الانعام آية ۶۱
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۗ حَتّٰۤى اِذَا جَاۤءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُـنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ
طاہر القادری:
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر (فرشتوں کو بطور) نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے (تو) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ خطا (یا کوتاہی) نہیں کرتے،
English Sahih:
And He is the subjugator over His servants, and He sends over you guardian-angels until, when death comes to one of you, Our messengers [i.e., angels of death] take him, and they do not fail [in their duties].
1 Abul A'ala Maududi
اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں کسی کو موت آتی ہے ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں اور وہ قصور نہیں کرتے
3 Ahmed Ali
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے
4 Ahsanul Bayan
اور وہی اپنے بندے کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والا بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آپہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ ذرا کوتاہی نہیں کرتے (١)۔
٦١۔١ یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّیِّیْنَ میں اور اگر بد ہے تو سِجِّیْنَ میں بھیج دیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
6 Muhammad Junagarhi
اور وہی اپنے بندوں کے اوپر غالب ہے برتر ہے اور تم پر نگہداشت رکھنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے، اس کی روح ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کرلیتے ہیں اور وه ذرا کوتاہی نہیں کرتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے (اور پوری قدرت رکھتا ہے) اور وہ تم پر حفاظت (نگرانی) کرنے والے (فرشتے) بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور وہی خدا ہے جو اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم سب پر محافظ فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اسے اُٹھالیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
9 Tafsir Jalalayn
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
آیت نمبر ٦١ تا ٧٠
ترجمہ : وہ اپنے بندوں پر پوری طرح غالب ہے اور تم پر نگران فرشتے بھیجتا ہے جو تمہارے اعمال کا حساب رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے جو روح قبض کرنے پر متعین ہوتے ہیں اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور ایک قراءت میں توفَّاہ ہے جس کام کا ان کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے، پھر مخلوق کو اپنے مالک برحق کی طرف لایا جائیگا جو کہ باقی رہنے والا عادل ہے، تاکہ ان کو جزاء دے، خوب سن لو ان میں اسی کا فیصلہ نافذ ہے اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے اور پوری مخلوق کا حدیث کی رو سے دنیوی دنوں کے اعتبار سے نصف دن سے حساب لے لیگا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ سے پوچھو کہ صحراء و سمندر کی تاریکیوں کی ہولناکیوں سے تمہارے سفر کے دوران تم کو کون بچاتا ہے ؟ (اور کون ہے وہ) جس کو تم عاجزی کے ساتھ زور زور سے اور چپکے چپکے پکارتے ہوئے کہتے ہو قسم ہے لام قسمیہ ہے اگر تو نے ہم کو اس تاریکی اور تکلیف سے بچا لیا تو ہم شکر گزار مومن ہوجائیں گے اور ایک قراءت میں ” اَنْجَانَا “ ہے یعنی اگر اللہ نے ہم کو بچا لیا، آپ ان سے کہو اللہ تم کو اس مصیبت اور اس کے علاوہ ہر غم سے نجات دے گا پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو (یُنْجِیْکم) تخفیف اور تشدید کے ساتھ، آپ کہئے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر (یعنی) آسمان سے عذاب بھیج دے مثلاً پتھر اور چیخ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے مثلاً زمین میں دھنسا دے یا تم کو مختلف الخیالات گروہ درگروہ کرکے بھڑا دے، اور قتال کے ذریعہ ایک گرہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھا دے جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” یہ اَھْوَنْ اور آسان ہے “ اور جب اس کا ماقبل نازل ہوا تو آپ نے فرمایا میں تیری ذات کی پناہ چاہتا ہوں، (رواہ البخاری) اور