الانفال آية ۵۹
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا ۗ اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ
طاہر القادری:
اور کافر لوگ اس گمان میں ہرگز نہ رہیں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے۔ بیشک وہ (ہمیں) عاجز نہیں کر سکتے،
English Sahih:
And let not those who disbelieve think they will escape. Indeed, they will not cause failure [to Allah].
1 Abul A'ala Maududi
منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے
2 Ahmed Raza Khan
اور ہرگز کا فر اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ وہ ہاتھ سے نکل گئے بیشک وہ عاجز نہیں کرتے
3 Ahmed Ali
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں بے شک وہ ہمیں ہر گز عاجز نہ کر سکیں گے
4 Ahsanul Bayan
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے۔ یقیناً وہ عاجز نہیں کر سکتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے
6 Muhammad Junagarhi
کافر یہ خیال نہ کریں کہ وه بھاگ نکلے۔ یقیناً وه عاجز نہیں کر سکتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے گئے (بچ گئے)۔ یقینا وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خبردار کافروں کو یہ خیال نہ ہو کہ وہ آگے بڑھ گئے وہ کبھی مسلمانوں کو عاجز نہیں کرسکتے
9 Tafsir Jalalayn
اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔
آیت نمبر ٥٩ تا ٦٤
ترجمہ : آئندہ آیت ان (مشرکین) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے یوم بدر میں راہ فرار اختیار کی تھی، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ یہ کافر اللہ ( کی پکڑ) سے بچ کر نکل جائیں گے، یہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ اس سے بچکر نکل سکتے ہیں، اور ایک قراءت میں ( لا یحسَبَنَّ ) یاء تحتانیہ کے ساتھ (یحسَبَنَّ ) کا مفعول اول محذوف ہے اور وہ اَنفُسَھُمْ ، ہے اور ایک قراءت میں اَنَّھم ہمزہ کے فتحہ اور لام کے ساتھ ہے ای لاِ نَّھُمْ ، اور ان سے جنگ کے لئے مقدور بھر قوت مہیا رکھو، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تیر اندازی ہے (رواہ مسلم) اور (تیار) بندھے رہنے والے گھوڑے، (رباط) مصدر ہے بمعنی اللہ کے راستہ میں محبوس رکھنا، (تاکہ) تم اس کے ذریعہ اللہ کے اور اپنے دشمن کفار مکہ کو خوف زدہ کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی یعنی ان کے غیر کو، اور وہ منافقین اور یہود ہیں، جن کو تم نہیں جانتے، اللہ ان کو جانتا ہے اور جو کچھ تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے تم کو اس کا پورا پورا اجر دیا جا ئیگا اور تمہارے اوپر ظلم نہ کیا جائیگا، کہ اس اجر میں سے کچھ کم دیا جائے، اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہوجائے سِلم، سین کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ، بمعنی صلح، تو آپ بھی اس کے لئے آمادہ ہوجایئے، اور ان سے معاہدہ کرلیجئے، ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ حکم آیت سیف سے منسوخ ہے، اور مجاہد نے کہا یہ آیت اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہے، اس لئے کہ یہ بنی قریظہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اللہ پر بھروسہ کرو یقینا وہ باتوں کا سننے والا (اور) کاموں کا جاننے والا ہے اور اگر وہ (صلح سے) دھوکے کا ارادہ رکھتے ہوں تاکہ آپ کے مقابلہ کی تیاری کرسکیں، تو یقینا تمہارے لئے اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی مدد اور مومنین کے ذریعہ آپ کی تائید کی اور عداوت کے بعد ان کے دلوں کو جوڑ دیا، اور اگر تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے قلوب کو نہیں جوڑ سکتے تھے لیکن اللہ نے اپنی قدرت سے ان کے دلالوں کو جوڑ دیا بیشک وہ اپنے حکم پر غالب باحکمت ہے کوئی شئی اس کے حکم سے خارج نہیں اے نبی تمہارے لئے اور تمہاری اتباع کر نیوالے مومنین کیلئے اللہ کافی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَفْلَتَ ، (افعال) رہا ہونا، چھوڑنا، راہ فرار اختیار کرنا، اِنفلاة البطن، پیٹ چلنا (اسہال) انفلات الریح، ہوا خارج ہونا، انفلت الشئی فلتَةً ، ای نغتةً ، اچانک نکلنا۔
قولہ : لاتحْسَبَنَّ ، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے متعدی بدومفعول ہے اول الذین کفروا ہے اور ثانی سَبَقوا جملہ ہو کر ہے، اللہ، سنقوا کا مفعول ہے، قرینہ مقام کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے جس کو مفسرّ علاّم نے ظاہر کردیا ہے، اور ایک قرأت میں تحسَبَنَّ ، یاء کے ساتھ ہے اس صورت میں یَحْسَبَنَّ کا مفعول اول محذوف ہوگا، ای لا یَحْسَنَنَّ الذین کفروا انفسھم سابقین اللہ، ایک قراءت میں اَنَّھم، ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے اس صورت میں لام مقدر ہوگا ای لأِ نّھم .
