الکہف آية ۷۲
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِىَ صَبْرًا
طاہر القادری:
(خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے،
English Sahih:
[Al-Khidhr] said, "Did I not say that with me you would never be able to have patience?"
1 Abul A'ala Maududi
اس نے کہا "میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟"
2 Ahmed Raza Khan
کہا میں نہ کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے
3 Ahmed Ali
کہا کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہیں کر سکے گا
4 Ahsanul Bayan
خضر نے جواب دیا میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خضر نے) کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے
6 Muhammad Junagarhi
اس نے جواب دیا کہ میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
خضر نے کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کر سکیں گے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس بندہ خدا نے کہا کہ میں نے نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے
9 Tafsir Jalalayn
(خضر نے) کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے
آیت نمبر 72 تا 78
ترجمہ : حضرت خضر نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکو گے تو موسیٰ نے کہا میری بھول چوک پر مجھ سے مواخذہ نہ فرمائیں یعنی مجھ سے آپ کی فرمانبرداری میں اور آپ پر اعتراض کو ترک کرنے میں غفلت ہوگئی اور آپ مجھ پر میرے معاملہ میں تنگی نہ ڈالیں یعنی کلفت میں مبتلا نہ کریں اور آپ اپنے ساتھ میری مصاحبت کے معاملہ میں دشواری پیدا نہ کیجئے یعنی میرے ساتھ درگذر اور سہولت کا معاملہ کیجئے پھر دونوں کشتی سے اترنے کے بعد پا پیادہ چلے یہاں تک کہ جب دونوں کی ایک لڑکے سے ملاقات ہوئی جو کہ ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچا تھا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور ان میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا تو خضر نے اس لڑکے کو مار ڈالا، یا تو زمین پر لٹا کر چھری سے ذبح کردیا یا ہاتھوں سے پکڑ کر سر اکھاڑ ڈالا یا اس کے سر کو دیوار سے ٹکرا دیا، یہ تین قول ہیں فقتلہ میں فا تعقیبیہ عاطفہ کا استعمال اس لئے ہوا ہے کہ قتل ملاقات کے بعد واقع ہوا تھا اور اذا کا جواب قال لہ موسیٰ أ قَتَلتَ نفسًا زکیَّۃ ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر سے کہا تم نے ایک بےگناہ شخص کو قتل کردیا یعنی ایسے معصوم نفس کو جو کہ ابھی حد تکلیف (یعنی سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچا) اور ایک قرأت میں زکِیَّۃ ً ی کی تشدید اور بغیر الف کے ہے جس نے کسی کا خون نہیں کیا یعنی وہ کسی نفس کا قاتل نہیں ہے (کہ اسے قصاصاً قتل کیا جائے) بلاشبہ تم نے بہت ہی برا کام کیا نُکْرًا سکون کاف اور ضمہ گا ف کے ساتھ دونوں قرأتیں ہیں یعنی ناپسندیدہ حرکت خضر نے کہا کیا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکیں گے یہاں لَکَ کا اضافہ کیا بخلاف سابق کے اس لئے کہ وہاں موسیٰ (علیہ السلام) نے سہو ونسیان کا عذر پیش نہیں کیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں (اعتراض کروں) تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رکھیں یعنی اپنے ساتھ رہنے کی اجازت نہ دیں یقیناً آپ نے میرے لئے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا لَدُنّی نون کی تشدید اور تخفیف دونوں قرأتیں ہیں مِنْ لَّدُنّی کے معنی مِنْ قِبَلِی کے ہیں یعنی آپ مجھے اپنے سے جدا کرنے کے معاملہ میں معذور ہیں پھر یہ دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس پہنچے وہ بستی انطاکیہ تھی بستی والوں سے ان حضرات نے کھانا طلب کیا یعنی ضیافت کے طور پر ان سے کھانا طلب کیا مگر بستی والوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا پھر ان دونوں حضرات نے اس بستی میں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی اور اس کی اونچائی سو ذراع تھی یعنی جھکاؤ کی وجہ سے گرنے کے قریب تھی تو خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگا کر درست کردیا موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت یعنی مزدوری لے لیتے ایک قرأ ت میں لاَتَّخَذْتَ ہے اس لئے باوجودیکہ ہم کھانے کے حاجتمند تھے ان لوگوں نے ہماری میزبانی نہیں کی خضر نے کہا بس یہ (اعتراض) میرے اور تیرے درمیان جدائی کرنے والا یعنی جدائی کا سبب ہے فراق مصدر بمعنی اسم فاعل تفریق ہے اس میں بَیْنَ کی اضافت غیر متعدد کی طرف ہے جس کی گنجائش واؤ عاطفہ کے ذریعہ بَیْن کی تکرار کی وجہ سے ہے، میں ان باتوں کی حقیقت تم کو جدا کرنے سے پہلے بتادیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ لَنْ تَسْتَطِیْعَ استطاعت سے مضارع واحد مذکر حاضر، تو ہرگز نہ کرسکے گا قولہ بِمَا نَسِیْتُ ما موصولہ ہے جار مجرور لا تُؤاخذنی سے متعلق ہے عائد محذوف ہے ای لا تاخذنی بامر الذی نسیتہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ترکت ہے جو کہ نسیت کے لازم معنی ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ ما مصدریہ ہو ای لا تاخذنی بنسیانی، نَسِیْتُ کی تفسیر غفلت سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں نسیت کے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ لازم معنی جو کہ غفلت اور ترک کے ہیں مراد ہیں اس لئے کہ نسیان کے لئے ترک لازم ہے قولہ لا ترھقنی مِنْ امر عُسرًا، عسرًا لا ترھقنی کا مفعول ثانی ہے اور ترھقنی میں یا مفعول اول ہے یقال اَرْھَقہ عُسرًا اس کو تکلیف میں ڈالا، اس کے ساتھ تنگی کا معاملہ کیا قولہ زاکیۃ وہ نفس جس نے ابھی تم گناہ نہ کیا ہو اور زکیۃ وہ نفس جس نے گناہ کرنے کے بعد توبہ کرلی ہو، کسائی نے کہا ہے کہ دونوں ہم معنی ہیں قولہ بغیر نفسٍ اس میں تین وجوہ اعراب ہیں (١) قتلت کے متعلق ہے (٢) محذوف سے متعلق ہے اور فاعل یا مفعول سے حال ہے ای قتلتہ ظالمًا او مظلومًا بغیر نفسٍ (٣) مصدر محذوف کی صفت ہو ای قتلت قتلاً مُتَلَبِّسًا بغیر نفسٍ قولہ لَمْ یبلغ الحنثَ میں مضاف محذوف ہے، ای وقت الحنثِ غلام کی تفسیر لم یبلغ الحنث سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہیں اس سے کہ غلام کے مختلف معنی آتے ہیں مگر یہاں نابالغ لڑکا مراد ہے قولہ ھذا فراق یعنی ترک اجرت پر اعتراض فراق سے یعنی وقت فراق ہے قولہ بینی وبینک میں بین کی اضافت غیر متعدد کی طرف ہے حالانکہ بین کی اضافت متعدد کی طرف ضروری ہوتی ہے، جیسے بیننا وبینکم میں اضافت متعدد کی طرف ہے قولہ وَاَتٰی ھُن۔ ا بالفاء العاطفۃ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس بات کا جواب ہے یہاں یعنی فقتلَہ پر فا داخل ہے مگر سابق میں خَرَقَھَا پر فا داخل نہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ غلام کا قتل چونکہ کشتی سے اترنے کے بعد واقع ہوا تھا اس لئے اس کے مناسب فا تعقیبیہ لائے، بخلاف خرقَھَا کے کہ وہاں کشتی میں سواری کے دوران خرق واقع ہوا تھا اس لئے وہاں خرقھا کہا نہ کہ فخرقَھَا قولہ لَمْ تقتل نفسًا کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ بغیر نفس یعنی مضاف محذوف ہے ای بغیر قتل