الاعراف آية ۹۴
وَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِىْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِىٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَأْسَاۤءِ وَالضَّرَّاۤءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ
طاہر القادری:
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو (نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ آہ و زاری کریں،
English Sahih:
And We sent to no city a prophet [who was denied] except that We seized its people with poverty and hardship that they might humble themselves [to Allah].
1 Abul A'ala Maududi
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں
2 Ahmed Raza Khan
اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا کہ وہ کسی طرح زاری کریں
3 Ahmed Ali
او رہم نے کسی بستی میں کوئی پیغمبرنہیں بھیجا مگر وہاں کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ عاجزی کریں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ گڑگڑائیں (١)
٩٤۔١ مطلب یہ کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا انہوں اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کر دیا جس سے مقصد یہ تھا کہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگا میں گڑگڑائیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو (جو ایمان نہ لائے) دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو، تاکہ وه گڑ گڑائیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے کبھی کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے باشندوں کو (ان کی تکذیب پر پہلے) سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ تضرع و زاری کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے جب بھی کسی قریہ میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو جو ایمان نہ لائے دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔
آیت نمبر ٩٤ تا ٩٩
ترجمہ : اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور انہوں نے اس کی تکذیب ہو مگر یہ کہ ہم نے اس بستی کے رہنے والوں کو فقر کی سختی اور مرض کی تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ وہ عاجزی کرنے لگیں اور ایمان لے آئیں، پھر ہم نے ان کی بدحالی عذاب کو خوشحالی غنیٰ اور صحت سے بدل دیا یہاں تک کہ ان کو خوب ترقی ہوئی (یعنی ان کی جان و مال میں کثرت ہوئی) اور نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے کہنے لگے جس طرح ہم پر آئے ہیں ہمارے اسلاف پر بھی اچھے برے دن آتے ہی رہے ہیں زمانہ کا یہی دستور ہے، یہ اللہ کی جانب سے سزا نہیں ہے لہٰذا جس مذہب پر تم ہو اسی پر قائم رہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا ان کو پہلے سے اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی اور اگر تکذیب کرنے والے بستی کے لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آتے اور کفر و معاصی سے اجتناب کرتے تو ہم ان پر آسمان کے بارش کی صورت میں اور زمین کے نباتات (روئیدگی) کی شکل میں برکتوں کے دروازے کھول دیتے (لفتحنا) تخفیف و تشدید کے ساتھ ہے، مگر انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کو گرفت میں لے لیا، کیا پھر بھی ان بستیوں کے تکذیب کرنے والے باشندے اس بات سے مامون ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر رات میں آجائے کہ وہ سوئے ہوں (یعنی) غافل ہوں اور کیا ان بستیوں کے باشندے اس بات سے بےفکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آجائے جبکہ وہ کھیلوں میں مشغول ہوں کیا یہ لوگ اللہ کی چال (یعنی) نعمت کے ذریعہ بتدریج پکڑ اور اچانک پکڑ سے بےخوف ہوگئے ہیں، سو اللہ کی چال سے بجز اس کے کوئی بےخوف نہیں ہوا کہ جس کی شامت آگئی ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَمَا اَرْسَلْنَا فِی قَرْیَۃٍ ، یہ جملہ مستانفہ ہے، مخصوص امتوں کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہاں سے اللہ کی عام عادت اور عام دستور کو بیان کیا جار ہا ہے۔
قولہ : یضَّرَّعون، یہ اصل میں تاء کو ضاد سے بدل کر ضاد کو ضاد میں ادغام کردیا، یضَرَّعون ہوگیا۔
قولہ : اِسْتِدْرَاجَہٗ ایاھم استدْراج کسی کان کو بتدریج کرنا، مکر کے معنی دھوکا، فریب کے ہیں اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں ہے یہاں مکر سے استدراج بالاستعارہ مراد ہے یعنی بتدریج نعمت و صحت کے ذریعہ ڈھیل دیکر گرفت میں لینا کہ گرفتہ کو احساس نہ ہو۔ قولہ : عَفَوْا، (ن) سے عَفُوٌّ، بڑھانا ماضی جمع مذکر غائب، اس کے معنی کم ہونے کے بھی آتے ہیں یہ اضداد میں سے ہے عفَوْا، کثروا نموا فی انفسھم واموالھم، یقال عفا النبات، وعفا الشحم والوبر اذا کثرت ویقال، عفا، کثر، وعفا، درسَ ھو من اسماء الاضداد۔ (اعراب القرآن للدریش) ۔ قولہ : الباس اور بؤسٌ فقر و فاقہ، ضرَّ اور ضرّاء، جسمانی تکلیف، مرض، حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے یہی معنی منقول ہیں۔
تفسیر و تشریح
