Skip to main content

وَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِىْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِىٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَأْسَاۤءِ وَالضَّرَّاۤءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ

And not
وَمَآ
اور نہیں
We sent
أَرْسَلْنَا
بھیجا ہم نے
in
فِى
میں
a city
قَرْيَةٍ
کسی بستی
[of]
مِّن
سے
any Prophet
نَّبِىٍّ
کوئی نبی
except
إِلَّآ
مگر
We seized
أَخَذْنَآ
پکڑ لیا ہم نے
its people
أَهْلَهَا
اس کے رہنے والوں کو
with adversity
بِٱلْبَأْسَآءِ
ساتھ سختی کے
and hardship
وَٱلضَّرَّآءِ
اور تکلیف کے
so that they may
لَعَلَّهُمْ
شاید کہ وہ
(become) humble
يَضَّرَّعُونَ
وہ گڑگڑائیں۔ عاجزی کریں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں

English Sahih:

And We sent to no city a prophet [who was denied] except that We seized its people with poverty and hardship that they might humble themselves [to Allah].

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا کہ وہ کسی طرح زاری کریں

احمد علی Ahmed Ali

او رہم نے کسی بستی میں کوئی پیغمبرنہیں بھیجا مگر وہاں کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ عاجزی کریں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہوتا کہ گڑگڑائیں (١)

٩٤۔١ مطلب یہ کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا انہوں اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کر دیا جس سے مقصد یہ تھا کہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگا میں گڑگڑائیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو (جو ایمان نہ لائے) دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو، تاکہ وه گڑ گڑائیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم نے کبھی کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے باشندوں کو (ان کی تکذیب پر پہلے) سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ تضرع و زاری کریں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے جب بھی کسی قریہ میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو (نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ آہ و زاری کریں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ادوارماضی
اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں، فقیری، مفلسی، تنگی۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں۔ مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقہ دیا۔ سختی کو نرمی سے، برائی کو بھلائی سے، بیماری کو تندرستی سے، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہوجائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا، جیسے جیسے بڑھے ویسے ویسے کفر میں پھنسے، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا، الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقع ٹال دیئے۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں۔ مصیبت پر صبر، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مومن پر تعجب ہے اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کیلئے بہتر ہوتی ہیں۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے، انجام بہتر ہوتا ہے، سکھ پر شکر کرتا ہے، نیکیاں پاتا ہے، پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہوجاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہوجاتا ہے۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ (اوکمال قال) پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آپکڑا یہ محض بیخبر تھے اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اچانک موت مومن کے لئے رحمت ہے اور کافروں کے لئے حسرت ہے۔