نفس قولہ منکرًا کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نکرًا مصدر منکرًا مفعول کے معنی میں ہے، سابق میں چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی غلطی کم تھی اس لئے وہاں لَکَ نہیں کہا، یہاں چونکہ غلطی زیادہ ہے اس لئے لَکَ کے ذریعہ خطاب کیا قولہ یُرِیْدُ کی تفسیر یَقْربُ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یُرِیدُ کی جدار کی طرف نسبت اسناد مجازی ہے اس لئے کہ جدار ذوارادہ اشیاء میں سے نہیں ہے لَمْ تَسْتَطِعْ اصل میں تستطیع تھا، لم داخل ہونے کی وجہ سے آخر میں عین ساکن ہوگئی، التقائ ساکنین ہوا ی اور عین میں ی ساقط ہوگئی تستطع ہوگیا۔
تفسیر وتشریح
قالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ الخ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا کیا میں نے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکیں گے اس لئے کہ ایسے حالات اور واقعات دیکھنے میں آئیں گے جن پر آپ خاموشی کے ساتھ صبر نہ کرسکو گے سو دیکھئے آخر وہی ہوا، اس صبر نہ کرنے اور نباہ نہ ہونے سے موسیٰ (علیہ السلام) کی منقصت نہیں بلکہ منقبت نکلتی ہے اس لئے کہ آپ کا خضر (علیہ السلام) کو بظاہر خلاف شرع حرکات پر بار بار ٹوکنا عین منصب نبوت اور غیرت ایمانی کی وجہ سے خاموش نہ رہ سکے مفسر علام نے ثانی معنی مراد لئے ہیں، فانطلقا حتی لقیا غلامًا فقتل عہد معاہدہ کرنے کے بعد جب یہ دونوں حضرات آگے چلے تو ایک بستی میں پہنچے اس بستی کے قریب چند لڑکے کھیل رہے تھے ان میں ایک لڑکے کو جس کا نام جیسور بتایا جاتا ہے جو نہایت ہی خوبصورت اور عقلمند تھا قتل کر ڈالا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ نے ایک بےگناہ شخص کو قتل کردیا جو کسی کا قاتل بھی نہیں، وہ لڑکا بالغ تھا یا نابالغ دونوں قسم کے اقوال ہیں غلام کا اطلاق دونوں ہی پر ہوتا ہے، اکثر مفسرین اس کو نابالغ ہی بیان کرتے ہیں، مفسر علام کی بھی یہی رائے ہے، لفظ زکیّۃ ً سے نابالغی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے، اگرچہ اس میں تاویل کی گنجائش ہے جیسا کہ تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکا ہے بغیر نفسٍ یعنی اول تو نابالغ قصاص میں بھی قتل نہیں کیا جاسکتا، یہاں تو قصاص کا بھی کوئی قصہ نہیں تھا پھر اس سے بڑھ کرنا معقول بات کونسی ہوسکتی ہے یعنی آپ کی پہلی حرکت ہی نازیبا تھی مگر اس بار تو آپ نے غضب ہی کردیا کشتی کے نقصان کا تدارک تو کسی حد تک ممکن بھی تھا یہ تو جان کا معاملہ اس کی تلافی کی تو کوئی صورت ہی نہیں حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکیں گے اس مرتبہ خفگی بڑھ گئی اسی لئے خطاب کرتے وقت لَکَ کا لفظ بڑھا دیا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مرتبہ بھول سے نہیں بلکہ قصداً اعتراض کیا تھا اس لئے کہ احکام شریعت کی خلاف ورزی پر تحمل عام صالحین سے نہیں ہوسکتا تو موسیٰ (علیہ السلام) تو پیغمبر تھے وہ بھلا امر منکر پر خاموش کیسے رہ سکتے تھے اسی لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مرتبہ سہو ونسیان کا عذر بھی پیش نہیں کیا، بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اس کے بعد اگر میں آپ کی بات پر اعتراض کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں یقیناً میرے لئے آپ نے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا، یعنی اب کی بار اور درگذر کیجئے، ایک موقع اور دیجئے آئندہ اگر اعتراض کروں تو مجھے ساتھ رکھیں آپ اس حد کو پہنچ جائیں گے کہ مجھے اپنے جدا کرنے میں معذور سمجھے جائیں گے۔
