النساء آية ۱۶۳
اِنَّاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ كَمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّالنَّبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ۚ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھی،
English Sahih:
Indeed, We have revealed to you, [O Muhammad], as We revealed to Noah and the prophets after him. And We revealed to Abraham, Ishmael, Isaac, Jacob, the Descendants, Jesus, Job, Jonah, Aaron, and Solomon, and to David We gave the book [of Psalms].
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤدؑ کو زبور دی
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اے محبوب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے دحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی
3 Ahmed Ali
ہم نے تیری طرف وحی بھیجی جیسی نوح پر وحی بھیجی اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد آئے اور ابراھیمؑ اور اسماعیلؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور اس کی اولاد اور عیسیٰؑ اور ایوبؑ اوریونسؑ اور ھارونؑ اور سلیمانؑ پر وحی بھیجی اور ہم نے داؤدؑ کو زبور دی
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
١٦٣۔١ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بغیر کسی انسان پر اللہ تعالٰی نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی و رسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ کا اثبات کیا گیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوﻻد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے۔ جس طرح (جناب) نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اولادِ یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی تھی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح علیھ السّلاماور ان کے بعد کے انبیائ کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم علیھ السّلام,اسماعیل علیھ السّلام,اسحاق علیھ السّلام,یعقوب علیھ السّلام,اسباط علیھ السّلام,عیسٰی علیھ السّلام ,ایوب علیھ السّلام, یونس علیھ السّلام,ہارون علیھ السّلام اور سلیمان علیھ السّلام کی طرف وحی کی ہے اور داؤد علیھ السّلام کو زبور عطا کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کیطرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو بھی وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی۔
آیت نمبر ١٦٣ تا ١٧١
ترجمہ : اے (محمد) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح علیہ الصلوٰة والسلام اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف بھیجی ان کے دونوں بیٹوں اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام اور اسحٰق علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف (بھی) وحی بھیجی اور یعقوب علیہ الصلوٰة والسلام بن اسحاق اور اولاد یعقوب علیہ الصلوٰة والسلام اور عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اور ایوب علیہ الصلوٰة والسلام اور یونس علیہ الصلوٰة والسلام اور سلیمان علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف وحی بھیجی اور سلیمان علیہ الصلوٰة والسلام کے دالد داؤد علیہ الصلوٰة والسلام کو زبور عطا کی (زَبور فتحہ کے ساتھ) عطا کی ہوئی کتاب کا نام ہے۔ اور (زُبور) ضمہ کے ساتھ مصدر ہے مکتوب کے معنی میں، یعنی مزبور بمعنی مکتوب ہے، اور ہم نے ان رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی ہے جن کا ذکر ہم تم سے کرچکے ہیں اور ان کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا، روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار بنی مبعوث فرمائے، چار ہزار انبیاء بنی اسرائیل میں سے اور (بقیہ) چار ہزار دیگر اقوام میں سے، شیخ (جلال الدین محلّی) نے سورة غافر میں یہی تعداد بیان کی ہے اور اللہ نے موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام سے ایک خاص طریقہ سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور تمام رسولوں کو، رُسُلاً ، ماقبل کے رُسُلاً سے بدل ہے، ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنانے والا کفر کرنے والوں کو عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا، رسولوں کو ہم نے مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو ان کی طرف رسول بھیجنے کے بعد خدا کے روبرو عذر بیان کرنے کی گنجائش باقی نہ رہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس رسول کیوں نہیں بھیجا ؟ تاکہ ہم بھی تیری آیات کی اتباع کرتے اور ہم مومنین میں سے ہوتے، تو ہم نے ان کے عذر کو ختم کرنے کے لئے ان کی طرف رسولوں کو مبعوث کیا، اور اللہ تعالیٰ اپنے ملک میں غالب اپنی صنعت میں با حکمت ہے، اور آپ کی نبوت کے بارے میں یہود سے سوال کیا گیا اور یہود نے آپ کی نبوت کا انکار کردیا تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، (اگر یہ لوگ شہادت نہیں دیتے نہ دیں) اللہ تو اس معجز قرآن کے ذریعہ آپ کی نبوت کی شہادت دیتا ہے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور نازل بھی اپنے کمال علمی کے ذریعہ کیا ہے یعنی جو کچھ نازل کیا ہے اس کا جاننے والا ہے، یا اس میں اس کا علم (یعنی معلومات) ہیں اور فرشتہ بھی آپ کی نبوت کی شہادت دیتے ہیں اور اس نبوت پر اللہ کی شہادت کافی ہے جو لوگ اللہ کے منکر ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ ( یعنی) دین اسلام سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو چھپا کر روکا اور وہ یہود ہیں تو ایسے لوگ یقینا حق سے گمراہی میں بہت دور نکل گئے بلا شبہ اللہ کے جو لوگ منکر ہوئے اور اس کے نبی پر اس کی صفات چھپا کر ظلم کیا اللہ ان کو کبھی معاف نہ کرے گا اور نہ ان کو جہنم کی راہ کے سوا کوئی راہ دکھائیگا، یعنی وہ راہ جو جہنم تک پہنچانے والی ہو، اس طریقہ پر ان کے لئے اس میں دائمی دخول مقدر ہوچکا ہے جب اس میں داخل ہوجائیں گے، اور اللہ کے لئے یہ آسان ہے اے مکہ کے لوگو ! ، یہ رسول محمد تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آیا ہے اس پر ایمان لے آؤ اور اپنے لئے خیر کا ارادہ کرو اس سے جس میں تم ( فی الحال) ہو اور اس کا کفر کرتے رہے تو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ ملک اور تخلیق اور مملوک ہونے کے اعتبار سے اسی کا ہے، لہٰذا تمہارا کفر اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا، اور اللہ تعالیٰ علیم بھی ہے اور ان کی تدبیر کے بارے میں حکیم بھی، اے اہل کتاب (یعنی) انجیل کے ماننے والو اپنے دین کے بارے میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو جو کہ وہ شریک اور ولد سے اس کی پاکی ہے مسیح عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول اور اس کا فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح یعنی ذی روح تھا، اور روح کی نسبت اللہ کی طرف تشریفاً ہے، اور ایسا نہیں ہے جیسے کہ تم نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ ابن اللہ یا اس کے ساتھ الہٰ ہے یا تین میں کا تیسرا ہے، اس لئے کہ ذی روح مرکب ہوتا ہے اور اِلہٰ ترکیب سے اور اس کی طرف مرکب کی نسبت کرنے سے پاک ہے، پس تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں (یعنی) اللہ اور عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اور ان کی والدہ، اس تثلیث سے باز آجاؤ اور اپنے لئے اس سے بہتر کو اختیار کرو اور وہ توحید ہے، معبود تو بس ایک ہی خدا ہے وہ اس سے بالاتر ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اسی کی ہیں، مخلوق ہونے کے اعتبار سے اور ملک کے اعتبار سے، اور ملکیت بنوة کے منافی ہے اور وہی اس کی نگرانی کے اعتبار سے کافی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کما اَوْحَیْنَا اِلیٰ نوحٍ ، کاف مصدر محذوف کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے \&\& اِیْحائً مثلَ اِیْحَائنا \&\& اور \& ما \& میں دو احتمال ہیں اگر مصدر یہ ہو تو عائد کی ضرورت نہ ہوگی اور اگر الذی کے معنی میں ہو تو عائد محذوف ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی \&\& کالذی اَوْحَیْنَاہ الی نوح \&\& .
قولہ : کما اَوْ حَیْنا اِلیٰ اِبْرَھِیْمَ ، مفسرّ علاّم نے، کما، محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اَوْ حَیْنَا الیٰ ابراھیم، کا عطف اَوْحَیْنَا الی نوح پر ہے نہ کہ نوحٍ پر ورنہ تو تکرار لازم آئے گی۔
قولہ : زَبور بالفَتْحِ اِسْمُ الْکِتَابِ ، فتحہ کے ساتھ فعول بمعنی مفعول ہے جیسا کہ رکوب بمعنی مرکوب اور یہ زَبَرَہ بمعنی کتبَہَ سے ماخوذ ہے، زبور داؤد علیہ الصلوٰة والسلام پر نازل کردہ کتاب کا نام ہے اس میں ایک سو پچاس سورتیں تھیں، اور ضمہ کے ساتھ مصدر ہے بمعنی مزبور .
