وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا ۗ اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے
English Sahih:
And let not those who disbelieve think they will escape. Indeed, they will not cause failure [to Allah].
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور ہرگز کا فر اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ وہ ہاتھ سے نکل گئے بیشک وہ عاجز نہیں کرتے
احمد علی Ahmed Ali
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں بے شک وہ ہمیں ہر گز عاجز نہ کر سکیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے۔ یقیناً وہ عاجز نہیں کر سکتے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وه بھاگ نکلے۔ یقیناً وه عاجز نہیں کر سکتے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے گئے (بچ گئے)۔ یقینا وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خبردار کافروں کو یہ خیال نہ ہو کہ وہ آگے بڑھ گئے وہ کبھی مسلمانوں کو عاجز نہیں کرسکتے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور کافر لوگ اس گمان میں ہرگز نہ رہیں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے۔ بیشک وہ (ہمیں) عاجز نہیں کر سکتے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو۔ مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر وثواب پانے والے، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہوجائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابوذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے ؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہر صبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ، فارس اور محلوں کے شیاطین۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بدنصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ\010\01ۚ ) 9 ۔ التوبہ ;101) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ\026\01 ) 2 ۔ البقرة ;261) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے۔