الزخرف آية ۳۶
وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ
طاہر القادری:
اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرف نظر کر لے تو ہم اُس کے لئے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے،
English Sahih:
And whoever is blinded from remembrance of the Most Merciful – We appoint for him a devil, and he is to him a companion.
1 Abul A'ala Maududi
جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اُس کا رفیق بن جاتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جسے رند تو آئے (شب کوری ہو) رحمن کے ذکر سے ہم اس پر ایک شیطان تعینات کریں کہ وہ اس کا ساتھی رہے،
3 Ahmed Ali
اورجو الله کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کر تے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے (١) ہم اس پر شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے (٢)۔
٣٦۔١ عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہو جائے۔
٣٦۔٢ وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جوشخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے تو ہم اس کیلئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی ہوتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
آیت نمبر ٣٦ تا ٤٥
ترجمہ : اور جو شخص رحمٰن کے ذکر یعنی قرآن سے اعراج کرے تو ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں سو وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے کہ اس سے جدا نہیں ہوتا اور بلاشبہ وہ شیاطین ان اعراض کرنے والوں کو ہدایت کے راستہ سے روکتے ہیں اور یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں جمع لانے میں مَنْ کے معنی کی رعایت ہے یہاں تک کہ جب وہ اعراض کرنے والا اپنے ساتھی کے ساتھ قیامت کے روز ہمارے پاس آئے گا تو اپنے ساتھی سے کہے گا، کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کی دوری ہوتی یعنی جس قدر مشرق ومغرب کے درمیان دوری ہے یا تنبیہ کے لئے ہے تو میرا بڑا برا ساتھ ہے، (اے) اعراض کرنے والو ! آج ہرگز تم کو تمہاری آرزو اور ندامت کچھ فائدہ نہ دے گی جبکہ تم ظالم ٹھہر چکے یعنی دنیا میں شرک کر کے تمہارا ظلم ظاہر ہوگیا اس لئے کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ عذاب میں شریک ہوؤ گے یہ تقدیر لام کے ساتھ عدم نفع کی علت ہے اور اِذ، الیوم سے بدل ہے کیا تو بےکو سنا سکتا ہے یا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے اور اس کو کہ جو کھلی گمراہی میں ہو یعنی وہ ایمان نہیں لائیں گے پس اگر ہم آپ کو یہاں (دنیا) سے وفات دے کر ان کو عذاب دینے سے پہلے لے بھی جائیں تو بھی ہم آخرت میں ان سے انتقام لینے والے ہیں یا جس عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے وہ آپ کو آپ کی زندگی میں دکھادیں، ہم اس پر بھی قادر ہیں، پس جب وحی (یعنی) قرآن کو آپ کی طرف بھیجا گیا ہے آپ اس کو مضبوطی سے تھامے رہیں، بلاشبہ آپ راہ راست پر ہیں اور یقیناً یہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے باعث شرف ہے اس کے ان کی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے، اور عنقریب تم لوگوں سے اس کا حق ادا کرنے کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کئے تھے ؟ کہا گیا ہے کہ یہ اپنے ظاہر پر ہے، بایں طور کہ تمام رسولوں کو لیلۃ الاسراء میں جمع کیا گیا، اور کہا گیا ہے کہ مراد دونوں اہل کتاب سے کوئی سی بھی امت ہے، اور دونوں قولوں میں سے کسی قول کے مطابق آپ نے سوال نہیں کیا، اس لئے کہ سوال کا حکم کرنے سے مراد مشرکین قریش سے اقرار کرانا ہے یہ کہ نہ تو اللہ کی طرف سے کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب جو غیر اللہ کی عبادت کا حکم لے کر آئی۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یَعْشُ ، عشا یعشوا کَدَ عَا یدعُوا عَشِیًّا وعَشوا سے واحد مذکر غائب، اعراض کرنا، مَنْ یَعْشُ جو اعراض کرے گا (ن) عَشْوٌ اعراض کرنا، نظریں چرانا، وبالفارسیۃ چشم پوشیدن، وغافل شدن۔
قولہ : نُقَیِّضْ جواب شرط ہے یَعْشُ فعل شرط مجزوم بحذف الواؤحذف واؤ پر ضمہ دال ہے، اور مَنْ حرف شرط ہے۔
قولہ : نُقَیِّضْ (تفعیل) مضارع جمع متکلم ہم مقدر کردیتے ہیں، ہم سبب بنا دیتے ہیں۔ (لغات القرآن)
قولہ : اِنَّھُم، ھُم ضمیر کا مرجع شیطان ہے، شیطان چونکہ جنس ہے اس لئے ضمیر کو جمع لا یا گیا ہے اور جہاں ضمیر کو مفرد لائے وہاں لفظ شیطان کی رعایت کی گئی ہے۔
قولہ : وَیَحسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُھْتَدُوْنَ جملہ حالیہ ہے معنی مَنْ کی رعایت کی وجہ سے تینوں جگہ جمع کا صیغہ لا یا گیا ہے۔ (صاوی ملخصاً )