قولہ : واَرْسَلْنَا، اس میں اشارہ ہے کہ رُسُلا کا ناصب اَرْسَلنا فعل محذوف ہے۔
قولہ : بِلاَ وَاسِطَةٍ ، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ اللہ کا کلام کرنا تو ہر بنی سے ثابت ہے پھر موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی کیا تحصیص ہے ؟ جواب یہ ہے کہ دیگر انبیاء سے کلام بالواسطہ ہوا ہے اور موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام سے بلا واسطہ۔
قولہ : مُقَدِّرِیْنَ الْخُلُوْدَ ، اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب ہے کہ زمانہ ہدایت اور زمانہ خلود ایک نہیں ہے حالانکہ حال و ذوالحال کے زمانہ کا ایک ہونا ضروری ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ راہ جہنم کی طرف رہنمائی اس حالت میں ہوگی کہ ان کے لئے خلود فی النار مقدر ہوچکا ہے۔
قولہ : بہٰ ، مفسرّ علاّم نے، بہٰ ، مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ آمَنُوا کا متعلق بہٰ ، محذوف ہے نہ کہ خیرًا اس لئے کہ پورے قرآن میں آمنوا کا متعلق باء ہی استعمال ہوا ہے۔
قولہ : فَآمِنُوْا خَیْرًا لکم، خیرًا کے ناصب کے بارے میں علماء نحو کا اختلاف ہے، سیبویہ اور خلیل کا کہنا ہے فعل ناصب اقصدویا اتوا ہے، اور فراء کا کہنا ہے کہ خیرًا مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای آمنو ایکن الا یمان خیرًا لکم، مذکورہ تینوں صورتوں میں ثالث سب سے زیادہ راجح ہے پھر اُوّل اور پھر ثانی کا درجہ ہے۔
قولہ : مِمّا اَنْتُمْ ، اس میں اشارہ ہے کہ مِن تفضیلیہ مع مفضل علیہ محذوف ہے لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ اسم تفضیل کا استعمال تین طریقوں میں سے ایک کے ساتھ ضروری ہے اور یہاں ایک بھی نہیں ہے۔
قولہ : فَلاَ یَضُرُّہ \& کُفْرُکُم، اس میں اشارہ ہے کہ اِنْ تکفروا، شرط کی جزا محذوف ہے اور جو مذکور ہے وہ دال علی الجزاء ہے نہ کہ جزاء اس لئے کہ اگر فَاِنَّ للہ مَا فی السمٰوات الارض، کو جزاء مانا جائے تو عدم ترتب الجزاء علی الشرط کا اعتراض لازم آئیگا۔
قولہ : الاِنْجِیْلِ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اہل کتاب کی تفسیر صرف اہل انجیل سے کیوں کی جبکہ اہل کتاب میں یہود بھی شامل ہیں ؟
جواب : آگے غلو فی الدین کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ شریک حیات اور ولد سے تنزیہ ہے جس کے مصداق صرف نصاری ہی ہیں نہ کہ یہود۔ (ترویح الا رواح)
قولہ : القَوْلَ ، القول کی تقدیر کے اضافہ میں اشارہ ہے کہ الحق موصوف محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : اَوصَلھا .
سوال : اَلْقاھَا کی تفسیر اوصَلَھا سے کس مقصد کے پیش نظر کی ہے ؟
جواب : چونکہ القٰی کا صلہ نہیں آتا اسلئے اشارہ کردیا کہ القٰی، اَؤصَلَ کے معنی کو متضمن ہے جسکی وجہ سے، اِلیٰ ، صلہ لانا صحیح ہے۔
قولہ : ای ذُوْرُوْحٍ.