سابقہ آیات میں پانچ حضرات انبیاء کے واقعات کا بیان ہوا ہے، قرآن کریم کا مقصد واقعات بیان کرنے سے کچھ قصہ خوانی نہیں ہوتا بلکہ واقعہ سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کو عبدت و نصیحت کیلئے بیان کرنا ہوتا ہے، سابق میں ایک ایک نبی کا الگ الگ واقعہ اور اس کا نتیجہ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے وہ یہ کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کیلئے سازگار بنانے کیلئے تنبیہات و ترغیبات سے کام لیا گیا یعنی ان کو فقر و قافہ نیز مصائب و آفات، میں مبتلا کیا گیا، تاکہ ان کا دل نرم پڑے اور شیخی وتکبر سے اکڑی ہوئی گردنیں کچھ نرم پڑیں، ان کا غرور طاقت اور نشہ دولت دور ہو، جب اس سازگار ماحول میں بھی ان کا دل قبول حق کی طرف مائل نہیں ہوتا، تو ان کو خوشحالی کے فتنہ میں گرفتار کیا جاتا ہے یہیں سے ان کی بربادی کی تمہید شروع ہوتی ہے، ان کی تنگدستی کو فراخ دستی سے بدحالی کو خوشحالی سے بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کریں، مگر جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور ان کے کج فہم رہنما تاریخ کا یہ احمقانہ تصور ذہن میں بٹھا دیتے ہیں کہ حالات کا اتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ بگاڑ کسی قادر و حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ خارجی اور داخلی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی برے دن آتے ہی رہتے ہیں، لہٰذا مصائب و آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کرکے خدا کے آگے زاری و تضرع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسیانی کمزوری کے کچھ نہیں یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں کھینا ہے، لایزال البلاء بالمؤمن حتی یخرج نقیاً من ذنوبہٖ ، والمنافق مَثَلہٗ کمثل الحمار لایدری فیما رَبَطَہٗ اھلہ ولا فیمَ اَرْسلوہُ ، (ترمذی کتاب الزھد ماجاء فی الصبر علی البلاء المستدرک للحاکم ٤٩٧) ، یعنی مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ صاف ہو کر نکلتا ہے لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے کھول دیا، پس جب کسی قوم کا حال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے اور نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے تو ایسی قوم کسی حال میں اصلاح قبول نہیں کرتی ہے۔
آپ کے زمانہ کے حالات اور سورة اعراف : یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا، اور شامت زدہ قوموں کے جس طرز عمل کی طرف اشار فرمایا گیا ہے ٹھیک وہی طرز عمل سورة اعراف کے نزول کے زمانہ میں اہل مکہ سے ظاہر ہو رہا تھا، حدیث میں عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس (رض) دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعاء کی کہ خدایا، یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں جیسا ھفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد فرما چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت قحط میں مبتلا کردیا، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے چمڑے ہڈیاں تک کھا گئے آخر کار مکہ کے لوگوں نے جن میں ابوسفیان پیش پیش تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمارے لئے خدا سے دعاء کیجئے، آپ نے دعاء فرمائی اور آپ کی دعاء کی برکت سے اللہ نے وہ برا وقت ٹال دیا اور بھلے دن آئے تو ان لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل کچھ پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرار قوم نے یہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کردیا کہ میاں یہ تو زمانہ کا اتار چڑھاؤ ہے پہلے بھی آخر قحط آتے ہی تھے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس مرتبہ ذرا لمبا قحط پڑگیا لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کگا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھندے میں نہ پھنس جانا یہ باتیں اس زمانہ میں ہو رہی تھیں جب سورة اعراف نازل ہو رہی تھی، اس لئے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ﴾ ” اور نہیں بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی“ جو انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتا اور جن برائیوں میں وہ مبتلا ہیں، ان برائیوں سے وہ ان کو روکتا۔ مگر وہ اس کی اطاعت نہ کرتے ﴿إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا ﴾ ” مگر ہم مواخذہ کرتے وہاں کے لوگوں کا“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا۔ ﴿بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ﴾ ” سختی اور تکلیف میں“ یعنی محتاجی، مریض اور دیگر مصائب کے ذریعے سے۔ ﴿لَعَلَّهُمْ ﴾”شایدکہ وہ “ یعنی جب ان پر مصیبت نازل ہوتوشاید ان کے نفس جھک جائیں۔ ﴿يَضَّرَّعُونَ ﴾”’ عاجزی اور زاری کریں۔“ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے گڑ گڑائیں اور حق کے سامنے فروتنی کا اظہار کریں۔ ﴿ثُمَّ﴾ پھر جب ان کو ابتلا نے کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ اپنے تکبر پر جمے رہے اور اپنی سرکشی میں پڑھتے ہی چلے گئے
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney jiss kissi basti mein koi payghumber bheja , uss mein rehney walon ko bad-haali aur takleefon mein girftaar zaroor kiya , takay woh aajzi ikhtiyar keren .
12 Tafsir Ibn Kathir
ادوارماضی
اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں، فقیری، مفلسی، تنگی۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقہ دیا۔ سختی کو نرمی سے، برائی کو بھلائی سے، بیماری کو تندرستی سے، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہوجائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں۔ مصیبت پر صبر، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کیلئے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے، انجام بہتر ہوتا ہے، سکھ پر شکر کرتا ہے، نیکیاں پاتا ہے، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہوجاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہوجاتا ہے۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ (اوکمال قال) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آپکڑا یہ محض بیخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے۔