قولہ : بِقَرِیْنِہٖ ای مع قرینہٖ ۔
قولہ : یا للتنبیہ یا تنبیہ کے لئے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ شارح نے اشارہ کیا ہے اور با ندائیہ بھی ہوسکتا ہے، مناویٰ محذوف ہوگا، ای یاقَرِین، لَیْتَ بَینِی وبَینِکَ الخ۔
قولہ : تَبَیَّنَ لکم ظلمکم اس عبارت کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : ظلم یعنی کفر وشرک دنیا میں واقع ہوا، اس لئے کہ اِذ ماضی کے لئے ظرف ہے، اور الیَوْم سے مراد قیامت کا دن ہے جو کہ اِذْ سے بدل ہے، لہٰذا ماضی حال سے کس طرح بدل واقع ہوسکتی ہے۔
جواب : تبیٗن سے مراد ظلم کا ظہور ہے اور یہ قیامت کے دن ہوگا۔
تفسیر وتشریح
مَنْ یَغْشُ ، عشَا یعْشُوا کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری یعنی رتوندا جس کو شب کو ری کہتے ہیں، یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوا، آنکھیں چرائیں، اعراض کیا، شیطان ایسے شخص کا ساتھ اور رفیق ہوجاتا ہے، جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور شیاطین ان کے حق کے راستہ میں حائل ہوجاتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں، کہ تم حق پر ہو حتی کہ وہ واقعی طور پر اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں، یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں۔ (فتح القدیر ملخصاً )
فائدہ : آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذکر اللہ سے شیطان مغلوب اور غفلت سے شیطان غالب ہوجاتا ہے، اور آخر کار جہل مرکب میں مبتلا ہو کر دائمی نقصان و حرمان کا مستحق ہوجاتا ہے، آخرت میں جب عذاب کا مشاہدہ کرے گا تو اپنی غلطی پر نادم ہو کر کہے گا، کاش میرے اور اس کے درمیان دنیا میں مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی۔ (ارشاد ہوگا) یہ شیطان براہمنشین ہے اور اے غافلو ! آج تم کو ندامت وخجالت کوئی فائدہ نہیں دے گی، اس لئے کہ تم دنیا میں ظلم کرچکے بیشک تم دونوں عذاب الٰہی میں شریک اور دوزخ میں بھی قریب رہو گے۔
در منثور میں ہے کہ جب کافر قبر سے اٹھے گا تو شیطان ہاتھ میں ہاتھ دے کر دوزخ تک ہمراہ رہے گا اور مومن کے ساتھ فرشتہ جنت تک ہمراہ رہے گا، اور فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک جن اولاد شیاطین میں سے معین ہے (جسے ہمزاد کہتے ہیں) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ فرمایا : ہاں ! مگر اللہ نے میری مدد کی جس کی وجہ سے وہ ایمان لے آیا، اب وہ مجھے سوائے خیر کے کچھ نہیں بتاتا اور فرمایا کافروں کا شیطان خوردو خواب میں شریک رہتا ہے، اور شیطان زیادہ کھانے والے اور زیادہ سونے والے کو بہت دوست رکھتا ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر)
اَفَاَتْتَ تسمِعُ (الآیۃ) یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی ہے، وہ وعظ و نصیحت کے اعتبار سے بہرا اور اندھا ہے وہ آپ کی دعوت وتبلیع سے راہ راست پر نہیں آسکتا، یہ استفہام انکاری ہے، جس طرح بہرا سننے اور اندھا دیکھنے سے محروم ہے، اسی طرح کھلی گمراہی میں مبتلا حق کی طرف آنے سے محروم ہے، درحقیقت یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے تاکہ ایسے کے کفر سے آپ زیادہ تشویش محسوس نہ کریں۔
اَوْ نُرِ یَنَّکَ الّذِی وَعَدْنٰھُمْ (الآیۃ) یعنی عذاب کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ آپ کی حیات مبارک ہی میں مکہ میں رہتے ہوئے ان پر آجائے، اور اگر ہماری مشیت متقاضی ہوئی تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال یا مکہ سے منتقل ہونے کے بعد ان پر وہ عذاب آئے ورنہ بصورت دیگر عذاب اخروی سے تو وہ بچ نہیں سکتے، مطلب یہ کہ ہمیں پوری قدرت حاصل ہے جو ہماری مصلحت کا مقتضیٰ ہوگا وہی ہوگا، چناچہ آپ کی حیات مبارک ہی میں بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔
وَاِنَّہٗ لذکرٌ لک ولقومِکَ تخصیص کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے لئے ذکر وشرف نہیں بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے، اس لئے خصوصیت سے ان کا ذکر فرمایا، ورنہ تو قرآن پورے جہان کے لئے نصیحت وشرف ہے وَمَا ھُوَ اِلاَّ ذکرٌ للعٰلمینَ ۔ ( سورة قلم)
وَاسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الخ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجئے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء سابقین تو وفات پاچکے تھے، ان سے پوچھنے کا حکم کیسے دیا جا رہا ہے، اس کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ معجزے کے طور پر انبیاء سابقین سے آپ کی ملاقات کرا دے تو اس وقت ان سے یہ بات دریافت کرلیجئے چناچہ شب معراج میں آپ کی ملاقات تمام انبیاء سے بیت المقدس میں ہوئی، قرطبی کی بعض راویات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت فرمانے کے بعد یہی بات انبیاء (علیہم السلام) سے دریافت کی مگر ان روایات کی سند معلوم نہیں ہوسکی، چناچہ اکثر مفسرین نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ خود انبیاء (علیہم السلام) سے پوچھنا مراد نہیں بلکہ ان پر نازل ہونے والے صحیفوں سے تحقیق کرنا اور ان کی امتوں کے علماء سے پوچھنا مراد ہے چناچہ انبیاء کے جو صحیفے اب موجود ہیں ان میں بہت سی تحریفات کے باوجود توحید کی تعلیم اور شرک سے بیزاری کی تعلیم آج تک شامل ہے، مثال کے طور پر موجودہ بائبل کی درج ذیل عبارتیں ملاحظہ فرمائیے۔
انبیاء کے صحیفوں میں توحید کی تعلیم : موجودہ توریت میں ہے :
“ تاکہ تو جانے کہ خداوندی ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں ”۔ (استثناء ٤: ٣٥)
“ اور سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے ”۔ (استثناء ٤: ٦)
اور حضرت اشعیاء (علیہ السلام) کے صحیفہ میں ہے :
“ میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں، میرے سوا کوئی خدا نہیں تاکہ مشرق سے مغرب تک لوگ جان لیں کہ میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ”۔ (یسعیاہ ٦، ٥: ٤٥)
اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول موجودہ انجیل میں موجود ہے :
“ اے اسرائیل، سن ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے، اور تو خدا وند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی پیاری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ ”۔ (مرقس ٢٩: ١٢ ومتی ٣٦: ٢٢)
10 Tafsir as-Saadi
جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روگردانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے سخت سزا کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ وَمَن يَعْشُ ﴾ یعنی جو منہ موڑتا ہے ﴿ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ ﴾ ” رحمان کے ذکر سے“ جو قرآن عظیم ہے جو سب سے بڑی رحمت ہے جس کے ذریعے سے اللہ رحمان نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے جو کوئی اس کو قبول کرے وہ بہترین عطیے کو قبول کرتا ہے اور وہ سب سے بڑے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور جو کوئی اس رحمت سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دے، وہ، خائب و خاسر ہوتا ہے، اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے سعادت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایک سرکش شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کے ساتھ رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا ہے، اسے امیدیں دلاتا ہے اور اسے گناہوں پر ابھارتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo shaks khudaye rehman kay ziker say andha ban jaye , hum uss per aik shetan musallat ker-detay hain jo uss ka sathi ban jata hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
شیطان سے بچو
ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بےرغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں (عشی فی العین) کہتے ہیں۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت ( وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا\011\05ۧ) 4 ۔ النسآء :115) ، یعنی جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے اور آیت میں ارشاد ہے (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ) 61 ۔ الصف :5) یعنی جب وہی ٹیڑھے ہوگئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے۔ اور آیت میں فرمایا (وقیضنا لھم قرناء) الخ، یعنی ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کرلیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے۔ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہہ دیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو قمرین یعنی دو چاند کہہ دیا جاتا ہے اور ماں باپ کو ابو ین یعنی دو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ ایک قرأت میں (جا انا) بھی ہے یعنی شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے حضرت سعید جریری فرماتے ہیں کہ کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آکر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہیں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے پھر فرماتا ہے کہ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لئے نفع دینے والا نہیں اس کے بعد اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے کہ ازلی بہروں کے کان میں آپ ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپکی ہدایت قبول نہیں کرسکتے۔ یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے ؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہوجایا کرو پھر فرماتا ہے کہ اگرچہ ہم تجھے یہاں سے لے جائیں پھر بھی ہم ان ظالموں سے بدلہ لئے بغیر تو رہیں گے نہیں اگر ہم تجھے تیری آنکھوں سے وہ دکھا دیں جس کا وعدہ ہم نے ان سے کیا ہے تو ہم اس سے عاجز نہیں۔ غرض اس طرح اور اسطرح دونوں سورتوں میں کفار پر عذاب تو آئے گا ہی۔ لیکن پھر وہ صورت پسند کی گئی جس میں پیغمبر کی عزت زیادہ تھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت نہ کیا جب تک کہ آپ کے دشمنوں کو مغلوب نہ کردیا آپ کی آنکھیں ٹھنڈی نہ کردیں آپ ان کی جانوں اور مالوں اور ملکیتوں کے مالک نہ بن گئے یہ تو ہے تفسیر حضرت سدی وغیرہ کی لیکن حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے اٹھا لئے گئے اور انتقام باقی رہ گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آپ کی زندگی میں امت میں وہ معاملات نہ دکھائے جو آپ کی ناپسندیدہ تھے بجز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور تمام انبیاء کے سامنے ان کی امتوں پر عذاب آئے ہم سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم کرا دیا گیا کہ آپ کی امت پر کیا کیا وبال آئیں گے اس وقت سے لے کر وصال کے وقت تک کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھل کھلا کر ہنستے ہوئے دیکھے نہیں گئے۔ حضرت حسن سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ایک حدیث میں ہے ستارے آسمان کے بچاؤ کا سبب ہیں جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان پر مصیبت آجائے گی میں اپنے اصحاب کا ذریعہ امن ہوں میرے جانے کے بعد میرے اصحاب پر وہ آجائے گا جس کا یہ وعدہ دئیے جاتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قرآن تجھ پر نازل کیا گیا ہے جو سراسر حق و صدق ہے جو حقانیت کی سیدھی اور صاف راہ کی راہنمائی کرتا ہے تو اسے مضبوطی کے ساتھ لئے رہ یہی جنت نعیم اور راہ مستقیم کا رہبر ہے اس پر چلنے والا اس کے احکام کو تھامنے والا بہک اور بھٹک نہیں سکتا یہ تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے ذکر ہے یعنی شرف اور بزرگی ہے۔ بخاری شریف میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ امر (یعنی خلافت و امامت) قریش میں ہی رہے گا جو ان سے جھگڑے گا اور چھینے گا اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ گرائے گا جب تک دین کو قائم رکھیں اس لئے بھی آپ کی شرافت قومی اس میں ہے کہ یہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے۔ لغت قریش میں ہی نازل ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ اسے یہی سمجھیں گے انہیں لائق ہے کہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ عمل بھی انہی کا اس پر رہے بالخصوص اس میں بڑی بھاری بزرگی ہے ان مہاجرین کرام کی جنہوں نے اول اول سبقت کر کے اسلام قبول کیا۔ اور ہجرت میں بھی سب سے پیش پیش رہے اور جو ان کے قدم بہ قدم چلے ذکر کے معنی نصیحت نہ ہونے کے معنی میں نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10ۧ) 21 ۔ الأنبیاء :10) یعنی بالیقین ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے کیا پس تم عقل نہیں رکھتے ؟ اور آیت میں ہے ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ\021\04ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) یعنی اپنے خاندانی قرابت داروں کو ہوشیار کر دے۔ غرض نصیحت قرآنی رسالت نبوی عام ہے کنبہ والوں کو قوم کو اور دنیا کے کل لوگوں کو شامل ہے پھر فرماتا ہے تم سے عنقریب سوال ہوگا کہ کہاں تک اس کلام اللہ شریف پر عمل کیا اور کہاں تک اسے مانا ؟ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اے آخرالزمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنی امت کو دے رہے ہیں کل انبیاء کے دعوت ناموں کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے توحید پھیلائی اور شرک کو ختم کیا جیسے خود قرآن میں ہے کہ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت نہ کرو حضرت عبداللہ کی قرأت میں یہ آیت اس طرح ہے (واسئل الذین ارسلنا الیھم قبلک رسلنا) پس یہ مثل تفسیر کے ہے نہ تلاوت کے واللہ اعلم۔ تو مطلب یہ ہوا کہ ان سے دریافت کرلے جن میں تجھ سے پہلے ہم اپنے اور رسولوں کو بھیج چکے ہیں عبدالرحمن فرماتے ہیں نبیوں سے پوچھ لے یعنی معراج والی رات کو جب کہ انبیاء آپ کے سامنے جمع تھے کہ ہر نبی توحید سکھانے اور شرک مٹانے کی ہی تعلیم لے کر ہماری جانب سے مبعوث ہوتا رہا۔