النازعات آية ۲۷
ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۤءُ ۚ بَنٰٮهَا ۗ
طاہر القادری:
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اس نے بنایا،
English Sahih:
Are you a more difficult creation or is the heaven? He [i.e., Allah] constructed it.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا
2 Ahmed Raza Khan
کیا تمہاری سمجھ کے مطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا اللہ نے اسے بنایا،
3 Ahmed Ali
کیا تمہارا بنانا بڑی بات ہے یا آسمان کا جس کو ہم نے بنایا ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ نے اسے بنایا۔
٢٧۔١ یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تمہارا پیدا کرنا زیاده دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم لوگوں کا (دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے؟ یا آسمان کا؟ اللہ نے اس کو بنایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تمہاری خلقت آسمان بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے کہ اس نے آسمان کو بنایا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا ؟ اسی نے اس کو بنایا
ترجمہ : اے بعث کے منکرو ! کیا تمہاری تخلیق زیادہ دشوار ہے یا آسمان کی ؟ (اانتم) دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کو الف سے بدل کر اور ثانی کی تسہیل کے ساتھ اور مسہلہ اور دوسرے کے درمیان الف داخل کر کے اور ترک ادخال کے ساتھ، اللہ نے اس کو بنایا یہ آسمان کی تخلیق کی کیفیت کا بیان ہے، اس کو بلند وبالا بنایا یہ کیفیت بناء کا بیان ہے یعنی اس کی بلندی کو اونچا کیا، کہا گیا ہے کہ رفع سمکھا سے مراد رفع سقفھا ہے، یعنی اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی، پھر اس کو ٹھیک ٹھاک کیا (یعنی) اس کو بلا نقص کے سپاٹ بنایا، اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کا دن نکالا یعنی اس کے آفتاب کا نور ظاہر کیا، اور لیل کی اضافت آسمان کی جانب اس لئے کی کہ رات اس کا سایہ ہے اور شمس کی اضافت آسمان کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ شمس اس کا چراغ ہے، اور اس کے بعد زمین کو بچھایا وہ بغیر بچھائے اس کی تخلیق خلق سماء سے پہلے ہی ہوچکی تھی، اور اس سے اس کا پانی نکالا اس کے چشموں کو جاری کر کے (اخرج) قد کے اضمار کے ساتھ حال ہے مخرجا کے معنی ہیں، اور اس کے چارے کو نکالا یعنی وہ جس کو مویشی کھاتے ہیں خواہ درخت کے قبیل سے ہو یا گھاس کے، اور وہ چیز پیدا کی جس کو انسان کھاتے ہیں خواہ غلہ ہو یا پھل، اور انسانی خوراک پر مرعیٰ کا اطلاق بطور استعارہ (مجاز) کے ہے، اور پہاڑوں کو اس پر قائم کردیا یعنی زمین پر ثبت کردیا، تاکہ اس کا اضطراب ختم ہوجائے، یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کیلئے ہیں (متاعا) فعل مقدر کا مفعول لہٗ ہے ای فعل ذل متعۃ یا متاعا بمعنی تمتیعا مصدر ہے (اس کا بھی فعل متعنا مقدر ہوگا ای متعنا تمتیعا) انعام، نعم کی جمع ہے اور انعام اونٹ، گائے اور بکری کو کہتے ہیں، سو جب ہنگامہ ٔ عظیم آوے گا یعنی نفخہ ٔ ثانیہ، یعنی جس دن انسان دنیا میں اپنے کئے ہوئے خیر و شر کو یاد کرے گا (یوم) اذا سے بدل ہے اور ہر دیکھنے والے کے سامنے جہنم یعنی جلا دینے والی آگ ظاہر کی جائے گی اور اذا کا جواب فاما من طغی ہے تو جس شخص نے سرکشی یعنی کفر کیا اور خواہشات کی اتباع کی وجہ سے دنیوی زندگی کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے، ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس امارہ کو شہوتوں کی اتباع کے ذریعہ ہلاک کرنے والی خاہشات سے روکا ہوگا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہی ہے، اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان دوزخ میں ہوگا اور فرمانبردار جنت میں، کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں یعنی یہ کہ اس کا وقوع اور قیام کب ہوگا ؟ اس کے بیان کرنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا تعلق، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کا علم نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو بیان کریں، اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے (یعنی) وقوع قیامت کے علم کی انتہا (اسی کی طرف ہے) یعنی اللہ کے سوا اس کو کوئی نہیں جانتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ڈرانا صرف اس شخص کو فائدہ دے گا جو اس سے ڈرے گا، جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے، تو ایسا معلوم ہوگا کہ وہ اپنی قبروں میں صرف دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر کی مقدار رہے ہیں یعنی ایک دن کی شام یا صبح کی مقدار اور ضحی کی اضافت عشیۃ کی جانب اس وجہ سے ہے کہ ان کے درمیان تعلق ہے، اس لئے کہ دونوں دن کے کنارے ہیں اور اضافت کو کلمہ ٔ فاصلہ (او) کے واقع ہونے نے حسین بنادیا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ا انتم یہ استفہام منکرین بعث کی توبیخ کے لئے ہے۔
قولہ : بتحقیق الھمزتین، ای مع ادخال الالف و ترکہ، پہلا ہمزہ ہمیشہ محقق ہی ہوتا ہے تسہیل و تحقیق صرف دوسرے میں ہوتی ہے، لہٰذا دونوں ہمزوں کے محقق ہونے کی صورت میں ادخال الف اور ترک ادخال، یہ قرأتیں ہوئیں اور دوسرے ہمزہ کے مسہلہ ہونے کی صورت میں بھی ادخال الف اور ترک ادخال، دو یہ ہوئیں، اور دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر ایک قرأت یہ ہوئی، کل پانچ قرأتیں ہوگئیں۔
قولہ : اشد خلقا اس سے اشارہ کردیا ہے کہ ام السماء مبتدء ہے اور اشد خلقا اس کی خبر محذوف ہے۔
