مریم آية ۵۴
وَاذْكُرْ فِى الْـكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَۖ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا ۚ
طاہر القادری:
اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں، بیشک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے،
English Sahih:
And mention in the Book, Ishmael. Indeed, he was true to his promise, and he was a messenger and a prophet.
1 Abul A'ala Maududi
اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور رسُول نبی تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا،
3 Ahmed Ali
اور کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کر بے شک وہ وعدہ کا سچا اور بھیجا ہوا پیغمبر تھا
4 Ahsanul Bayan
اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وہ بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے
6 Muhammad Junagarhi
اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وه بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے پیغمبر(ص)) آپ کتاب (قرآن) میں اسماعیل (ع) کا ذکر کیجئے جو وعدہ کے سچے اور نبی مرسل تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اپنی کتاب میں اسماعیل علیھ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر علیھ السّلامتھے
9 Tafsir Jalalayn
اور کتاب میں اسمعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدہ کے سچے اور (ہمارے) بھیجے ہوئے نبی تھے
10 Tafsir as-Saadi
یعنی قرآن کریم میں اس عظیم نبی (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جس سے عربی قبیلے کی نسل چلی جو سب سے افضل اور جلیل قبیلہ ہے، جس سے اولاد آدم کے سردار، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴾ یعنی وہ جو بھی وعدہ کرتے تھے اسے پورا کرتے تھے۔ اس میں وہ تمام وعدے شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اور وہ جو بندوں سے کئے گئے۔۔۔ اسی لئے جب ان کے والد نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنے آپ سے صبر کرنے کا وعدہ کیا، چانچہ انہوں نے اپنے والد سے کہا ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ )الصٰفّٰت :37؍102) ” اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ انہوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے والد کو پورا اختیار دیا کہ وہ ان کو ذبح کریں، جو کہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو انسان کو پہنچ سکتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو رسالت اور نبوت سے متصف کیا جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر سب سے بڑا احسان ہے۔۔۔ اور انہیں مخلوق کے بلند طبقے میں سے کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss kitab mein Ismail ka bhi tazkarah kero . beyshak woh waday kay sachay thay , aur Rasool aur nabi thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
ابو الحجاز (علیہ السلام) ۔
حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کا ذکر خیر بیان ہو رہا ہے آپ سارے حجاز کے باپ ہیں جو نذر اللہ کے نام کی مانتے تھے جو عبادت کرنے کا ارادہ کرتے تھے پوری ہی کرتے تھے۔ ہر حق ادا کرتے تھے ہر وعدے کی وفا کرتے تھے۔ ایک شخص سے وعدہ کیا کہ فلاں جگہ آپ کو ملوں گا وہاں آپ آجانا۔ حسب وعدہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) وہاں گئے لیکن وہ شخص نہیں آیا تھا۔ آپ اس کے انتظار میں وہیں ٹھیرے رہے یہاں تک کہ ایک دن رات پورا گزر گیا اب اس شخص کو یاد آیا اس نے آکر دیکھا کہ آپ وہیں انتظار میں ہیں پوچھا کہ کیا آپ کل سے یہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا جب وعدہ ہوچکا تھا تو پھر میں آپ کے آئے بغیر کیسے ہٹ سکتا تھا اس نے معذرت کی کہ میں بالکل بھول گیا تھا۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ تو کہتے ہیں یہیں انتظار میں ہی آپ کو ایک سال کامل گزر چکا تھا۔ ابن شوزب کہتے ہیں وہیں مکان کرلیا تھا۔ عبداللہ بن الحما کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے پہلے میں نے آپ سے کچھ تجارتی لین دین کیا تھا میں چلا گیا اور یہ کہہ گیا کہ آپ یہیں ٹھہریے میں ابھی واپس آتا ہوں پھر مجھے خیال ہی نہ رہا وہ دن گزرا وہ رات گزری دوسرا دن گزر گیا تیسرے دن مجھے خیال آیا تو دیکھا آپ وہیں تشریف فرما ہیں۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھ مشقت میں ڈال دیا میں آج تین دن سے یہیں تمہارا انتظار کرتا رہا۔ (خرائطی) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس وعدے کا ذکر ہے جو آپ نے بوقت ذبح کیا تھا کہ اباجی آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ چناچہ فی الواقع آپ نے وعدے کی وفا کی اور صبرو برداشت سے کام لیا۔ وعدے کی وفا نیک کام ہے اور وعدہ خلافی بہت بری چیز ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے ایمان والو وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بات نہایت ہی غضبناکی کی ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت۔ ان آفتوں سے مومن الگ تھلگ ہوتے ہیں یہی وعدے کی سچائی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) میں تھی اور یہی پاک صفت جناب محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی تھی۔ کبھی کسی سے کسی وعدے کے خلاف آپ نے نہیں کیا۔ آپ نے ایک مرتبہ ابو العاص بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھ سے جو بات کی سچی کی اور جو وعدہ اس نے مجھ سے کیا پورا کیا۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے تخت خلافت نبوی پر قدم رکھتے ہی اعلان کردیا کہ جس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو وعدہ کیا ہو میں اسے پورا کرنے کے لیے تیار ہوں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس کا قرض ہو میں اس کی ادائیگی کے لیے موجود ہوں۔ چناچہ حضرت جابر بن عبداللہ تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے تین لپیں بھر کر دونگا۔ حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس جب بحرین کا مال آیا تو آپ نے حضرت جابر (رض) کو بلوا کر فرمایا لو لپ بھر لو۔ آپ کی لپ میں پانچ سو درہم آئے حکم دیا کہ تین لپوں کے پندرہ سو درہم لے لو۔ پھر حضرت اسماعیل کا رسول نبی ہونا بیان فرمایا۔ حالانکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا صرف نبی ہونا بیان فرمایا گیا ہے اس سے آپ کی فضیلت اپنے بھائی پر ثابت ہوتی ہے۔ چناچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں سے اللہ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو پسند فرمایا، الخ۔ پھر آپ کی مزید تعریف بیان ہو رہی ہے کہ آپ اللہ کی اطاعت پر صابر تھے اور اپنے گھرانے کو بھی یہی حکم فرماتے رہتے تھے۔ یہی فرمان اللہ تعالیٰ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے ( وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۭ وَالْعَاقِبَةُ للتَّقْوٰى\013\02 ) 20 ۔ طه :132) ، اپنی اہل و عیال کو نماز کا حکم کرتا رہ اور خود بھی اس پر مضبوطی سے عامل رہ۔ اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) 66 ۔ التحریم :6) ، اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنیے اہل و عیال کو اس آگ سے بچا لو جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔ جہاں عذاب کرنے والے فرشتے رحم سے خالی زور آور اور بڑے سخت ہیں۔ ناممکن ہے کہ اللہ کے حکم کا وہ خلاف کریں بلکہ جو ان سے کہا گیا ہے اسی کی تابعداری میں مشغول ہیں۔ پس مسلمانوں کو حکم الہٰی ہو رہا ہے کہ اپنے گھر بار کو اللہ کی باتوں کی ہدایت کرتے رہیں گناہوں سے روکتے رہیں یونہی بےتعلیم نہ چھوڑیں کہ وہ جہنم کا لقمہ بن جائیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس مرد پر اللہ کا رحم ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لئے اپنے بستر سے اٹھتا ہے پھر اپنی بیوی کو اٹھاتا ہے اور اگر وہ نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے نیند سے بیدار کرتا ہے اس عورت پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لئے اٹھتی ہے۔ پھر اپنے میاں کو جگاتی ہے اور نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا ڈالتی ہے (ابو داؤد، ابن ماجہ) آپ کا فرمان ہے کہ جب انسان رات کو جاگے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور دونوں دو رکعت بھی نماز کی ادا کرلیں تو اللہ کے ہاں اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں عورتوں میں دونوں کے نام لکھ لئے جاتے ہیں (ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ)