پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں،
English Sahih:
But no, by your Lord, they will not [truly] believe until they make you, [O Muhammad], judge concerning that over which they dispute among themselves and then find within themselves no discomfort from what you have judged and submit in [full, willing] submission.
1 Abul A'ala Maududi
نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں
2 Ahmed Raza Khan
تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائئیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں
3 Ahmed Ali
سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں
4 Ahsanul Bayan
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔
٦٥۔١ اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت منکریں حدیث کے لئے لمحہ فکریہ ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں
7 Muhammad Hussain Najafi
نہیں۔ آپ کے پروردگار کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے۔ جب تک اپنے تمام باہمی جھگڑوں میں آپ کو حَکَم نہ مانیں۔ اور پھر آپ جو فیصلہ کریں (زبان سے اعتراض کرنا تو کجا) اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں اور اس طرح تسلیم کریں جس طرح تسلیم کرنے کا حق ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحبِ ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حکُم نہ بنائیں اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں
9 Tafsir Jalalayn
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں اس کے رسول کو حکم تسلیم نہ کریں۔ یعنی ہر اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اور فیصل تسلیم کریں جس میں اجماعی مسائل کے برعکس ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف واقع ہو۔ کیونکہ اجماعی مسائل کتاب و سنت کی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر اس تحکیم کو تسلیم کرنا ہی کافی قرار نہیں دیا بلکہ یہ شرط بھی عائد کی کہ آپ کو حکم تسلیم کرنا محض اغماض کے پہلو سے نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور حرج نہ ہو اور اس تحکیم کو ہی کافی قرار نہیں دیا جب تک کہ وہ شرح صدر، اطمینان نفس، ظاہری اور باطنی اطاعت کے ساتھ آپ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرلیں۔ پس آپ کو حکم تسلیم کرنا اسلام کے مقام میں ہے۔ اس تحکیم میں تنگی محسوس نہ کرنا، ایمان کے مقام میں ہے اور آپ کے فیصلے پر تسلیم و رضا احسان کے مقام میں ہے۔ جس کسی نے ان مراتب کو مکمل کرلیا اس نے دین کے تمام مراتب کی تکمیل کرلی اور جس نے اس کا التزام کئے بغیر اس تحکیم کو ترک کردیا وہ کافر ہے اور جس نے التزام کرنے کے باوجود اس تحکیم کو ترک کردیا وہ دیگر گناہگاروں کی مانند ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
nahi , ( aey payghumber ! ) tumharay perwerdigar ki qasam ! yeh log uss waqt tak momin nahi hosaktay jab tak yeh apney bahami jhagrron mein tumhen faisal naa banayen , phir tum jo kuch faisla kero uss kay baaray mein apney dilon mein koi tangi mehsoos naa keren , aur uss kay aagay mukammal tor per sar-e-tasleem kham kerden .