(تمہارا غور و فکر) دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں (رہے)، اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: ان (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر انہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، بیشک اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
To this world and the Hereafter. And they ask you about orphans. Say, "Improvement for them is best. And if you mix your affairs with theirs – they are your brothers. And Allah knows the corrupter from the amender. And if Allah had willed, He could have put you in difficulty. Indeed, Allah is Exalted in Might and Wise."
1 Abul A'ala Maududi
پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو: جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے اگر تم اپنا اور اُن کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور ا ٓ خرت کے کام سوچ کر کرو اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں تم فرماؤ ان کا بھلا کرنا بہتر ہے اور اگر اپنا ان کا خرچ ملالو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے، اور اللہ چاہتا ہے تو تمہیں مشقت میں ڈالتا، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
دنیا اور آخرت کے بارے میں اور یتیموں کے متعلق آپ سے پوچھتے ہیں کہہ دو ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے اور اگر تم انہیں ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور الله بگاڑنے والے کو اصلاح کرنےوالے سے جانتا ہے اور اگر الله چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈالتا بے شک الله غالب حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
امور دینی اور دنیاوی کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (٢) یقیناً اللہ تعالٰی غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
٢٢٠۔١ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لئے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ڈر گئے اور یتیموں کی ہرچیز الگ کر دی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزا کے مستحق نہ قرار پا جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) ٢٢٠۔٢ یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(یعنی) دنیا اور آخرت (کی باتوں) میں (غور کرو) ۔ اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا (یعنی خرچ اکھٹا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون۔ اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔بےشک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
دنیا اور آخرت کے امور کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیئے کہ ان کی خیرخواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وه تمہارے بھائی ہیں، بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ واﻻ اور حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تو کہہ دیجیے کہ ان کی ہر طرح اصلاح (احوال کرنا) بہتر ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو (تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر) وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ مفسد (خرابی کرنے والا) اور اصلاح کرنے والا کون ہے اور اگر خدا چاہتا تو تمہیں مشکل و مشقت میں ڈال دیتا یقینا خدا زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی---- اور یہ لوگ تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ان کے حال کی اصلاح بہترین بات ہے اور اگر ان سے مل چُل کر رہو تو یہ بھی تمہارے بھائی ہیں اور اللہ بہتر جانتاہے کہ مصلح کون ہے اور مفسدکون ہے اگر وہ چاہتا تو تمہیں مصیبت میں ڈال دیتا لیکن وہ صاحبِ عزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(یعنی دنیا اور آخرت کی باتوں) میں (غور کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا (یعنی خرچ اکٹھا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا بیشک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے آیت نمبر ٢٢٠ تا ٢٢١ ترجمہ : یتیموں اور ان کے معاملہ میں پیش آنے والے حرج کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان کو ساتھ کھلاتے ہیں تو گنہگار ہوتے ہیں، اگر ان کے مالوں کو اپنے مالوں سے الگ کرتے ہیں اور تنہا ان کا کھانا بناتے ہیں تو یہ بھی وقت ہے، آپ ان سے ک کہ دیجئے کہ ان کی خیرخواہی ان کے مال میں اضافہ اور تمہاری شمولیت کرکے، اس کو ترک کرنے سے بہتر ہے، اور اگر تم ان کے نفقہ کو اپنے نفقہ کے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، یعنی دینی بھائی ہیں اور بھائی کی یہ شان ہونی چاہیے کہ اپنے بھائی کو شامل کرے لہٰذا یہ تمہارے لئے جائز ہے، اللہ تعالیی ان یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر بدخواہی اور خیر خواہی کرنے والے کو (خوب) جانتا ہے لہٰذا ان دونوں کو جزاء دے گا، اور اگر اللہ چاہتا تو شرکت کو حرام قرار دے کر تم کو تنگی میں ڈال دیتا اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں غالب اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے اور اے مسلمانو تم مشرکات یعنی کافرات سے نکاح نہ کرو تاآنکہ وہ ایمان نہ لے آئیں اور بلاشبہ مومنہ باندی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے، اس لئے کہ (لوگوں کا) اس شخص پر نکتہ چینی کرنا جس نے مومنہ باندی سے نکاح کرلیا اور آزاد مشرکہ عورت میں رغبت کرنا، اس آیت کے نزول کا سبب ہے اگرچہ (مشرکہ عورت) تم کو اس کے مال و جمال کی وجہ سے بھلی معلوم ہو، اور (نھی عن نکاح المشرکات) مخصوص ہے غیر کتابیات کے ساتھ ” والمحصنٰت مِنَ الَّذِین اوتوا الکتاب “ کی وجہ سے، اور مشرکوں (یعنی) کافروں سے مومن عورتوں کا نکاح نہ کرو تاآنکہ وہ کافر ایمان لے آئیں اور بلاشبہ مومن غلام مشرک (آزاد) سے بہتر ہے اگرچہ وہ تم کو اس کے مال و جمال کی وجہ سے بھلا معلوم ہو اور یہ اہل شرک نار جہنم کی دعوت دیتے ہیں ان اعمال کی طرف دعوت دے کر جو نار جہنم واجب کرنے والے ہیں لہٰذا ان سے نکاح کرنا لائق نہیں ہے اور اللہ اپنے رسول کی زبانی جنت اور مغفرت کی طرف اپنے ارادہ سے بلاتا ہے، یعنی ایسے عمل کی طرف جو ان دونوں کے لئے موجب ہے لہٰذا اس کے حکم کو قبول کرنا واجب ہے اس کے اولیاء (یعنی) مسلمانوں سے نکاح کرکے اور وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَمَا یَلْقَوْنَہٗ ، اس میں اشارہ ہے کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے اس لئے کہ سوال حال سے ہوتا ہے نہ کہ ذات سے۔ قولہ : وَاکَلوھُمْ ، اٰکَلُوا میں ایک لغت ہمزہ کو واؤ سے بدل کر والکلوا بھی ہے یعنی مل کر کھانا پینا۔ قولہ : فی اموالھم، اس میں اشارہ ہے کہ اصلاح مالی مراد ہے نہ کہ غیر مالی، تاکہ جواب مطابق سوال ہوجائے، نیز اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا قول ” وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ “ بھی ہے۔ قولہ : مِن ترک ذلِک، اس میں حذف مفضل علیہ کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : فَھُمْ اِخْوانُکُمْ ، اس حذف میں اس طرف اشارہ ہے، فاخوانکم، جزاء شرط ہے اور جزاء کا جملہ ہونا ضروری اسی لئے ھُمْ ، مبتداء محذوف مانا ہے۔ قولہ : ای فَلَکُمْ ذلکَ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : واِن تُخَالِطُوْھُمْ ، شرط ہے اور فَاِخْوَانُکم، اس کی جزاء ہے مگر جزاء کا شرط پر ترتب درست نہیں ہے، اس لئے کہ شرط و جزاء میں کوئی ربط نہیں ہے۔ جواب : اصل جزاء محذوف ہے جس کی طرف مفسر علام نے فَلَکم ذلک، کہہ کر اشارہ کردیا ہے کہ سبب جزاء کو جزاء کے قائم مقام کردیا ہے۔ تفسیر و تشریح شان نزول : ابوداؤد اور نسائی اور حاکم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب ” وَلاتَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ “ اور ” اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ “ (الآیۃ) نازل ہوئیں، تو ان لوگوں نے جن کی پرورش میں کوئی یتیم تھا، ان کا کھانا پینا الگ کردیا، بعض اوقات یتیم کا کھانا بچ جاتا تو اٹھا کر رکھ دیا جاتا، دوسرے وقت یتیم کو وہی بچا ہوا کھانا، کھانا پڑتا، اور بعض اوقات بچا ہوا کھان خراب بھی ہوجاتا جس کی وجہ سے یتیم کا نقصان ہوتا، اس صورت حال سے اولیاء یتامیٰ کو دقت پیش آئی اول تو یتیم کا کھانا مستقل الگ پکانا یہ مستقل ایک دردسر تھا، دوسرے اس میں یتیم کا بھی نقصان تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بعض صحابہ نے صورت حال بیان کرکے پریشان اور دقت کا اظہار کیا تو مذکورہ آیت ” وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی “ نازل ہوئی۔ آپ سے یتیموں کی پرورش اور ان کے ساتھ معاشرت و معاملات کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ بتا دیجئے کہ ان کی اصلاح اچھی بات ہے اگر مل جل کر بسر کرو تو تمہارے بھائی ہیں کچھ حرج نہیں، مگر اللہ مفسد کی بدنیتی اور مصلح کی نیک نیتی کو جانتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم کو یتیموں کے معاملہ میں ایسی وسعت اور سہولت نہ دیتا جس کی وجہ سے تم مشقت میں پڑجاتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ آپ نے بیچ کی اور کلمہ کی انگلی ملا کر فرمایا : میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اَحَبُّ بُیُوْتٍ الی اللہ بیتٌ فیہ یتیمٌ مُکْرَمٌ“ اللہ کو زیادہ محبوب وہ گھر ہے کہ جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کی ناز برداری ہوتی ہو۔ یہاں اصلاح سے اگرچہ اصلاح مالی مراد ہے مگر اس میں اخلاقی اور جسمانہ اصلاح بھی شامل ہے، ایسے تصرفات جن میں یتیم کا فائدہ ہی فائدہ مقصود ہے مگر نقصان کا بھی احتمال ہے جیسے تجارت وغیرہ، ایسے امور ولی کے اختیار میں ہیں اور ایسے امور کہ جن میں نقصان محض ہے جیسے صدقہ، غلام آزاد کرنا، ہبہ کرنا، یہ ولی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ مسئلہ : فقہاء کرام نے بہ قاعدہ اقتضاء النص اصلاح کے عموم سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یتیم پر جو تہدید و تنبیہ تعلیم و ترتیب کی ضرورت کی غرض سے ہو وہ بالکل جائز اور درست ہے، اسلام کی یتیم نوزی، یتیم پروردی، کا اعتراف اپنوں ہی کی طرح غیروں نے اور مخالفوں نے بھی کیا ہے برطانوی مصنف، باسورتھ اسمتھ نے لکھا ہے۔ پیغمبر کی خصوصی توجہ کے مرکز غلاموں کی طرح یتیم بھی رہے ہیں، وہ خود بھی یتیم رہ چکے تھے، اس لئے دل سے چاہتے تھے کہ جو حسن سلوک خدا نے ان کے ساتھ کیا وہی وہ دوسروں کے ساتھ کریں۔ (محمد اینڈ محمد نزم، ص : ٢٥١) ۔ امریکی ماہر اجتماعیات ڈاکٹر رابرٹس لکھتے ہیں۔ ” قرآن کے مطالعہ سے ایک خوشگوار ترین چیز معلوم ہوتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچوں کا کس قدر خیال تھا، خصوصاً ان بچوں کا جو والدین کی سرپرستی سے محروم ہوگئے ہوں، بار بار تاکید بچوں کے ساتھ حسن سلوک کی ملتی ہے “ اور پھر آگے کہتا ہے۔ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیموں کے باب میں اپنی خاص توجہ مبذول رکھی، یتیموں کے حقوق کا بکثرت ذکر کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں اور ان کے حقوق حصب کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت وعیدیں سیرت محمدی کے اس پہلو کو ظاہر کرتی ہیں جن پر مسلمان مصنفین کو بجا طور پر ناز ہے “۔ (ص : ٤١، ایضا) اسلام کی رواداری : اِخوانکم، چونکہ اس وقت اکثر مسلمانوں کے پاس مسلمان بچے ہی یتیم تھے، اس لئے اخوانکم فرمایا، ورنہ اگر دوسرے مذہب کے بچے بھی اپنی تربیت میں ہوں، اس کا بھی بعینہٖ یہی حکم ہے اور اس کی تائید دوسری آیت اور احادیث میں جو الفاظ عام کے ساتھ وارد ہیں سے ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ مذہبی رعایت اتنی اور زیادہ ہے کہ اس بچہ پر بلوغ کے بعد اسلام کے لئے جبر نہ کیا جائے، مذہبی آزادی دی جائے۔ (تھانوی)