مسلم نے ایک حدیث روایت کی کہ میں نے درخواست کی کہ اے میرے رب تو میری امت کے درمیان آپسی اختلاف نہ ڈال، تو اللہ نے مجھے منع کردیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ یہ (منازعت) بہرحال ہو کر رہے گا، اور ابتک اس کی تاویل نہیں آئی، آپ دیکھئے تو سہی ہم کس کس طرح اپنی قدرت پر دلالت کرنیوالی نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ جس پر وہ قائم ہیں وہ باطل ہے اس قرآن کی آپ کی قوم نے تکذیب کی حالانکہ وہ سچ ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے اوپر مسلط نہیں کیا گیا ہوں کہ میں تم کو اس کی جزا دوں، میں تو محض ڈرانے والا ہوں اور تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے، ہر خبر کا وقت مقرر ہے کہ اس میں واقع اور ظہور پذیر ہو اور ان ہی میں سے تمہارا عذاب بھی ہے، اور تم عنقریب (انجام) جان لو گے، یہ ان کے لئے دھمکی ہے، (اور اے محمد) جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیتوں قرآن میں نکتہ چینی کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجائیے اور ان کے پاس نہ بیٹھئے یہاں تکہ کہ دوسری باتوں میں لگ جائیں، اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے (اِمّا) میں ان شرطیہ کا ما زائدہ میں ادغام ہے (یُنْسِیَنَّکَ ) نون کے سکون اور تخفیف کے ساتھ اور نون کے فتحہ اور تشدید کے ساتھ (بھی) ہے کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھیں، تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھیں، اس میں اسم ظاہر کو اسم ضمیر کی جگہ رکھا ہے، مسلمانوں نے کہا جب وہ نکتہ چینی کیا کریں اور ہم اٹھ جایا کریں تو ہم نہ مسجد میں بیٹھ سکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں، تو (یہ آیت نازل ہوئی) اور جو اللہ سے ڈرتے ہیں تو نکتہ چینی کرنے والوں کے حساب کا ان سے کچھ مواخذہ نہیں ہوگا جب وہ ان کے پاس بیٹھیں، (مِن شئ) میں من زائدہ ہے، مگر ان کے ذمہ ان کے لئے تذکیر اور نصیحت ہے شاید کہ وہ نکتہ چینی سے باز آجائیں، اور ایسے لوگوں سے آپ کنارہ کش رہیں جنہوں نے اس دین کا جس کا ان کو مکلف بنایا گیا ہے استہزاء کرتے ہوئے کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے لہٰذا آپ ان سے کوئی تعارض نہ کریں، یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے، اور اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاکت کے حوالہ کردیا جائے کہ اس کے لئے اللہ کے سوا اس کا کوئی نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی کہ جو اس کو عذاب سے بچا سکے اور اگر یہ شخص پوری دنیا کو بھی فدیہ میں دیدے تو بھی وہ قبول نہ کیا جائے، یہی ہیں وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں کے سبب پھنس گئے ہیں، ان کو تو نہایت گرم پانی پینے کے لئے ہے اور ان کے کفر کے سبب دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وھو القاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ، یہ کلام مستانف ہے، اپنی مخلوق پر قہر و غلبہ کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے، ھُوَ ، مبتداء ہے القاھر اس کی خبر ہے، فوقَ ظرف ہے مستعلیاً محذوف کے متعلق ہے جو کہ حال ہے۔
قولہ : حَتّٰی اِذا جاء الخ یہ حفظ اعمال کی غایت ہے یعنی مدت حیات میں حفاظت کرتے ہیں موت تک۔
قولہ : المَلَائِکَۃ ای ملک الموت وَاَعُوَانہٗ ۔ قولہ : حین لفظ حین مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ تدعونَہٗ ، یُنجیکم کی ضمیر مفعولی سے حال ہے۔
قولہ : الظلمٰت والشدائد، اس اضافہ کا مقصد، ھذہ اسم اشارہ مؤنث کے مشارٌ الیہ کی تعیین ہے۔
قولہ : ھذا مبتداء ہے اور اَھْوَن و اَیْسَرُ ، معطوف علیہ یا معطوف مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : عَلَیھِم ذکریٰ ، مبتداء ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے اس کی خبر محذوف ہے۔
قولہ : بکفرھم اس سے اشارہ کردیا کہ بما کانوا یکفرون میں ما مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ لہٰذا عدم عائد کا اعتراض وارد نہیں ہوگا۔
تفسیر و تشریح
وَھُوَ الْقَاھِرُ فوقَ عِبَادِہٖ ، وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے، جب تک ان کو زندہ رکھنا منظور ہوتا ہے تو حفاظت کرنے والے فرشتے ان کی حفاظت کیلئے اور نگرانی اعمال کیلئے ساتھ رکھتا ہے جو ہر بندے کی ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے ہیں، وہ اپنے مفوضہ امور میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے۔
