء ہے۔
قولہ :۔ ولشبہ ھذا الزعم بزعمھم ان الملائکۃ بنات اللہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا ازالہ ہے شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول ام لہ البنات ولکم البنون کا ماقبل سے کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا۔
جواب :۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سابقہ آیت میں مشرکین کے اس زعم کو بیان کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے گھڑ کر قرآن لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان کا یہ خیال باطل اور فاسد ہے دوسری آیت میں مشرکین کے اس زعم فاسد اور گمان باطل کا ذکر ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں دونوں خیال اور دونوں گمان فاسد اور باطل ہونے میں مشترک ہیں اور یہی وجہ اشتراک ہے، دونوں آیتوں میں ربط و مناسبت ثابت ہوگئی۔
قولہ :۔ غرم، مغرم کی تفسیر غرم سے کر کے اشارہ کردیا ہے کہ مغرم صدر میمی ہے۔
قولہ :۔ فی دار الندوۃ مفسر علام کے لئے مناسب تھا کہ لفظ دارالندوۃ حذف کردیتے، اس لئے کہ دارالندوۃ میں مشرکین کا اجتماع شب ہجرت میں ہوا تھا جس میں آپ کے قتل کی سازش رچی گئی تھی اور یہ سورت مکی ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوچکی تھی لہٰذا سازش کو ندوہ کے ساتھ مقید کرنا مشکل ہے، بناء بریں دارالندوہ کی قید کو حذف کرنا ہی بہتر ہے اس لئے کہ مکر و سازش کا سلسلہ تو بعثت کے روز اول ہی سے جاری تھا۔
قولہ :۔ فاسقط علینا کسفاً یہ آیت قوم شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ سورة شعراء میں مذکور ہے، مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب تھا اس آیت سے استدلال کرتے جو قریش کے بارے میں سورة اسراء میں نازل ہوئی ہے، وہ یہ اوتسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً
قولہ :۔ فذرھم یہ شرط مقدر کی جزاء ہے، شرط مقدر یہ ہے اذا بلغوا فی العناد الی ھذا فذرھم
تفسیر و تشریع
فذکر فما انت بنعمۃ ربک بکاھن (الآیۃ) ان آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ نصیحت و تذکیر کا کام کئے جایئے اور یہ لوگ آپ کے متعلق جو بکواس اور یادہ گوئی کرتے ہیں آپ اس کی طرف کان نہ دھریں اس لئے آیت اللہ کے فضل سے زکاہن اور دیوانے آپ ہمارے رسول ہیں رسول ہیں، آپ پر ہماری طرف سے وحی نازل ہوتی ہے جو کاہن پر نہیں ہوا کرتی، آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح کی گفتگو ممکن نہیں ہے۔
کاہن، عربی زبان میں جیوتشی، غیب گو، اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا، ضعیف الاعتقاد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ارواح اور شیاطین سے سے ان کا خاص تعلق ہے جن کے ذریعہ یہ غیب کے خبریں معلوم کرسکتے ہیں، کوئی چیز کھو گئی ہو تو بتاسکتے ہیں اگر چوری ہوگئی ہو تو چور اور مسروقہ مال کی نشاندہی کرسکتے ہیں اگر کوئی اپنی قسمت پوچھے تو بتاسکتے ہیں ان ہی اغراض و مقاصد کے لئے لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور وہ کچھ نذرانہ لیکر بزعم خویش غیب کی باتیں بتاتے تھے اور ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن کے مختلف مطلب ہوسکتے تھے تاکہ ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے۔
ریب المنون، ریب کے معنی حوادث کے ہیں منون موت کے ناموں میں سے ایک نام ہے منون بروزن فعول یہ من سے مشتق ہے اس کے معنی قطع کرنے کے ہیں منون کے معنی ہیں بہت زیادہ قطع کرنے والا، اور موت چونکہ دنیوی تمام علائق کو منقطع کر دیی ہے اس لئے موت کو بھی منون کہتے ہیں، مطلب یہ کہ قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ حوادثات زمانہ سے شاید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے اور ہمیں چین نصیب ہوجائے جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے، غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ہمارے معبودوں کی مخالفت اور ان کی کرامات کا انکار کرتے ہیں اس لئے یا