فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایان نہیں کہ یہاں غرور کرے۔ پس نکل جا \& تو ذلیل ہے۔ قال فاھبط منھا، منھا کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت کو قرار دیا ہے اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوے اعلی میں سے حاصل تھا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تکبر کرنے والا احترام و تعظیم کا نہیں ذلت و خواری کا مستحق ہے۔
English Sahih:
[Allah] said, "Descend from it [i.e., Paradise], for it is not for you to be arrogant therein. So get out; indeed, you are of the debased."
فرمایا، "اچھا تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے نکل جا کہ در حقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں"
2 Ahmed Raza Khan
فرمایا تو یہاں سے اُ تر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں
3 Ahmed Ali
کہاتو یہاں سے اتر جا تجھے یہ لائق نہیں کہ یہاں تکبر کرے پس نکل جا بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے
4 Ahsanul Bayan
حق تعالٰی نے فرمایا تو آسمان سے اتر (١) تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ (۲)
١٣۔ ١ مِنْھَا کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت قرار دیا اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوت اعلٰی میں اسے حاصل تھا۔ فاضل مترجم نے اسی دوسرے مفہوم کے مطابق آسان ترجمہ کیا ہے۔ نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے (٢) ١٣۔٢ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تکبر کرنے والا احترام و تعظیم کا نہیں، ذلت اور خواری کا مستحق ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
فرمایا تو (بہشت سے) اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے پس نکل جا۔ تو ذلیل ہے
6 Muhammad Junagarhi
حق تعالیٰ نے فرمایا آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں ره کر تکبر کرے سو نکل بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ارشاد ہوا۔ تو پھر تو یہاں سے نیچے اتر جا۔ کیونکہ تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو یہاں رہ کر تکبر و غرور کرے۔ بس یہاں سے نکل جا۔ یقینا تو ذلیلوں میں سے ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
فرمایا تو یہاں سے اتر جا تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں غرور سے کام لے -نکل جا کہ تو ذلیل لوگوں میں ہے
9 Tahir ul Qadri
ارشاد ہوا: پس تو یہاں سے اتر جا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو یہاں تکّبر کرے پس (میری بارگاہ سے) نکل جا بیشک تو ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہے،
10 Tafsir as-Saadi
پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ فَاهْبِطْ مِنْهَا ﴾ ” تو اس سے اترجا۔“ یعنی جنت سے اتر جا ﴿فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا﴾ ” تیرے یہ شایاں نہیں کہ تو یہاں (جنت میں) رہ کر تکبر کرے“ کیونکہ یہ طیب اور طاہر لوگوں کا گھر ہے، پس یہ جنت اللہ تعالیٰ کی بدترین اور خبیث ترین مخلوق کے لائق نہیں۔ ﴿ فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ ﴾ ” پس نکل جا تو ذلیل ہے۔“ یعنی تو حقیر ترین اور ذلیل ترین مخلوق ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے تکبر اور خود پسندی پر اہانت اور ذلت کی سزا دی۔ جب اللہ کے دشمن نے اللہ تعالیٰ کے سامنے، آدم اور اولاد آدم کے ساتھ عداوت کا اعلان کیا، تو اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تاکہ وہ مقدور بھر اولاد آدم کو گمراہ کرسکے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کون اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے اور کون اس کے دشمن کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے دی اور فرمایا : ﴿ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ﴾ ” تجھ کو مہلت دی گئی“
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney kaha : acha to yahan say neechay utar , kiyonkay tujhay yeh haq nahi phonchta kay yahan takabbur keray . abb nikal jaa , yaqeenan to zaleelon mein say hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
نافرمانی کی سزا ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں۔ بعض نے کہا ہے (فیھا) کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کردیا گیا۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے۔ وہ سریع الحساب ہے۔