قولہ : والارض، الارض اشتغال کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : کانت مخلوقۃ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ سورة فصلت میں ہے کہ ابتداء تخلیق، ارض سے ہوئی اس کے بعد آسمان کی تخلیق ہوئی اور یہاں اس کا عکس ہے جو تعارض ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ زمین کے مادہ کی تخلیق تو تخلیق آسمان سے مقدم ہی ہے مگر اس کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔
قولہ : واطلاق المرعی علیہ استعارۃ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ انسان کی غذا پر چارے کا اطلاق کیا گیا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے، اس لئے کہ چارا جانور کی خوراک کو کہا جاتا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ اطلاق بطور مجاز کے ہے یعنی اس سے مطلقاً ماکول مراد ہے، جس میں انسانی اور حیوانی دونوں غذائیں شامل ہیں۔
قولہ : و جواب اذا فاما من طغی الخ یعنی اذا کا جواب فاما من طغی ہے، اس میں قدرے تسہل ہے، اس لئے کہ فاما من طغی یہ دنیا میں لوگوں کی حالت کا بیان ہے اور فاذا جاءت الطامۃ الکبری آخرت میں لوگوں کی حالت کا بیان ہے جس کی وجہ سے جزاء اور شرط دو الگ الگ مقاموں میں ہوں گی، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اذا کا جواب محذوف مانا جائے جیسا کہ دیگر مفسرین نے مانا ہے، اور وہ یہ ہے ” دخل اھل النار النار واھل الجنۃ الجنۃ “
قولہ : ماواہ اس میں اشارہ ہے کہھی الماوی میں الف لام ضمیر کے عوض میں ہے جو کہ ” من طغی “ کی جانب لوٹ رہی ہے ” اذا “ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ عاصی دوزخ میں مطیع جنت میں ہوں گے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اذا کا جواب فاما من طغی کو قرار دینے کے بجئے محذوف مانا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، جیسا کہ سابق میں اشارہ کیا گیا۔ (صاوی)
قولہ : فیم انت، فیم اصل میں فیما تھا قاعدہ معروفہ کی وجہ سے الف کو حذف کردیا گیا، اور فیم خبر مقدم ہے اور انت مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : وصح اضافۃ الضحیٰ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ رات کے لئے ضحٰی نہیں ہوتا ضحٰی تو دن کے لئے ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ضحٰی کی اضافت عشیۃ کی طرف لوٹنے والی ضمیر کی طرف کی گئی ہے ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ عشیۃ اور ضحیٰ دونوں یوم کے اطراف (کنارے) ہیں لہٰذا ان دونوں کے درمیان ربط وتعلق ہے، اسی وجہ سے ایک کی اضافت دوسرے کی طرف درست ہے۔
قولہ : وحسن الاضافۃ و قوع الکلمۃ فاصلۃ مطلب یہ ہے کہ اس ادنی مناسبت کی وجہ سے اضافت میں فواصل آیات کی رعایات نے حسن پیدا کردیا۔
تفسیر و تشریح
ا انتم اشد خلقا ام السماء بنھا، یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصد زجر و توبیخ ہے، مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو بڑا ہی امر محال سمجھتے ہو اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو ہمارے جسم کے پراگندہ اور منتشر اجزاء دوبارہ جمع کردیئے جائیں ؟ اور ان میں جان ڈال دی جائے ؟ کبھی تم اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اس عظیم کائنات کا بنانا زیادہ مشکل کام ہے یا تمہارا دوبارہ پیدا کرنا ؟ جس خدا کے لئے اتنی بڑی اور عظیم کائنات کو پیدا کردینا کوئی مشکل کام نہیں، تو اس کے لئے آخر تمہارا دوبارہ پہلی شکل میں پیدا کردینا کیوں مشکل ہے ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالی، آخرت کو اور اجساد کے دوبارہ زندہ کرنے کو بعید سمجھنے والوں کے لیے واضح دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ءَاَنْتُمْ ﴾ اے انسانو ! کیا تمہارا ﴿ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ﴾ ” بنانا زیادہ شدید ہے یا آسمان کا؟ “ جو بڑے بڑے اجرام، طاقت ور مخلوق اور انتہائی بلندیوں والا ہے ﴿بَنٰیہَا﴾ اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( insano ! ) kiya tumhen peda kerna ziyada mushkil hai , ya aasman ko-? uss ko Allah ney banaya hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
موت وحیات کی سرگزشت
جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57) 40 ۔ غافر :57) یعنی زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81) 36 ۔ يس :81) کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کردیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے، آسمان کو اس نے بنایا یعنی بلند وبالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے، رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا۔ سورة حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے، ابن عباس اور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بیحد مہربان ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے اللہ تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا آگ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا ہاں پانی، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا ہوا، پوچھا پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے ؟ فرمایا ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی، ابن جریر میں حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہے، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا کھیتیاں اور درخت اگانا پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو، یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لئے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لئے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں۔