ثم رُدُّوا، اس کا عطف تَوَفَّتْہ پر ہے، رُدُّوا، ماضی مجہول جمع مذکر غائب ہے وہ واپس لائے گئے، رُدُّوا کی ضمیر کا مرجع بعض حضرات نے فرشتوں کو قرار دیا ہے یعنی روح قبض کرنے کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جاتے ہیں، اور بعض حضرات نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو قرار دیا ہے یعنی تمام لوگ حشر کے بعد اللہ رب العلمین کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائیگا، اور یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ فیصلے کے پورے اختیارات اسی کو ہیں۔
فائدہ : آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو ” رُسُل “ جمع کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والے فرشتے ایک سے زیادہ ہیں، اس کی توجیہ بعض مفسرین نے اس طرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے، ” اللہ یتوفی الانفسَ حین موتِھَا “ (الزمر) اللہ لوگوں کی موت کے وقت روح قبض کرلیتا ہے، اور بعض جگہ اس کی نسبت ایک فرشتہ ملک الموت کی طرف بھی کی گئی ہے ” قُل یَتَوفّٰکم مَلَکُ الموتِ الَّذِیْ وکل بکم “ (الم سجدہ) کہہ دو وہ فرشتہ موت کے وقت تمہاری روحیں قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے، اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے جیسا کہ بعض مقام پر ہے اسی طرح سورة نساء میں بھی ہے، اللہ کی طرف نسبت تو اس لحاٖظ سے ہے کہ وہی اصل آمر (حکم دینے والا) ہے اور متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ ملک الموت کے معاونین و مددگار بہت سے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ آخر میں اصل روح قبض کرنے والے اور آسمان کی طرف لیجانے والے وہی ہیں۔ (روح المعانی، ابن کثیر، فتح القدیر شوکانی) ۔ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورة الم سجدہ کی آیت سے اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن کریم میں جہاں جمع کا صیغہ آیا ہے تو وہاں ملک الموت کے اعوان انصار مراد ہوتے ہیں، اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتایا گیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَهُوَ﴾ ” اور وہ“ یعنی اللہ تعالیٰ ﴿الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ﴾” غالب ہے اپنے بندوں پر“ وہ ان پر اپنا ارادہ اور اپنی مشیت عامہ نافذ کرتا ہے۔ بندے کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر حرکت و سکون کے بھی مالک نیں۔ بایں ہمہ اس نے اپنے بندوں پر فرشتوں کو محافظ مقرر کر کرھا ہے اور بندے پر جو عمل کرتے ہیں یہ فرشتے اس کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴾(الانفطار :82؍ 10۔12) ” اور تم پر نگہبان مقرر ہیں باعزت تمہاری باتوں کو لکھنے والے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔“ ارشاد فرماتا ہے ﴿عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾(ق :5؍ 17، 18) ” اس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ جب کوئی بات کہتا ہے تو ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔“ یہ ان کی زندگی کے احوال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حفاظت ہے۔
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ﴾” یہاں تک کہ جب آ پہنچے تم میں سے کسی کو موت تو قبضے میں لے لیتے ہیں اس کو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے‘‘ یعنی وہ فرشتے جو روح قبض کرنے پر مقرر ہیں ﴿وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴾ ” اور وہ کوتاہی نہیں کرتے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قضا و قدر سے جو مدت مقرر کردی ہے اور اس میں ایک گھڑی کا اضافہ کرسکتے ہیں نہ ایک گھڑی کی کمی، وہ صرف مکتوب الٰہی اور تقدیرربانی کو نافذ کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
wohi apney bandon per mukammal iqtidar rakhta hai , aur tumharay liye nigehban ( farishtay ) bhejta hai , yahan tak kay jab tum mein say kissi ki moat ka waqt aajata hai to humaray bhejay huye farishtay uss ko poora poora wasool kerletay hain , aur woh zara bhi kotahi nahi kertay .