حضرت خضر (علیہ السلام) نے وہ بات در گذر کردی، اور یہ دونوں حضرات آگے چلے اور ایک بستی میں پہنچے اور لوگوں سے ملے اور چاہا کہ بستی والے مسافر سمجھ کر مہمان نوازی کریں قدیم زمانہ میں چونکہ سراؤں اور مسافر خانوں کا رواج نہیں تھا نہ ہوٹلوں اور کھانے پینے کی دکان کا سلسلہ تھا، مسافر بستی والوں پر اپنا حق سمجھتے تھے کہ بستی والے ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیں اور ہر بستی والے بھی مہمان نوازی کو اپنا فرض سمجھتے تھے اس لئے کہ ہر شخص کو سفر کرنا پڑتا تھا اور ہر شخص کی یہ خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اہل بستی ہماری میزبانی کے فرائض انجام دیں اور عموماً ہر بستی والے بڑی خوش دلی سے یہ فریضہ انجام دیتے تھے، مگر یہ سعادت اس بستی والوں کی قسمت میں نہیں تھی ان لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) جیسے مقربین کی مہمان نوازی سے انکار کردیا، یہ معاملہ دیکھ کر چاہیے تھا ایسے تنگ دل اور بےمروت لوگوں پر غصہ آتا مگر حضرت خضر (علیہ السلام) نے غصہ کے بجائے ان پر احسان کیا، بستی میں ایک دیوار تھی جو اس قدر جھکی ہوئی تھی کہ گرنے کے قریب تھی، لوگ اس کے پاس سے گذرتے ہوئے ڈرتے تھے، حضرت خضر (علیہ السلام) نے معجزانہ طور پر اس دیوار پر ہاتھ لگا کر سیدھا کردیا، اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے یعنی جس بستی والوں نے مسافروں کی مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کیا ایسے لوگوں کی دیوار مفت درست کردینے کی کیا ضرورت تھی، اگر کچھ معاوضہ لے کر دیوار درست کرتے تو ہمارا بھی کھانے پینے کا کام چلتا، اور ان تنگ دل بخیلوں کو تنبیہ بھی ہوجاتی، اس کے جواب میں حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا بس اب میرا اور آپ کا ساتھ ختم اب میں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے یعنی حسب وعدہ آپ مجھ سے جدا ہوجائے آپ کا نباہ میرے ساتھ نہیں ہوسکتا لیکن جدا ہونے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ان واقعات کے پوشیدہ اسرار ظاہر کردوں جن کو دیکھ کر آپ سے صبروضبط نہ ہوسکا۔
حکمت : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وخضر (علیہ السلام) کے درمیان مذکورہ تین واقعات کے پیش آنے میں حکمت موسیٰ (علیہ السلام) کو تین باتوں پر تنبیہ مقصود تھی، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے کشتی توڑنے پر اعتراض کیا اور دریا میں غرق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا اور ظاہری اسباب کو اہمیت دی تو ندا آئی اے موسیٰ تیری تدبیر اس وقت کہاں تھی کہ تجھے ایک تابوت میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا گیا تھا اور جب قتل غلام پر اعتراض کیا تو ندا آئی کہ تیرا اعتراض اس وقت کہاں تھا کہ جب تو نے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا اور جب دیوار کو مفت درست کرنے پر اعتراض کیا تو ندا آئی اس وقت تیرا اعتراض کہاں گیا تھا جب کہ تو نے پتھر ہٹا کر شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیوں کی بکریوں کو بلا اجرت پانی پلایا تھا۔ (صاوی)
10 Tafsir as-Saadi
اس بولنے کا سبب موسیٰ علیہ السلام کا عدم صبر تھا خضر نے ان سے کہا : ﴿ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴾ ” کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے“ یعنی بالکل اسی طرح واقع ہوا جیسا میں نے آپ سے کہا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
unhon ney kaha : kiya mein ney kaha nahi tha kay aap meray sath reh ker sabar nahi ker-saken gay-?