(اے محبوبِ مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گی،
English Sahih:
Indeed, We have sent you, [O Muhammad], with the truth as a bringer of good tidings and a warner, and you will not be asked about the companions of Hellfire.
1 Abul A'ala Maududi
(اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہوگی کہ) ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ خوش خبری دینے والا ور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا -
3 Ahmed Ali
بے شک ہم نے تمہیں سچائ کے ساتھ بھیجا ہے خوشخبری سنانے کے لیے اور ڈرانے کے لیے اور تم سے دوزخیوں کے متعلق باز پرس نہ ہو گی
4 Ahsanul Bayan
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) بے شک ہم نے آپ کو برحق بشیر و نذیر (خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس اتمام حجت کے بعد) دوزخ میں جانے والوں کے بارے میں آپ سے بازپرس نہیں کی جائے گی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور آپ سے اہلِ جہنّم کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار و ایجاز سے بعض جامع آیات کا ذکر فرمایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ فرمایا : ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ۙ﴾ ”ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے“ یہ ان آیات پر مشتمل ہے جنہیں رسول اللہ لے کر مبعوث ہوئے اور یہ تین امور کی طرف راجع ہیں۔ (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت۔ (2) آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا طریقہ اور آپ کی راہ نمائی۔ (3) قرآن و سنت کی معرفت۔ پہلا اور دوسرا نکتہ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ ﴾میں داخل ہے اور تیسرا نکتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿ بِالْحَقِّ﴾ میں داخل ہے۔ نکتہ اول۔۔۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور رسالت کی توضیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اہل زمین کی جو حالت تھی وہ معلوم ہے۔ اس زمین کے رہنے والے بتوں، آگ اور صلیب کی عبادت میں مبتلا تھے۔ ان کے لیے جو دین آیا انہوں نے اسے تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کفر کی تاریکیوں میں ڈوب گئے اور کفر کی تاریکی ان پر چھا گئی تھی۔ البتہ اہل کتاب کی کچھ باقیات تھیں (جو دین اسلام پر قائم رہیں) اور وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا سا پہلے ناپید ہوگئیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو بے حساب و کتاب آزاد چھوڑا ہے کیونکہ وہ حکیم و دانا، باخبر، صاحب قدرت اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ پس اس کی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان کی طرف ایک نہایت عظمت والا رسول مبعوث کرے جو انہیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایک عقلمند شخص محض آپ کی رسالت ہی کی بنا پر آپ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے اور یہ اس بات کی بہت بڑی علامت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ رہا دوسرا نکتہ۔۔۔ تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی طرح پہچان لیا اور اسے آپ کی بعثت سے قبل آپ کی سیرت، آپ کے طریق زندگی اور آپ کی کامل ترین خصلتوں پر آپ کی نشو و نما کی معرفت حاصل ہوگئی۔ پھر بعثت کے بعد آپ کے مکارم، عظیم اور روشن اخلاق بڑھتے چلے گئے۔ پس جنہیں ان اخلاق کی معرفت حاصل ہوگئی اور انہوں نے آپ کے احوال کو اچھی طرح جانچ لیا تو اسے معلوم ہوگیا کہ ایسے اخلاق صرف انبیائے کاملین ہی کے ہوسکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اوصاف کو اصحاب اوصاف اور ان کے صدق و کذب کی معرفت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرار دیا ہے۔ رہا تیسرا نکتہ۔۔۔ تو یہ اس عظیم شریعت اور قرآن کریم کی معرفت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا گیا جو سچی خبروں، اچھے احکام، ہر برائی سے ممانعت اور روشن معجزات پر مشتمل ہے۔ پس تمام نشانیاں ان تین باتوں میں آجاتی ہیں۔ ﴿بَشِيرًا﴾ یعنی آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے ہیں جس نے آپ کی اطاعت کی ﴿وَنَذِيرًا ﴾ اور اس شخص کو دنیاوی اور اخروی بدبختی اور ہلاکت سے ڈرانے والے ہیں جس نے آپ کی نافرمانی کی﴿ۙ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ﴾ یعنی آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) beyshak hum ney tumhen ko haq dey ker iss tarah bheja hai kay tum ( jannat ki ) khushkhabri do aur ( jahannum say ) darao aur jo log ( apni marzi say ) jahannum ( ka raasta ) ikhtiyar ker-chukay hain unn kay baaray mein aap say koi baaz purs nahi hogi .
12 Tafsir Ibn Kathir
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے لا تسئل کی دسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور ابن مسعود کی قرأت میں لن تسئل بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت (فانما علیک البلغ وعلینا الحلساب یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت (فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21ۭ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ 22ۙ ) 88 ۔ الغاشیہ :21) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت (نحن اعلم بما یقولون) الخ ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی ولا تسائل بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی مجھ سے کچھ نہ پوچھو عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ پھر آخری دم تک آپ نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو، تذکرہ میں قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لئے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہوگئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتادیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہوچکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصی (رض) سے حضرت عطا بن یسار نے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں، توراۃ میں بھی ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بد زبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ لا الہ الہ اللہ کا اقرار نہ کرلیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہوجائیں بخاری کی کتاب الیسوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر حضرت کعب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا۔