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾ (لنساء: 4؍ 10) ’’بے شک وہ لوگ جو ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پٹ میں آگ بھرتے ہیں وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے“ تو یہ آیت کریمہ مسلمانوں پر بہت شاق گزری اور انہوں نے یتیموں کے کھانے سے اپنے کھانے کو اس خوف سے علیحدہ کرلیا کہ کہیں وہ ان کا کھانا تناول نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ان حالات میں اموال میں شراکت کی عادت جاری و ساری رہی۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ اصل مقصد تو یتیموں کے مال کی اصلاح، اس کی حفاظت اور (اضافے کی خاطر) اس کی تجارت ہے اگر ان کا مال دوسرے مال میں اس طرح ملا لیا جائے کہ یتیم کے مال کو نقصان نہ پہنچے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اور بھائی کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل جل کر رہتا ہے۔ اس بارے میں اصل معاملہ نیت اور عمل کا ہے۔ جس کی نیت کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ یتیم کے لئے مصلح کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے یتیم کے مال کا کوئی لالچ نہیں، تو اگر بغیر کسی قصد کے اس کے پاس کوئی چیز آبھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس کی نیت، اللہ کے علم میں، یتیم کے مال کو اپنے مال میں ملانے سے اس کو ہڑپ کرنا ہو تو اس میں یقیناً حرج اور گناہ ہے اور قاعدہ ہے (اَلْوَسَائِلُ لَهَا اَحْكَامُ المَقَاصِدِ) ” وسائل کے وہی احکام ہیں جو مقاصد کے ہیں۔ “ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ماکولات و مشروبات اور عقود وغیرہ میں مخالطت (مل جل کر کرنا) جائز ہے اور یہ رخصت اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور ان کے لئے وسعت ہے۔ ورنہ ﴿ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ۭ﴾” اگر اللہ چاہتا تو تمہیں دشواری میں مبتلا کردیتا۔“ یعنی اس بارے میں عدم رخصت تم پر بہت شاق گزرتی اور تم حرج، مشقت اور گناہ میں مبتلا ہوجاتے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ ”بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ قوت کاملہ کا مالک ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے۔ لیکن بایں ہمہ وہ حکمت والا ہے، وہ صرف وہی فعل سر انجام دیتا ہے جس کا تقاضا اس کی حکمت کاملہ اور عنایت تامہ کرتی ہے۔ پس اس کی عزت و غلبہ اس کی حکمت کے منافی نہیں ہے لہٰذا تبارک و تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہاجا سکتا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے خواہ اس کی حکمت کے مطابق ہو یا مخالف ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں کہا جائے کہ اس کے افعال اور احکام اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو عبث پیدا نہیں کرتا بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے خواہ اس حکمت تک ہماری رسائی ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے کوئی ایسا شرعی حکم مشروع نہیں کیا جو حکمت سے خالی ہو، اس لئے وہ صرف اس بات کا حکم دیتا ہے جس میں ضرور کوئی فائدہ ہو یا فائدہ غالب ہو اور اسی طرح منع بھی صرف اسی بات سے کرتا ہے جس میں یقینی نقصان کا غالب امکان ہو اور ایسا اس لئے ہے کہ اس کا ہر کام حکمت اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
duniya kay baaray mein bhi aur aakhirat kay baaray mein bhi . aur log aap say yateemon kay baaray mein poochtay hain . aap keh dijiye kay unn ki bhalai chahana naik kaam hai , aur agar tum unn kay sath mil jul ker raho to ( kuch harj nahi kiyonkay ) woh tumharay bhai hi to hain . aur Allah khoob janta hai kay kon moamlaat bigaarney wala hai . aur kon sanwarney wala . aur agar Allah chahta to tumhen mushkil mein daal deta . yaqeenan Allah ka iqtidar bhi kamil hai , hikmat bhi kamil .