سوال : روح کی تفسیر ذو روح حذف مضاف سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : تاکہ روح کا رسول اللہ پر حمل درست ہوجائے۔
قولہ : عن ذلک و آتوا، اس میں اشارہ ہے کہ انتھوا کا مفعول محذوف ہے اور خیرًا فعل مقدر آتوا کی وجہ سے منصوب ہے، لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ خیر سے منع کرنا اللہ کی شایان شان نہیں ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں یہود کے کچھ سرداروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ پر ایمان لانے کی یہ احمقانہ شرط رکھی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام پر ایک نوشتہ یکجا آسمان سے نازل ہوا تھا اسی طرح کا اگر کوئی نوشتہ آپ پر بھی نازل ہوجائے تو ہم آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں، مگر ان کا یہ سوال ضد اور عناد پر مبنی تھا نہ کہ اخلاص پر رہا یہ سوال کہ اگر ایمان کے لئے نوشتہ کی صورت میں قرآن کا نازل ہونا ضروری ہے تو موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام پر بیک وقت نوشتہ کی شکل میں توریت نازل ہوئی تھی تو تمہارے آباء و اجداد اس پر ایمان کیوں نہیں لائے تھے ؟ بلکہ انہوں نے موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام سے اس سے بھی بڑی بات یعنی عیاناً اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ بھی کیا تھا، ان کی اس گستاخی پر ان کو آسمانی بجلی نے جلا کر خاک کردیا تھا۔
ان آیات میں اسی اعتراض کا ایک دوسرے طریقہ سے جواب دیا جارہا ہے کہ تم جو رسول اللہ پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط لگاتے ہو کہ آپ آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب لاکر دکھا دیں تو تم خود ہی بتلاؤ کہ یہ جلیل القدر انبیاء جن کا ذکر ان آیات میں ہے اور ان کا نبی ہونا تم بھی تسلیم کرتے ہو حالانکہ تم ان کے حق میں اس قسم کے مطالبات نہیں کرتے، تو جس دلیل سے تم ان حضرات کو نبی تسلیم کرتے ہو یعنی معجزات کی وجہ سے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی معجزات ہیں لہٰذا ان پر بھی ایمان لے آؤ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا مطالبہ طلب حق کیلئے نہیں بلکہ ضد وعناد پر مبنی ہے۔
شان نزول : حضرت ابن عباس (رض) سے بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد کسی انسان پر اللہ نے کچھ نازل نہیں کیا اس طرح انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے بھی انکار کردیا جس پر آیت اِنّا اَوْ حَیْنَا اِلیک الخ نازل ہوئی۔
قرآن میں مذکورہ تمام انبیاء ورسل کے نام : جن انبیاء اور رسولوں کے اسماء گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تعداد چوبیس (٢٤) یا پچیس ہے۔
(١) آدم (علیہ السلام) (٢) ادریس (علیہ السلام) (٣) نوح (علیہ السلام)
(٤) ہود (علیہ السلام) (٥) صالح (علیہ السلام) (٦) ابراہیم (علیہ السلام)
(٧) لوط (علیہ السلام) (٨) اسماعیل (علیہ السلام) (٩) اسحٰق (علیہ السلام)
(١٠) یعقوب (علیہ السلام) (١١) یوسف (علیہ السلام) (١٢) ایوب (علیہ السلام)
(١٣) شعیب (علیہ السلام) (١٤) موسیٰ (علیہ السلام) (١٥) ہارون (علیہ السلام)
(١٦) یونس (علیہ السلام) (١٧) داؤد (علیہ السلام) (١٨) سلیمان (علیہ السلام)
(١٩) الیاس (علیہ السلام) (٢٠) مسیح (علیہ السلام) (٢١) زکریا (علیہ السلام)
(٢٢) یحییٰ (علیہ السلام) (٢٣) عیسیٰ (علیہ السلام) (٢٤) ذوالکفل (علیہ السلام)
(اکثر مفسرین کے نزدیک) (٢٥) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
تمام انبیاء ورسل کی مجموعی تعداد : جن انبیاء کے نام اور واقعات قرآن مجید میں بیان نہیں کئے گئے ان کی صحیح تعداد کتنی ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ایک حدیث میں جو کہ بہت مشہور ہے، ایک لاکھ چابیس ہزار (١٢٤٠٠٠) کا ذکر ہے اور ایک دوسری حدیث میں آٹھ ہزار (٨٠٠٠) تعداد بتلائی گئی ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں، قرآن و حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار و حالات میں انبیاء آتے رہے ہیں بالآخر یہ سلسلہ خاتم النبین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جتنے بھی مدعی نبوت گذرے ہیں یا آئندہ آئیں گے سب دجال اور کذاب ہیں، اور ان کی جھوٹی نبوت کی تصدیق کرنے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح عظیم شریعت اور سچی خبریں وحی کی ہیں جس طرح اس نے ان انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام پر وحی کی تھیں۔ اس میں متعدد فوائد ہیں :
(١) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بے شمار رسول بھیجے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو انوکھا اور نادر سمجھنا جہالت اور عناد کے سوا کچھ نہیں۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اصول اور عدل کے ضابطے وحی کئے ہیں جس طرح انبیائے سابقین کی طرف وحی فرمائے تھے جن پر عمل کر کے وہ تقویٰ اختیار کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور ایک دوسرے کی موافقت کرتے تھے۔