تو معاذ اللہ ان پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑے گی یا کوئی منچلا اپنے معبودوں کی برائی سن کر یا کوئی دل جلا اپنے معبودوں کی مخالفت سے بےقابو ہو کر ان کا کام ہی تمام کر دے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالی اپنے رسول کو حکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو مسلمانوں اور کفار کو نصیحت کریں تاکہ ظالموں پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے اور توفیق یافتہ لوگ آپ کی تذکیر کے ذریعے سے راہ راست پا لیں، نیز یہ کہ آپ مشرکین اہل تکذیب کی باتوں اور ان کی ایذا رسانی کو خاطر میں نہ لائیں اور ان کی ان باتوں کی پروانہ کریں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں کو آپ کی اتباع سے روکتے ہیں حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ ان باتوں سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور ہیں بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ہر اس نقص کی نفی کردی جسے وہ آپ کی طرف منسوب کرتے تھے اس لیے فرمایا ﴿ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ ﴾ یعنی نہیں ہیں آپ اپنے رب کے لطف وکرم سے ﴿ بِكَاهِنٍ ﴾ ’’کاہن‘‘ جس کے پاس جنوں کا سردار آتا ہے اور اس کے پاس غیب کی خبر لاتا ہے اور وہ اس میں جھوٹ خود اپنی طرف سے شامل کردیتا ہے۔ ﴿ وَلَا مَجْنُونٍ ﴾ ’’اور نہ آپ فاتر العقل ہیں‘‘ بلکہ آپ عقل میں تمام لوگوں سے زیادہ کامل، شیاطین سے سب سے زیادہ دور، صداقت میں سب سے بڑے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور سب سے زیادہ کامل ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
lehaza ( aey payghumber ! ) tum naseehat kertay raho , kiyonkay tum apney perwerdigar kay fazal say naa kahin ho , naa majnoon .
12 Tafsir Ibn Kathir
کاہن کی پہچان
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اللہ کی رسالت اللہ کے بندوں تک پہنچاتے رہیں ساتھ ہی بدکاروں نے جو بہتان آپ پر باندھ رکھے تھے ان سے آپ کی صفائی کرتا ہے کاہن اسے کہتے ہیں جس کے پاس کبھی کبھی کوئی خبر جن پہنچا دیتا ہے تو ارشاد ہوا کہ دین حق کی تبلیغ کیجئے۔ الحمد اللہ آپ نہ تو جنات والے ہیں نہ جنوں والے۔ پھر کافروں کا قول نقل فرماتا ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شاعر ہیں انہیں کہنے دو جو کہہ رہے ہیں ان کے انتقال کے بعد ان کی سی کون کہے گا ؟ ان کا یہ دین ان کے ساتھ ہی فنا ہوجائے گا پھر اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا جواب دینے کو فرماتا ہے کہ اچھا ادھر تم انتظار کرتے ہو ادھر میں بھی منتظر ہوں دنیا دیکھ لے گی کہ انجام کار غلبہ اور غیر فانی کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے ؟ دارالندوہ میں قریش کا مشورہ ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مثل اور شاعروں کے ایک شعر گو ہیں انہیں قید کرلو وہیں یہ ہلاک ہوجائیں گے جس طرح زہیر اور نابغہ شاعروں کا حشر ہوا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ پھر فرماتا ہے کیا ان کی دانائی انہیں یہی سمجھاتی ہے کہ باوجود جاننے کے پھر بھی تیری نسبت غلط افواہیں اڑائیں اور بہتان بازی کریں حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑے سرکش گمراہ اور عناد رکھنے والے لوگ ہیں دشمنی میں آکر واقعات سے چشم پوشی کر کے آپ کو مفت میں برا بھلا کہتے ہیں کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود آپ بنا لیا ہے ؟ فی الواقع ایسا تو نہیں لیکن ان کا کفر ان کے منہ سے یہ غلط اور جھوٹ بات نکلوا رہا ہے اگر یہ سچے ہیں تو پھر یہ خود بھی مل جل کر ہی ایک ایسی بات بنا کر دکھا دیں یہ کفار قریش تو کیا ؟ اگر ان کیساتھ روئے زمین کے جنات وانسان مل جائیں جب بھی اس قرآن کی نظیر سے وہ سب عاجز رہیں گے اور پورا قرآن تو بڑی چیز ہے اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی قیامت تک بنا کر نہیں لاسکتے۔