اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے،
English Sahih:
And mention in the Book, Idrees. Indeed, he was a man of truth and a prophet.
1 Abul A'ala Maududi
اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا،
3 Ahmed Ali
اور کتاب میں ادریس کا ذکر کر بے شک وہ سچا نبی تھا
4 Ahsanul Bayan
اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو۔ وہ بھی نہایت سچے نبی تھے
6 Muhammad Junagarhi
اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر، وه بھی نیک کردار پیغمبر تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول(ص)) کتاب (قرآن) میں ادریس کا ذکر کیجئے بےشک وہ بڑے سچے نبی تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کتاب خدا میں ادریس علیھ السّلامکا بھی تذکرہ کرو کہ وہ بہت زیادہ سچے پیغمبر علیھ السّلامتھے
9 Tafsir Jalalayn
اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو وہ بھی نہایت سچے نبی تھے
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اس کتاب کریم میں تعظیم و اجلال اور صفات کمال سے متصف ہونے کے اعتبار سے ادریس علیہ السلام کا ذکر کرو ! ﴿إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴾ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیک وقت صدیقیت۔۔۔ جو تصدیق تام، علم کامل، یقین ثابت اور عمل صالح کی جامع ہے۔۔۔ اور اپنی وحی اور رسالت کے لئے چن لیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur iss kitab mein Idrees ka bhi tazkarah kero . beyshak woh sachai kay khoogar nabi thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تعارف۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا بیان ہو رہا ہے کہ آپ سچے نبی تھے اللہ کے خاص بندے تھے۔ آپ کو ہم نے بلند مکان پر اٹھالیا۔ صحیح حدیث کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ چوتھے آسمان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات کی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام ابن جریر (رح) نے ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے کہ ابن عباس (رض) نے حضرت کعب (رض) سے سوال کیا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس وحی آئی کہ کل اولاد آدم کے نیک اعمال کے برابر صرف تیرے نیک اعمال میں اپنی طرف ہر روز چڑھاتا ہوں۔ اس پر آپ نے ذکر کیا میرے پاس یوں وحی آئی ہے اب تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری موت میں تاخیر کریں تو میں نیک اعمال میں اور اور بڑھ جاؤں۔ اس فرشتے نے آپ کو اپنے پروں میں بٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا جب چوتھے آسمان پر آپ پہنچے تو ملک الموت کو دیکھا، فرشتے نے آپ سے حضرت ادریس (علیہ السلام) کی بابت سفارش کی تو ملک الموت نے فرمایا وہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا یہ ہیں میرے بازو پر بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا سبحان اللہ مجھے یہاں اس آسمان پر اس کی روح کے قبض کرنے کا حکم ہو رہا ہے چناچہ اسی وقت ان کی روح قبض کرلی گئی۔ یہ ہیں اس آیت کے معنی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ کعب (رح) کا یہ بیان اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کے بعض میں نکارت ہے واللہ اعلم۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے بذریعہ اس فرشتے کو پچھوایا تھا کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ فرشتے کے اس سوال پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میں دیکھ لوں دیکھ کر فرمایا صرف ایک آنکھ کی پلک کے برابر اب جو فرشتہ اپنے پر تلے دیکھتا ہے تو حضرت ادریس (علیہ السلام) کی روح پرواز ہوچکی تھی۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ درزی تھے سوئی کے ایک ایک ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے مجاہد (رح) تو کہتے ہیں حضرت ادریس (علیہ السلام) آسمانوں پر چڑھالئے گئے۔ آپ مرے نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بےموت اٹھا لئے گئے اور وہیں انتقال فرماگئے۔ حسن (رح) کہتے بلند مکان سے مراد جنت ہے۔