(٣) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انہی انبیاء و رسل کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا آپ کو دیگر انبیاء و رسل کے زمرے میں رکھ کر آپ کا اعتبار کرنا چاہئے۔ آپ کی دعوت وہی ہے جو ان رسولوں کی دعوت تھی، آپ کے اخلاق ان کے اخلاق سے متفق، آپ کی اور ان کی تعلیمات کا مصدر ایک اور آپ کے اور ان سب کے مقاصد یکساں ہیں۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجہول اور کذاب لوگوں اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔
(٤) (قرآن مجید میں) ان انبیاء و رسل کے تذکرے اور ان کی تعداد بیان کرنے میں ان کی مدح و ثناء اور تعریف و تعظیم ہے اور ان کے احوال کی اس طرح تشریح ہے جس سے ان کے بارے میں مومن کے ایمان اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے طریقے اور سنت کو اپنانے کا جذبہ بڑھتا ہے اور ا ن کے حقوق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا مصداق ہے۔ ﴿سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ﴾ (الصافات :37؍79)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ﴾(الصافات :37؍109 ﴿ سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ ﴾ (الصافات :38؍120)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ ﴾ (الصافات :37؍130) ﴿ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ (الصافات :37؍131) پس بھلائی اور احسان کرنے والے ہر شخص کو اس کے احسان کے مطابق مخلوق کے اندر ثنائے حسن نصیب ہوتی ہے۔ تمام انبیاء و رسل خصوصاً وہ انبیائے کرام جن کے اسمائے گرامی گزشتہ سطور میں ذکر کئے گئے ہیں احسان کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔
جہاں اللہ تعالیٰ نے وحی میں ان کے اشتراک کا ذکر فرمایا، وہاں اس نے بعض انبیاء کے اختصاص کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے جناب داؤد کو زبور عطا کی اور یہ وہ معروف اور لکھی ہوئی کتاب ہے جو داؤد علیہ الصلوۃ و السلام کے فضل و شرف کی بنا پر ان کے لئے مخصوص کی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام فرمایا۔ یعنی بغیر کسی واسطہ کے بالمشافہ کلام فرمایا۔ حتیٰ کہ یہ بات تمام دنیا میں مشہور ہوگئی اور جناب موسیٰ علیہ السلام کو ” کلیم الرحمٰن“ کہا جانے لگا۔
نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان انبیاء و رسل میں سے بعض کا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیان فرمایا اور بعض انبیاء کا قصہ بیان نہیں فرمایا اور یہ امر انبیائے کرام کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور آخری سعادت کی خوشخبری سنانے والے بنا کر مبعوث فرمایا جو ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے دونوں جہانوں کی بدبختی سے ڈرانے والے بنا کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ان رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ تاکہ انبیاء و رسل مبعوث کرنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہیں کہ ﴿مَا جَاءنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ﴾(المائدہ :5؍19) ” ہمارے پاس کوئی خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ پس تحقیق تمہارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ “
اللہ تبارک و تعالیٰ کے مسلسل رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہی۔ یہ رسول لوگوں کے سامنے ان کا دین بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی کے اسباب اور جنت و جہنم کے راستے واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تب جو کوئی ان انبیاء و رسل کا انکار کرتا ہے، تو وہ اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کے کامل غلبہ اور کامل حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے لوگوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان بھی ہے، کیونکہ لوگ انبیاء و رسل کی بعثت کے سخت ضرورت مند تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اضطرار کا ازالہ فرمایا۔ پس وہی حمد و ثناء اور شکر کا مستحق ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جس طرح اپنے رسول بھیج کر ہم پر اپنی نعمت کی ابتدا کی، اسی طرح وہ ہمیں ان کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے نواز کر اس نعمت کا اتمام کرے، بے شک وہ جواد اور کریم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) hum ney tumharay paas ussi tarah wahi bheji hai jaisay nooh aur unn kay baad doosray nabiyon kay paas bheji thi , aur hum ney Ibrahim , Ismail , Ishaq , Yaqoob aur unn ki aulad kay paas , aur essa , Ayub , Younus , Haroon aur suleman kay paas bhi wahi bheji thi , aur hum ney dawood ko zaboor ata ki thi .