قولہ : مصدر، رِباط الخیل میں، رِباط مصدر بمعنی مفعول ہے ای الخیل المربوط، جہاد کے لئے تیار بندھے رہنے والے گھوڑے، رباط کا عطف مصدر علی المصدر ہے۔
قولہ : فَاجْنَحْ لَھَا .
سوال : لَھَا کی ضمیر سِلْم کی طرف راجع ہے جو مذکر ہے، اور ضمیر مؤنث ہے ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : سِلْم، کی نقیض یعنی حرب کا اعتبار کرتے ہوئے ضمیر کو مؤنث لایا گیا ہے حَرْب مؤنث سماعی ہے۔
قولہ : کَافِیَکَ ، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ حَسْبُکَ اللہ، میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آرہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
جواب : مصدر بمعنی اسم فاعل ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں، مفسرّ علاّم نے حَسبُک کی تفسیر کا فیک سے کر کت اشارہ کردیا کہ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے۔
قولہ : الْاِ حْنُ الاِ حْنَةُ ، کی جمع ہے پر شیدہ دشمنی، کینہ، اَحِنَ اَحْنًا (س) پوشیدہ دشمنی رکھنا۔
تفسیر وتشریح
وَلا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کفروا الخ، اس آیت میں اس واقعاتی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اہل کفر تو تمہارے اور تمہارے دین کے دشمن رہیں گے ہی، حق و باطل، کفر و ایمان کا معرکہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے، لہذا تم اس سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ تیار رہو، اس کی طرف سے ہرگز غفلت نہ برتو، اور اپنے پاس وہ سامان رکھو جس سے ان پر ہیبت طاری ہوتی رہے اور ان کے دل دہلتے رہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک مستقل فوج ہمہ وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کاروائی کرسکو، یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ و سامانِ رسد جمع کرنے کی کوشش کرو اور اس دوران دشمن اپنا کام کر جائے۔
دشمن کے مقابلے کی تیاری : وَاَعِدّ والَھُمْ مَا اسْتَطعتم مِنْ قوةٍ الخ میں سامانِ حرب و ضرب سے اپنی مقدور بھر ہر وقت تیار رہنے کی کھلی تاکید بلکہ حکم ہے آیت میں، قوة، کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ لفظ ہر قسم کی قوة کو عام ہے خواہ عَدَدِی قوت ہو یا آلات حرب کی، یہاں تک کہ بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ بڑھے ہوئے ناخن بھی اس میں داخل ہیں (ماجدی) اگرچہ حدیث شریف میں قوة کی تفسیر تیر اندازی سے کی گئی ہے۔ (صیح مسلم کتاب الا مارہ باب فضل الرمی والحث علیہ)
چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تیر اندازی ایک جنگی ہتھیار اور نہایت اہم فن تھا جس طرح اس دور میں گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے لیکن اس ترقی یافتہ اور مشینی و سائنسی دور میں ان کی وہ افادیت نہیں رہی اسلئے وَاَعِدُّ والھم مَا اسْتطعتم، کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیار مثلاً میزائیل، راکٹ، ٹینک، جنگی جہاز اور بم کی تیاری ضروری ہے۔
صاحب روح المعانی کی صراحت : صاحب روح المعانی نے اس آیت کے تحت بندوق کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے اگر مرحوم آج بقید حیات ہوتے تو مشینی گنوں اور طیاروں اور ٹینکوں جنگی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں وغیرہ کا عجب نہیں کہ ذکر کردیتے، ایسی ہی تصریح رشید رضامصری کے یہاں ملتی ہے۔
واطلاق الرمی فی الحدیث یشمل کل مایرمیٰ بہ العدو من سھمٍ او قذیفةِ منجنیق اَوْ طیارةٍ او بندوقیة او مِدْفع و غیر ذلک، واِن لم یکن ھذا معروفاً فی عصرہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فان الفظ یشتملہ . (المنار)
فالوا جب علی المسلمین فی ھذا العصر بنص القرآن صنع الندافع بانواعِھاوالبنادق والدبابات والطیارات وانشائِ السُفُن الحربیةِ بانوا عھا .(المنار)
آیت کا خلاصہ : آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو ہمہ وقتی تیاری دشمنوں سے مقابلہ کی رکھنی چاہیے، اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مذکورہ تمام سازو سامان عملاً کیونکر ممکن ہے ؟ جب تک کہ خود مسلمانوں کے پاس انجینیر اور دیگر ماہرین فن نہ ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے اور اس کی آیات کو جھٹلانے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بازی لے گئے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گھات میں ہے اور کفار کو مہلت دینے اور ان کو سزا دینے میں عجلت نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پنہاں ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کی آزمائش، ان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رضا کو زادراہ بنانا جس کے ذریعے سے وہ مقامات بلند پر پہنچتے ہیں اور ان کا اپنے آپ کو ان اخلاق واوصاف سے متصف کرنا جن کے بغیر وہ اس منزل پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔۔۔ سب اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہی کا حصہ ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kafir log hergiz yeh khayal bhi dil mein naa layen kay woh bhag niklay hain . yeh yaqeeni baat hai kay woh ( Allah ko ) aajiz nahi ker-saktay .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفار کے مقابلہ کے ہر وقت تیار رہو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے بھاگ نکلے ہم ان کی پکڑ پر قادر نہیں بلکہ وہ ہر وقت ہمارے قبضہ قدرت میں ہیں وہ ہمیں ہرا نہیں سکتے اور آیت میں ہے برائیاں کرنے والے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ فرماتا ہے کافر ہمیں یہاں ہرا نہیں سکتے وہاں کا ٹھکانا آگ ہے جو بدترین جگہ ہے اور فرمان ہے کافروں کا شہروں میں آنا جانا چلنا پھرنا کہیں تجھے دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو سب آنی جانی چیزیں ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جو بدترین گود ہے۔ پھر مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی طاقت و امکان کے مطابق ان کفار کے مقابلے کے لیے ہر وقت مستعد رہو جو قوت طاقت گھوڑے، لشکر رکھ سکتے ہیں موجود رکھو۔ مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر قوت کی تفسیر تیر اندازی سے کی اور دو مرتبہ یہی فرمایا تیر اندازی کیا کرو سواری کیا کرو اور تیر اندازی گھوڑ سواری سے بہتر ہے۔ فرماتے ہیں گھوڑوں کے پالنے والے تین قسم کے ہیں ایک تو اجر وثواب پانے والے، ایک نہ تو ثواب نہ عذاب پانے والے ایک عذاب بگھتنے والے۔ جو جہاد کے ارادے سے پالے اس کے گھوڑے کا چلنا پھرنا تیرنا، چگنا باعث ثواب ہے یہاں تک کہ اگر وہ اپنی رسی توڑ کر کہیں چڑھ جائے تو بھی اس کے نشانات قدم اور اس کی لید پر اسے نیکیاں ملتی ہیں کسی نہر پر گذارتے ہوئے وہ پانی پی لے اگرچہ مجاہد نے پلانے کا ارادہ نہ بھی کیا ہو تاہم اسے نیکیاں ملتی ہیں۔ پس یہ گھوڑا تو اس کے پالنے والے کے لیے بڑے اجرو ثواب کا ذریعہ ہے۔ اور جس شخص نے گھوڑا اس نیت سے پالا کہ وہ دوسروں سے بےنیاز ہوجائے پھر اللہ کا حق بھی اس کی گردن اور اس کی سواری میں نہیں بھولا یہ اس کے لیے جائز ہے یعنی نہ اسے اجر نہ اسے گناہ۔ تیسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا کے طور پر پالا اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے وہ اس کے ذمے و بال ہے اور اس کی گردن پر بوجھ ہے آپ سے دریافت کیا گیا کہ اچھاگدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ فرمایا اس کے بارے میں کوئی آیت تو اتری نہیں ہاں یہ جامع عام آیت موجود ہے کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں گھوڑے تین طرح کے ہیں۔ رحمان کے شیطان کے اور انسان کے۔ اس میں ہے کی شیطانی گھوڑے وہ ہیں جو گھوڑ دوڑ کی شرطیں لگانے اور جوئے بازی کرنے کے لیے ہوں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ تیر اندازی گھوڑ سواری سے افضل ہے۔ امام مالک اس کے خلاف ہیں لیکن جمہور کا قول قوی ہے کہ کیونکہ حدیث میں آچکا ہے۔ حضرت معاویہ بن خدیج حضرت ابوذر کے پاس گئے اس وقت وہ اپنے گھوڑے کی خدمت کر رہے تھے پوچھا تمہیں یہ گھوڑا کیا کام آتا ہے ؟ فرمایا میرا خیال ہے کہ اس جانور کی دعا میرے حق میں قبول ہوگی۔ کہا جانور اور دعا ؟ فرمایا ہاں اللہ کی قسم ہر گھوڑا ہر صبح دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک کے حوالے کیا ہے تو مجھے اس کی تمام اہل سے اور مال سے اور اولاد سے زیادہ محبوب بنا کر اس کے پاس رکھ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر عربی گھوڑے کو ہر صبح دو دعائیں کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے گھوڑوں والے اللہ کی مدد میں ہیں اسے نیک نیتی سے جہاد کے ارادے سے پالنے والا ایسا ہے جیسے کوئی شخص ہر وقت ہاتھ بڑھاکر خیرات کرتا ہے۔ اور بھی حدیثیں اس بارے میں بہت سی ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں بھلائی کی تفصیل ہے کہ اجر اور غنیمت۔ فرماتا ہے اس سے تمہارے دشمن خوف زدہ اور ہیبت خوردہ رہیں گے ان ظاہری مقابلے کے دشمنوں کے علاوہ اور دشمن بھی ہیں یعنی بنو قریظہ، فارس اور محلوں کے شیاطین۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ اس سے مراد جنات ہیں۔ ایک منکر حدیث میں ہے جس گھر میں کوئی آزاد گھوڑا ہو وہ گھر کبھی بدنصیب نہیں ہوگا لیکن اس روایت کی تو سند ٹھیک ہے نہ یہ صحیح ہے۔ اور اس سے مراد منافق بھی لی گئی ہے۔ اور یہی قول زیادہ مناسب بھی ہے جیسے فرمان الٰہی ہے ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ\010\01ۚ ) 9 ۔ التوبہ :101) تمہارے چاروں طرف دیہاتی اور شہری منافق ہیں جنہیں تم نہیں جانتے لیکن ہم ان سے خوب واقف ہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ جہاد میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا بدلہ پاؤ گے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک درہم کا ثواب سات سو گنا کر کے ملے گا جیسے کہ ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ\026\01 ) 2 ۔ البقرة :261) اتری تو آپ نے فرمایا کہ وہ بھی جو سوال کرے چاہے وہ کسی دین کا ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے۔