12 Tafsir Ibn Kathir
نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سکین اور عدی بن زید نے کہا " اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نہیں مانتے کہ حضرت موسیٰ کے بعد اللہ نے کسی انسان پر کچھ اتارا ہو۔ " اس پر یہ آیتیں اتریں، محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں جب آیت (يَسْــَٔــلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ ۚ وَاٰتَيْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِيْنًا\015\03 وَرَفَعْنَا فَوْقَھُمُ الطُّوْرَ بِمِيْثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوْا فِي السَّبْتِ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا\015\04 فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَقَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ۭ بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا\015\05۠ وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًا\015\06ۙ ) 4 ۔ النسآء :153 سے 156) تک اتری اور یہودیوں کے برے اعمال کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے صاف کردیا کہ کسی انسان پر اللہ نے اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں فرمایا، نہ موسیٰ پر، نہ عیسیٰ پر، نہ کسی اور نبی پر، آپ اس وقت گوٹ لگائے بیٹھے تھے، اسے آپ نے کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ پس اللہ تعالیٰ نے آیت (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ) 6 ۔ الانعام :91) نازل فرمائی، لیکن یہ قول غور طلب ہے اس لئے کہ یہ آیت سورة انعام میں ہے جو مکیہ ہے اور سورة نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے جو ان کی تردید میں ہے، جب انہوں نے کہا تھا کہ آسمان سے کوئی کتاب آپ اتار لائیں، جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا۔ پھر ان کے عیوب بیان فرمائے ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کردیں پھر فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی۔ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اتری تھی، ان انبیاء (علیہم السلام) کے قصے سورة قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ہے تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر ہوچکا ہے اور بہت سے انبیاء کا ذکر نہیں بھی ہوا۔ جن انبیاء کرام کے نام قرآن کے الفاظ میں آگئے ہیں وہ یہ ہیں، آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، یوشع، زکریا، عیسیٰ ، یحییٰ ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس) اور ان سب کے سردار محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بہت سے ایسے رسول بھی ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں کیا گیا، اسی وجہ سے انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے، اس بارے میں مشہور حدیث حضرت ابوذر (رض) کی ہے جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے کہ آپ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ، بہت بڑی جماعت۔ میں نے پھر دریافت کیا، " سب سے پہلے کون سے ہیں ؟ " فرمایا " آدم " میں نے کہا " کیا وہ بھی رسول تھے ؟ " فرمایا " ہاں اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا " پھر فرمایا اے ابوذر چار سریانی ہیں، آدم، شیت، نوح، خضوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے، انہی نے پہلے قلم سے خط لکھا، چار عربی ہیں، ہود، صالح، شعیب اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اے ابوذر بنو اسرائیل کے پہلے نبی حضرت موسیٰ ہیں اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں۔ تمام نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری نبی تمہارے نبی ہیں۔ " اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے۔ حافظ ابو حاتم نے اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے جس پر صحت کا نشان دیا ہے، لیکن ان کے برخلاف امام ابو الفرج بن جوزی رحمتہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے بہت سے لوگوں نے ان پر اس حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے واللہ اعلم، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے حضرت ابو امامہ سے بھی مروی ہے، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں، ایک اور حدیث ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ ہزار نبی بھیجے ہیں، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف، یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس میں زیدی اور ان کے استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں، واللہ اعلم، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے بھائی گذر چکے ہیں ان کے بعد حضرت عیسیٰ آئے اور ان کے بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے میں آٹھ ہزار نبیوں کے بعد آیا ہوں جن میں سے چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے تھے۔ یہ حدیث اس سند سے غریب تو ضرور ہے لیکن اس کے تمام راوی معروف ہیں اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں بجز احمد بن طارق کے کہ ان کے بارے میں مجھے کوئی علالت یا جرح نہیں ملی، واللہ اعلم۔ ابوذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے بارے میں ہے، اسے بھی سن لیجئے، آپ فرماتے ہیں میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنہا تشریف فرماتے، میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے نماز کا حکم دیا ہے آپ نے فرمایا " ہاں وہ بہتر چیز ہے، چاہے کوئی زیادتی کرے چاہے کمی " میں نے کہا " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سے اعمال افضل ہیں ؟ " فرمایا " اللہ پر ایمان لانا، اس کی راہ میں جہاد کرنا " میں نے کہا " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کونسا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ " فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں " میں نے پوچھا " کونسی ہجرت افضل ہے ؟ " فرمایا " برائیوں کو چھوڑ دینا " میں نے پوچھا کونسی نماز افضل ہے ؟ فرمایا " لمبے قنوت والی " میں نے کہا کونسا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا " فرض کفایت کرنے والا ہے اور اللہ کے پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے " میں نے پوچھا کونسا جہاد افضل ہے ؟ " فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے۔ " میں نے کہا غلام کو آزاد کرنے کے عمل میں افضل کیا ہے ؟ " فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو۔ " میں نے پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے ؟ فرمایا " کم مال والے کا کوشش کرنا اور چپکے سے محتاج کو دے دینا۔ " میں نے کہا قرآن میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا " آیت الکرسی " پھر آپ نے فرمایا " اے ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے مقابلے میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر، بھی ایسی ہے جیسے وسیع میدان کی حلقے پر " میں نے عرض کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انبیاء کتنے ہیں ؟ فرمایا " ایک لاکھ چوبیس ہزار " میں نے کہا ان میں سے رسول کتنے ہیں ؟ فرمایا " تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت " میں نے پوچھا سب سے پہلے کون ہیں ؟ فرمایا " آدم " میں نے کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا " ہاں انہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں صحیح تر بنایا۔ " پھر آپ نے فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں، آدم، شیث، خنوخ اور یہی ادریس ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے قلم سے لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں ہود، شعیب، صالح اور تمہارے نبی، سب سے پہلے رسول حضرت آدم ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار، حضرت شیث (علیہ السلام) پر پچاس صحیفے، حضرت خنوخ (علیہ السلام) پر تیس صحیفے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر دس صحیفے اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے پہلے دس صحیفے اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان، میں نے کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے مسلط بادشاہ کو اس کے اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا احساس دلانا تھا۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے ہیں۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو !" دنیا کا مال جمع کرنے سے روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے وقت کے ایک حصہ میں وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، دوسرے حصہ میں اپنے خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو۔ عقل مند کو تین چیزوں کے سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے، ایک تو آخرت کے زاد راہ کی فکر، دوسرے سامان زیست اور تیسرے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے سرور و لذت، عقل مند کو اپنے وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے، وہ بہت کم گو ہوگا، بات وہی کہو جو تمہیں نفع دے، میں نے پوچھا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں کیا تھا ؟ فرمایا وہ عبرت دلانے والی تحریروں کا مجموعہ تھے، مجھے تعجب ہے اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے پھر بھی غافل ہے، تقدیر کا یقین رکھتا ہے پھر بھی مال دولت کے لئے پاگل ہو رہا ہے، ہائے وائے میں پڑا ہوا ہے، دنیا کی بےثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے، قیامت کے دن حساب کو جانتا ہے پھر بےعمل ہے، میں نے عرض کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگلے انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پڑھو آیت (قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى) 87 ۔ الاعلی :14) آخر سورت تک، میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے وصیت کیجئے۔ آپ نے فرمایا میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے اعمال کی روح ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اور بھی، آپ نے فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے لئے آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے حصول کا سبب ہوگا، میں نے پھر کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا پھر کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کردیتی ہے، میں نے کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے، میں نے کہا اور وصیت کیجئے فرمایا بھلی بات کہنے کے سوا زبان بند رکھو، اس سے شیطان بھاگ جائے گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہوگی۔ میں نے کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے فرمایا اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے سے اعلیٰ درجہ کے لوگوں پر نظریں نہ ڈالو، اس سے تمہارے دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہوگی، میں نے کہا مجھے اور زیادہ نصیحت کیجئے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کے ساتھ بیٹھو، اس سے اللہ کی رحمتیں تمہیں گراں قدر معلوم ہوں گی، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا " قرابت داروں سے ملتے رہو، چاہے وہ تجھ سے نہ ملیں " میں نے کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے وہ کسی کو کڑوی لگے، میں نے اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کر، میں نے کہا اور فرمایئے فرمایا اپنے عیبوں پر نظر رکھا کر، دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہو، پھر میرے سینے پر آپ نے اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے ابوذر تدبیر کے مانند کوئی عقل مندی نہیں اور حرام سے رک جانے سے بڑھ کر کوئی پرہیزگاری نہیں اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی حسب نسب نہیں۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے ہیں کیا خارجی بھی دجال کے قائل ہیں، لوگوں نے کہا نہیں فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے لیکن مجھ سے اللہ نے اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے جو کسی اور کو نہیں فرمائی " سنو وہ بھینگا ہوگا اور رب ایسا ہو نہیں سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہوگی، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے چونے کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے ستارے جیسی ہے، وہ تمام زبانیں بولے گا، اس کے ساتھ سرسبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے گا " ایک حدیث میں ہے ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں بلکہ زیادہ کا۔ پھر فرمایا ہے موسیٰ سے خود اللہ نے صاف طور پر کلام کیا۔ یہ ان کی خاص صفت ہے کہ وہ کلیم اللہ تھے، ایک شخص حضرت ابوبکر بن عیاش (رح) کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے آیت (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) 4 ۔ النسآء :164) یعنی موسیٰ نے اللہ سے بات کی ہے، اس پر آپ بہت بگڑے اور فرمایا یہ کسی کافر نے پڑھا ہوگا۔ میں نے اعمش سے اعمش نے یحییٰ نے عبدالرحمٰن سے، عبدالرحمٰن سے علی سے، علی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پڑھا ہے کہ آیت (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) 4 ۔ النسآء :164) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے مگر عجب نہیں کہ یہ کوئی معتزلی ہو، اس لئے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ کسی اور سے۔ کسی معتزلی نے ایک بزرگ کے سامنے اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے اسے ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بددیانتی کیسے کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے آیت (وَلَمَّا جَاۗءَ مُوْسٰي لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ) 7 ۔ الاعراف :143) یعنی موسیٰ ہمارے وعدے پر آیا اور ان سے ان کے رب نے کلام کیا، مطلب یہ ہے کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں چلے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے تھے۔ " یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد صحیح نہیں اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہوجائے تو بہت ٹھیک ہے۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے۔ کہ کلیم اللہ سے جب اللہ نے کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے کی کھال کی جوتیاں پہنے ہوئے تھے، ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے سنی نہیں جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں جو کلام اللہ تعالیٰ نے طور والے دن حضرت موسیٰ سے کیا تھا یہ تو میرے اندازے کے مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے الگ تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے دس ہزار زبانوں کی قوت سے کلام کیا ہے حالانکہ مجھے تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے بلکہ ان سب سے بھی بہت زیادہ۔ بنو اسرائیل نے آپ سے جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے فرمایا " میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا " انہوں نے کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو، آپ نے فرمایا تم نے کڑاکے کی آواز سنی ہوگی، وہ اس کے مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی، اس کے ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں اور بہت ہی ضعیف ہیں۔ حضرت کعب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا۔ حضرت کلیم اللہ نے پوچھا " باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں اور نہ تو میرے کلام کی استقامت کرسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے دریافت کیا کہ اسے رب تیری مخلوق میں سے کسی کا کلام تیرے کلام سے مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں سوائے سخت تر کڑاکے کے، یہ روایت بھی موقوف ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے روایت کیا کرتے تھے جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں۔ یہ رسول ہی ہیں جو اللہ کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضامندی کے متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور اس کے اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کو عذاب اور سزا سے ڈراتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں اور اپنے رسول بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ اپنے اوامرو نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَلَوْ اَنَّآ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى) 20 ۔ طہ :134) یعنی اگر ہم انہیں اس سے پہلے ہی اپنے عذاب سے ہلاک کردیتے تو وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجے جو ہم ان کی باتیں مانتے اور اس ذلت و رسوائی سے بچ جاتے، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے آیت (وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 28 ۔ القصص :47) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام برائیوں کو حرام کیا ہے خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں جسے بہ نسبت اللہ کے مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے کہ اس نے خود اپنی مدح آپ کی ہے اور کوئی ایسا نہیں جسے اللہ سے زیادہ ڈر پسند ہو، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اسی وجہ سے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں۔